Saturday, September 26, 2020

ھم تو اس جینے کے ھاتھوں مر چلے !!



اس نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا - میں نے کہا کہ بھائی دیکھ بھال کر دینا چاھئے یہ فراڈ لوگ ھوتے ھیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ھیں ! فرمانے لگے آپ نے بجا فرمایا میں پہلے ایسا ھی کیا کرتا تھا ،پھر ایک واقعے نے میری دنیا بدل کر رکھ دی - 

میں دھرم پورہ لاھور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں ،میں اسٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکدار آج کل پر ٹرخا رھا تھا، میں سائیکل پہ جا رھا تھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے اسپتال پہنچانے کے لئے ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رھا تھا۔

وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ھاتھ جوڑ دیتا میرا بچہ بچا لیں ،مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ھاتھ دے کر روکتا ، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو اسپتال پہنچا دے ،کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا ،، جو رُکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ ،،، سوچ کر اسے ڈانٹتا ، کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا ۔

میں جو سائیکل سائڈ پہ روکے ایک پاؤں زمیں پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رھا تھا ، اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ لیا ، بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخار ھے ۔ آپ نیچے اتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا ، آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے ۔

مگر میں بھی آپ کی طرح سوچ رھا تھا ،پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر میں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا ،، میں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں سنی ھوئی حدیث اس کو بھی سنا دی کہ ،الکاسب حبیب اللہ : کما کر کھانے والا اللہ کا دوست ھوتا ھے ، اور اپنا ھینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ھوا آگے چل پڑا " حرامخور ھمیں بے وقوف سمجھتے ھیں !!

دو تین گھنٹے کے بعد جب میں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رھا تھا ،بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا ، اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اٹھا رکھا تھا ،، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رھا تھا ۔ اب وہ بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رھا تھا۔

میں نے سائیکل کو روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا ،،، پھول کی طرح معصوم بچہ ،،، زندگی کی بازی ھار گیا تھا ، میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے ،میں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال کر باھر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ھو ،سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاھور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ھوئی ھیں۔ 

میں گھر پہنچا تو میرا برا حال تھا ، تھڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا ،، بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناھوں کا کفارہ اسی بخار سے ھونا تھا۔ گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلتے اور میں چارپائی سے چھلانگ لگا دیتا ،مجھے اسپتال نہیں جانا تھا ، میں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاھتا تھا۔ 

دو تین دن کے بعد بخار کو تو آرام آ گیا مگر میں ذھنی مریض بن گیا ،مجھے لگتا گویا میرا اپنا اکلوتا بیٹا جو تیسری کلاس میں پڑھتا تھا وہ اس بچے کے کفارے میں مر جائے گا۔ میں نے بچے کا اسکول جانا بند کر دیا ، بیوی کے بار بار اصرار کے باوجود میں بچے کو اسکول تو کیا دروازہ کھولنے بھی نہیں جانے دیتا تھا -

40 دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام اسکول سے کٹ گیا تھا ، وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئ ایک کمپنی میں کیشئر تھا اس نے مجھے باھر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا ،مگر ایک تو میں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا ،دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باھر نہیں جانا چاھتا تھا - وہ چالیس دن قیامت کے چالیس دن تھے ۔

چالیسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ھمارے گھر کا دروازہ بجا ،، دروازہ میں نے خود ھی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے ۔ مجھے لگا جیسے ھم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رھے ھیں ، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا ۔ میری کیفیت سے بےخبر اس باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ھاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا ، جبکہ میں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا ،، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ھے اور پانی اس کے منہ اور ناک سے بہہ نکلتا ھے ۔

میں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رھا تھا گویا اس کا نہیں بلکہ میرا بچہ مر گیا ھے ،ھمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ھو گیا تھا ۔ آئستہ آئستہ 40 دنوں کا غبار نکلا ،، اس کو میں گھر میں لے کر آیا محلے والے بھی آگئے تھے جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسوس کیا۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا ،پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے ۔شاید یہ آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ھو گئے سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے ان میں کچھ پیسے میں نے ادھار لے کر ڈالے ھیں ۔ یہ آپ قبول کر لیجئے ،باقی میں بہت جلد آپ کو واپس کر دونگا۔

میں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا ،، اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد میں یہاں بطور اسٹیل فکسر آ گیا ، میں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا - تین سال بعد میں نے سالے کی مدد سے اپنی کمپنی بنا لی اور اس بچے کے والد کو بھی اپنی کمپنی میں بلا لیا ، آج وہ میری کمپنی میں فورمین ھے ، اس بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے !! میں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا ، وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا ! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ھے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا !!

قاری صاحب اس دن کے بعد میں کسی کا ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،، تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ھوتا ھے اور نہ میں غریب ھوتا ھوں ،، بس دل کو تسلی ھوتی ھے کہ میں اس بچے کا خون بہا ادا کر رھا ھوں۔

رہ گئ لُوٹنے کی بات تو قاری صاحب ھمیں کون نہیں لُوٹتا ؟ جوتے والا ھمیں لوٹتا ھے ،کپڑے والا ھمیں لوٹتا ھے ، سبزی اور گوشت والا ھم کو لوٹتا ھے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ھمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شاید حشر میں ھماری نجات کا سامان ھو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر، میرے نام پہ لُٹتا رھا ھے !!

زندگی تو مارے گی

یہ طے ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی، تھکن ہوگی ، جسم ٹوٹ جائے گا، نیند روٹھ جائے گی، دل پر دل بروں کے ہاتھوں خراشیں پڑیں گی، انگ انگ فریاد کرے گا اور درد چار چپھیرے رقص کرے گا. خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پاٹوں میں وقفہ بن کر. مگر جس حال میں جینا مشکل ہو، اسی حال میں جینا لازم ہے.

قدیم رومی سلطنت میں ایک قاعدہ تھا. رومی کمال کے لوگ تھے. ہزار سال کی شہنشاہیت چلا گئے، کچھ ڈھنگ کا کرتے ہی ہوں گے. ان کا دستور تھا کہ جب ان کا کوئی جرنیل بڑی فتح حاصل کر کے واپس آتا توا ایک عظیم الشان جلوس نکالا جاتا. جرنیل سنہری چوغہ اور سر پر تاج پہنتا. چار وحشی گھوڑوں کا رتھ روم کی گلیوں میں دوڑتا اور ارد گرد مداحوں کے ٹھٹھ لگے ہوتے جو فاتح کے نام کے نعرے بلند کرتے. جرنیل کے بالکل پیچھے ایک تنو مند حبشی غلام آراستہ ہوتا. جیسے ہی نعرے بلند ہوتے وہ جرنیل کے کان میں چبھتی ہوئی سرگوشی کرتا. "میمنتو موری، میمنتو موری"..... مطلب بڑا واضح تھا "یاد رکھو تم فانی ہو. یاد رکھو تم مر جاؤ گے. یاد رکھو تم مٹی ہوجاؤ گے". فتح کے ان لمحات میں شاید اس جرنیل اور ہم سب کے لیے ان سے اہم کلمات اور کوئی نہیں ہیں. 

ہم سب کے خواب ہیں، سراب ہیں، نیتیں ہیں، ارادے ہیں، عزائم ہیں، کچھ پوری ہوں گی، کچھ ادھوری رہیں گی. کچھ پوری ہوکر ادھوری ہوجائیں گی. ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے. 

نفسیات کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا. نفسیاتی توڑ پھوڑ کے حوالے سے ایک چیز یہ سیکھی کہ ہم میں سے اکثر جزباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں. اب زندگی جب دھوبی پٹڑا مارتی ہے تو ہم چور چور ہوجاتے ہیں. اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا. ہم جتنے "فریجائل" ہوتے ہیں، اتنا ہی گھائل ہوتے ہیں. 

ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی. اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے، تبھی میں ان رومی فلاسفروں کی بات دوہراتے ہوئے کہتا ہوں کہ مشکل راستہ نہیں، مشکل ہی راستہ ہے. راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے. 

اگر تم زندگی کی جنگ میں سورما ہو تو پھر تم ہر منفی کو مثبت بنانا سیکھ جاؤ گے /گی. جتنی اینٹیں پھینکی جائیں گی، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا. ہم حالات پر نہیں، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں. جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں. صبر راستہ ہے، ہمت راستہ ہے، عاجزی راستہ ہے، رکاوٹ راستہ ہے. اپنی زندگی پر غور کریں، اس میں جتنا بھی رنگ ہے، اس میں اس وقت نکھار آیا جب زندگی کے گرم پانی نے پتی کو کھولاؤ میں ڈالا. 

شکوہ کرنا چھوڑدو، اپنی ذمہ داری پر اور اپنی شرطوں پر جینا شروع کرو. زندگی اور لوگوں کو اپنے آپ کو روندنے کا حق خود دیا ہے، وہ ان سے واپس لے لو. کانچ مت بنو، لوہے کے چنے بن جاؤ. زندگی کے چکر سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا. بس آدمی کو مرتے دم تک ضرور زندہ رہنا چاہیے! 

عارف انیس 

( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )

محبت کا اصل وقت


محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے ۔محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہوجاتے ہیں۔کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے۔
(کتاب :آئی ایم پاسیبل مصنف:عارف انیس)
بعض والدین گھر آکر بھی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتےیہ سوچ کہ یہ سب کچھ میں اولاد ہی کے لیے کررہا ہوں،جبکہ درحقیقت بچے آپ کے پیار کے خواہش مندآج ہی ہیں اور یہی محبت کا اصل وقت ہے ۔آج کی محبت اور توجہ کو وہ عمر بھر یاد رکھیں گے ۔

ایک کپ کافی

.              👈 *اشفاق احمد کہتے ہیں* 👉

کہ ہم اٹلی کے شہر
وینس کے ایک نواحی قصبے کے مشہور کافی شاپ 
پر بیٹھے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے 
کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا
جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر بیٹھ گیا۔ 
اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دی
اور اپنا آرڈر اس طرح دیا ''
دو کپ کافی لاؤ اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر''۔
ہم نے اس شخص کے اس انوکھے آرڈر کو دلچسپی سے سنا۔ 
بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دی۔
اُس نے کافی کا وہ کپ پیا ...........
مگر پیسے دو کے ادا کیے۔ 
ا س گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورق چسپاں کر دیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔ 
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو گاہک اور آئے 
جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا،
دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر،
انہوں نے دو ہی کپ پیئے مگر تین کپ کی ادائیگی کی اور چلتے بنے۔
ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے وہی کیا، 
دیوار پر ایک اور ورق چسپاں کردیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔
ایسا لگتا تھا 
یہاں ایسا ہونا معمول ہے
مگر ہمارے لیے یہ سب کچھ انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ 
کچھ دیر بعد ایک شخص اندر داخل ہوا 
جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت 
اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ 
غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ 
اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا 
............اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ 
''ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ''۔ 
بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی......
جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیے چلتا بنا۔ ....
ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے ...
کہ بیرے نے دیوار پر لگے......
پرچوں میں سے ایک پرچہ اتار کر کونٹرکے اندر رکھ دیا. .....
۔ اب ہمارے لیے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، 
ہمیں سارے معاملے کا پتا چل گیا تھا۔
اس قصبے کے باسیوں کی 
اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے تر کر دیا تھا۔
اور ہم سوچنے لگے کہ کیا ہمارے پیارے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟

میری ماں

۔          👈 *ﻭﮦ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ .... ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ !* 👉

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﮨﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﻓﺲ ﮐﯿﻨﭩﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ '' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺿﺪ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺨﺮﮮ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ، ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﮞ۔
ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﻼ۔ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ، ﻣﮉﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﺗﮏ ﯾﮩﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ، ﺑﺴﺘﮧ ﻏﺮﺽ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺻﺒﺢ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﻧﻔﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﻮﻟﺐ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮫ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﻤﺒﻞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮍ ﺭﮨﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ 11 ﺳﮯ 13 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﺳﮯﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﮌﺍ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ 16 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ 1500 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺳﯽ ﺭﺍﺕ 2 ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔
ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ؟؟؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔۔۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺛﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺩﻭ ﺳﻮﭦ ﺳﻼﺋﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺳﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﻝ ﺭﮨﺎ۔۔۔
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺮ ﺍﯾﻒ۔ﺍﮮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﮑﺮ ﭘﺎﺭﮮ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﮨﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﻼﻑ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺁﺝ ﻧﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ : '' ﻣﺎﮞ، ﻣﺎﮞ ، ﻣﺎﮞ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﮞ ﮞ ﮞ ﮞ '' ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﺗﺮﻟﮯ ﮐﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺎﮞ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎﺭِ ﻏﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺳﮑﻮﮞ ﺩﯾﺎ '' ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ '' ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﮯ۔
میرے اور
ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ مغفرت فرمائے، آمین

سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو!



ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. 

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. 

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. 

پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا. 

نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. 

وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. 

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے آپ، ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

عارف انیس

(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

سخاوت کی بہترین مثال


بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔
افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔
غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔
غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے ۔ یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Friday, September 25, 2020

چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو حقیر مت سمجھیئے…!!!

بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے جب مل کر برستے ہیں تو تُند و تیز لہروں میں بدل جاتے ہیں…
ریت اور مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہی ہموار اور زرخیز زمین تشکیل پاتی ہے…
زینہ زینہ چڑھ کر ہی بلندیوں پر پہنچا جاتا ہے ناں؟
قدم قدم اُٹھا کر ہی منزل سے ہمکنار ہوا جاتا ہے…
سو ہمیشہ اپنی قدر کیجیئے،یہ نہ سمجھیئے کہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں/سکتا ہوں؟
مجھ میں بھلا کیا صلاحیتیں ہیں،جنہیں استعمال میں لاؤں؟
میرے پاس بڑے بڑے منصوبے اور مال ہو گا شاید تب ہی دنیا کو مجھ سے کوئی فائدہ ہو سکے گا؟
تب تک مجھے مایوسی میں ہی رہنا ہے…
سوچتے ہی چلے جانا ہے…
اپنے آپ کو کوستے ہوئے افسوس ہی کرتے رہنا ہے…!!!
نہیں بلکہ آپ نے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا تہیہ کر لینا ہے…
سب سے اوّلین مستحق ہمارے گھر کے افراد ہوتے ہیں… الاوّل فالاوّل…
ہمارے والدین،اولاد،رشتہ دار،پھر وہ جگہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں،ہمارا معاشرہ،قوم،اور اُمت یہ سبھی کیٹیگریز ہمارے کردار کی مستحق ہیں…
ہم اس دین کے ماننے والے ہیں ناں جہاں اپنے بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے…
جہاں مریض کی عیادت کرنے والا جنت کے باغوں میں گھومتا ہے…
جہاں للہ کسی کی زیارت کرنے والے کو فرشتہ ندا دیتا ہے تُجھے مبارک ہو،تیرا چلنا خوشگوار ہو اور جنت میں تُجھے ٹھکانہ نصیب ہو…
جہاں رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا،کسی بھولے اور اندھے کو رستہ دکھا دینا صدقہ ہے…
کسی کو نیکی کی طرف رہ نمائی کر دینا نیکی کرنے کی مثل ہے…
بس اپنی سوچ مثبت رکھیئے،
منفی سوچ،بدگمانیوں اور نفرت و حسد کے جذبات دل کے دریچوں سے نکال باہر پھینکیں…
کسی کے راز کی حفاظت…
کسی کے عیوب کی پردہ پوشی…
کسی کی مصیبت کی گھڑی میں ہمدردی کے چند بول…
خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے دینا…
کسی کو معاف کر دینا…
زیادتی پر درگزر کر جانا…
یقین جانیئے یہ بڑے عزم اور درجہ والے کام ہیں…
ہم اکثر بڑی بڑی نیکیاں کر کے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کر کے بڑی نیکیوں کو بھی ضائع کر دیتے ہیں…
اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر چلنا…
ماؤں کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیجیئے…یہ نہیں کہ ہم سوشل بنے پھرتے ہوں اور ماں دھوپ میں تڑپتی اور کام سنبھالتی رہے…
ماں کا دور تھکاوٹ سے چُور گزر چکا ہے اب ہماری جوانی کے عمل کا دور ہے…
اسے موبائل کی غیر ضروری مصروفیات کی نذر ہر گز نہ ہونے دیجیئے…
مانا کہ ہمارے للہ ہی سہی،محبتوں کے حصار بہت وسیع ہوں،لیکن ماں باپ جیسے رشتے سے بڑھ کر ہر گز نہیں ہو سکتے…
ہماری عبادات،رب کے ذکر اور تعلیم و تعلم سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے…
اپنا حق بھی پہچانیں…!!!
اپنی لائف کو مینیج کیجیئے اور اس کے مطابق تمام معاملات ڈیل کرنے کی کوشش کیجیئے…
اہم چاہے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو،اسے اولیت دیجیئے…
غیر اہم بڑا ہی سہی،ثانویت کے درجہ پر رکھیں…
فراغت کے لمحات میسر ہوں تو انہیں بھی ضائع نہ جانے دیں،اپنے دوست احباب سے، رشتہ داروں سے حال احوال بانٹ لیجیئے…
کُچھ وقت اُن کے ساتھ بِتایئے…
انہیں اپنا ہونے کا احساس دلایئے…!!!
اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال سے زندگی کی تصویر میں رنگ بھرنے کی مشق جاری رکھیئے…
روزانہ قرآن کی ایک آیت ہی خود یا کسی سے سمجھنے کی کوشش کریں…
ایک حدیث کا مطالعہ کر لیں،زندگی گزارنے کے بہت سے اصولوں سے شناسائی ملے گی…
تاریخ کا ایک ورق ہی پلٹ کر دیکھ لیں…
پانچ،سات منٹ نکال کر حالاتِ امت سے آگہی حاصل کریں…
استغفراللہ،الحمدللہ،سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہِ العظیم یہ وہ کلمات ہیں جن کے بارے میں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ یہ زبان پر بہت ہلکے لیکن میزان میں بہت بھاری ہیں…کی حاضر دل سے تسبیح پڑھ لیں…
غرض چراغِ رہ بنیں…
اُمیدِ سحر بنیں…
خیر کی قربت…
شر سے دوری بنیں…!!!
مسافر ہیں تو زادِ سفر سمیٹیں…
سب تو تو،میں میں کا کھیل ختم ہو جانے والا ہے اور کام آنے والی چیز فقط بھلائیاں ہیں…!!!
چھوٹے کاموں کو حقیر نہ سمجھیں…:
سب سارا دن پانی بہا بہا کر ضائع کر دیتے تھے…
ایک دن میں نے سوچا کہ جتنا پانی بہہ جاتا ہے اگر کسی پودے کی کیاری میں ہاتھ دھو لیئے جائیں تو ایک تو پودے کی زمین نرم رہے گی،دوسرا کیچڑ سے بھی بچت…
اب بات مانتے مانتے تو دیر لگتی…
میں نے یہ ذمہ داری خود اُٹھا لی ،اور صرف ایک دن میں مجھے چودہ مرتبہ صرف ہاتھ دھونے کے لیئے لوٹا بھر بھر کر کیاری کے پاس رکھنا پڑا…
لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سب کی ایک عادت سی بن گئی کہ اب ہاتھ باری باری کیاریوں میں ہی دھونے ہیں…!!!
زندگی کی خوشیوں سے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کبھی دیس نکالا نہ دیں،ورنہ یہ زندگی بے رنگ،بے ذائقہ اور پھیکی پھیکی رہ جاتی ہے…
یاد ہے ناں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اپنے پیارے صحابی کو نصیحت:
لَا تَحقِرَنَّ مِنَ المَعرُوفِ شَیئًا…
ہاں بس اسے یاد رکھیئے،زندگی کا اصول بنا لیجیئے…!!!!!
===============================

چھوٹی سی مگر مکمل ترین نصیحت

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایسی باتیں بتلائیں جن کو میں ساری زندگی یاد رکھوں (تاکہ مجھے فائدہ ہو) ، ذیادہ نہ بتایئے گا کہ میں بھول جاؤں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو غصہ سے پرہیز کر ، پھر اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو غصہ سے بچ جا

ڈائری لکھئے مسائل حل کیجئے

اصلاحِ ذات کے ماہر کہتے ہیں کہ منفی ذہنیت کو مثبت رویے میں تبدیل کرنے سے زندگی بہترین انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ 
آپ بھی وہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے ڈائری لکھنا، یعنی ایک ڈائری بنائیں اور اس پر اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو تفصیل سے لکھنا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے۔ ڈائری لکھنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا ہے۔ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت ترک بابری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ پہلے رات کو سوتے وقت لکھا کرتے تھے۔ پھر اس نے صبح لکھنے کا تجربہ کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ صبح ہی ڈائری لکھنے کا بہترین وقت ہے۔ ڈائری ہر کامیاب آدمی لکھتا ہے اور ڈائری لکھیں تو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا آسان ہو جاتا ہے۔
صبح سویرے ڈائری لکھنے سے آپ اپنی مشکلات کو اچھے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی عملی قدم اٹھانے کے بغیر ہی، کسی مشکل کے بارے میں شکایت کرنا اور اسے ہر ہفتے بلکہ ہر مہینے دہراتے رہنا، بہت ہی کٹھن ہوگا۔ یہ ڈائری ہمیں اکساتی ہے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں اور اپنی مشکلات کا حل تلاش کریں۔
ڈائری ایک سادہ کاپی نہیں رہتی جب اُس پر کچھ لکھ لیا جائے۔ یہ ایک تحریک بن جاتی ہے۔