Thursday, January 7, 2021

آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی

آئمہ جلدی سے تیار ہوجائو ، میں تمہیں بازار چھوڑ آتا ہوں 
ھادی نے جلدی سے اسے پکارا ۔
اچھا بھائی ایسا کرنا کہ راستے میں ثناء کے گھر سامنے دو منٹ کیلیئے بائیک روک لینا ۔

ثناء کے گھر کے سامنے اچھا اچھا ایک دم اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔

کہنے لگا آئمہ مجھے اس کا نمبر تو دو ، مجھے اچھی لگتی ہے  یہ الفاظ کہہ کر اس نے قہقہ لگایا ۔

" چل بدتمیز ، بائیک نکالو  ، پہلے بہت دیر کردی ہے اور رہی بات نمبر کی تو موبائل اس کی امی کا ہے ۔

اگر تمہیں اتنی پسند ہے تو رشتے کی بات کر لیتی ہوں ، چلو میری بہترین دوست میری بھابھی بن جائے گی ، آئمہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا " ۔

ھادی نے جب یہ سنا تو دل ہی دل میں کہا کوئی بات نہیں جب موبائل لے گی 

تو نمبر آہی جائے گا ۔ اس نے بائیک سٹارٹ کی اور کچھ دیر میں ثناء کے گھر پہنچ گئے ۔

آئمہ فورا بائیک سے اتری اور اندر چل پڑی ، جاتے ہی اونچی آواز میں السلام وعلیکم کہا 

اور ثناء کو آواز دینے لگی کہ تم تیار نہیں ہوئی ، جلدی کرو عصر کا وقت ہے ہمیں ٹائم لگ جانا ہے بازار ۔

ثناء نے کہا کہ آئمہ دو منٹ بیٹھو ، میں بس عصر کی چار رکعات پڑھ لوں ۔

افف یار ، آکر پڑھ لینا باہر ھادی انتظار میں ہے بس جلدی سے چادر لو ۔

اور چھوڑو نقاب وغیرہ ۔

ثناء نے کہا پلیز یار ، میں دو منٹ میں آئی ، نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی؟ 

اچھا اچھا پڑھ لو بابا اب بس چپ ، خیر اس نے نماز پڑھی جلدی سے چادر لی نقاب کیا ۔

اور وہ دونوں ھادی کے پیچھے بیٹھ کر بازار چل دیئے ۔

آئمہ نے ھادی کو کہا تم گھوم پھر آئو میں جب کال کروں تو آجانا،

ھادی نے ایک نظر ان کی جانب دیکھا اور چپ چاپ بائیک سٹارٹ کرکے چل پڑا ۔

آئمہ کبھی ثناء کا ہاتھ پکڑ کر ایک دوکان میں گھستی اور کبھی دوسری, آخر کار اس نے اپنی مطلوبہ چیزیں لے ہی لیں ۔

 اس نے ثناء سے پوچھا،
تم نے کچھ لینا تو کہنی لگی کہ ایک سفید سوٹ لینا ہے جس پہ اچھی کڑھائی ہوسکے ۔

آئمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور  آہستہ آہستہ چلتی ایک کپڑے کی دکان کے اندر آ گئی۔

"بھیا ! مجھے سفید رنگ میں کوئی سوٹ دکھائیں، جس پہ کڑھائی ہوسکے" ثناء نے  دکاندار کو  مخاطب 
کیا

 اور آئمہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔ 

دکاندار نے وہاں کام کرنے والے ایک لڑکے کو آواز دی، تھوڑی دیر 

میں وہ مختلف اقسام کے سفید کپڑے کے کچھ تھان ان کے سامنے رکھنے لگا۔

 وہ کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے لگی اور آئمہ سے مشورہ کیا کہ کونسا لینا چاہیے؟

 تھان اوپر نیچے کرتے ثناء کی نظر ایک سفید کٹے ہوئے پیس پہ پڑی، 

اس نے جلدی سے وہ پیس ہاتھ میں لیا اور آئمہ کی طرف اشارہ کرکے بولی

"یہ دیکھو ! کیسا ہے؟

 شائد پورا سوٹ ہی کٹا ہوا ہے" ۔

اس سے پہلے کے وہ اسے اپنی رائے دے پاتی ، دکاندار نے جلدی سے وہ کپڑا اسکے ہاتھ سے لے لیا۔ 

"باجی ! آپ اسے رہنے دیں کوئی اور دیکھ لیں، یہ شائد غلطی سے آگیا ہے۔

وہ دونوں دکاندار کے اس رویے پر حیران ہوئے۔ آئمہ چپ رہی لیکن ثناء بولی

"مجھے تو وہی کپڑا ہی لینا ہے، آپ دکھائیے " وہ بار بار اسرار کر رہی تھی ۔

"باجی ! یہ کپڑا کفن کے لیئے ہے، غلطی سے یہاں آگیا، آپ اسے رہنے دیں" ۔

دکاندار کے اس جواب کو سُن کے  ان دونوں  کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔ 

اگلے ہی لمحے ثناء نےاپنا پرس اٹھا کے دکان کے باہر نکل گئی

آئمہ نے اسے آواز دی 

" ارے ! رکو ! مجھے تو آنے دو"

دکاندار بھی آوازیں دینے لگا
 
"باجی ! بات تو سنیں باجی !" 

آئمہ  نے آج سے پہلے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔

وہ بہت تیزی سے چل رہی تھی، وہ لگ بھگ بھاگتی ہوئی اس سے جا ملی۔

اس نے ھادی کو جلدی سے کال کی ، وہ پہلے ہی ان کے انتظار میں مطلبوبہ جگہ پہ کھڑا تھا ۔

وہ دونوں جلدی سے بائیک پہ بیٹھیں ، آئمہ پورے راستے میں  اسے تسلی دیتی رہی

 کہ اتنی چھوٹی سے بات پہ تم پریشان ہوگئی ہو۔

 اس نے آئمہ کی کسی بات کا جواب نہ دیا وہ اپنے گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جب وہ پیچھے پیچھے کمرے اندر داخل ہوئی تو ثناء مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی 

 وہ باہر نکل آئی اس نے ثناء کی حالت کا اس کی امی کو سنائ اور ھادی کی وجہ سے وہاں سے نکل آئی ۔

 اگلی صبح  آئمہ کی امّی نے اس کے اوپر سے کمبل ہٹا کے جلدی سے اٹھایا ۔

وہ گھبرا گئی، اس کی امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ ہڑبڑا سی گئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔

 کچھ بتائے بنا ہی وہ اسے ثناء کے گھر لے گئیں ۔

وہاں پہنچتے ہی آئمہ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ ثناء اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔

 وہ گھٹنوں کے بل اسکی لاش کے پاس بیٹھ گئی، دماغ کی نس پھٹنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔ 

حیرانی اور پریشانی کے عالم میں آئمہ کے اندر سے ایک چیخ نکلی

اور اسے بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہی۔

 جب ہوش آیا تو امّی آخری دیدار کے لیئے اس اسکے پاس لے گئیں۔ 

کل جو سفید کفن دیکھ کے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہی تھی

 آج وہی سفید کفن اس سے لپٹا تھا۔

"انسان اس دنیا میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا ،

 اسکے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بازار میں آ گیا ہے"۔

آئمہ بے سود اسے جنازے کے لیئے لے جاتا دیکھ رہی تھی ، اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں تھی 

کہ وہ اسے روک پاتی ، ثناء خود مر گئی لیکن اس کو یہ بتا گئی کہ 

"نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی"؟

طوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

*سارا جگ آئینہ ہے

ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیر کروایا جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس محل میں جا گھسا رات کے وقت محل کا رکھوالا محل کا دروازہ بند کر کےچلا گیا لیکن وہ کتا محل میں ہی رہ گیا کتے نےجب چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسےچاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا اس کتےنےکبھی بھی اپنے آپ کو اتنےدشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شائد وہ اس سےلڑ کر جیت جاتا لیکن اب کی بار اسےاپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی ۔۔ کتا جس طرف آنکھ اٹھاتا اسے کتے ھی کتے نظر آتے تھے اوپر اور نیچےچاروں طرف کتے ہی کتےتھے۔۔ کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانا چاہا دھیان رہے آپ جب بھی کسی کو ڈرانا چاہتے ہیں آپ خود ڈرے ہوئے ہیں ورنہ کسی کو ڈرانےکی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانےکی کوشش کی تو وہ لاکھوں کتے بھی بھونکنے لگے اس کی نس نس کانپ اٹھی اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سےگھر چکا تھا آپ اس کتے کا درد نہیں سمجھ سکتےجب صبح چوکیدار نے دروازہ کھولا تو محل میں کتےکی لاش پڑی تھی اس محل میں کوئی بھی موجود نہ تھا جو اسے مارتا محل خالی تھا لیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے وہ خون میں لت پت تھا اس کتے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟؟؟ خوف کےعالم میں وہ کتا بھونکا جھپٹا دیواروں سے ٹکرایا اور مر گیا ۔۔ 
آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کےسبھی تعلقات سبھی حوالے آئینوں کی مانند ہیں ان سب میں آپ اپنی ہی تصویر دیکھتے ہیں غور کریں اور دیکھیں ؟ کہ نفرت سے بھرا آدمی یہ دیکھ رہا ہے کہ سب لوگ اس سےنفرت کرتے ہیں لالچی آدمی کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب اس کو لوٹنےکےمنصوبےبنا رہے ہیں وہ اپنے لالچ کی تصویر دنیا کے آئینہ خانے میں دیکھتا ہے شہوانیت کا مریض سوچتا ہے کہ ساری دنیا اسےجسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے فقیر کہتا ہے کہ ساری دنیا ایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ چھوڑ دو سب کچھ بھاگ جاؤ دنیا سے۔۔ آپ جو کچھ بھی ہیں وہی کچھ آپ کو اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتا ہے اور سارا جگ آئینہ ہے جس میں آپ کو اپنا آپ ہی دکھائی پڑ رہا ہوتا ہے۔

Sunday, December 27, 2020

کسی کیلئے ڈیسٹ بین نہ بنیں

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا،ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے،ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا 

مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟

ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لدھا گھوم رہے ہوتے ہیں،وہ غصہ،مایوسی ،ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے،وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈیسٹ بین اور کچرا دان کیوں بنیں؟

اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں.

Friday, December 25, 2020

ﺑﮯ ﻋﯿﺐ ﺗﺼﻮﯾﺮ

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ*،``` ﻣﮕﺮ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻠﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﮯ ﯾﮧ ﻋﯿﻮﺏ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺐ کہ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﻭ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔

ماں کی ممتا

ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﭽا ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺟﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮈﺍکیوﻣﻨﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭼﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ، ﯾﯿﻠﻮ ﺳﭩﻮﻥ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﭘﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﺑﮭﮍﮐﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ کچھ ﺍﮌﺍ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ، ﮨﺮ ﺷﮯ ﺭﺍکھ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ، کچھ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﭽﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﭨﯿﻢ ﺍﺩﮬﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺟﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺟﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﻣﻠﯽ۔

Thursday, December 24, 2020

بڑا آدمی.....

‏بڑا آدمی کیسے بنا جائے :

ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا
ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا
''دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے''
بچے کا اگلا سوال تھا
کیسے؟

زندگی کی دوڑ......

توجہ کیجئے گا.....
  ایک ٹویوٹا پراڈو کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛
-سرگوشی سنو گے  یا اینٹ سے بات سنو گے !

میاں، بیوی اور عزت نفس

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کرسکتا ہے؟

ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟

ریچھ کی موت

‛‛ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‛‛ 

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا شیر نے تین شکار کیے 
ایک ہرن کا 
ایک گائے اور 
ایک خرگوش ۔