Saturday, September 26, 2020

ایک کپ کافی

.              👈 *اشفاق احمد کہتے ہیں* 👉

کہ ہم اٹلی کے شہر
وینس کے ایک نواحی قصبے کے مشہور کافی شاپ 
پر بیٹھے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے 
کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا
جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر بیٹھ گیا۔ 
اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دی
اور اپنا آرڈر اس طرح دیا ''
دو کپ کافی لاؤ اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر''۔
ہم نے اس شخص کے اس انوکھے آرڈر کو دلچسپی سے سنا۔ 
بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دی۔
اُس نے کافی کا وہ کپ پیا ...........
مگر پیسے دو کے ادا کیے۔ 
ا س گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورق چسپاں کر دیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔ 
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو گاہک اور آئے 
جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا،
دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر،
انہوں نے دو ہی کپ پیئے مگر تین کپ کی ادائیگی کی اور چلتے بنے۔
ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے وہی کیا، 
دیوار پر ایک اور ورق چسپاں کردیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔
ایسا لگتا تھا 
یہاں ایسا ہونا معمول ہے
مگر ہمارے لیے یہ سب کچھ انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ 
کچھ دیر بعد ایک شخص اندر داخل ہوا 
جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت 
اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ 
غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ 
اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا 
............اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ 
''ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ''۔ 
بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی......
جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیے چلتا بنا۔ ....
ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے ...
کہ بیرے نے دیوار پر لگے......
پرچوں میں سے ایک پرچہ اتار کر کونٹرکے اندر رکھ دیا. .....
۔ اب ہمارے لیے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، 
ہمیں سارے معاملے کا پتا چل گیا تھا۔
اس قصبے کے باسیوں کی 
اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے تر کر دیا تھا۔
اور ہم سوچنے لگے کہ کیا ہمارے پیارے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟

میری ماں

۔          👈 *ﻭﮦ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ .... ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ !* 👉

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﮨﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﻓﺲ ﮐﯿﻨﭩﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ '' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺿﺪ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺨﺮﮮ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ، ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﮞ۔
ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﻼ۔ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ، ﻣﮉﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﺗﮏ ﯾﮩﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ، ﺑﺴﺘﮧ ﻏﺮﺽ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺻﺒﺢ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﻧﻔﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﻮﻟﺐ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮫ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﻤﺒﻞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮍ ﺭﮨﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ 11 ﺳﮯ 13 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﺳﮯﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﮌﺍ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ 16 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ 1500 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺳﯽ ﺭﺍﺕ 2 ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔
ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ؟؟؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔۔۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺛﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺩﻭ ﺳﻮﭦ ﺳﻼﺋﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺳﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﻝ ﺭﮨﺎ۔۔۔
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺮ ﺍﯾﻒ۔ﺍﮮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﮑﺮ ﭘﺎﺭﮮ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﮨﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﻼﻑ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺁﺝ ﻧﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ : '' ﻣﺎﮞ، ﻣﺎﮞ ، ﻣﺎﮞ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﮞ ﮞ ﮞ ﮞ '' ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﺗﺮﻟﮯ ﮐﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺎﮞ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎﺭِ ﻏﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺳﮑﻮﮞ ﺩﯾﺎ '' ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ '' ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﮯ۔
میرے اور
ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ مغفرت فرمائے، آمین

سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو!



ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. 

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. 

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. 

پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا. 

نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. 

وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. 

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے آپ، ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

عارف انیس

(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

سخاوت کی بہترین مثال


بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔
افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔
غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔
غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے ۔ یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Friday, September 25, 2020

چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو حقیر مت سمجھیئے…!!!

بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے جب مل کر برستے ہیں تو تُند و تیز لہروں میں بدل جاتے ہیں…
ریت اور مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہی ہموار اور زرخیز زمین تشکیل پاتی ہے…
زینہ زینہ چڑھ کر ہی بلندیوں پر پہنچا جاتا ہے ناں؟
قدم قدم اُٹھا کر ہی منزل سے ہمکنار ہوا جاتا ہے…
سو ہمیشہ اپنی قدر کیجیئے،یہ نہ سمجھیئے کہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں/سکتا ہوں؟
مجھ میں بھلا کیا صلاحیتیں ہیں،جنہیں استعمال میں لاؤں؟
میرے پاس بڑے بڑے منصوبے اور مال ہو گا شاید تب ہی دنیا کو مجھ سے کوئی فائدہ ہو سکے گا؟
تب تک مجھے مایوسی میں ہی رہنا ہے…
سوچتے ہی چلے جانا ہے…
اپنے آپ کو کوستے ہوئے افسوس ہی کرتے رہنا ہے…!!!
نہیں بلکہ آپ نے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا تہیہ کر لینا ہے…
سب سے اوّلین مستحق ہمارے گھر کے افراد ہوتے ہیں… الاوّل فالاوّل…
ہمارے والدین،اولاد،رشتہ دار،پھر وہ جگہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں،ہمارا معاشرہ،قوم،اور اُمت یہ سبھی کیٹیگریز ہمارے کردار کی مستحق ہیں…
ہم اس دین کے ماننے والے ہیں ناں جہاں اپنے بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے…
جہاں مریض کی عیادت کرنے والا جنت کے باغوں میں گھومتا ہے…
جہاں للہ کسی کی زیارت کرنے والے کو فرشتہ ندا دیتا ہے تُجھے مبارک ہو،تیرا چلنا خوشگوار ہو اور جنت میں تُجھے ٹھکانہ نصیب ہو…
جہاں رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا،کسی بھولے اور اندھے کو رستہ دکھا دینا صدقہ ہے…
کسی کو نیکی کی طرف رہ نمائی کر دینا نیکی کرنے کی مثل ہے…
بس اپنی سوچ مثبت رکھیئے،
منفی سوچ،بدگمانیوں اور نفرت و حسد کے جذبات دل کے دریچوں سے نکال باہر پھینکیں…
کسی کے راز کی حفاظت…
کسی کے عیوب کی پردہ پوشی…
کسی کی مصیبت کی گھڑی میں ہمدردی کے چند بول…
خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے دینا…
کسی کو معاف کر دینا…
زیادتی پر درگزر کر جانا…
یقین جانیئے یہ بڑے عزم اور درجہ والے کام ہیں…
ہم اکثر بڑی بڑی نیکیاں کر کے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کر کے بڑی نیکیوں کو بھی ضائع کر دیتے ہیں…
اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر چلنا…
ماؤں کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیجیئے…یہ نہیں کہ ہم سوشل بنے پھرتے ہوں اور ماں دھوپ میں تڑپتی اور کام سنبھالتی رہے…
ماں کا دور تھکاوٹ سے چُور گزر چکا ہے اب ہماری جوانی کے عمل کا دور ہے…
اسے موبائل کی غیر ضروری مصروفیات کی نذر ہر گز نہ ہونے دیجیئے…
مانا کہ ہمارے للہ ہی سہی،محبتوں کے حصار بہت وسیع ہوں،لیکن ماں باپ جیسے رشتے سے بڑھ کر ہر گز نہیں ہو سکتے…
ہماری عبادات،رب کے ذکر اور تعلیم و تعلم سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے…
اپنا حق بھی پہچانیں…!!!
اپنی لائف کو مینیج کیجیئے اور اس کے مطابق تمام معاملات ڈیل کرنے کی کوشش کیجیئے…
اہم چاہے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو،اسے اولیت دیجیئے…
غیر اہم بڑا ہی سہی،ثانویت کے درجہ پر رکھیں…
فراغت کے لمحات میسر ہوں تو انہیں بھی ضائع نہ جانے دیں،اپنے دوست احباب سے، رشتہ داروں سے حال احوال بانٹ لیجیئے…
کُچھ وقت اُن کے ساتھ بِتایئے…
انہیں اپنا ہونے کا احساس دلایئے…!!!
اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال سے زندگی کی تصویر میں رنگ بھرنے کی مشق جاری رکھیئے…
روزانہ قرآن کی ایک آیت ہی خود یا کسی سے سمجھنے کی کوشش کریں…
ایک حدیث کا مطالعہ کر لیں،زندگی گزارنے کے بہت سے اصولوں سے شناسائی ملے گی…
تاریخ کا ایک ورق ہی پلٹ کر دیکھ لیں…
پانچ،سات منٹ نکال کر حالاتِ امت سے آگہی حاصل کریں…
استغفراللہ،الحمدللہ،سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہِ العظیم یہ وہ کلمات ہیں جن کے بارے میں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ یہ زبان پر بہت ہلکے لیکن میزان میں بہت بھاری ہیں…کی حاضر دل سے تسبیح پڑھ لیں…
غرض چراغِ رہ بنیں…
اُمیدِ سحر بنیں…
خیر کی قربت…
شر سے دوری بنیں…!!!
مسافر ہیں تو زادِ سفر سمیٹیں…
سب تو تو،میں میں کا کھیل ختم ہو جانے والا ہے اور کام آنے والی چیز فقط بھلائیاں ہیں…!!!
چھوٹے کاموں کو حقیر نہ سمجھیں…:
سب سارا دن پانی بہا بہا کر ضائع کر دیتے تھے…
ایک دن میں نے سوچا کہ جتنا پانی بہہ جاتا ہے اگر کسی پودے کی کیاری میں ہاتھ دھو لیئے جائیں تو ایک تو پودے کی زمین نرم رہے گی،دوسرا کیچڑ سے بھی بچت…
اب بات مانتے مانتے تو دیر لگتی…
میں نے یہ ذمہ داری خود اُٹھا لی ،اور صرف ایک دن میں مجھے چودہ مرتبہ صرف ہاتھ دھونے کے لیئے لوٹا بھر بھر کر کیاری کے پاس رکھنا پڑا…
لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سب کی ایک عادت سی بن گئی کہ اب ہاتھ باری باری کیاریوں میں ہی دھونے ہیں…!!!
زندگی کی خوشیوں سے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کبھی دیس نکالا نہ دیں،ورنہ یہ زندگی بے رنگ،بے ذائقہ اور پھیکی پھیکی رہ جاتی ہے…
یاد ہے ناں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اپنے پیارے صحابی کو نصیحت:
لَا تَحقِرَنَّ مِنَ المَعرُوفِ شَیئًا…
ہاں بس اسے یاد رکھیئے،زندگی کا اصول بنا لیجیئے…!!!!!
===============================

چھوٹی سی مگر مکمل ترین نصیحت

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایسی باتیں بتلائیں جن کو میں ساری زندگی یاد رکھوں (تاکہ مجھے فائدہ ہو) ، ذیادہ نہ بتایئے گا کہ میں بھول جاؤں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو غصہ سے پرہیز کر ، پھر اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو غصہ سے بچ جا

ڈائری لکھئے مسائل حل کیجئے

اصلاحِ ذات کے ماہر کہتے ہیں کہ منفی ذہنیت کو مثبت رویے میں تبدیل کرنے سے زندگی بہترین انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ 
آپ بھی وہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے ڈائری لکھنا، یعنی ایک ڈائری بنائیں اور اس پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو تفصیل سے لکھنا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے۔ ڈائری لکھنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا ہے۔ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت ترک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ پہلے رات کو سوتے وقت لکھا کرتے تھے۔ پھر اس نے صبح لکھنے کا تجربہ کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ صبح ہی ڈائری لکھنے کا بہترین وقت ہے۔ ڈائری ہر کامیاب آدمی لکھتا ہے اور ڈائری لکھیں تو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔
صبح سویرے ڈائری لکھنے سے آپ اپنی مشکلات کو اچھے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی عملی قدم اٹھانے کے بغیر ہی، کسی مشکل کے بارے میں شکایت کرنا اور اسے ہر ہفتے بلکہ ہر مہینے دہراتے رہنا، بہت ہی کٹھن ہوگا۔ یہ ڈائری ہمیں اکساتی ہے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں اور اپنی مشکلات کا حل تلاش کریں۔
ڈائری ایک سادہ کاپی نہیں رہتی جب اُس پر کچھ لکھ لیا جائے۔ یہ ایک تحریک بن جاتی ہے۔

ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے


"کل میں نے اپنے والد کے ساتھ ایک گھنٹہ بینک میں گزارا تھا ، کیونکہ انہیں کچھ رقم منتقل کرنا پڑی۔ میں خود مزاحمت نہیں کرسکا اور پوچھا ...

'' والد ، آپ اپنا انٹرنیٹ بینکنگ کیوں نہیں چالو کرتے ہیں؟ ''

'' میں ایسا کیوں کروں گا؟ '' انہوں نے جواب دیا ...

'' ٹھیک ہے ، پھر آپ کو منتقلی جیسی چیزوں کے لیے یہاں ایک گھنٹہ نہیں گزارنا پڑے گا۔

یہاں تک کہ آپ اپنی شاپنگ آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔ سب کچھ بہت آسان ہوگا! ''

میں انہیں نیٹ بینکنگ کی دنیا میں متعارف کرانے کے بارے میں بہت پرجوش تھا۔
 انہوں نے پوچھا '' اگر میں یہ کروں تو ، مجھے گھر سے نکلنا نہیں پڑے گا؟

''ہاں ہاں''! میں نے کہا. میں نے انہیں بتایا کہ یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی اب گھر پر کس طرح پہنچائی جاسکتی ہیں اور ایمیزون کس طرح سب کچھ فراہم کرتا ہے!

ان کے جواب نے مجھے زبان سے باندھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ '' جب سے میں آج اس بینک میں داخل ہوا ہوں ، میں نے اپنے چار دوستوں سے ملاقات کی ہے ، میں نے عملے سے کچھ دیر گفتگو کی ہے جو اب تک مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

 میں تنہا ہوں ... یہ وہ کمپنی ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔ مجھے تیار ہوکر بینک آنا پسند ہے۔ میرے پاس کافی وقت ہے ، یہ وہ جسمانی لمس ہے جو مجھے پسند ہے۔

دو سال پہلے میں بیمار ہوا ، اس اسٹور کا مالک جس سے میں پھل خریدتا ہوں ، مجھے دیکھنے آیا اور میرے پلنگ کے پاس بیٹھ گیا اور میری صحت کے بارے میں سوال کیا

جب آپ کی والدہ صبح کی سیر کے دوران کچھ دن پہلے گر گئیں۔ ہمارے مقامی دکاندار نے اسے دیکھا اور فوری طور پر اسے نزدیکی اسپتال لے گیا اور فون کے ذریعہ ہمیں اس کی اطلاع دی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں کہاں رہتا ہوں۔

کیا سب کچھ آن لائن ہوجاتا ہے؟

میں کیوں چاہتا ہوں کہ سب کچھ مجھ تک پہنچا دیا جائے اور مجھے صرف اپنے کمپیوٹر کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کیا جائے؟

میں اس شخص کو جاننا چاہتا ہوں جس کے ساتھ میں صرف 'فروخت کنندہ' نہیں بلکہ معاملہ کر رہا ہوں۔ یہ رشتوں کے رشتوں کو تشکیل دیتا ہے۔

کیا ایمیزون بھی یہ سب فراہم کرتا ہے؟ ''

ٹیکنالوجی زندگی نہیں ہے ..
لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں .. آلات کے ساتھ نہیں۔ "

خود کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں




آج صبح میں جوگنگ کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے آدھا کلومیٹر دور تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے تھوڑا آہستہ دوڑ رہا ہے، مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی، میں نے سوچا اسے ہرانا چاہئے۔ تقریبا ایک کلو میٹر بعد مجھے اپنے گھر کی جانب ایک موڑ پر مڑنا تھا۔ میں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی منٹوں میں، میں دھیرے دھیرے اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔جب میں اس سے 100 فٹ دور رہ گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی جوش اور ولولے کے ساتھ میں نے تیزی سے اسے پیچھے کردیا۔ 

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ  "یس!! میں نے اسے ہرادیا"

حالانکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ریس لگی ہوئی ہے۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ اسے پیچھے کرنے کی دھن میں میں اپنے گھر کے موڑ سے کافی دور آگیا ہوں۔ پھر مجھے احساس ہواکہ میں نے اپنے اندرونی سکون کو غارت کردیا ہے، راستے کی ہریالی اور اس پر پڑنے والی سورج کی نرم شعاعوں کا مزہ بھی نہیں لے سکا۔ چڑیوں کی خوبصورت آوازوں کو سننے سے محروم رہ گیا۔میری سانس پھول رہی تھی،  اعضاء میں درد ہونے لگا، میرا فوکس میرے گھر کا راستہ تھا اب میں اس سے بہت دور آگیا تھا۔ 

تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہماری زندگی میں بھی ہم خوامخواہ Competition کرتے ہیں، اپنے co workers کے ساتھ، پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ، ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہت بھاری ہیں ، زیادہ کامیاب ہیں، یا زیادہ اہم ہیں، اور اسی چکر میں ہم اپنا سکون، اپنے اطراف کی خوبصورتی، اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے```

اس بیکار کے Competition کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔_

ہر جگہ کوئی نا کوئی آپ سے آگے ہوگا، کسی کو آپ سے اچھی جاب ملی ہوگی، کسی کو اچھی بیوی، اچھی کار، آپ سے زیادہ تعلیم، آپ سے ہینڈسم شوہر، فرمانبردار اولاد، اچھا ماحول، یا اچھا گھر وغیرہ

 یہ ایک حقیقت ہےکہ آپ خود اپنے آپ میں بہت زبردست ہیں، لیکن اس کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے compare کرنا چھوڑ دیں۔

بعض لوگ دوسروں پر بہت توجہ دینے کی وجہ سے بہت nervous اور insecure محسوس کرتے ہیں، اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر focus کیجئے، اپنی height، weight ، personality، جو کچھ بھی حاصل ہے اسی سے لطف اٹھائیں۔اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ اللہ نے آپ کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔۔۔
مقابلہ بازی یا تقابل ہمیشہ زندگی کے لطف پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے مزے کو کرکرا کر دیتے ہیں۔

تقدیر سے کوئی مقابلہ نہیں، سب کی اپنی اپنی تقدیر ہوتی ہے، تو صرف اپنے مقدر پر فوکس کیجئے۔

دوڑیئے ضرور!  مگر اپنی اندرونی خوشی اور سکون کیلئے نہ کہ دوسروں کو اپنے سے چھوٹا ثابت کرنے کے لیے، نیچا دکھانے کے لیے یا پیچھے چھوڑنے کے لئے۔۔..

تین فطری قوانین



پہلا قانون فطرت  
اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
 اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔

دوسرا قانون فطرت
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ 
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔

تیسرا قانون فطرت
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔
* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" ریاکاری" بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔
* مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے "دشمنی" بڑھتی ہے۔
* غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔
* اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" خطرات" میں اضافہ ہوتا ہے۔

اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور  لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔