گھروں میں کام کرنے والی ایک عورت روٹی پکانے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو ڈانٹ رہی تھی ،جو بار بار جوتے کے بغیر باہر گلی میں جانے کی کوشش کرتی تھی ۔ اسکی ماں اسے ڈرانے کیلئے بڑی عجیب تاویلیں پیش کررہی تھی۔
"اگر تو گلی میں گئی تو اللہ تجھے گناہ دے گا، تیرے پاؤں کاٹ دے گا، گلہ کاٹ کے رکھ دے گا"
میں پاس ہی تھی ، پہلے تو میں سمجھی کہ اتنی چھوٹی بچی جو صحیح سے بول بھی نہیں سکتی، اسکو یہ سب سمجھ ہی نہیں آرہا ہوگا ، مگر میں نے دیکھا کہ بچی ذرا دیر کو رک کر، اپنی ماں کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے شاید اسکے الفاظ پہ غور کررہی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ بات کو ذہن نشین کررہی تھی۔
تب میں نے بچی کو مخاطب ہوکر کہا
"میری بات سنو ۔۔۔! ،اللہ تعالی نہ پاؤں کاٹتا ہے نہ گلہ، یہ کام برے آدمی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی تو چیزیں دیتا ہے، کپڑے جوتے اسی نے دئیے ہیں۔ اللہ تعالی تمہاری اماں کی طرح پیار کرتا ہے"۔
پھر میں نے اسکی ماں سے کہا
" کیوں چھوٹی سی بچی کے سامنے اللہ کی غلط تصویر پیش کر رہی ہو؟ کیا یہ کام انسان نہیں کرتے ؟ انسانوں کی غلطیاں اللہ پہ مت ڈالو''
بچی کی ماں حیران پریشان مجھے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی، اور مجھے لگا کہ یہ الفاظ مجھ پر قرض تھے۔ یہ الفاظ کچھ سال پہلے ایک گھاس کاٹنے والی عورت نے میرے حوالے کئے تھے، جب میرا چھوٹا سا بیٹا باغ میں رینگنے والے حشرات الارض کو پاؤں سے روند رہا تھا۔ میں بار بار اسے روکتی اور کہتی کہ
اللہ ناراض ہوجائے گا۔ جب کیڑوں کو درد ہوگا تو اللہ گناہ دے گا۔
تب پاس ہی گھاس کاٹتی ہوئی عورت نے درانتی رکھ کر سنجیدگی سے مجھے کہا
"بی بی بچے کو وہ بات بتاؤ جو اسے سمجھ میں آئے۔ اللہ سے متنفر مت کرو۔ اللہ اتنی سی بات پہ ناراض ہوتا تو یہ سب کچھ نہ دیتا۔ اسکو بتاؤ کہ جیسے آپکو تکلیف ہوتی ہے، ویسی ہی تکلیف کیڑوں کو بھی ہوتی ہے۔ اور کسی کو تکلیف دینے سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔"
میں بھی ایک انپڑھ عورت کے منہ سے ایسی گہری بات سن کے بالکل اسی طرح حیران ہوکے دیکھ رہی تھی۔ آج یہ الفاظ میں نے روٹی پکانے والی کے سپرد کر دئیے۔
یقیناً اسی طرح یہ الفاظ آگے ہی آگے منتقل ہوتے رہینگے۔ان شاء اللہ