عجیب سی یہ بات ہے;
عجب سا یہ خیال ہے;
مگر جو سوچنے لگوں;
تو اک اہم سوال ہے;
کہ وقت ہی کہاں گیا؟
یہ عمر سب گزار دی!
*اور وقت ہی ملا نہیں!*
کہا کسی نے آ ملو
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
کسی کا درد بانٹ لو
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
جو چاہا کچھ لکھوں کبھی
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
آرام کرنا چاہا جو
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
ماں باپ کو میں وقت دوں
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
بچے کہیں کہ وقت دو
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
شوہر کہے کہ بنو ٹھنو
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
بہنیں کہیں کہ *بس کرو!*
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
میری صحت گر رہی تھی;
جب مجھ سےکہایہ بھاٸی نے
تب
کہ *سارے کام چھوڑ دو;*
*"کسی ڈاکٹر سے وقت لو"*
*تو وقت ہی نہیں ملا!*
کاموں کی اک قطار ہے،
جو ذہن پہ سوار ہے،
پچھلوں کوجب سمیٹ لوں
تو نٸی فہرست تیار ہے!
کیسے سب ختم کروں؟
*کہ وقت ہی نہیں ملا!*
کچی عمر کا دور تھا،
دل نے کہا کہ پیار کر!
*پر وقت ہی نہیں ملا!*
پھر محبت رب سے ہوگٸ
تو محبت دھر کھو گٸ!
*یہ چاہا ربّ کوکھوج لوں*
کیوں جہاں کا بوجھ لوں!!
پکا یہ ٹھان بھی لیا
*پر وقت ہی نہیں ملا!*
یہ ماہ و سال سارے اب
ہیں مانگتے جواب سارے
تو کیا ہوٸی حیات پھر؟
کیسے بنے گی بات پھر؟
کہ عمر سب گزار دی،
*اور وقت ہی نہیں ملا!*
تو
*وقت یہ گیا کہاں؟!*