Tuesday, December 8, 2020

الا بذکر اللّٰه تطمئن القلوب

اکثر  لوگ  شکایت  کرتے  ہیں کہ وہ اضطراب بے چینی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اپنی  زندگی کے بارے  میں  سوچ  کر  انہیں بہت گھٹن محسوس ہوتی ھے
 
 *الله سبحان وتعالی*  نے قرآن میں ایک اصول بتایا ھے یقینا الله کے ذکر  سے  ہی  دلوں  کو  اطمینان ملتا ھے

اب سوال یہ کہ وہ ذکر ھے کیا ؟ 
 *سبحان الله   الحمد لله  الله اکبر* 
 *لا الہ الا الله* _اس طرح کے اذکار ہیں جو ہمیں ہر وقت پڑھتے رہنا چاہیے __ کیونکہ ایک  مومن کی ذبان ہمیشہ  الله سبحان  وتعالیٰ کے ذکر سے تر رہتی ھے

اپنی  نمازوں   کی  Quality  کو بھی بہتر کریں _ قرآن مجید جو کہ سب  سے بڑا ذکر کا ذریعہ ھے اس کو پڑھنا  اس پر  غور  وفکر کرنا

 شکر گزاری کی عادت  اپنے اندر پیدا کیجئے اور خود  کو  گناہوں سے دور کرنا

یہی وہ ذکر ہیں ____ جو  ہماری زندگیوں سے  بےچینی  اضطراب اور  ذہنی  دباؤ  کو   دور  کر  کے اطمینان   کا    باعث   بنتے   ہیں

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Sunday, December 6, 2020

حقیقی کامیابی

4 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ پیشاب کپڑوں میں نہ نکلے

8 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو 

12 سال کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دوست احباب ہوں

18 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنی آتی ہو

23 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھی ڈگری حاصل کر لی ہو

25 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی اچھی نوکری مل گئی ہو

30 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بیوی ،بچے ہوں

35 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ مال ودولت پاس ہو

45 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دیکھنے میں خود بخود جوان لگے

50 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بچے تمہاری اچھی تربیت کا صلہ دیں

55 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں بہار قائم رہے

60 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھے طریقے سے گاڑی ڈرائیو کر سکيں

65 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی مرض نہ لگے

70 برس کی عمر میں ..... کامیابی یہ ہے کہ کسی کی محتاجگی محسوس نہ ہو

75 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ تمہارا حلقہ احباب ہو

80 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو

85 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کپڑوں میں پیشاب نہ نکل جائے
جہاں سے انسان چلا اب تک وہیں پہ پہنچ گیا

​وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡهُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۸﴾ (يٰس-68)​
​اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو اُلٹ دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی۔​

ایسی ہی ہے یہ دنیا- لہٰذا دنیا کے پیچھے بھاگنے کے بجائے آپ آخرت  کی فکر کریں ، کیونکہ آخرت کی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے... 

Friday, December 4, 2020

غرض کا پیالہ

بادشاہ نے اپنے وزیر کو 3 شرطوں کے عوض اپنی آدھی سلطنت دے دی،پڑھیے سبق آموز واقعہ
بادشاہ کا موڈ کافی اچھا تھا' وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا "تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے" وزیر شرما گیا' اس نے منہ نیچے کر لیا' بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "تم گھبراﺅ مت' بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ" وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا "حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں' میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا" وزیر خاموش ہو گیا' بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟" وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا "بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے' میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں" بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا' بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا' دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا' وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا' بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا "تمہارے پاس تیس دن ہیں' تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں' تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا" وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی' بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا "میرے تین سوال لکھ لو" وزیر نے لکھنا شروع کر دیا' بادشاہ نے کہا "انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟" وہ رکا اور بولا "دوسرا سوال' انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے" وہ رکا اور پھر بولا "تیسرا سوال' انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے" بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا "تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب" . وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی'اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور' ادیب' مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے' ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن  وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے' وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا' وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا' وہ مارا مارا پھرتا رہا' شہر شہر' گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا' شاہی لباس پھٹ گیا' پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی'جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے' یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا' اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا' وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے' کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا' وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا' آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی' وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا' فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا' ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا' فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی' قہقہہ لگایا اور بولا "جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں' آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں"وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا "آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا' میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے" فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے' مسکرایا' اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا "یہ دیکھئے' آپ کو بات سمجھ آ جائے گی" وزیر نے جھک کر دیکھا' بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی' یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا' فقیر نے کہا "جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا' 

مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ان شاء اللہ عزوجل

میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی'نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے" فقیر نے اس کےاور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا' وزیر نے دکھی دل سے پوچھا "کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے" فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "میرا کیس آپ سے مختلف تھا' میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے' میں نے بادشاہ کو جواب بتائے' آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا' بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا' میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں" وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا' جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا "کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں" فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا "میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی" وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا' اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی'فقیر بولا "دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے' انسان کوئی بھی ہو' کچھ بھی ہو' وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا" وہ رکا اور بولا "انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے' ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے" فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے' وزیر سرشار ہو گیا' اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی' فقیر نے قہقہہ لگایا' کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا' وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا "میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے" وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا .اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا' وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا "اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں' تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ' فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے" وزیر مخمصے میں پھنس گیا' ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا' وہ سوچتا رہا' سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی' وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا' فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا "میرے بچے' انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے' یہ اسے کتے کا جوٹھا تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا' میں جان گیا تھا' میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا' میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا' میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے' زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو' تمہاری زندگی اچھی گزرے گی" وزیر خجالت' شرمندگی اور خود ترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا' وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا' اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا' وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا' اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی' وہ گھوڑے سے گرا' لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے' ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے' ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے' ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ' مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہوتے چلے جائیں گے .اور زندگی کی اصل کو سمجھ جائیں گے۔

Wednesday, December 2, 2020

دھوپ کی اہمیت

 اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت سورج بھی ہے اور اس کی دھوپ میں بہت سارے فوائد رکھے گئے ہیں۔

جسم انسانی کی صحت کے لئے دھوپ کا اہم کردار ہے۔ ایک کہاوت ہے، جس گھر میں سورج داخل نہیں ہوتا اس گھر میں ڈاکٹر داخل ہوتا ہے```۔۔۔

نکاح....

  •  بدقسمتی کی انتہا، مدارس، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔
  • بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے. اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
  • انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے۔ اور  اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔
  • اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔
  • ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں۔۔

Tuesday, December 1, 2020

انسان کی حقیقت

ﺍﯾﮏ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﭩﻮﮈﻧﭩﺲ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﺗﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺱ ﭼﯿﺰ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮬﮯ؟
ﺳﺐ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺌﮯ۔
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺑﮍﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ !
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﺘﺎﺑﯽ ﭼﮩﺮﮦ !

Sunday, November 22, 2020

محبت

پہلی محبت دل خالی کر جائے تو،،، دوسری محبت اُسے بھر بھی سکتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دل کِرچی کِرچی کردے تو،،، دوسری محبت مرہَم بن بھی جاتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دُھتکار دے تو،،، دوسری محبت گلے لگا بھی لیتی ہے۔۔۔ پَر اکثر پہلی محبت کے بعد دوسری محبت بھی ہار جاتی ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی اِسے قبول کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔ کوئی اِسے موقع دینا ہی نہیں چاہتا۔۔ اور ہر کسی کا ظرف اجازت بھی نہیں دیتا۔۔۔!!!

ایک چھوٹی سی تحریر

ایک شخص سمندر کے  کنارے  واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا  کہ کوئی شخص نیچے جھکتاہے ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے  ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پر پڑی تڑپ رہی ہیں  شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھا اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔

بیک فائر ایفیکٹ!!!

من میں کھڑکی سیریز!

بیک فائر ایفیکٹ!!! 

کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھی کیوں نگل لیتے ہیں؟ اپنے بے پیندے اور لولے لنگڑے مؤقف ہر کیوں جم جاتے ہیں؟ اور جان بوجھ کر دیوار پر لکھا پڑھنے سے کیوں انکار کردیتے ہیں؟ آپ نے نہیں بھی سوچا تو نفسیات دانوں نے اس پر بہت سوچا اور جواب تک پہنچنے کی سعی کی ہے.