رات کی تارکی میں اس کا دل بہت بے چین تھا۔ جانے کیسی بےچینی تھی۔ اکتا کر موبائل اٹھایا اور بےتوجہی سے فیس بک کھولی اور مزید اکتاہٹ طاری ہوگئی۔ پورا دن صرف واٹس ایپ کی پرائیویسی لیک ہونے کے چرچے۔
"واٹس ایپ ساری پرائیویسی پبلک کر دے گا۔ آپ کے فلاں فلاں راز باہر آجائیں گے۔
واٹس ایپ کے متبادل ٹیلی گرام، سگنل یا بپ (جو ترک بھائیوں کی بنائی گئی ایپ ہے) ڈاؤنلوڈ کرنے کے مشورے۔"
وہ حیران تھی کیا سب لوگوں کو اپنی پرائیویسی اتنی عزیز تھی....؟ ہر کوئی چاہتا تھا اس کے موبائل کی ہر خبر دوسرے سے محفوظ رہے۔ اگر اتنی ہی فکر سوار ہے تو ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں؟ جب ایک غلط کام کرلیا تو اس کے انجام کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے؟ لڑکیوں کو اپنی تصویروں کی فکر تھی۔اس کا دل چاہتا تھا پہلے ایک تھپڑ مارے ان کو پھر پوچھے کہ جب اتنی فکر ہوتی ہے تو موبائل میں رکھتی کیوں ہو...؟ یہ جھوٹا ملمع خود پر طاری کرکے پھر اپنی تصویر کھینچ کر اسے بار بار دیکھتی ہو، اپنی کس حس کی تسکین کرتی ہو.....؟ اور باقی سب لوگ گناہ تو کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی کارنامہ رشتے داروں کے سامنے ظاہر نہ ہو۔
اکتاہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔ اس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
"حد ہے جب ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو کیا پرائیویسی..... پہلے ہی نجانے ہمیں کہاں کہاں چیک کیا جارہا ہے۔ کسی انسان کا ڈیٹا اور کارنامے محفوظ نہیں۔ ایسے کام ہی کیوں کریں جنہیں چھپانا پڑے... یہ دنیا بھی ناں عجیب ہے لوگوں کے گناہوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہر کوئی چاہتا ہے اس کے گناہ چھپے رہیں۔ کبھی کسی کو پتہ نہ چلے۔"
وہ خود کلامی کرتے کرتے الماری کے پاس آگئی تھی کسی کتاب کی تلاش میں۔ وہ مطالعہ کرنا چاہتی تھی. شاید دل کی بےچینی کو سکون مل جائے۔ آخری پارے کی تفسیر ہاتھ لگ گئی. اسے اٹھا کر اپنے بستر میں بیٹھ گئی نجانے کیسے کتاب کھلتے ہی سامنے سورہ الزلزال آگئی اور وہ وہیں رک گئی۔ پورے دن کی بحث آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ فیس بک پر زلزلہ ہی تو آگیا تھا آج خبروں کے باہر آنے کا۔ چاہے وہ خبر جھوٹی ہو یا سچی لیکن لوگ تو چونک گئے تھے، گھبرا گئے تھے، واٹس ایپ کو چھوڑنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ اپنی پرانی چیٹس اور تصویریں پر نظرِ ثانی ہونے لگی تھی لیکن یہ جو اتنی بڑی اطلاع، آج سے تقریباً 1400 سال پہلے دے دی گئی تھی کہ زمین ہلا دی جائے گی اور سب باہر آجائے گا اور اس سب میں "خبریں" بھی شامل ہیں۔ وہ اٹھی اور تفسیر الماری میں رکھ دی. باوضو تھی اس لیے سوچا قرآن سے سورہ الزلزال کی تلاوت ہی کرلوں۔ قرآن کھولا تو اونچی آواز میں تلاوت کرنے کی ہمت ہی نہ ہوئی بس بمشکل ہونٹ ہی ہل سکے۔
*سورۃ الزلزال (مدنی — کل آیات 8)*
*بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ*
*اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَـهَا (1)* *جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی۔*
*وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَـهَا (2)*
*اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔*
*وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَـهَا (3)*
*اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا۔*
*يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا (4)*
*اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔*
*بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَـهَا (5)*
*اس لیے کہ آپ کا رب اس کو حکم دے گا۔*
*يَوْمَئِذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّيُـرَوْا اَعْمَالَـهُمْ (6)*
*اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔*
*فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ (7)*
*پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔*
*وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (8)*
*اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔*
وہ تھک گئی اس سورت کو پڑھ کر۔ اسے ایسا لگا جیسے ساری زندگی کا حساب دیا ہو۔ اس کے ہاتھ شل ہوگئے۔
*آفت کا معرکہ دم ردو بدل ہوا*
*پھولی شقی کی سانس بھی بازو بھی شل ہوا*
ایک معرکہ ہی تو تھا گناہ چھپانے کا۔ اپنی پرائیویسی کو برقرار رکھنے کا۔ اس نے میز پر قرآن رکھا اور تھک کر جائے نماز پر بیٹھ گئی۔
"یااللہ قرآن کا حق کیسے ادا ہو؟ سب کو ڈر ہے اپنی خبروں کے کھل جانے کا، اپنے راز کے باہر آجانے کا۔ دنیا میں بدنامی کا خوف ہے لیکن کسی کو یہ یاد نہیں کہ زمین سب یاد رکھ رہی ہے اور جس دن اللہ کا حکم ہوگا وہ سب بیان کردے گی۔ زمین کی یادداشت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے کوئی کیسے اسے مٹائے گا۔ ہر انسان کے پل پل کی خبر اللہ کے حکم سے لکھی جارہی ہے، آخرت میں وہ تمام خبریں باہر آجائیں گی۔ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے کہاں منہ چھپائیں گے اس وقت؟
آج تو واٹس ایپ کے متبادل کئی ایپس ہیں، کہا جارہا ہے ٹیلی گرام بہت محفوظ ایپ ہے۔ بپ (Bip) تو سیکرٹ چیٹ کا آپشن بھی دیتی ہے اور اگر چیٹ پر 5 یا 10 سیکنڈ کا وقت لگا دیا جائے تو وہ اتنے وقت کے بعد خودبخود ڈیلیٹ ہوجاتی ہے اور کوئی بھی آپ کی اس چیٹ کے بارے میں جان نہیں سکتا۔ ہم سب قیامت کے دن کیا کریں گے جب کوئی متبادل ایپ نہیں ہوگی۔ جب زمین بھی ہموار کر دی جائے گی جب چھپنے کی جگہ بھی نہیں ہوگی کوئی پیڑ، کوئی آڑ، کوئی دیوار نہیں ملے گی۔ سایہ بھی ان کو نصیب ہوگا جو پرہیز گار ہوں گے۔
یااللہ اس دن کا خوف کیوں نہیں ہوتا ہمیں؟ آج کوئی فحش ویڈیو دیکھتے ہوئے دس بار دروازے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی آ تو نہیں رہا اس وقت کیسے بچیں گے جب ہمارا ہر گناہ ہمیں تفصیل سے بتایا جا رہا ہوگا۔"
اس وقت کے خوف سے اس کے دل کی بےچینی تو ختم ہوگئی تھی لیکن ایک نئی فکر ذہن و دل پر سوار ہوگئی تھی۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر۔ قیامت کے دن سب سامنے آنے کا خوف۔ اور اسی خوف میں وہ یاد آئے جن کے آنسو بہہ نکلے تھے سورہ الزلزال سن کر۔ جو اس شدت سے روئے کہ آج 1400 سال بعد وہ سوچتی ہے وہ کیوں روئے...؟
وہ تو مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ انہیں تو غارِیار کا لقب ملا تھا۔ وہ تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے دوست تھے۔ جن کی سادگی کا یہ حال تھا کہ اپنے گھر کا تمام سامان غزوہ کی تیاری میں دے دیتے تھے۔ ان کے اور ان کے گھر والوں کے گزارے کے لیے تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی کافی تھا۔ جن کو صدیق کا لقب عطا ہوا اور ایسا عطا ہوا کہ اس کے بغیر ان کا نام ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اگر وہ بھی اس سورت کو سن کر روتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم تو ہنسنےکا حق ہی نہیں رکھتے۔ وہ جو گناہ کی پرچھائی سے بھی دور رہتے تھے جب ان کی آنکھیں اس سورت کی وجہ سے بہہ نکلیں تو ہم گناہوں میں ڈوبے انسان اتنے بے فکرے کیسے ہوسکتے ہیں.؟ ہم کیسے خود کو قرآن سے دور کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ہم کیسے توبہ سے غافل ہوسکتے ہیں..... ؟
یہ دنیا میں آئی ایک چھوٹی سے تھرتھلی کیا ہمیں اس آخرت کے زلزلے کی یاد نہیں دلا سکتی جب زمین ہل جائے گی اور ایسی ہلے گی کہ ساری خبریں اگل دے گی۔ کیا ہم اس وقت سے نظریں چرا سکتے ہیں...؟ کیا ہم اس وقت کی تیاری نہیں کر سکتے۔۔۔؟ کیا اللہ کے آگے رازوں کے آشکار ہونے کی خبر اتنی ہلکی ہے کہ ہم اس خبر سے گزر جاتے ہیں۔ وہ کون و مکاں کا مالک ہر آن ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن جب وہ ہمیں سامنے کھڑا کر کے ایک ایک بات بتائے گا تو افففففففف میرے مالک.....
اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں سکی. اسے لگا کہ بس اب موت آئی کہ تب آئی۔ اس نے تھک کر سر گھٹنوں پر گرا لیا۔ جانتی تھی اس کی رحمت سب ڈھانپ سکتی ہے۔ ہم عاصی ہیں تو وہ تواب ہے
*مجھ سے عاصی کا، مجھ سے سیہ کار کا*
*کون غمخوار ہوتا مگر آپ ہیں*
بات تو صرف غور کرنے کی ہے، انتظار تو صرف پلٹنے کا ہے، ضرورت تو صرف سمجھنے کی ہے۔
اس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں موند لیں۔
✒️: ماوراء زیب