پہلی محبت دل خالی کر جائے تو،،، دوسری محبت اُسے بھر بھی سکتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دل کِرچی کِرچی کردے تو،،، دوسری محبت مرہَم بن بھی جاتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دُھتکار دے تو،،، دوسری محبت گلے لگا بھی لیتی ہے۔۔۔ پَر اکثر پہلی محبت کے بعد دوسری محبت بھی ہار جاتی ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی اِسے قبول کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔ کوئی اِسے موقع دینا ہی نہیں چاہتا۔۔ اور ہر کسی کا ظرف اجازت بھی نہیں دیتا۔۔۔!!!
Sunday, November 22, 2020
ایک چھوٹی سی تحریر
ایک شخص سمندر کے کنارے واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص نیچے جھکتاہے ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پر پڑی تڑپ رہی ہیں شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھا اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔
بیک فائر ایفیکٹ!!!
من میں کھڑکی سیریز!
بیک فائر ایفیکٹ!!!
کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھی کیوں نگل لیتے ہیں؟ اپنے بے پیندے اور لولے لنگڑے مؤقف ہر کیوں جم جاتے ہیں؟ اور جان بوجھ کر دیوار پر لکھا پڑھنے سے کیوں انکار کردیتے ہیں؟ آپ نے نہیں بھی سوچا تو نفسیات دانوں نے اس پر بہت سوچا اور جواب تک پہنچنے کی سعی کی ہے.
عورتوں کیلئے ڈاکٹر کی کچھ ہدایات
1- ضروری نہیں کہ گھر کے تمام کاموں کو ایک ہی دن میں کیا جائے ۔ایسے کرنے والی خواتین سٹریس میں رہتی ہیں اور ایسی ہی کئی قبر کے نیچے آرام فرما رہی ہیں ۔
2 - اپنے آرام کیلئے کچھ وقت ضرور نکالیں ، کیونکہ کچھ دیر آرام کرنا اور کچھ من پسند کھانا کھانا قطع گناہ نہیں ہے۔
جھگڑے، زندگی کا حصّہ ہیں!
خواتین و حضرات!...
انصاف سے کام لیں تو کچھ کمی نہیں چھوڑی کسی نے، ایک اُس نے کہا تو ایک آپ نے... اور آپ کی آوازیں اونچی ہونے لگ گئیں!
اور کہانی توڑ پھوڑ کرنے تک پہنچ گئی؛
ایک حریم خاک میں ملی تو کئی حرمتیں ٹوٹ گئیں!
اللّٰہ کی پہچان
جو اللّٰه کو پہچان جائے وہ اس سے محبت کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا..وہ اتنا کریم ہے، اتنا رحیم ہے، وہ ایسی خوبصورت اور باکمال ذات ہے جس کو اگر کوئی جان لے، تو اسے اس ذات سے بے پناہ محبت ہو جائے، اس کی معرفت مل جائے تو اس سے محبت کرنے کے لئے خود پر جبر نہ کرنا پڑے، اصل بات ہی یہ ہے کہ ہم اسے پہچانتے ہی نہیں ہیں...
اللّٰہ کی گڈ لسٹ
"اللّٰہ کی گڈ لسٹ میں شامل ہونے کی کوشش کریں انسانوں کی نہیں، انسانوں کی لسٹ تو وقت اور مفاد کے مطابق بد لتی رہتی ہے"
باتوں کو بھلانے کی عادت
باتوں کو بھلانے کی عادت ڈال لیجیئے -
ھـر بات کو یاد رکھنا ، اپنے دماغ کا سکون خراب کرنے کے برابر ہوتا ہے -
زِندگی کے کچھ مقامات پر لاپرواہ رہنا سیکھیئے ، کیونکہ
جس طرح ہر بات کہنے والی نہي ہوتی اِسی طرح ہر بات سننے والی بھی نہيں ھـوتـی۔
کیسا یہ عشق ھے
ایک بچے نے اک استاد کو اپنےگھر ایک مضمون پڑھانے کے لئے مقرر کیا. استاد نے اسے اک ٹاپک سمجھایا اور کہا کہ آج شام میں گھر آکر اس کا ٹیسٹ لوں گا اس کی پریکٹس کر کے ٹیسٹ تیار کرلینا.
استاد جب شام کو بچے کے گھر گئے تو دیکھا کہ گلی میں قالین بچھا ھوا تھا جس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں اسے ڈھانپے ھوئے تھیں. گلی کے دونوں طرف کے تما گھروں کی دیواروں پر ہر رنگ کی بتیاں جل رھی تھیں. اورگلی کےاوپر رنگ برنگی جھنڈیوں کی چادر تنی ھوئی تھی آخرتک.
استاد جب گلی میں سے گزر کر بچے کے گھر کے دوازے پر پہنچے تو ان پر چھت سے پھولوں کی بارش برسائی گئی. اور فضا "مرحبا یااستاذ" کےفلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی. گھر کے دروازے پر بچے نے استاد کا پرتپاک استقبال کیا اور استاد کے ہاتھوں کو جھک کر ادب سے چوما اور انھیں آنکھوں پر لگایا.
استادنے پوچھا کہ "بیٹا یہ سب کیا ھے..؟" تو بچے نے جواب دیا کہ،،،، "استاد محترم مجھے آپ سے والہانہ پیار، محبت، عقیدت اورعشق ھے. آپ آج میرے گھر تشریف لائے ھیں تو یہ سارا انتظام آپ کی آمد کی خوشی میں آپ کے استقبال کے لئے میں نے کیا ھے.تاکہ آپ مجھ سے راضی اور خوش ھوجائیں."
استاد نے فرمایا کہ "اچھا بیٹا یہ بتاؤ کہ تم نے وہ ٹیسٹ تیار کیا ھے جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں.؟" تو بچے نے جوب دیا کہ "استاد محترم دراصل میں آپ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف رہا تھا اس لئے میں وہ ٹیسٹ تیار نھیں کر سکا." تو استاد نے فرمایا کہ.، ، ،
" بیٹا جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں اور جس کام سے میں نے تم سے راضی اور خوش ہونا تھا وہ تو یہ ٹیسٹ تھا جو تم نے تیار ھی نھیں کیا. اور جس کام کے کرنے کے لئے میں نے ایک مرتبہ بھی آپ کو نھیں کہا تھا آپ نے اس کام میں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر مجھے خوش کرنے کا کیسے سوچ لیا.؟ جس کام کے کرنے کا میں نے کہا ھی نھیں تھا اس کام سے بھلا میں خوش کیسے ھو سکتا ھوں.؟ اور جس کام سے میں نے خوش ھونا تھا وہ آپ نے کیا ھی نھیں. آپ کےخلوص اور جذبے پر مجھے کوئی شک نھیں بیٹا لیکن اس جذبے کی تکمیل اس راستے سے کبھی نھیں ھو سکتی جو آپ کو پسند ھو بلکہ صرف اسی طریقے سے ھو سکتی ھے جو مجھے پسند ھے."
بس یہی حقیقت ہمارے اپنے نبی سے عشق و محبت کی میرے بھائیو! جس کا بخار ہمیں صرف ربیع الاول میں ھوتا ھے. اگر ہم اپنے نبی کو راضی و خوش کرنا چاھتے ھیں تو اس کے لئے ہمیں طریقہ بھی وھی اختیار کرنا ھوگا جو خود نبی علیہ السلام نے بتایا تھا اور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جس پر عمل کرکے دکھایا تھا.
بے شک ہمارے خلوص اور عشق کی سچائی میں کوئی شک نھیں لیکن محبوب راضی اسی طریقے سے ھوتا ھے جو محبوب کو پسند ھو نہ کہ عاشق کو پسند ھو. اور وہ ایک ھی طریقہ ھے کہ حکم الله کا ھو اور طریقہ ِمحمد الرسول الله کا ھو. صلی الله عليه وسلم. اور زندگی اسی محبوب کی سنتوں کی اتباع میں گزر جائے.
کوئی لڑائی نھیں کوئی جھگڑا نھیں کوئی بحث و مناظرہ نھیں بس صرف آسان الفاظ میں آپ کےلیے سادہ سی دعوت فکر ھے. اس امید کے ساتھ کہ، ، ، ،
شاید کہ اتر جائےکسی دل میں میری بات
آنسو پونچھنا سیکھو
کل ایک کمال کا لطیفہ سنا. کسی لاہوری کا بیٹا تلاش روزگار میں ملک سے باہر گیا تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا داتا دربار گیا اور وہاں جا کر صدق دل سے پنجابی میں ایک دعا مانگی. "یا داتا، اسماعیل نوں دبئی وچ سیٹ کرادیو، پکا سیٹ کرادیو، جیویں تسی آپ لاہور وچ سیٹ او".( داتا صاحب، میرے بیٹے اسماعیل کو بھی اسی طرح دبئی میں سیٹ کرادیں، جیسے آپ خود لاہور میں سیٹ ہیں).ہنسا بھی، پھر خیال بھی آیا جس شہر میں قطب الدین ایبک، جلال الدین اکبر، جہاں گیر، نورجہاں، شاہ جہاں، آصف جاہ، رنجیت سنگھ جیسے آئے اور گرد بن گئے، وہاں داتا صاحب اتنے عرصے سے سیٹ کیسے بیٹھے ہیں؟ جواب ملا، بس ہزار سال سے لوگوں کے آنسو پونچھ پونچھ کر سیٹ ہوگئے ہیں. باقی شاہ اور شہنشاہ شاید یہ کام نہیں جانتے تھے تو وقت کے آتشدان میں راکھ ہوگئے.
ہاں، اپنی سارے علم کو، ادب کو، فلسفے کو، توانائی کو، ولولے کو، تجربے کو، فہم کو، کامرانیوں کو، باقی سب جگہوں پر کام میں لے کر آؤ، مگر ایک کام سب سے ضروری ہے. وہ یہ ہے کہ سر پر ہاتھ رکھنا سیکھو، گلے لگانا سیکھو، آنسو پونچھنا سیکھو، اگر باقی سارےگن سیکھ لئے مگر یہ گن نہ سیکھا تو سب ڈسٹ بن میں چلا جائے گا.
مرغی اور بطخ کے بچے پیدا ہونے کے پہلے گھنٹے میں اپنے آپ کو سنبھالنے جوگے ہوجاتے ہیں. ایک قسم کے زرافے کے بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں. کچھ طرح کی مکھیاں ہیں، ان کے بچے پانچ منٹ میں اپنی ماں کی طرح اڑنا سیکھ لیتے ہیں. مگر انسان ہے جسے اپنا جوگا ہونے میں ماہرین کے مطابق نو سال کی مدت درکار ہوتی ہے. وہ اتنے عرصے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے. پھر درمیان میں ایک مدت ایسی آتی ہے کہ اسےلگتا ہے کہ وہ پہاڑوں کاسرمہ بنادے گا اور کوہساروں کو شق کر کے دودھ کی نہر نکال دے گا اور بادلوں کوآپس میں ٹکرا دے گا. پھر اس کی زندگی کا آخری وقت آتا ہے جب وہ پھر چلنے، پھرنے، کھانے پینے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے. دائرہ پھر مکمل ہوجاتا ہے.
دلائی لامہ نے کیسی خوبصورت بات کی ہے "ہماری زندگی کے ابتدائی اور انتہائی دونوں ادوار لوگوں کے سہارے گزرتے ہیں، جزبات اور احساسات کے سہارے گزرتے ہیں. یہ دنیا کتنی بہتر ہوجائے کہ ہم درمیان والی مدت میں بھی زور کی بجائے رحم، کرم اور شفقت سے کام لیتے رہیں اور یہ سبق بھلا نہ دیں".
لیکن عام طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ دنیا زورآوروں آور زرداروں کی ہے. ماہرین نفسیات اور بشریات نے بہت دلچسپ تجزیہ کیا کہ گو دنیا بھر کے سہارے مذاہب اور ثقافتوں میں عاجزی کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں، مگر واقعی اس ثقافت کا اصل کیا ہے، اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب بھی آپ اسی ثقافت میں ان کے مجسموں کا مطالعہ کریں گے. اگر ان کے تمام ہیروز مغرور اور جنگجو لوگ ہوں گے، یہیں سے سمجھ جانا چاہیے کہ آپ کی اندرونی نفسیات کیسے کام کرتی ہے. جب سفید گھوڑے پر سمشیر خاراشگاف لہراتے ہوئے سورما کا انتظار ہوگا تو سوچ بھی متشدد ہوجائے گی. ایدھی اور چاہئیں، ڈاکٹر امجد ثاقب اور چاہئیں، رتھ فاؤ اور چاہئیں تو مجسمے بھی انہی کے لگانے ہوں گے.
کچھ لوگ زندگی میں اس قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ ہتھوڑا ہیں، اور باقی دنیا کیل ہے، جہاں کیل دیکھو، اسے ٹھونک دو. اس قانون پر پوری زندگی گزارتے گزارتے کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑے ہتھوڑے کی زد میں آتے ہیں اور کسی کیل کی طرح ٹھونک دیے جاتے ہیں. ایسے ہتھوڑے ہمارے آس پاس ہر طرح کے کرداروں کی شکل میں موجود ہیں، ویسے تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے جیسے نیم قبائلی معاشروں میں ہتھوڑے اور کیل زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں. نوکر شاہی اور لیڈرشپ کی پاکستانی نفسیات جہاں تک سیکھی تھی اس کے حساب سے اپنے ہاں تقریباً ہر کیل کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ بڑی ہوکر ہتھوڑا بن جائے.
ہاں، صرف کیل اور ہتھوڑوں کے کلچر میں نہیں رہا جاسکتا. کوئی مرہم لگانے والا بھی ہو، کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی ہو، کوئی آنسو پونچھنے والا بھی ہو. کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کوئی ہم خود ہی ہوں. کیا ہی بہتر ہو جس عاجزی ہر ہم اپنے خیال میں ایمان رکھتے ہیں، ہمارے مجسمے بھی اسی لے میں ڈھل. جائیں. جہاں کیل، ہتھوڑے بنتے ہیں، وہاں مرہم بھی تو بنا جاسکتا ہے.
( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )
Subscribe to:
Posts (Atom)