Saturday, December 12, 2020

شادی کی پہلی رات

 خاوند کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے بیوی  کے قریب آ کر بیٹھ گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنی بیوی کو سلام کیا اس کے بعد  پانچ ہزار حق مہر دینے لگا ۔ بیوی نے کہا " میں نے حق مہر نہیں لینی میں  آپ کو معاف کرتی ہوں " خاوند نے دوسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے  یہ ہی جواب دیا ، پھر خاوند نے تیسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے  پھر وہ ہی جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 خاوند نے وہ پیسے اپنے بٹوے میں رکھ دیۓ اور چند منٹوں کے لیے سوچوں میں گم ہو گیا کہ کتنی توکل والی اور وفا والی بیوی ہے جو پیسوں سے زیادہ مجھے ترجیح دے رہی ہے ۔۔۔۔
 اس کے بعد خاوند نے منہ دیکھاٸی کے لیے بیوی کو پانچ ہزار دیۓ بیوی نے منہ  نہ دیکھایا ۔ پھر خاوند نے دس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ، پھر  خاوند نے پندرہ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ، پھرخاوند نے بیس ہزار  دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔پھر پچیس ، تیس ، چالیس حتی کہ خاوند نے  پچاس ہزار دیا بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ خاوند نے تنگ آ کر پورا بٹوہ بیوی  کے حوالے کر دیا جس کے اندر ایک لاکھ روپے تھے پھر بھی بیوی نے منہ نہیں  دیکھایا ۔۔۔۔خاوند نے بیوی سے کہا ۔۔
 " آپ کو اور کیا چاہیے " بیوی نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ 
 خاوند نے کہا "کون سا وعدہ" 
 "بیوی نے کہا مجھ سے ایک وعدہ کرو مجھے کھبی چھوڑوں کے تو نہیں "
 خاوند نے شادی کی پہلی رات بیوی کو نہ چھوڑنے کا وعدہ کر لیا ۔ یہ لڑکی  کوٸی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ اس نے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور اس کے  والدین نے داماد سے ضمانت کی طور پر پانچ لاکھ ۔ یا دس لاکھ بھی نہیں  لکھوایا تھا ۔ ایسی عورتیں نصیب والے مردوں کو ملتی ہیں جو صرف خاوند سے  پیار کرتی ہیں ان کی نظر میں پیسوں کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی ۔ایسی بیویاں  معاشرے کے لیے رول ماڈل ہیں ۔جن کی وجہ سے ہمارہ معاشرہ چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
چاہت خلوص کی کچھ کم نہ تھی 
 کم شناس لوگ دولت پر مر گۓ
اللہ تعالیٰ سب بیٹیوں کے نصیب  اچھے کرے.👐👐
 آمین ثمہ آمین

انسان کی سوچوں کا کمال

ہم دن بھر جو سوچتے ہیں اور جو وسوسے دن بھر ہماری گود میں پلتے ہیں وہ اکثر رات کے پچھلے پہر ہمارا دردِ سر بن جاتے ہیں.
زیادہ تر ایسا کسی اپنے قریبی کو کھو دینے یا تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے.
تنہائیوں کا بسیرا ہمارے ارد گرد نہیں بلکہ درحقیقت ہمارے اندر ہی ہوتا ہے.
تنہائی ایک اندرونی کیفیت ہے آپ اسے بیرونی کیفیت قطعاً نہیں کہہ سکتے اور جو کیفیت اندرونی ہو اس کا علاج بھی اندر ہی موجود ہوتا ہے یعنی کہ ہماری تنہائی کا علاج ہمارے ہی پاس ہوتا ہے مگر ہم اس بیماری کے علاج کیلئے طبیب کی تلاش شروع کر دیتے ہیں.
ہماری زیادہ تر پریشانیوں اور ٹینشن یا سٹریس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں. ہم خود کو بلا وجہ الجھائے رکھتے ہیں. بے جا کہ وسوسے اور الجھنیں پال رکھی ہیں ہم نے.
اکثر اوقات ہم چیزیں خود سے فرض کرتے ہیں اور ان کے فرضی نتائج بھی نکال لیتے ہیں. ہمارے اندر کی بیزاری اور اکتاہٹ کی وجہ کوئی دوسرا یا تیسرا نہیں ہم خود ہی ہیں. کیونکہ ہم خوابی دنیا میں جی رہے ہیں، جب ہم حقیقت سے نظریں چراتے ہیں تو ہم بیزار ہوتے ہیں.
زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہو کر رہنا ہے، ہم جو مرضی کوشش کر لیں ہو کر رہے گا تو بہتر ہے کہ ہونے دیں.
جو ہم بدل نہیں سکتے اس کے بارے سوچ کر بھی ہمیں کچھ نہیں ملنا. 
"Don't stuck your mind with those things you can't understand".
ہر سٹریس کا ایک حل ہے کہ آپ اپنی مصروفیات کو بڑھا دیں، آپ کی جو انرجی منفی خیالات پر خرچ ہوتی ہے اس کا رخ مثبت خیالات کی جانب موڑ دیں، لوگوں سے مثبت گفتگو کریں، یاد رکھیں کہ مثبت مکالمہ آپ کے ذہن کے بند دروازوں کو بھی کھول دیتا ہے. مثبت موضوعات پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں، ورزش کریں، اپنے آپ پر توجہ دیں کیونکہ خوشی انسان کے اندر جبکہ غم باہر موجود ہوتے ہیں. آپ جب خود پر توجہ دیتے ہیں تو آپ کی اندرونی کیفیت بحال ہو جاتی ہے اور اس طرح آپ کو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے. افسانوں میں جینے والے ہمیشہ سٹریس کا شکار رہتے ہیں، وہ حقیقت کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے.
جو انسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے وہی انسان دوسروں سے محبت کر سکتا ہے، جب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں تو ہر کام میں اپنا بھرپور پوٹینشل دیتے ہیں، رشتوں کی قدر کرتے ہیں، ارد گرد رہنے والوں کا خیال کرتے ہیں. جو انسان خود سے محبت نہیں کرتا وہ اپنے آپ میں الجھا رہتا ہے، جو خود میں الجھا ہو وہ کسی کی الجھی ڈوری کو نہیں سلجھا سکتا. چلتے رہیں، آگے بڑھتے رہیں ♥️

اللّٰہ سے باتیں

کبھی کبھی اللّٰہ سے باتیں کر لیا کرو
 اے ابن آدم!!.... 
 لوگ تمہیں طنز کریں گے... 
 تمہاری  امانت کو خود تک محفوظ کرنے والے بہت کم ہوں گے... 
 بعض ان میں سے تمہارے مسائل بڑھانے والے ہوں گے...
  انکی بجائے اس ذات پاک سے رابطہ کرو جو تمہارے مسائل حل کر دے...
  تمیں سیدھی راہ کی طرف لے آئے.. 
غلط  صحیح  کی پہچان کروا دے... 
 جو سننے والا ہے اسے اپنے غم سناؤ.. 
 وہ سنتا ہے دلوں کی آوازوں کو, خاموشی کو...
دلوں کے راز جاننے والا ہے..
  اپنا کنکشن اس ذات کے ساتھ مضبوط کر لو جو ہر وقت تمہاری شہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے... 
 دوست بناؤ.. پر اپنا ایک خاص دوست صرف اللہ کو ہی بناؤ..  اسی پر یقین رکھو... 
وہ سن لے گا تو حل سمجھا بھی دے گا.  مشکل میں صبر کی توفیق بھی دے گا.... 
خود سوچیں..  جب کوئی ہم سے پوچھے گا کہ آپکا خاص دوست کون ہے تو ہم کہیں گے اللہ پاک ہیں.. 
کتنا الگ سا, خوبصورت  سا احساس,  سکون ملتا ہے نا...  
خود کو اپنے خالق کی قریب کریں..  وہ تو پہلے سے ہی ہمارے بہت قریب ہے..  

ڈپریشن

ایک اھم امدادی تحریر
تعارف:
وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے  شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔  عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے  اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:

• اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو

•  اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔

ڈپریشن میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ڈپریشن کی بیماری کی  شدت  عام اداسی کے مقابلے میں جو ہم سب وقتاً فوقتاً محسوس کرتے ہیں  کہیں زیادہ گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔  اس کا دورانیہ بھی عام اداسی سے کافی زیادہ ہوتا ہےاور مہینوں تک چلتا ہے۔ درج ذیل ًعلامات ڈپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات مو جود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں۔

۱۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ  رہنا 

۲۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو  ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا

۳۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا

۴۔ روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا

۵۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جاناا

۶۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا

۷۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا

۸۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا

۹۔ نیند خراب ہو جاناا

۱۰۔ بھوک خراب ہو جانا

ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟
بعض لوگوں میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ بہت سے لوگوں کو جو اداس رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس کے باوجود ان کا ڈپریشن بعض دفعہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انھیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

•معاملاتَ زندگی
بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم  لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات طاہر رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

• حالات وواقعات
اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

• جسمانی بیماریاں
جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو زندگی کے لیے خطرناک ہوں مثلا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بہت لمبے عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ ہوں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن مثلاً فلو کے بعد ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

• شخصیت
ڈپریشن کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہےلیکن بعض لوگوں کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہماری شخصیت بھی ہو سکتی ہے اوربچپن کے حالات و تجربات بھی۔

• شراب نوشی
جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔بعض دفعہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ انسان شراب پینے کی  وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے یا ڈپریشن کی وجہ سے شراب زیادہ پینے لگا ہے۔جو لوگ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں خود کشی کرنے کا خطرہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

• جنس
خواتین میں  ڈپریشن ہونے کا امکان  مرد حضرات سے زیادہ ہوتا ہے۔

• موروثیت
ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک  کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اورلوگوں کے مقابلے میں آٹھ   گنا زیادہ  ہے۔

مینک ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
جن لوگوں کو شدید ڈپریشن ہوتا ہے  ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں کو ایسےتیزی کے  دورے بھی ہوتے ہیں جب وہ بغیر کسی وجہ کے بہت زیادہ خوش رہتے ہیں اور اور نارمل سے زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔  اس تیزی کے دورے کو مینیا اور اس بیماری کو  بائی پولر ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح مردوں اور عورتوں میں برابر ہے اور یہ بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔

کیا ڈپریشن انسان کی ذاتی کمزوری کا دوسرا نام ہے؟
جس طرح سے ذیابطیس ایک بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بڑھ جانا ایک بیماری ہے اسی طرح سے ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔

ڈپریشن میں آپ کس طرح سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؟
•اپنی جذباتی کیفیات کو راز نہ رکھیں۔
اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہو تو اسے کسی قریبی شخص سے شیئر کر لیں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اکثر دفعہ غم کی باتوں کوکسی قریبی شخص کے سامنے  بار بار دہرانے، رو لینے  اور اس کے بارے میں بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔

•جسمانی کام کریں۔
کچھ نہ کچھ ورزش کرتے رہیں، چاہے یہ صرف آدھہ گھنٹہ روزانہ چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں چاہے یہ گھر کے کام کاج ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے انسان کا ذہن تکلیف دہ خیالات سے ہٹا رہتا ہے۔

•اچھا کھانا کھائیے۔
متوازن غذا کھانا بہت ضروری ہےچاہے آپ کا دل کھانا کھانے کو نہ چاہ رہا ہو۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ڈپریشن میں لوگ کھانا کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے بدن میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے اور طبیعت اور زیادہ خراب لگتی ہے۔

•شراب نوشی سسے دور رہیں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب پینے سے ان کے ڈپریشن کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں شراب پینے سے ڈپریشن اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے وقتی طور پر کچھ گھنٹوں کے لیے تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بعد میں آپ اور زیادہ اداس محسوس کریں گے۔ زیادہ شراب پینے سے آپ کے مسائل اور بڑھتے ہیں، آپ صحیح مدد نہیں لے پاتےاور آپ کی جسمانی صحت بھی خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

•نیند
نیند کے نہ آنے سے پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ سو نہ سکیں تو پھر بھی آرام سے لیٹ کر ٹی وی دیکھنے یا ریڈیو سننے سے آپ کو ذہنی  سکون ملے گا اور آپ کی گھبراہٹ بھی کم ہو گی۔

•ڈپریشن کی وجہ کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ کولگتا ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن کی وجہ معلوم ہے تو اس کو لکھنے اور اس پہ غور کرنے سے کہ اسے کیسے حل کیا جائے ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

•مایوس نہ ہوں۔
اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ:

آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں۔

ایک نہ ایک روز آپ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا نہ لگتا ہو۔

ڈپریشن کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ڈپریشن کا علاج باتوں (سائیکو تھراپی) کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے،  اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے ذریعے بھی اور بیک وقت دونوں کے استعمال سے بھی۔ آپ کے ڈپریشن کی علامات کی نوعیت، ان کی شدت اور آپ کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے لیے ادویات کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا سائیکو تھراپی۔ ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں سائیکوتھراپی کے استعمال سے طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے  لیکن اگر ڈپریشن زیادہ شدید ہو تو دوا دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

 باتوں کے ذریعے علاج (سائیکوتھراپی)
ڈپریشن میں اکثر لوگوں کو اپنے احساسات کسی با اعتماد شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے۔بعض دفعہ اپنے احساسات رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ بانٹنا مشکل  ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) سے بات کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔سائیکوتھراپی کے ذریعے علاج میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے آپ کو ماہر نفسیات سے ہر ہفتے ایک گھنٹے کے لیے ملنا ہوتا ہے اور اسکا دورانیہ ۵ ہفتے سے ۳۰ ہفتے تک ہو سکتا ہے۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات۔
اگر آپ کا  ڈپریشن شدید ہو یا کافی عرصے سے چل رہا ہو تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا ڈاکٹر آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ ادویات تجویز کرے۔ ان ادویات سے اداسی کم ہوتی ہے، زندگی بہتر لگنے لگتی ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بہتری ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا فائدہ دوا شروع کرنے کے بعد فوراً نظر آنا شروع نہیں ہوتا بلکہ اس میں ۲ سے ۳ ہفتے لگ سکتے ہیں۔بعض لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوا شروع کرنے  کے بعد چند ہی دنون میں ان کی نیند بہتر ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کم ہو جاتی ہے لیکن ڈپریشن کم ہونے میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کس طرح کام کرتی ہیں؟
انسانی دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ڈپریشن میں دو خاص کیمیکلز  کی کمی ہوتی ہےجنھیں  سیروٹونن اور نارایڈرینلین کہا جاتا ہے ۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ان کیمیکلز کی مقدار دماغ میں بڑھانے میں مددگار ہو تی ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مضر اثرات۔
دوسری تمام ادویات کی طرح ڈپریشن مخا لف ادویات کے بھی مضر اثرات ہو تے ہیں مگر عام طور سے یہ شدید نہیں ہوتے اور دوا لیتے رہنے سے کچھ عرصے میں ختم ہو جاتے ہیں ۔ ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کے دنوں میں کچھ مریضوں میں متلی اور بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ ٹرائی سائکلسٹ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے شروع کے چند ہفتوں میں منہ کی خشکی اور قبض کی شکایات ہو سکتی  ہیں۔ اگر یہ مضر اثرات بہت شدید نہ ہوں تو امکان یہی ہے کہ آپ کا ڈاکٹر  آپ کو کہے گا کہ دوا جاری رکھیں کیونکہ اکثر مریضوں میں دوا جاری رکھنے سے یہ اثرات کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔

بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کولینے سے  نیند  آتی ہےاس لیے  ان کو رات سونے سے پہلے لینے کی ہدایت کی جاتی  ہے۔ غنودگی کی صورت میں گاڑی چلانے اور بڑی مشینری کے استعمال سے گریز کریں۔ بعض ادویات کا بعض دوسری ادویات کے ساتھ ری ایکشن ہو سکتا ہےاس لیے  اپنے ڈاکٹر کو ہر اس دوا سے آگاہ کریں جو آپ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے کے ساتھ ساتھ شراب پینا جاری رکھیں گے  تو آپ کو بہت زیادہ نیند آئے گی اور دوا کا پورا فائدہ بھی نہیں ہو گا۔

دوا شروع کرنے کے بعد اپنے ڈاکٹر کو باقاعدگی سے دکھاتے رہیں تا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ آپ کو دوا سے فائدہ ہو رہا ہے کہ نہیں اور اس کے مضر اثرات تو نہیں ہو رہے۔اینٹی ڈپریسنٹ ادویات طبیعت صحیح ہو جانے کے بعد بھی کم از کم مزید  چھ مہینے تک جاری رکھنی پڑتی ہیں ورنہ بیماری کی علامات واپس  آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات آہستہ آہستہ بند کی جاتی ہیں۔ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے اچانک دوا بند نہ کریں۔

اکثر لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کرنے  سے پہلے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ ان کے عادی ہو جائیں گےاور پھر انھیں ساری عمر ان دوائیوں کو لینا پڑے گا۔ یہ خیال صحیح نہیں، انسان اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا س طرح سے عادی نہیں بنتا جیسے لوگ نیند کی دوائیوں مثلاً ویلیم، شراب یا نکوٹین کے عادی ہو جاتے ہیں۔ان نشہ آور چیزوں کے برعکس  نہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کا فائدہ برقرار رکھنے کے لیے ان کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی شدید طلب ہوتی ہے۔ البتہ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو اچانک بند کریں تو گھبراہٹ، پتلا پاخانہ اور ڈراؤنے خواب کی شکایات ہو سکتی ہیں۔اگر دوائیں آہستہ آہستہ بند کی جائیں تو یہ شکایات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔

کیا مجھے ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ)  کو دکھانا ہو گا؟
ڈپریشن کے بہت سارے مریض اپنے فیملی ڈاکٹر کے علاج سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت اس سے صحیح نہ ہو تو ہو سکتا ہے آپ کو ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانے کی ضرورت پڑے۔ سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر ہو تے ہیں اور اس کے بعد  انہوں نے نفسیاتی امراض کے علاج  میں مزید تربیت حاصل کی ہو تی ہے

علاج نہ کرانے کی صورت میں کیا ہو تا ہے؟
اچھی خبر یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض  علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی  بیس فیصد مریض بغیر علاج کے  اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو انسان کئی مہینو ں تک اتنی  شدید تکلیف کیوں برداشت کرتا رہے۔ کچھ لوگوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ اسی لیے اگر آپ کے  ڈپریشن کی علامات کی شدت بڑھ گئی ہے اور  ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی، آپ کے  ڈپریشن نے آپکے  کام، دلچسپیوں، اور رشتہ داروں اور دوستوں سے تعقات  کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، یا آپ کو اس طرح کے خیالات آنے لگے ہیں کہ آپکے  زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور  دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ مر جائیں، تو آپ کو فوراً اپنا علاج کروانے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا سائکائٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

شیر شاہ سوری

کچھ مسلم حکمران تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے' شیر شاہ سوری ان میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ ایک نڈر' عالی طرف اور مردم شناس مسلم بادشاہ تھا' رعایا پروری' عدل و انصاف' مساوات اور حسنِ سلوک کی جس نے شاندار مثالیں قائم کیں اور ایسے عظیم کارنامے انجام دیے جنہیں یاد کر کے آج بھی رشک آتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ۔ سولہویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی جو کابل سے کلکتہ تک پھیلی ہوئی تھی تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔ اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل سے ہوتا ہوا پہلے لاہور پھر دہلی سے ہو کر بالآخر کلکتہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس سڑک کے کناروں پر مسافروں کی سہولتوں کی خاطر جگہ جگہ سرائے بنائے گئے اور سائے کے لیے اسے درختوں سے سجایا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے ان سڑکوں کی دونوں جانب سایہ دار درخت لگوائے اور ان کے پھل مسافروں کے لیے وقف تھے، نیز ان دونوں سڑکوں پر ہر تین کوس پر پختہ سرائے بنوائیں اور ان میں دو باورچی خانے بنوائے' ایک مسلمانوں کے لیے اور ایک ہندوئوں کے لیے اور عام حکم دیا کہ بلاتفریق ہر مسافر کی مہمان نوازی سرکاری خزانے سے کی جائے اور ہر سرائے میں جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر پولیس کا انتظام کیا گیا۔ اسی طرح ہر سرائے کے دروازے پر ایک نقارہ تھا اور بادشاہ کی طرف سے حکم تھا کہ جس وقت ہم کھانا کھانے بیٹھیں' اسی وقت تمام مسافروں کیلئے کھانا لگا دیا جائے اور آگرہ سے بنگال تک تمام نقارے ایک دوسرے کی آواز سن کر بجائے جائیں تاکہ معلوم ہو جائے ہم تنہا ہندوستان کے ایوانِ شاہی سے محظوظ نہیں ہو رہے بلکہ ہمارے ساتھ ہماری پردیسی اور غریب رعایا بھی خدا کی عنایت کردہ نعمتوں میں شریک ہے۔
شیر شاہ سوری کے یوں تو تمام منصوبے عوام کی خیر خواہی اور فلاح کے لئے تھے لیکن مسافروں کی مہمان نوازی کے لئے جو سرائے تعمیر کی گئیں وہ اپنی مثال آپ تھیں۔

انسان کی 9 آرزوئیں

موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱- يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏ 40#)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۲- * يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي *
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ 
‏( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 ‏)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۳- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۴- يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۵- يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۶- يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۷- يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۸- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﯿﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۹- يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯﺑﻌﺪﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ، ﺍسی لئے ﺯﻧﺪﮔﯽ میی ہی اپنے عقائد و عمل کا ﺍﺻﻼﺡ کرناﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﮰ۔
*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ

قابل بنیں انگریز نہیں


آپ ترکی اور ترک لوگوں کی " جہالت " کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ " پین " (درد) کے معنی جانتا ہو۔
 اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپکا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے ۔

 آپ چین کی مثال لے لیں ماؤزے تنگ کی " جہالت " کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی۔ جب کبھی کوئی لطیفہ ان کو انگریزی میں سنایا جاتا ان کی آنکھوں کی پتلیوں تک میں کوئی جنبش نہیں ہوتی تھی اور جب کوئی وہی لطیفہ چینی زبان میں سناتا تو قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وہ ہمیشہ بولتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے۔

 ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے لیں ، ان کی ماں نے ساری زندگی گھروں میں کام کیا اور باپ نے اسٹیشن پر چائے بیچی وہ حالات کی وجہ سے گھر سے بھاگے دن رات محنت کے بعد گجرات کے وزیر اعلی بنے اور بعد ازاں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ نریندر مودی کی کوئی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ہندی بولتے نظر آئینگے۔
 ہندوستان کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندی میں بات کرتی ہیں۔ صدر ترکی طیب اردوگان پاکستان آئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں خطاب کیا ، پاکستانی قوم ، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو یہ بھی بتا گئے کہ کسی قوم کی ترقی کی علامت اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔ 

 ہم مرعوبیت کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی کرکٹر پاکستان سے باہر اردو میں بات کرلے تو ہم منہ چھپا چھپا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی پرفارمنس کو کرکٹ سے ناپنے کے بجائے انگریزی سے ناپتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس خوبصورتی کا معیار گورا رنگ اور قابلیت کا معیار انگریزی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا واحد مقصد انگریزی ہوتا ہے۔ 

کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکا اور برطانیہ میں ماں باپ بچوں کو کیوں اسکول میں داخل کرواتے ہونگے ؟ ہماری ذہنی غلامی کا تماشہ دیکھیں ہم نے اسکولز تک کو انگریزی اور اردو میڈیم بنایا ہے ۔ قوم کا غریب اور زوال پذیر طبقہ اردو پڑھے گا جبکہ امیر اور پیسے والا طبقہ انگریزی۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی۔ تخلیق ، تحقیق اور جستجو کا تعلق انگریزی سے نہیں ہوتا اور اگر آپ ان چیزوں کا تعلق بھی انگریزی سے جوڑ دینگے تو پھر وہی ہوگا جو اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو پورے ملک میں سوائے دو چار کے کوئی قابل ذکر سائنسدان ، کوئی تحقیق کرنے والا ڈاکٹر اور کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئیر نہیں ملے گا۔ اس قوم کا نوجوان بھلا کیسے کچھ سوچ سکتا ہے جس کا واحد مقصد اپنی انگریزی درست کر کے اعلی نوکری حاصل کرنا ہو۔ جو لکیر کا فقیر بن چکا ہو۔

 بنا سوچے سمجھے بس رٹے لگائے جائے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہمارے بچوں کو انگریزی آتی نہیں ہے اور اردو مشکل لگتی ہے۔ آپ کسی بھی نوجوان کو راستے میں روکیں اور اس کو انگریزی میں ایک درخواست لکھنے کا بول دیں وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے گا۔ اصل بیڑہ غرق اس موبائل فون کی رومن اردو نے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو اردو کے الفاظ تک لکھنا بھول چکی ہے۔ حتی کہ موبائل کمپنیز کے آفیشل میسجز تک رومن اردو میں موصول ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔

 بھائی ! دنیا میں اور کس زبان کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہو رہا ہے کہ اس کے فونٹس کی موجودگی میں آپ کو " رومن " لکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ کسی میں دم نہیں ہے کہ واٹس ایپ یا میسج انگریزی مٰیں کرے ساری قوم اردو میں کرتی ہے لیکن " رومن " اردو میں۔ پلے اسٹور سے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اردو لکھنے میں کونسی جان جاتی ہے میں ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہمیں لکھنی بھی اردو ہے اور اردو میں بھی نہیں لکھنی ہے۔

 مجھے شاذ و نادر ہی کوئی والدین ایسے ملے ہوں کہ جنھوں نے اپنے بچے کے اخلاق ، کردار ، گفتگو اور تمیز تہذیب پر بات نہ کی ہو سارا وقت اس کی اخلاقی حالت کو روتے رہے اور آخر میں مدعا یہ ٹھہرا کہ آپ کسی طرح اس کی انگریزی ٹھیک کروائیں۔ میں نے اس ملک میں اور اس دنیا میں قابلیت کا کوئی نمونہ انگریزی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ چین ، جاپان ، ترکی ، جرمنی ، فرانس اور اب تیزی سے ابھرتا ہوا بھارت ان میں سے کونسے ملک نے انگریزی کی وجہ سے کامیابی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں ؟

 پاکستان کے سب سے بڑے موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ ، بزنس ٹائیکون ملک ریاض  ان میں سے کس نے انگریزی کی وجہ سے ترقی کی ہے ؟ یا آپ نے کبھی ان کو انگریزی بولتے بھی سنا ؟ اس لیے خدارا خود بھی قابل بننے کی کوشش کیجیے اور بچوں کو بھی قابل بنائیے انگریز نہیں۔

Wednesday, December 9, 2020

کن فیکون

*کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا* ```
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے وہ ڈبیا پکڑی اور لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبیا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاھ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے !!
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ
مانگیں تو سہی!! 
ہم بھی آج کل ہر چھوٹی بڑی باتیں لے کر لوگوں کے سامنے رونا شروع کردیتے ہیں کہ جی فلاں پریشانی ہے بیماری ہی نہیں جاتی یا یہ کہ قرضہ  ہی نہیں اترتا اور بہت ساری پریشانیاں ہیں جو ہم ان  لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں جنہوں نے آگے سے اپنی ہی پریشانیاں گنوانی ہوتی ہیں  

اپنی پریشانیاں اس سے شئر کریں جو کُن فیکون ہے !!``

بہترین دوست

"آپ اگر کبھی کولڈ ڈرنک کو خود کھولنے کا مشاہدہ کریں تو غور کیجئے گا......
آپ کے کولڈ ڈرنک کو کھولتے ہی اس میں موجود 80٪ گیس ایک دم پریشر کے ساتھ نکلتی ہے....
اور پھر کچھ ہی دیر اگر کولڈ ڈرنک رکھی رہے تو آہستہ آہستہ باقی بھی نکل جاتی ہے.....

ہماری زندگی میں بھی بہترین دوست وہ ہوتا ہے، جس کے زندگی میں داخل ہوتے ہی ہماری زندگی سے 80٪ فضولیات، منفی وسوسے اور بے جا خیال ایک دم سے نکل جاتے ہیں.....
اور باقی 20 ٪ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ نکل جاتے ہیں......
واصف علی واصف کے بقول...
" اگر آپ کی زندگی میں دوست ہیں، مگر آپ کی زندگی میں کوئی بدلاو نہیں آ رہا تو سمجھ لیں آپ دوستوں سے محروم ہیں "
                         

Tuesday, December 8, 2020

آنکھیں کھول دینے والی گفتگو

ارے بیٹا یہ کیا؟ شرم نہیں آتی، بغیر پوچھے ایک اجنبی کو اپنے گھر لے آئے۔۔ دروازے کے ساتھ گھنٹی کا بٹن ہے، اسے دبا کر اطلاع کردیتے، تاکہ تمہاری بہنیں اور ماں سائیڈ پر ہوجاتیں۔

بیٹا :- ارے بابا یہ خیال آپ کو تب نہیں آتا، جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں اور میری بہنوں اور ماں کی موجودگی میں ایک نامحرم شخص سامنے آجاتا ہے، اس کی وقت تو کبھی آپ نے بے پردگی کا نہیں کہا۔

باپ :- وہ ٹی وی ہوتا ہے، وہ شخص تمہاری ماں بہن کو دیکھ یا سن نہیں رہا ہوتا، اس لیے اپنی بحث اپنے پاس رکھو اور جلدی سے اس شخص کو باہر نکالو۔

بیٹا :- بابا آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ شخص بھی بولنے اور سننے سے قاصر ہے کیونکہ یہ پیدئشی بہرا اور نابینا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس کا ہونا نہ ہونا تقریبا برابر ہی ہے۔

باپ :- لیکن تمہاری بہنیں اندھی نہیں ہیں، اس لیے جلدی سے اس اجنبی کو باہر چھوڑ کر آجاؤ۔

بیٹا :- بس میں اسے صرف اسی لیے آج ساتھ لایا تھا تاکہ آپ کو یہ سمجھا سکوں کہ ٹی وی پر آنے والے مرد اور عورتوں کو دیکھنا بھی گناہ ہے، جس طرح آپ کو ابھی غیرت آرہی ہے، اسی طرح اس وقت بھی غیرت آنی چاہیے جب ٹی وی پر کوئی نامحرم آجائے اور میری بہنیں اسے دیکھ رہی ہوں۔
ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا بھی بیٹھی ہوئی تھیں، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ )نابینا صحابی( تشریف لائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس سے پردہ کرو۔ ہم نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو نابینا ہیں یہ نہ ہم کو دیکھتے ہیں نہ ہی پہچانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اس کو نہیں دیکھتی؟
اب بابا آپ خود ہی انصاف کریں، وہ ٹی وی والے اگر نہیں دیکھتے تو کیا ہماری بہنوں کو ان نا محرموں کو دیکھنا چاہیے یا نہیں؟

لیکن شیطان ہمیں بہلاتا پھسلاتا ہے اور اس دھوکے میں رکھتا ہے کہ سب ٹھیک ہے، ہر کسی کے گھر میں بھی تو ٹی وی ہے تو کیا سب غلط ہیں؟؟
باپ :- بس کرو، تم لوگوں کی فرمائش تھی کہ گھر پر ٹی وی ہو، تمہیں پڑوسیوں کے گھر جانے سے روکنے کی غرض سے ہی تو میں ٹی وی گھر لایا تھا۔
بیٹا :- بابا میں اس بات کو نہیں مانتا، جس کسی سے ٹی وی رکھنے کی وجہ پوچھو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ بچے دوسروں کے گھر جاتے تھے اس لیے ٹی وی لایا، آپ کو معلوم ہے کہ بڑے بھائی باہر سگریٹ پیتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی آپ نے ان کیلئے گھر سگریٹ کی ڈبیا نہیں رکھی کہ بیٹا باہر کیوں پیتے ہو گھر پیا کرو، بلکہ الٹا آپ انہیں منع کرتے ہیں کہ باہر نہ پیا کرو۔

باپ :- ہر کوئی جانتا ہے کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس لیے کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا سگریٹ پئیے، لیکن اس سب کا ٹی وی سے کیا تعلق ہے؟

بیٹا :- بابا سگریٹ سے جسمانی صحت خراب ہوتی ہے جبکہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں گانوں سے اخلاقی اور روحانی صحت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی کل قیامت کے دن وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسا یہ دو انگلیاں )شہادت والی اور اس کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کرکے دکھایا( ساتھ ساتھ ہیں۔
ایک جگہ ارشاد ہے کہ ہر شخص اپنے کنبے کا والی وارث ہے اور اس سے اس کے کنبے کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی، تو ظاہر ہوا کہ کسی اجتماعی گناہ کا وبال والی وارث پر ہی ہوگا، جیسے اولاد کی تربیت میں کوتاہی کا وبال یا اولاد کے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں کل قیامت کو ماں باپ جواب داہ ہوں گے۔
جیسے نیک اولاد جنت میں جانے کا ذریعہ بنتی ہے ٹھیک اسی طرح بری اولاد جہنم میں لے جانے کا سبب بھی ہوگی۔

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا* فرماتی ہیں کہ *نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ اسے جہنم میں جانے کا حکم دیا گیا اس شخص کی نیک بچیاں اس سے چمٹ گئیں اور رونے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ اے اللہ ہمارے باپ نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا اور ہماری تربیت میں بہت محنت اٹھائی، تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر رحم فرما کر بخش دیا۔

بابا کہیں یہ نہ ہو کہ کل قیامت کو آپ کو جنت جانے کا حکم ملے اور آپ کی بیٹیاں بھی آپ کے پاؤں سے چمٹ جائیں کہ اے اللہ تو نے ہمیں نیک اور معصوم پیدا کیا تھا، پھر ہمارے باپ نے ہمیں دنیا کے ہر علم اور آسائش سے ہمیں آراستہ کیا، اعلیٰ تعلیم دلائی، دنیا کی ہر آسائش کا بندوبست کیا لیکن کبھی نماز کی تلقین نہیں کی، کبھی قرآن سکھانے کا اچھا بندوبست نہیں کیا، کبھی پردے کا نہ کہا۔۔۔

کہیں ان کی التجاء کی بدولت آپ کو جنت کی بجائے جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔

باپ :- بس بیٹا بس، میں جان گیا، آج تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، واقعی اپنی اولاد کی اچھی تربیت میری ہی ذمہ داری ہے جس میں میں نے آج تک کوتاہی برتی، اللہ مجھے معاف کرے۔

بیٹا :- اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بات آپ کو سمجھ آگئی، اور اولاد کی نیک تربیت کا صلہ صدقہ جاریہ کی صورت میں مل جایا کرتا ہے۔ مطلب جب بھی اولاد کوئی نیکی کرتی ہے اس کا اجر اور صلہ اس کے ماں باپ کو بھی پورے کا پورا ملتا ہے۔
باپ :- ارے ہم تمہارے دوست کو تو بھول ہی گئے، انہیں کوئی چائے وائے پلاؤ۔۔۔