Tuesday, November 10, 2020

اودھو داس اور ہم

قیام پاکستان سے قبل اودھو داس سندھ کے امیر کبیر لوگوں میں شامل تھا۔اس کی ماں بیمار ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سندھ میں موجود اسپتالوں میں اس بیماری کے علاج کی سہولت میسر نہیں ، اس کا علاج بمبئی کے اسپتال میں ہی ہوسکتا ھے ۔
 اودھو داس والدہ کو بمبئی لے گیا اور علاج کرایا،ماں کی حالت بہتر ہونے پر گھر واپس لے آیا اور چند روز بعد ماں سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت کیسی ھے جس پر اس کی ماں نے جواب دیا کہ:
 میں تو اودھو داس کی ماں ہوں،یہاں علاج ممکن نہیں تھا تو بمبئی کے اسپتال میں علاج ہوگیا مگر سندھ میں بسنے والی ان ماؤں کا کیا ہوگا جن کے بیٹے اودھو داس کی طرح دولت مند نہیں۔

نصیحت کا انداز

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﺮﺽ ﻋﻼﺝ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﭘﺮ ﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ، ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺷﺮﻑ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻭ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً "ﺷﺎﺭﭦ ﺳﮑﺮﭦ" ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ 

Monday, November 9, 2020

رشتے کیوں نہیں ہوتے آج کل؟

آج کل جس گلی محلے رشتے داری میں جائیں تو سر میں اترتی چاندی کے ساتھ رشتے کے انتظار میں لڑکیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔۔۔

*وجہ یہ ھے کہ...* شروع میں لڑکیاں اور والدین بہت نخرے کرتے ہیں۔
1 ذاتی گھر ھو۔
2  گاڑی ھو۔
3 آمدنی لاکھوں میں ھو۔
4 برادری اچھی ھو۔
5 فیملی چھوٹی ھو۔

اللّٰہ مجھ سے محبت کرتا ہے؟


یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ۔۔۔ پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ میرا رب جن بندوں کو زیادہ چاہتا ہے ان کے بارے میں تو اس نے آیتیں اتاریں ہیں سو میں قرآنِ مجید کھول کر بیٹھ گیا ۔۔
میں نے ڈھونڈا تو پہلی آیت ملی "وہ متقین سے محبت کرتا ہے"
مجھے ملال ہوا مجھ میں تو نام کا بھی تقوی نہیں

نسبت سے فرق تو پڑتا ہے

گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟ 
وہ بھی  گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔ اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو… ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
 اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

تربیت

مجھے یاد ہے۔۔

ہمارے گھروں میں جب کوئی باہر سے عورتیں آتیں، امی بیٹوں کو کہتی ہیں، تم ادھر جا کر بیٹھو یہاں خواتین بیٹھیں گی. جس کمرے میں بہنیں سوئی ہوں، بھائیوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ بےدھڑک وہاں گھس جائیں، اگر راستے میں کسی عورت کو مدد چاہیئے تو ماں کہتی کہ بیٹا جاؤ، "تمہاری ماں جیسی ہے اس کی مدد کرو" 

مکان برائے فروخت

بڑھاپے میں والدین کو آپ کی ضرورت ہوتی ھے 
پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"
اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی

اللّٰہ کا تصور

گھروں میں کام کرنے والی ایک عورت روٹی پکانے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو ڈانٹ رہی تھی ،جو بار بار جوتے کے بغیر باہر گلی میں جانے کی کوشش کرتی تھی ۔ اسکی ماں اسے ڈرانے کیلئے بڑی عجیب تاویلیں پیش کررہی تھی۔
"اگر تو گلی میں گئی تو اللہ تجھے گناہ دے گا، تیرے پاؤں کاٹ دے گا، گلہ کاٹ کے رکھ دے گا"
میں پاس ہی تھی ، پہلے تو میں سمجھی کہ اتنی چھوٹی بچی جو صحیح سے بول بھی نہیں سکتی، اسکو یہ سب سمجھ ہی نہیں آرہا ہوگا ، مگر میں نے دیکھا کہ بچی ذرا دیر کو رک کر، اپنی ماں کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے شاید اسکے الفاظ پہ غور کررہی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ بات کو ذہن نشین کررہی تھی۔
تب میں نے بچی کو مخاطب ہوکر کہا
"میری بات سنو ۔۔۔! ،اللہ تعالی نہ پاؤں کاٹتا ہے نہ گلہ، یہ کام برے آدمی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی تو چیزیں دیتا ہے، کپڑے جوتے اسی نے دئیے ہیں۔ اللہ تعالی تمہاری اماں کی طرح پیار کرتا ہے"۔
پھر میں نے اسکی ماں سے کہا
" کیوں چھوٹی سی بچی کے سامنے اللہ کی غلط تصویر پیش کر رہی ہو؟ کیا یہ کام انسان نہیں کرتے ؟ انسانوں کی غلطیاں اللہ پہ مت ڈالو''
بچی کی ماں حیران پریشان مجھے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی، اور مجھے لگا کہ یہ الفاظ مجھ پر قرض تھے۔ یہ الفاظ کچھ سال پہلے ایک گھاس کاٹنے والی عورت نے میرے حوالے کئے تھے، جب میرا چھوٹا سا بیٹا باغ میں رینگنے والے حشرات الارض کو پاؤں سے روند رہا تھا۔ میں بار بار اسے روکتی اور کہتی کہ
اللہ ناراض ہوجائے گا۔ جب کیڑوں کو درد ہوگا تو اللہ گناہ دے گا۔
تب پاس ہی گھاس کاٹتی ہوئی عورت نے درانتی رکھ کر سنجیدگی سے مجھے کہا
"بی بی بچے کو وہ بات بتاؤ جو اسے سمجھ میں آئے۔ اللہ سے متنفر مت کرو۔ اللہ اتنی سی بات پہ ناراض ہوتا تو یہ سب کچھ نہ دیتا۔ اسکو بتاؤ کہ جیسے آپکو تکلیف ہوتی ہے، ویسی ہی تکلیف کیڑوں کو بھی ہوتی ہے۔ اور کسی کو تکلیف دینے سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔"
میں بھی ایک انپڑھ عورت کے منہ سے ایسی گہری بات سن کے بالکل اسی طرح حیران ہوکے دیکھ رہی تھی۔ آج یہ الفاظ میں نے روٹی پکانے والی کے سپرد کر دئیے۔ 
یقیناً اسی طرح یہ الفاظ آگے ہی آگے منتقل ہوتے رہینگے۔ان شاء اللہ

یہ زندگی

یہ زندگی ایک کتاب کی طرح ہوتی ہے:
_بالکل ایک بند کتاب کی طرح جسے جب پڑہنے کے لیئے کھولا جائے تو یہ نہیــــں پتہ ہوتا کہ کســــں صفحے میــــں ہنسی اور خوشی ملنے والی ہے اور کہاں غم اور آنسو کســــی کے چہرے پر مت جائیــــں کیونکہ ہر انسان ایک بند کتاب کی مانند ہے  جســــں کے ہر ورق پر کچھ اور جبکہ اندرونی صفحات پر کچھ اور تحریر ہوتا ہے_

یہ سب میری ماں کی دعا ہے

جوہرچوک سے رکشہ پر کلفٹن جانے کا اتفاق ہوا، رکشہ والے نے گاڑی کے شیشہ پر "یہ سب میری ماں کی دعا ہے" کا اسٹیکر آویزاں کررکھا تھا۔ دیکھ کر ہنسی آئی، پھر اس سے پوچھا کہ رکشہ چلانے کو اپنی والدہ کی دعا قرار دے رہے ہو، کیا یہ اتنی بڑی فضیلت ہے؟

رکشہ والا

مسکرا کربتانے لگا کہ صاحب میرا تعلق مظفر گڑھ سے ہے، والدکا حادثے میں انتقال ہوگیا تو سگے تایا نے مکان جائیداد پر قبضہ کرکے والدہ اور ہم چھے بہن بھائیوں کو گھر سےنکال دیا۔ ماں ہمیں اپنے بھائی کے پاس لے کرکراچی آگئی،چند دن بعد بیگم کے کہنے پر ماموں نے بھی معذرت کرلی تو ساتھ والے محلے میں بیٹھک کرائے پر لے کر والدہ نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا اور رات گئے تک سلائی مشین پر محلے والوں کے کپڑے سینا شروع کردئے،

تعلیم کا تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اسی لئے چھوٹی عمر سے سبزی منڈی جانا شروع کردیا، سبزی اور پھلوں کی لوڈنگ انلوڈنگ کرواتے اور ٹوکری پر پھل فروٹ بیچتے نوجوان ہوئے، پھر کنڈیکٹری شروع کردی، اس فیلڈ میں استادوں اور ڈرائیوروں کی مار کھاتے کھاتےجوان ہوئے اور پھر کسی کا رکشہ چلانا شروع کیا، پیسے اکٹھے کئے،کمیٹی ڈالی، پھر قسطوں پر اپنا رکشہ لیا، اس کی قسطیں ختم ہوئیں تو دو رکشے قسطوں پر لئے اور بھائیوں کو بھی سبزی منڈی سے ہٹاکر ساتھ لگالیا۔ تینوں بھائی مل کر کماتے رہے، والدہ سے سلائی مشین چھڑوائی، چھوٹے بھائی کو پڑھاتے رہے، کہ جو ہم نہیں بن پائے ، اسے بنادیں

،بھائی نے ایم بی اے کیا، اسے بینک میں نوکری مل گئی، اس نے جس ماہ بینک سے گاڑی لیز کروائی، اسی ماہ اپنی کولیگ سے شادی کی اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، اب کبھی کبھار آتا ہے۔ ہم تین بھائی رکشہ چلاتے ہیں، دوبہنوں کی شادیاں کردی ہیں۔ میرے تین رکشے مزید ہیں، جو کرائے پر دے رکھے ہیں، سرجانی ٹاون میں گزشتہ برس اپنا چھوٹا سا گھر بنایا ہے، والدہ نے اپنی پسند سے میری شادی کردی ہے۔ ہم سب اکٹھے رہتے ہیں،

اب ہم تینوں بھائیوں نے ایک پلاٹ تاڑرکھا ہے، اسے خرید کر اس پر ایک اورگھر بناکر اگلے دوسالوں تک دوسرے بھائی کی شادی کرنے کا سوچ رکھا ہے۔ چونکہ والدہ ساتھ رہتی ہیں اور ان کی دعائیں ساتھ ہیں تو امید ہے کہ اگلے دوسال میں چھوٹے بھائی کا گھر اور اسکی شادی دونوں ہوجائینگی۔ یہ سب ماں کی دعا نہ سمجھوں تو کیا ہے

۔باقی کا سفر خاموشی میں کٹا اور میں سوچتا رہا کہ مجھے اپنی والدہ کی دعا کے باعث جتنا زیادہ اللہ پاک نے بنا محنت کے دے دیا، اس سے کہیں کم کسی کو ان تھک محنت کے بعد حاصل ہوا۔ اپنے ناشکرے پن پر ہزاربار توبہ استغفار کی۔آپ سے بھی گزارش ہے کہ کسی کی حیثیت کا مذاق مت اڑائیں، کیا پتا ، اس نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بھی اپنی ہڈیاں گلادی ہوں