Thursday, November 12, 2020

ضرورت

گاؤں کے مشترکہ ڈیرے پر شام کو مل بیٹھنا اور خوش گپیاں لگانا ہمارا روز کا معمول تھا. آج بھی روز کی طرح کافی لوگ موجود تھے کہ...
اچانک میں نے موضوع بدلا، ہاتھ میں موجود میگزین کھولا اور بولا کہ اس میں ایک جدول ھے اور جو بھی اس جدول کے سوال کا صحیح جواب دے گا میری طرف سے ایک کلو مونگ پھلی اور ساتھ میں گڑ انعام ملے گا.

ہم اپنی اپنی جنگ میں ہیں

دنیا میں سات ارب سے زائد لوگ بستے ہیں. دیکھنے کو درجنوں رنگ، ترنگ، ادائیں، رویے، سٹائل ہیں. دیکھنے میں لگتا ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک الگ کائنات آباد ہے. بھانت بھانت کے روپ، بہروپ ہیں. کوئی عاجز تو کوئی میر شہر، کوئی سوالی تو کوئی موالی، لیکن بہت اندر سے ہم ایک ہی ہیں. پیار کے متلاشی، یہی کہ کندھے پر کوئی تھپکی دے دے، جب گرنے لگیں تو کوئی تھام لے.

ایک بیٹے کو والد صاحب کی نصیحت

1- سگریٹ نوشی سے بچو۔
2- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے۔
3- بہت سستی چیزیں مت خریدو۔

بس انشورنس کام آجائے

کورونا سے پہلے کے دنوں میں، دبئی میں ایک شاپنگ مال کے ایک بڑے سٹور میں گھومتے ہوئے میں نے ایک دوکان سے چھناک کے ساتھ کچھ ٹوٹنے کی آواز سنی اور ساتھ ہی کچھ شور شرابا اٹھا. وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک مجمع لگا ہوا ہے اور ایک جما ہوا دوپٹہ پہنے بزرگ خاتون بدحواسی میں فرش سے کانچ اٹھا رہی ہے. نظر آرہا ہے کہ وہ غلطی سے برتنوں کے ریک سے جا ٹکرائی تھی اور درجنوں گلاس، پلیٹیں زمین پر گر کے چکنا چور ہوچکی تھیں. 

Tuesday, November 10, 2020

اودھو داس اور ہم

قیام پاکستان سے قبل اودھو داس سندھ کے امیر کبیر لوگوں میں شامل تھا۔اس کی ماں بیمار ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سندھ میں موجود اسپتالوں میں اس بیماری کے علاج کی سہولت میسر نہیں ، اس کا علاج بمبئی کے اسپتال میں ہی ہوسکتا ھے ۔
 اودھو داس والدہ کو بمبئی لے گیا اور علاج کرایا،ماں کی حالت بہتر ہونے پر گھر واپس لے آیا اور چند روز بعد ماں سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت کیسی ھے جس پر اس کی ماں نے جواب دیا کہ:
 میں تو اودھو داس کی ماں ہوں،یہاں علاج ممکن نہیں تھا تو بمبئی کے اسپتال میں علاج ہوگیا مگر سندھ میں بسنے والی ان ماؤں کا کیا ہوگا جن کے بیٹے اودھو داس کی طرح دولت مند نہیں۔

نصیحت کا انداز

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﺮﺽ ﻋﻼﺝ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﭘﺮ ﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ، ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺷﺮﻑ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻭ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً "ﺷﺎﺭﭦ ﺳﮑﺮﭦ" ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ 

Monday, November 9, 2020

رشتے کیوں نہیں ہوتے آج کل؟

آج کل جس گلی محلے رشتے داری میں جائیں تو سر میں اترتی چاندی کے ساتھ رشتے کے انتظار میں لڑکیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔۔۔

*وجہ یہ ھے کہ...* شروع میں لڑکیاں اور والدین بہت نخرے کرتے ہیں۔
1 ذاتی گھر ھو۔
2  گاڑی ھو۔
3 آمدنی لاکھوں میں ھو۔
4 برادری اچھی ھو۔
5 فیملی چھوٹی ھو۔

اللّٰہ مجھ سے محبت کرتا ہے؟


یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ۔۔۔ پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ میرا رب جن بندوں کو زیادہ چاہتا ہے ان کے بارے میں تو اس نے آیتیں اتاریں ہیں سو میں قرآنِ مجید کھول کر بیٹھ گیا ۔۔
میں نے ڈھونڈا تو پہلی آیت ملی "وہ متقین سے محبت کرتا ہے"
مجھے ملال ہوا مجھ میں تو نام کا بھی تقوی نہیں

نسبت سے فرق تو پڑتا ہے

گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟ 
وہ بھی  گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔ اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو… ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
 اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

تربیت

مجھے یاد ہے۔۔

ہمارے گھروں میں جب کوئی باہر سے عورتیں آتیں، امی بیٹوں کو کہتی ہیں، تم ادھر جا کر بیٹھو یہاں خواتین بیٹھیں گی. جس کمرے میں بہنیں سوئی ہوں، بھائیوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ بےدھڑک وہاں گھس جائیں، اگر راستے میں کسی عورت کو مدد چاہیئے تو ماں کہتی کہ بیٹا جاؤ، "تمہاری ماں جیسی ہے اس کی مدد کرو"