Thursday, December 24, 2020

شُکر الحمدللّٰہ

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ بہتر ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

نصیب سے ہار گئی

آج پہلی رات تھی بستر پہ پھول سجائے گئے تھے 
نبیلہ اور کامران کی شادی ہوئی تھی 
شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی 
نبیلہ بیڈ پہ بیٹھی تھی کمیرہ مین تصاویر بنا رہا تھا وہ کبھی دائیں سر کر رہی کبھی بائیں طرف 
سب لوگ نئے تھے ہر چہرہ اجنبی تھا 
کامران پاس بیٹھا تھا 

Wednesday, December 23, 2020

اصولِ عِشق اور مولانا رومؒ

وہ بازار سے گزر رہے تھے۔۔۔۔ مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی۔۔۔۔
ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جس چیز (جنس) کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھا۔۔۔ اور اس وقت تک وہ جنس تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی۔۔۔ اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھادھند جنس نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔۔۔

مردانگی

مردانگی طاقت دیکھانے کا نام نہیں. مردانگی غصہ ،جبر و جلال کا نام بھی نہیں .مردانگی حکومت کرنے خود کو حاکم منوانے کا نام نہیں کیونکہ طاقت ،غصہ ،جبر وجلال اور حکومت کرنے والا مادہ تو مخالف جنس میں بھی موجود ہوتا ہے.تو مرد کیا ہوتا ہے؟ مردانگی کیا ہے؟ 

رزق اور محبت

رزق:
رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو بلکہ ہماری ہر صفت رزق ہےاور ہماری ہر استعداد رزق ہے۔ بینائی رزق ہے گویائی رزق ہے خیال رزق ہے احساس رزق ہے سماعت رزق ہے وجود کی طاقت اور لطافت رزق ہے غم رزق ہے خوشی رزق ہے علم رزق ہے محبت رزق ہے حسن رزق ہے ذوق جمال رزق ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایمان رزق ہے۔

بیٹا اور بیٹی کی تربیت

ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں، 
بولی اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟ 

شوہر نے جواب دیا ! میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔

خاتون نے پھر پوچھا:-
اگر بیٹی ہوئی تو؟ 

شوہر نے جواب دیا:-
میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔ 

میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔

بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک، 

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک، 

نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔ 

وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔ 

خاتون نے پھر پوچھا ! 
کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟ 

شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔ 

خاتون نے پوچھا !
لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟

 شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔ 

*یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کوختم کیا کہ بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا، لیکن بیٹا زندگی کے کسی بھی موڑ پہ ہمیں چھوڑ سکتا ہے..!```

معتدل معاشرہ

معتدل معاشرہ وہ ہے جہاں ادب، مذہب سے بیزار نہ ہو اور مذہب، ادب سے بیزار نہ ہو۔ ہمارے ہاں، ادب ہو یا مذہب دونوں نے اپنی توانائی ایک دوسرے کے خلاف صرف کی ہے۔ کچھ تنگ ذہن مولوی میر، غالب، انیس اور منٹو کی تکفیر کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب بعض ادیبوں کی تمام تر ادبی تخلیقات مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مذہب کو تنگ گلی نہ بننے دیں۔ ادب کو پراپیگنڈہ نہ بننے دیں۔

آپ کی پہچان

اس کا آغاز پہلے گھریلو ماحول سے کرنا ہوگا اور پھر تعلیمی اداروں سے.. جس طرح انگریزی بولنے پر بچوں کا ماتھا چوم لیتے ہیں اسی طرح انگریزی کا ترجمہ پوچھ کر بھی ماتھا چوم لیا جائے...
بتانا ہوگا کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے، آپ نے سیکھنی ہے مگر زبان کی حیثیت سے، اسے معیار سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی...
اردو آپ کی قومی زبان ہے، آپ کی پہچان اور آپ کی شناخت... انگریزی تب بولیں جب لازم ہو یا ضرورت ہو، بلا وجہ نہیں......
بچوں سے اردو میں بات کریں بیشک ساتھ ساتھ بتا دیں کہ انگریزی میں اس لفظ کو یہ کہتے ہیں مگر ہم الٹ چل رہے ہیں، انگریزی بول کر کہتے ہیں کہ اردو میں اسے یہ کہتے ہیں........
تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین بھی قصور وار ہیں، تعلیمی ادارے تو اس وقت ایک مارکیٹ بن چکے ہیں اور مارکیٹنگ کا تو اصول ہے کہ کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق چلنا ہے.... 
آپ لوگ بھی تو اس تعلیمی ادارے کو اچھا سمجھتے ہیں جہاں تین چار خوب صورت خواتین پہلے آپ کا استقبال کریں، پھر آپ کو ایک کپ ٹی کا دیا جائے، آپ کو انتظار کرنے کا کہا جائے، آپ کو کہا جائے کہ ابھی ڈائریکٹر یا پرنسپل صاحب مصروف ہیں، چاہے اندر پرنسپل صاحب فری بیٹھے ہوں، اس طرح کے ماحول سے آپ کو لگتا ہے واہ جی بچے واقع کسی اچھے ادارے میں پڑھ رہے ہیں..
یورپ میں والدین اس تعلیمی ادارے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا آسان ہو جبکہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا انتہائی مشکل ہو...... 

ایمان کا تقاضا

میرے ایک استاد اونگارتی تھے ، میں ان کا ذکر پہلے بھی کرتا رہا ہوں - میں نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " انھوں نے جواب دیا کہ " ایمان خدا کے کہنے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی " 
اٹلی میں ہمارے کمرے میں ایک بار آگ لگ گئی اور ایک بچا تیسری منزل پر رہ گیا شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پے کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا "چھلانگ مار بیٹا " اس لڑکے نے کہا بابا میں کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے اس کے باپ نے کہا " تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار تیرا باپ تیرے نیچے ہے تو مجھے نہیں دیکھ رہا " میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں نا !" اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں "
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں الله پہلے سے موجود ہے 

حَیٰیّ عَلَی الفلَاح

میں اللہ کو نہیں مانتا تھا۔ خُدا کو نہیں جانتا تھا۔ مگر دنیا کی سب نعمتیں ہوتے ہوۓ بھی میری روح بے چین رہا کرتی، جانے کیا چیز تھی جو مجھے بے سکون رکھتی تھی۔ اور وہ نوجوان "شاہ" اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ پہچانتا بھی تھا۔ میں گاڑی خریدنے کے لیئے اس کے شو روم گیا تھا۔ مجھے گاڑی پسند آ گئی سودا طے ہو گیا میں نے بیانہ ادا کیا۔ اُس نے مجھے دعا دی "خُدا اِسے تمہارے لیئے بابرکت کرے" میں خدا کو نہیں مانتا کہاں ہوتا ہے تمہارا خدا؟ جانے کیوں نہ چاہتے ہوۓ بھی میرالہجہ طنزیہ ہو گیا۔ "ایسے مت کہو" وہ تڑپ کر بولا "میرا خدا زندہ خدا ہے وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے" عجیب بات تھی جانے کیا تھا اُس کے لہجے میں۔ اُس رات پہلی بار میں نے خدا کے بارے میں سوچا اس کے لہجے کی تڑپ نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ وہ اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔اس کی آنکھیں خدا کا نام لیتے ہی یوں چمکتیں جیسے اندھیری رات میں جگنو۔ اس کی ہر بات اللہ سے شروع ہو کر اللہ پر ہی ختم ہو جاتی جیسے کوئی عاشق بات بے بات اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے۔ اور پھر میں اکثر کسی نہ کسی بہانے سے اُس لڑکے کے پاس جانے لگا۔ وہ اپنے اللہ کی باتیں کرتا۔ نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی باتیں اچھی لگنے تھیں ایک عجب سا سرُور ہوتا اُس کی باتوں میں-
اور پھر ایک روز ڈاکٹر نے مجھے کینسر ڈائگنوز کیا میرے پاس صرف چھ مہینے کی زندگی باقی تھی۔ تب پہلی مرتبہ مجھے خدا کا خیال آیا۔ میں بے بس تھا بے شمار دولت کے باوجود صحت اور زندگی خریدنے پر قادر نہیں تھا۔ جانے کیوں میں شاہ سے ملنے چلا آیا۔ میری بیماری کی خبر سنتے ہی اس نے کہا "اللہ فضل کرے گا" میں چیخ پڑا اللہ اللہ کان پک گئے ہیں اللہ کا نام سُنتے سُنتے۔ میں مرنا نہیں چاہتا اور تمہارا خدا مجھ سے میری زندگی چھیننا چاہتا ہے۔"اللہ تمہیں صحت دے گا انشاءاللہ۔ تم مانگ کر تو دیکھو۔ اللہ تمہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے گا" شاہ نے مجھے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔

مجھے تمہارے اللہ سے ملنا ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ "اللہ تمہیں روز ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے ہو۔ وہ تمہارے ارد گرد بہت ہی پاس رہتا ہے۔ کبھی وہ فقیر کے روپ میں ملتا ہے۔ کبھی یتیم کے اور کبھی مہمان بن کر چلا آتا ہے۔ ہو سکے تو اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ دو کچھ خرچ کرو اِس کا بہت اجر ہے اور یقیناً یہ بڑھ کر تمہیں واپس ملے گا۔ اللہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت کرتا ہے"

اُس دن گھر جاتے ہوۓ میں نے ایک مزدور عورت کو دیکھا اُس نے کمر پر بچہ باندھ رکھا تھا بچہ بھوک سے رو رہا تھا ماں کی چھاتی سے لگتے ہی بچہ پرسکون ہو گیا کون تھا وہ جس نے اُس کے لیئے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتارا یقیناً اللہ اور یوں میں نے پہلی بار اللہ کو دیکھا۔ میں نے مزدور عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اُس کے ہاتھ میں چند نوٹ تھماۓ اور آگے چل دیا۔اُس عورت کی آنکھوں میں بلکتی بھوک خوشی سے بھنگڑہ ڈالنے لگی۔اُس کی نظروں میں اچانک دو کیفیات کی تبدیلی حیرت انگیز تھی اور میرے دل میں بھی جہاں یاسیت کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔ عجیب نشہ اور سکون تھا اس اطمینان میں اور پھر میں ضرورتمندوں کو ڈھونڈنے لگا اور اللہ مُجھے۔ اُسی شام کونے والی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا نابینا رشید ملا اُس کے بار بار اللہ کے شکر ادا کرنے نے مجھے زمین پر پٹخ دیا۔ تم اندھے ہو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو میرے پوچھنے پر اس نے میرا ہاتھ بارش کی بوندوں کے آگے کر دیا میں بارش کو محسوس کرتا ہوں بوندوں کی جلترنگ سن سکتا ہوں اذان ہو رہی تھی "حَیٰیّ عَلَی الفلَاح" دیکھو وہ مجھے پکارتا ہے۔ میں نصیبے والا ہوں ُاس کی پکار سن سکتا ہوں خدا کی قسم میں خوش قسمت ہوں دل کے اندھوں سے زیادہ خوش قسمت۔اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی پیارے جگری دوست "لُکن میٹی" کھیل رہے تھے۔ میں جہاں بھی چُھپتا وہ میرا یار مجھے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اور پھر ہر جگہ مجھے اللہ نظر آنے لگا ساری کائنات اللہ سے بھر گئی تھی۔ جو کبھی دِکھا ہی نہیں تھا وہ پتھلا مار کر میرے دل میں بیٹھ گیا۔ شاہ سچ کہتا تھا اللہ تمہیں ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے۔ تب پہلی بار میں نے اللہ کو پکارا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی ناشکری کا احساس ہوا۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔ میں اس رات بہت سکون سے سویا۔ مجھے اللہ کی پہچان ہونے لگی تھی اب وہ مجھے اکثر ملنے لگا تھا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب مجھے اللہ سے پیار ہو گیا۔ مرنے کا خوف کہیں دور رہ گیا۔ میں جان چُکا تھا کہ سب کچھ اُسی کا ہے۔ وہ جِتنا اور جس کو چاہتا ہے امانتاً تھما دیتا ہے۔ مجھے باقی کی زندگی اللہ کے لیئے جینا تھا چاہے وہ ایک دن کی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ چھ مہینے کے بعد ڈاکٹر حیران تھے۔ میرا کینسر غائب ہو گیا تھا کہیں جسم میں بیماری کانام و نشان تک نہیں تھا۔ " یقیناً وہی ہے میرا رب جو شفاء دینے والا ہے" میں شاہ کے پاس چلا آیا میری رپوٹس دیکھ کر وہ رو رہا تھا۔ "الحمدللّٰہ دیکھو پاک ہے میرا رب بے شک پاک ہے میرا رب اس نے تمہارے جسم کو بیماری سے پاک کر دیا" شاہ بیٹا جسم کی پروا ہی اب کسے ہے یہ مِٹّی تو بس مِٹّی کی امانت ہے۔اسے کیڑوں نے ہی کھانا ہے۔ اُس پاک رب نے میرے دل سے بیماری کو دور کر دیا۔ وہ مجھے آن ملا وہ مجھے آن ملا دیکھو میرا رب مجھے آن ملا۔

"جب تم پہلی بار میرے پاس آۓ تھے مجھے تم دنیا کے غریب ترین انسان لگے تھے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی خدا کرے تمہیں خدا ملے بے شمار دولت سے سجا تمہارا پھیکا اور ویران جہاں سجنے لگے میں بس تمہیں رب سے ملوانا چاہتا تھا اُس نے میری دعا سن لی۔ کیا اب بھی تم کہتے ہو اللہ نہیں ہے۔ دیکھو تم نے اسے پکارا اور وہ دوڑا چلا آیا" شاہ بول رہا تھا اُس کی مسکراہٹ میں رب مسکراتا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ہی یار کے لیئے بھیگ رہی تھیں۔

میں نے اسی روز مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا الحمدللّٰہ۔ میں "تھامس" اب عبداللہ ہوں۔ آج پورے دو سال کے بعد میں شاہ کے ساتھ اس کے دفتر میں بیٹھا تھا اس کا چھوٹا سا بیٹا میرے پاس کھیل رہا تھا۔ عصر کا وقت تھا۔اذان ہو رہی تھی اس کے بیٹے نے میری اُنگلی تھامی اور کہنے لگا چلیں انکل میں آپ کو مسجد لے چلوں بالکل ایسے ہی جیسے اُس کا باپ میری اُنگلی تھام کر مجھے اللہ سے ملوا لایا تھا۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہمیں شاہ کے نئے شوروم کے افتتاح کے لیئے جانا تھا۔ جہاں وہ مجھے دعا کروانے کا کہہ رہا تھا جانے مجھ جیسے گنہگار کو اس نے اُس کام کے لیئے کیوں چنا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کیوں کہ آپ میرے بزرگ ہیں۔میں دل ہی دل میں ہنس دیا بزرگ تو وہ تھا میرا "پگلا کہیں کا" میری روح اپنے اصل کی طرف لوٹ کر سکون میں تھی بے شک ہم سب کو لوٹ کر اُسی کی طرف جانا ہے۔
☚ اللّٰہ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿں ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮰ ﺁﻣﯿﻦ.