Wednesday, December 16, 2020

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Tuesday, December 15, 2020

بہلـــــــول دانا

ایک دن آپ بادشاہ کے پاس گئے جو اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔ 
آپ نے پوچھا: '' سوچتے کیا ہو؟ '' 
اُس نے کہا : '' میں اس وقت دنیا کی بےوفائی پر غور کررہا ہوں کہ اس بےوفا نے کسی سے بھی نباہ نہ کیا۔''
آپ نے کہا : '' اگر دنیا وفادار ہوتی تو تم آج بادشاہ کیونکر بن سکتے۔ پس اس قصے کو جانے دو اور کچھ سوچو۔'' 

ایک دفعہ بارش کی کثرت سے اکثر قبروں میں ایسے شگاف پڑ گئے کہ مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نظر آنے لگیں۔ 
بہلول قبرستان میں چند کھوپڑیاں سامنے رکھے دیکھ رہے تھے کہ اتفاقاً بادشاہ کی سواری بھی آ نکلی۔ 
اس نے انہیں اس شغل میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔ '' بہلول ! کیا دیکھ رہے ہو؟ ''
آپ نے فرمایا : '' تمہارا اور میرا دونوں کا باپ مرچکا ہے۔ میں اب یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے باپ کی کھوپڑی کونسی ہے اور میرے باپ کی کونسی؟۔'' 
بادشاہ نے کہا : '' کیا مُردہ امیر و غریب اور شاہ و گدا کی ہڈیوں میں بھی کچھ فرق ہوا کرتا ہے کہ پہچان لوگے۔؟ '' 
بہلول دانا نے کہا '' پھر چار دن کی جھوٹی نمود پر بڑے لوگ مغرور ہوکر غریبوں کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟۔'' 
بادشاہ قائل ہوگیا اور اس دن سے حلیمی اختیار کرلی۔

ایک مرتبہ کسی نے کہا : '' بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔'' 
فرمایا : '' اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ اور ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں

مسکراتا چہرا

کسی بھی موقع پر گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں کیوں کہ گبھراہٹ یا دوسروں کہ پریشر سے ہمیشہ پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا ہے-
ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ کسی بھی سچوٸشن کا سامنا کریں -آپ ہنسیں گے تو دنیا آپکے ساتھ ہو گی-اگر آپ پریشان ہوں گے یا گبھراہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو اکیلے ہی نظر آٸیں گے-
ہر کوٸی آپکو اپنا ہی دشمن نظر آٸے گا-
اس لیے مطمٸن رہنا سیکھیں-مطمٸن اور پر سکون رہنے سے ہر کام میں بہت اچھا  رزلٹ آتا ہے
*اور گبھراہٹ سے بنا ہوا کام بھی خراب ہو جاتا ہے*
*اللہ سے دل کی باتیں کریں اور کسی ایسے سے جو اپکو مخلصانہ مشورہ دے

Monday, December 14, 2020

ہر لاعلاج مرض کا علاج

درود شریف سے ہر لاعلاج مرض کا علاج
ہر لمحہ دل میں کوئی چھوٹا سا درود شریف پڑھتے رہیں۔ آپ انشاءاللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں شامل رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے تفکرات کی کفایت کرے گا اور آپ کی تمام حاجات پوری کرے گا۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو ہر روز یا ہر شب مجھ پر درود بھیجا کرے۔ مجھ پراس کی شفاعت کرنا واجب ہوگی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود شریف پڑھتے رہا کرو۔ بیشک تمہارا درود شریف مجھ تک پہنچتا رہتا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ جو شخص فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھ پر ایک سو مرتبہ درود شریف پڑھے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی 100حاجات پوری کریگا۔ درود شریف دلوں کا نور ہے' گناہوں کا کفارہ ہے۔ زندہ اور مردوں دونوں کیلئے رحمت ہے۔ درود دعا بھی ہے اور دوا بھی۔ درود سوغات بھی ہے۔ درود اللہ اور ملائکہ کی سنت بھی اور قبولیت دعا کا سبب بھی۔ (ہر دعا کے اوّل و آخر درود شریف پڑھنا چاہیے)

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زیارت

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی 
زیارت صحابہ کرام رضوان اللّٰه عنہُم کے لیے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی
کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی

چہرۂ اقدس کے دِیدار کے بعد قلب و نظر میں اُترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک دِن رحمتِ عالم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ

آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا

دراصل ہُوا یوں تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا

اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟ 
اس وفا شعار پیکرِ عجز و نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کِیا

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! صرف آپ کی ملاقات،چہرۂ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں 

تھوڑی دیر بعد ہی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّٰه عنہُ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو گئے

نبئ رحمت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا
اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟ 

شمعِ رسالت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی پٹی کے بغیر عرض کی

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! بھوک کی وجہ سے حاضر ہُوا ہوں

( ترمذی،الجامع الصحیح،کتاب الزھد،باب فی معیشة أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم، ٥۸۳:٤،رقم:۲۳٦۹ )

شمائل ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث ( مفہوم ) کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہُ اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مِِٹانا چاہتے تھے،

جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السّلام کے حُسن سے اپنی بھوک کو مِٹا لیا کرتے تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا

مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کِیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر نُورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چُکا تھا

 کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ پر نُورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چُکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا

( شمائل الترمذی:۲۷،حاشیه:۳ )

چنانچہ ایسا ہی ہُوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جان نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی

( کتاب التوحید،جِلد ۲،صفحہ ٥٦٦ تا ٥٦۸ )

ایمان بخیر یارم🍁

صالح معاشرہ

صالح معاشرہ کیسے بنے _______؟؟؟؟

✾ کیسے بچہ نیک و صالح ہوگا جبکہ ماں کو کھانے پینے، گھر، بازار اور انٹرنیٹ سے ہی فرصت نہ ملتی ہو؟؟؟

✾ بچہ کیسے حافظ قرآن اور عالم باعمل بنے جبکہ اس کے والدین کو فیس بک پر گھنٹوں فضول چیٹنگ کرنے کی فرصت تو ہو لیکن بچہ کو آدھا گھنٹہ قرآن شریف کا ایک آدھا صفحہ یا ایک حدیث شریف یاد کروانے کے لئے ٹائم نہ ہو۔؟؟؟

✾ بچہ نیک کیسے بنے گا جبکہ اس کے والدین کو بچہ کو روز تھوڑی دیر بھی نیک لوگوں کے سبق آمیز واقعات سنانے کی فرصت نہیں پائیں؟؟؟

✾ بچہ میں قائدانہ صلاحیت اور قابلیت کیسے پیدا ہوگی جبکہ گھر کا سارا بجٹ میک اپ اور پرتعیش اشیاء میں خرچ ہوجاتا ہو، اور گھڑسواری، تیراندازی اور تیراکی سیکھنے کی گھر کے بجٹ میں کوئی گنجائش ہی نہ رکھی جائے؟؟؟

✾ بچہ میں دوراندیشی و بردباری جیسے جوہر کہاں سے پیدا ہونگے جبکہ اس کے روز وشب بےکار ویڈیو گیم اور واھیات کارٹون دیکھنے میں گزرتے ہوں؟؟؟

✾ کہاں سے بچہ حلیم الطبع اور سنجیدہ ہو جبکہ ماں باپ کے آپس کی لڑائی اور چینخ پکار سے دور دور تک ہمسائے لطف اندوز ہوتے ہوں؟؟؟

✾ بچہ کہاں سے قابل اور خود اعتماد بنے گا جبکہ اسے سب بڑے دن رات ہر وقت گالیاں اور کوسنے دے دے کر ذلیل کرتے ہوں؟ 

✾ بچہ کہاں سے نیک بنے گا اور اس کے والدین دینی تعلیم، مجالس ذکر اور دینی احکام کے سیکھنے سکھانے سے بیزار ہوں؟؟؟

✾ بچہ کیسے نیک بنے گا جب باپ کو بچہ کی تعلیم دلانے اور ماں کی تربیت میں ھاتھ بٹانے کے فرصت نہ ہو۔

✾ بچہ کہاں سے نیک و صالح بنے گا جبکہ ماں باپ کا مقصد زندگی صرف ظاہری دکھاوہ اور شو شاہی ہو، اور ان کو دین، نماز اورقرآن سے کوئی سروکار نہ ہو؟؟؟

👈 یاد رکھیں!
ماں باپ کی صحیح تربیت میں ہی نسلوں کی درستگی ہے اور اسی میں ہے پوری امت کی بہتری اور فلاح۔

سوچئے کہاں سے بچہ آپ کے مرنے کے بعد دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے گا، جبکہ آپ نے اس کی صحیح تربیت ہی نہیں کی ہوگی۔

میں سب سے پہلے خود کو اور پھر اپنے بھائیوں کو نصیحت کررہا ہوں۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ۔۔

انعام رب کا

یہ اُلجھنیں ہیں انعام ربّ کا
جو سمجھو اِنکو پیّام ربّ کا
*یہ ہیں آ جاتی بنا بتاۓ___!!!* 
کدھر کو جائیں سمجھ نہ آۓ
*مگر اے پیارو نہ اس میں اُلجھو___!!!*
ذرا سا سوچو ذرا سا سمجھو
  *ابھی بھی ہے وقت ___!!!*
ہوش کر لو
*جو ہو چکا اس سے کچھ اَثر لو___!!!*
قرآن کھولو پیغام پڑھ لو
*جو رسّی چھوڑی اُسے پکڑ لو___!!!*
ناراض ہم سے ہمارا ربّ ہے
*اسے منانے کا وقت اب ہے___!!!*
اٹھو نہ سوچو اور توبہ کر لو
 *دیں پہ چلنے کا وعدہ کر لو___!!!*
رحیم ربّ ہے کریم ہے وہ 
*محبّ بھی ہے اور عظیم ہے وہ___!!!*
مایوس مت ہو اداس مت ہو
*اُمید رکھو بے آس مت ہو___!!!*
وہ مان لےگا یقین رکھو
*جُھکا کہ اپنی جبین رکھو___!!!*
وبائیں.دکھ اور غموں کے لمحے
*وہ ٹال دے گا سنبھال لے گا___!!!*
وہ ساتھ ہے وہی سن رہا ہے،،، وہ *سب بلاؤں  کو ٹال دے گا ہمیں وہ دکھ سے نکال لے گا___!!!

وقت ہی ملا نہیں!!

 عجیب سی یہ بات ہے;
    عجب سا یہ خیال ہے;
    مگر جو سوچنے لگوں;
     تو اک اہم سوال ہے;
     کہ وقت ہی کہاں گیا؟
     یہ  عمر سب گزار دی!
    *اور وقت ہی ملا  نہیں!*
     کہا  کسی  نے  آ  ملو
    *تو  وقت  ہی نہیں ملا!*
    کسی  کا  درد  بانٹ  لو
   *تو  وقت   ہی نہیں ملا!*
   جو چاہا کچھ لکھوں کبھی
  *تو وقت   ہی   نہیں ملا!*
   آرام     کرنا   چاہا    جو 
   *تو  وقت  ہی  نہیں ملا!*
   ماں باپ کو میں وقت دوں 
  *تو  وقت  ہی   نہیں ملا!*
   بچے  کہیں   کہ  وقت دو
 *تو  وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  شوہر   کہے   کہ  بنو ٹھنو
 *تو  وقت   ہی   نہیں ملا!*
  بہنیں کہیں  کہ *بس کرو!*
 *تو  وقت   ہی  نہیں ملا!*
  میری صحت  گر رہی تھی;
 جب مجھ سےکہایہ بھاٸی نے
 تب
  کہ *سارے کام چھوڑ دو;*
 *"کسی ڈاکٹر سے وقت لو"*
 *تو  وقت  ہی  نہیں  ملا!*
  کاموں  کی اک قطار   ہے،
  جو  ذہن   پہ    سوار ہے،
  پچھلوں کوجب سمیٹ لوں
  تو  نٸی  فہرست  تیار ہے!
  کیسے  سب ختم   کروں؟
 *کہ وقت   ہی   نہیں ملا!*
  کچی عمر  کا  دور   تھا،
  دل  نے  کہا  کہ  پیار کر!
 *پر  وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  پھر محبت   رب  سے ہوگٸ
  تو محبت   دھر    کھو گٸ!
  *یہ چاہا ربّ کوکھوج لوں*
  کیوں جہاں  کا بوجھ لوں!!
  پکا  یہ  ٹھان  بھی  لیا
 *پر وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  یہ ماہ  و سال سارے اب
  ہیں مانگتے  جواب  سارے
  تو  کیا  ہوٸی حیات پھر؟
  کیسے بنے گی  بات  پھر؟
  کہ عمر  سب  گزار   دی،
  *اور  وقت ہی نہیں ملا!*
   تو
   *وقت  یہ  گیا  کہاں؟!*

عبادت اور بندگی

عبادتوں اور بندگی میں ڈوبا وجود کب سے خواہشات اور خوابوں کے سراب کے پیچھے بھاگتا جا رہا تھا ...اندھا دھند ...
کہ بے بسی کا ایک آنسو مقبول ہوا ....
اور دعا کا جواب عطا سے آیا ...
جواب آیا ....کہ اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے .....
خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے آنکھیں آندھی ھو گئیں اب کیا دل بھی اندھا کرنا ہے ؟؟ 
چل ......فیصلہ کر لے ..
تین موقعے ہیں تیرے پاس ....
دعا کی قبولیت ،کا  انتظار کر لے اس یقین کے ساتھ کہ یہ سب سنی جا رہی ...
یا یہ کہ  اپنی دعا کا بدل لے لے دنیا میں یا آخرت میں ...
یا پھر ...تجارت کر لے میرے ساتھ ....
اپنی چاہت کو میرے لئے قربان کر دے اور دیکھ پھر میں تیری چاہت بن جاؤں گا ...
بول منظور ہے کیا ؟؟ 
اور ھو گا وہی پھر بھی جو میری چاہت ہے ...
برسوں سے کھڑا وجود ہاتھ جوڑے ...صرف اپنی خوائش کے لئے جھکتا تھا بس ...
اب تر ا ز و میں ...میری چاہت اور اس کی چاہت آ  گئی تھی ...
دل کا دروازہ بند پڑا تھا ...دستک تو دی جا رہی تھی پر اندر سے آواز آ رہی تھی باہر کون ہے ؟؟ 
تیری چاہت یا میری چاہت ...
دروازہ اندر سے ہی کھلتا ہمیشہ .....کھولنے والے کی مرضی کہ وہ کھولے یا نہ کھولے .....
دل غیر سے آباد ھو تو ہر طرف ویرانے نظر آتے ہیں اور دل دلدار سے آباد ھو تو ہر طرف نور ہی نور نظر آتا ہے ...نظر میں بھی اور نظارے میں بھی ....
سودا مہنگا نہیں ویسے ....
خواہشات کا جم غفیر تھا آوازیں ہی آوازیں ....سکوت صرف اس بات میں تھا جہاں دھڑکن تھی ...
اک طرف طلب اک طرف مطلوب 
اکطرف خوائش اک طرف رضا ۓ مطلوب ...
اور تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر وہ نہ چاہے تو .....
سودا مہنگا نہیں تھا پھر بھی ...سوچ کے در کھل گۓ ..
اک طرف آدھی ادھوری ٹوٹی پھوٹی خوایشیں اور دوسری طرف وہ خود پورے کا پورا ......

.رحمت ،محبت ،چاہت بن کے سامنے بھی کھڑا اور اندر بھی بسا ....بس اک پکار کا منتظر ....

بس دو باتیں ماننی تھی ...
خوائش ہے کہ کوئی خوائش نہ رہے ...
اور 
دل کے دروازے پر دربان بن کے بیٹھ جا اور سوا ۓ اللّه کے کسی کو نہ اندر آنے دے ...
پھر دیکھ اس کی چاہت کے رنگ ...چار سو ہر سو کو بہ کو ...
اور تو خود کیا ہے ...؟؟؟؟
تو بھی تو  صبغة اللہ ّ  ہے ....رنگوں میں سے ہی ایک رنگ ....
چاہت کا سوال بھی چاہت اور جواب بھی چاہت ... 

ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ

*ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ۔۔۔ ﮐﻞ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺣﺴﺎﻧﺎﺕ گنوائیں !!*
*ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ۔۔۔ ﻓﻼﮞ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ۔۔۔*
*ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﭨﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺑﮑﮭﺮ ﺭﯼ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﺯﺭﯾﻌﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ* ♥️
*ﻓﻼﮞ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮯﺭﺧﯽ ﺑﺮﺕ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻼﮞ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﮮ*
*ﺟﺐ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﺮ ﮐﺮ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ* ♥️
*ﺟﺐ ﺗﻢ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮞ ﻭﮨﺎﮞ ...*
*ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮞ ...*
*ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ* ♥️
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ۔۔۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ۔۔۔۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔*
*ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔۔ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﺎﻣﮯ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ* ♥️
*ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ۔۔۔ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﺎﮞ ﺩﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔*
*ﮐﮧ ﺟﻮ ﺳﺒﻖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﺎ۔۔*
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ۔۔۔*
*ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍن ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﮯ* ♥️
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮں ﺍﺱ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻮ ۔۔۔ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ..*
*ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﮔﻨﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔۔۔*
*ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﮯ ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔۔۔*
*ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺘﯽ ﺟﺎﺅﮞ۔۔
ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﻭﮞ۔۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﯽ ﺟﺎﺅﮞ۔۔۔*
*ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺳﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺗﯽ ﺟﺎﻭﮞ..*
*ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎﺋﮯ..*
*ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﯽ!!*