Thursday, January 21, 2021

اصلی اور نسلی



مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا...
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا، "بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو ابا جی نے پوچھا "اب رکھو گے نیا کتا یا نہیں ؟؟" میں نے کہا "رکھوں گا اگر کوئی اچھا مل گیا۔۔۔" تو ابا بولے "اسے ہی اٹھا لو ہے تو کتا ہی"۔۔۔ میں ہنس دیا، "ابا جی یہ بے نسلا کتا ہے میں کیوں رکھوں؟؟؟"
ابا ہنس دیئے اور بولے، "کیا فرق ہے نسلے بے نسلے میں؟ وہ بھی بھونکے گا اور یہ بھی بھونک لیتا ہے، شاید اسکی بھونک اچھی ہو۔۔۔ میں نے کہا کہ ابا جی بھونک تو نہیں دیکھنی بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اب دیکھیں یہ ٹھہرے گلی کے آوارہ کتے، ہر چیز میں منہ مارنے والے۔۔۔ اپنا کتا دیکھا۔۔!  کبھی گھر کے اس حصے میں نہیں آیا،  کبھی کسی برتن میں منہ نہیں مارا،  کبھی ایسا نہیں ہوا کوئی کھلا برتن پڑا ہو اور اس منہ مارا ہو، کسی کا لباس تک کبھی ناپاک نہیں کیا۔۔۔
ابا ہنس دیئے اور بولے "بیٹا کچھ باتیں کتوں اور انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں پر شرط ہے دونوں نسلی اور خاندانی ہوں۔۔۔ میں نے پوچھا "مثلا؟"ً تو ابا نے کہا "بیٹا وہ ہر برتن میں منہ نہیں مارتے۔۔۔ پھر بولے، "تمہیں یاد ہے؟؟ ایک دفعہ گاۓ کا دودھ نکال کر میں نے یوں ہی رکھ دیا تھا اور ایک آوارہ کتا باڑ پھلانگ کر اندر آگیا اور تمہارے والے کتے نے اسے مارا تھا۔۔۔" میں نے کہا "جی ابا۔۔۔" تو ابا بولے "بیٹا۔۔۔!!! ہمارے خاندان ، گلی ،محلے اور گاؤں کی لڑکیاں جو سکول کالج پڑھتی ہیں، یہ سب کھلا برتن ہی ہیں۔ بیٹا اب یہ چُناؤ تمہارا ہے کہ تم کیا بنو گے؟ گلی کا کوئی آوارہ کتا۔۔۔ یا اچھے خاندان کا با عزت لڑکا۔۔۔"
اور پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ آج کالج سے واپسی پر میں نے ایک دوشیزہ پر جملہ کسا تھا اور سیٹی بھی ماری تھی۔۔۔ جس کے بعد ابا جی نے انسانوں والی پیار کی زبان میں میری کتے والی کرتے ھوئے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔۔۔

سچی توبہ

کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں ایسے گوہر

قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،

سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا

ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،

مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،

ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا

انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،

سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟

اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تو ملتا!!!! ، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا

*توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین 🌏 پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔آمیـــــــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــــــن یا رب العالمین ..

کھیر کی دیگ

ٹیوب ویل کے گرد گاؤں کی کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، ایک عورت نے دوسری سے پوچھا "آج کیا کھایا؟" اُس نے جواب دیا 
"کوئی ایک مہینہ پہلے کھیر کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ کھیر ہی کھا رہی ہوں"
ایک عورت کے کان میں یہ بات پڑی تو اس نے سوچا میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں کھیر ویسے بھی اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔۔ چنانچہ اس نے گھر پہنچتے ہی کھیر کی دیگ اتارنے کا پروگرام بنایا۔۔ وہ کھیر کی دیگ سب سے چھپ کر مہینہ بھر اکیلی کھانا چاہتی تھی۔۔ لہذٰا اس نے دیگ پکا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دی۔۔ پہلے دن کھیر کھائی، دوسری دن بھی کھائی، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً بھری دیگ ضائع کرنی پڑی۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ ٹیوب ویل پہنچی تو کپڑے دھوتے ہوئے کسی عورت نے اسی عورت سے پوچھ لیا کہ آج کیا کھایا؟ تو اس نے وہی جواب دیا۔۔ "ایک ماہ سے ہر روز کھیر کھارہی ہوں"
وہ اس کے پاس گئی اور حیرانی سے کہنے لگی " بہن میں نے تو دو دن کھائی تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑی۔۔۔ تمہاری ہمت ہے جو ایک ماہ سے کھائے جا رہی ہو"
وہ عورت اس کی بات سن کر ہنس پڑی۔۔ اور کہنے لگی "میں نے ایک ماہ پہلے کھیر کی دیگ اتروا محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں کھیر پکتی ہے وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا یے، اس طرح ہر روز کھیر کھاتی ہوں"
دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں، محفلوں اور دعوتوں کا رواج عام کریں، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقین کریں آپ کے "فیلنگ سیڈ" پر گردواطراف ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل مواقع پر عزیز و اقارب اپنی جمع پونجی میں سے بالکل اسی طرح آپ پر خرچ کریں گے جیسا کہ آپ نے کیا ہوگا، آپ کو ہر محفل میں ہر دعوت پر مدعو کیا جائے گا. جزاک اللہ

حقیقی خوشی

 ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک کروڑ پتی شخص تھا ، پوچھا :" زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی؟"

وہ کروڑ پتی شخص بولا:

میں زندگی میں خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ میں آیا.سب سے پہلا مرحلہ تھا مال اور اسباب جمع کرنے کا. لیکن اس مرحلے میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو مجھے مطلوب تھی.پھر دوسرا مرحلہ آیا قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے کا. لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس چیز کا اثر بھی وقتی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی.

پھر تیسرا مرحلہ آیا بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کا. جیسے فٹ بال ٹیم خریدنا، کسی ٹورسٹ ریزارٹ وغیرہ کو خریدنا . لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں تصور کرتا تھا.چوتھی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیرس خریدنے میں حصہ لوں.

دوست کی بات پر میں نے فوراً وہیل چیرس خرید کر دے دیں. لیکن دوست کا اصرار تھا کہ میں اس کے ساتھ جا کر اپنے ہاتھ سے وہ وہیل چیرس ان بچوں کے حوالے کروں. میں تیار ہو گیا اور اس کے ساتھ گیا. وہاں میں نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ کرسیاں دیں. میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی عجیب چمک دیکھی. میں نے دیکھا کہ وہ سب کرسیوں پر بیٹھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں اور جی بھر کے مزہ کر رہے ہیں. ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی پکنک اسپاٹ پر آئے ہوئے ہیں.

لیکن مجھے حقیقی خوشی کا احساس تب ہوا جب میں وہاں سے جانے لگا اور ان بچوں میں سے ایک نے میرے پیر پکڑ لیے. میں نے نرمی کے ساتھ اپنے پیر چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ میرے چہرے کی طرف بغور دیکھتا ہوا میرے پیروں کو مضبوطی سے پکڑے رہا.

میں نے جھک کر اس بچے سے پوچھا : کیا آپ کو کچھ اور چاہیے؟

اس بچے نے جو جواب مجھے دیا اس نے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی سے روشناس کرایا بلکہ میری زندگی کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا.اس بچے نے کہا: میں آپ کے چہرے کے نقوش اپنے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں تاکہ جب جنت میں آپ سے ملوں تو آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار اپنے رب کے سامنے بھی آپ کا شکریہ ادا کر سکوں.."


تین سوال

کہاجاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ذہن میں ہمیشہ تین سوال کھٹکتے ، رہتے،،،،،

"پہلا سوال یہ کہ میں واقعی سبکتگین کا بیٹا ہوں کے نہیں... کیونکہ ان کے متعلق مشہور تھا  کہ یہ بادشاہ کے سگے بیٹے نہیں بلکہ لے پالک ہے

دوسرا یہ یہ کہ علماء واقعی انبیاء کے وارث ہے ؟ یہ تو خود بے اختیار قوم ہے انبیاء کا وارث تو بادشاہِ وقت یا کسی با اختیار آدمی کو ہونا چاہیے تھا

سلطان اور ایران کا بادشاہ

حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایران کا بادشاہ اپنے سفیر کیساتھ ملاقات کے لۓ آیا ھوا تھا دن سارا سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال میں گزر گیا رات کے کھانے کے بعد ایرانی بادشاہ اور سفیر کو مہمان خانے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا۔۔۔

 سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ خود بھی مہمان خانہ میں ھی ایک الگ خیمہ نما کمرے میں ٹھہرے تا کہ مہمان داری میں

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

قدرت اللہ شہاب "شہاب نامہ" میں بتاتے ہیں کہ "ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سےگاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا وہاں ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹاٹ بھرا ہوا تھا۔ کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی، لیکن ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کر کے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔

Wednesday, January 20, 2021

آوارہ

حاجی نعیم صاحب کا جواب سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ یوں لگا جیسے میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا "حاجی صاحب کیا کہا آپ نے؟"۔ حاجی صاحب نے مکمل اطمینان سے وہی جواب دیا"میں راشد کو بدمعاش بنانا چاہتا ہوں"۔ 

میں نے بے اختیار اپنی کنپٹی کھجائی۔ حاجی صاحب کو میں 20 سال سے جانتا ہوں۔ انتہائی ڈیسنٹ انسان ہیں۔ریٹائرڈ بینک آفیسر ہیں۔ نہایت خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت شریف بھی ہیں۔ ہمیشہ سے تعلیم کے حق میں رہے ہیں۔ ماشاء اللہ چار بیٹوں کے باپ ہیں۔ بڑا بیٹا لندن میں انجینئر ہے، دوسرا امریکہ میں ڈاکٹر ہے اور تیسرا کینیڈا میں پائلٹ ہے جبکہ چوتھا بیٹا راشد پاکستان میں ہی حاجی صاحب کے ساتھ رہتا ہے اور سیکنڈ ایئر کا سٹوڈنٹ ہے۔
راشد پڑھائی میں کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ زیادہ تر موٹر سائیکل پر آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ دو تین دفعہ حوالات کی بھی سیر کرچکا ہے۔ پتا نہیں کیوں حاجی صاحب اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی پہلو تہی کرجاتے ہیں۔ 
آج اتفاقاً حاجی صاحب سے ملاقات ہوگئی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ راشد کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ حاجی صاحب کا جواب میرے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ 
ایک ایسا باپ جو خود بھی تعلیم یافتہ ہو اور تین بیٹے بھی بیرون ملک نہایت پرکشش عہدوں پر کام کر رہے ہوں وہ ایسا جواب دے تو چونکنا تو بنتا ہے۔

وجہ پوچھی تو بے اختیار ہنس پڑے "یار اُس کی بدمعاشی کی وجہ سے میرے بہت سارے مسئلے خودبخود حل ہوگئے ہیں، ویسے بھی کم بخت ہے تو آوارہ لیکن سستے جذبات اُس میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں"۔ 

میں نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا "کیا مطلب؟"۔

حاجی صاحب دوبارہ ہنسے "دیکھو! میں تو ٹھہرا بزدلی کی حد تک شریف انسان، بجلی کا پورا پورا بل بھرنے کے باوجود جب لائن مین مجھ سے آکر مشکوک انداز میں کہتا تھا کہ آپ کا میٹر کیوں آہستہ چلتا ہے؟ تو میں خوفزدہ ہو جاتا تھا اور قسمیں کھانے لگتا تھا کہ مجھے کچھ نہیں پتا۔
اِس پر لائن مین اور زیادہ شیر ہوجاتا تھا اوردھمکی دیتا تھا کہ اگر اسے کچھ پیسے نہ دیے گئے تو وہ اوپر شکایت لگا دے گا جس کے نتیجے میں نہ صرف میٹر کٹ جائے گا بلکہ لاکھوں روپے کا جرمانہ بھی بھرنا ہوگا۔
میں ہر دفعہ اسے بلاوجہ خوش کرنے کے لیے دو ہزار دے دیا کرتا تھا۔ 
اس بات کی خبر میرے چھوٹے بیٹے راشد کو ہوئی تو اُس نے اپنے انداز سے لائن مین سے بات کی۔ فائدہ یہ ہوا کہ لائن مین خوفزدہ ہوگیا اور اب جب بھی آمنا سامنا ہو تو سلام لے کر چپکے سے نکل جاتا ہے۔

بازار میں ایک دفعہ ایک موٹر سائیکل والا غلط رخ پر آ رہا تھا، سیدھا مجھ سے ٹکرا گیا اور الٹا مجھے ہی گالیاں دینے لگا۔ 
راشد میرے ساتھ تھا۔  اس نے موٹر سائیکل والے کو دو تھپڑ لگائے اور موٹر سائیکل والا بے اختیار میرے قدموں میں گر گیا۔

تم نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہمسائے اکثر اپنی گاڑی ہمارے گیٹ کے عین سامنے لگا جاتے تھے، میں نے ایک دو دفعہ اُن سے گذارش کی کہ ایسا نہ کیا کریں کیونکہ پھر ہمیں گیٹ کھولنے میں پریشانی ہوتی ہے لیکن انہوں نے الٹا مجھے برا بھلا کہا اور باز نہیں آئے۔ 
راشد نے ایک ہی دفعہ اُن کے دروازے پر جا کر کوئی بات کی۔ اُس کے بعد اُن کی گاڑی کبھی ہمارے گیٹ کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی۔" 

اب ہنسنے کی میری باری تھی۔ میں نے قہقہہ لگایا "تو گویا آپ تین بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بعد چوتھے بیٹے کی بدمعاشی انجوائے کر رہے ہیں؟"۔ 

حاجی صاحب خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر قریبی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے اور بولے "سچ پوچھو تو مجھے راشد کبھی اچھا نہیں لگا لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ کاش میں نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسا ہی بنایا ہوتا۔ میں نے جس بیٹے کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی وہ مستقبل بنانے ملک سے باہر چلا گیا۔
میرے تینوں بیٹے شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھر بہت خوش ہیں۔ لیکن میں اور میری بیوی بالکل اکیلے ہو گئے ہیں۔ 
پڑھی لکھی اولاد ماں باپ کا فخر تو ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ماں باپ کے کسی کام کی نہیں رہتی۔" 
حاجی صاحب نے گہری سانس لی، جیب سے مڑا تڑا ٹشو پیپر نکال کرآنکھوں کے گوشے صاف کیے اور ٹشو پیپر دوبارہ مٹھی میں جکڑ لیا
"مجھے احساس ہے کہ میرے یہ جملے سراسر خود غرضی کے زمرے میں آتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں راشد ان پڑھ رہے۔ وہ لفنگا اور آوارہ تو ہے لیکن رات کو میرے پیر بھی دباتا ہے۔ کوئی بھی چیز چاہیے ہو تو جھٹ سے لا دیتا ہے۔ یہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن گھر کے سارے کام یہی کرتا تھا۔ 
جب اس کے تینوں بڑے بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور کتابیں کھولے پڑھ رہے ہوتے تھے تو یہی سبزی لاتا تھا۔ بڑے بھائی اکیڈمیوں میں چلے جاتے تھے اور یہ تنور سے روٹیاں لانے کا فریضہ سرانجام دیتا تھا۔ میری گاڑی بھی یہی صاف کرتا تھا۔ گھر کے چھت والے پنکھے بھی اسی نے صاف کیے۔ 
اسے بڑے بڑے الفاظ نہیں آتے۔ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر مجھے حوصلہ دیتا ہے۔ فلمی انداز میں ڈائیلاگ مارتا ہے کہ ابو میرے ہوتے ہوئے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
میری دعا ہے کہ یہ سیکنڈ ایئر میں پھر فیل ہوجائے تاکہ نہ کبھی تعلیم حاصل کرے نہ ہمیں چھوڑ کر باہر جائے۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین ہے کہ یہ بدمعاش مرتے دم تک ہمارے ساتھ بھی رہے گا اور ہمارے بڑھاپے کا سہارا بھی بنے گا۔

حاجی صاحب بے اختیار زور سے ہنس پڑے اور مٹھی کھول کر ایک بار پھر گیلا ٹشو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔

(منقول)

Tuesday, January 19, 2021

ماں صرف ماں ہے

ڈی آئی جی نونت سکیرا جی نے عبرت ناک داستان پوسٹ کی ھے۔ 

ایک جج صاحب اپنی بیوی کو طلاق کیوں دے رہے ہیں، ؟؟؟؟ 

رونگٹے کھڑے کر دینے والا سچا واقعہ۔۔ 

کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریب شام کے7بجےھونگے ،موبائل کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز ۔۔۔ 
میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا ؟؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتایے اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ۔ اور ماں کدھر ہیں۔آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کے آپ فوراً آجاءیے۔ 
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہونچا۔۔ 

دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو یمارے جج دوست ہیں ) سامنے بیٹھے ہوے ہیں۔ 
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں؛ ١٢ سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور ٩ سال کی بیٹی بھی کچھ کہ نہیں پا رہی ہے۔ 

میں نے بھای صاحب سے پوچھاکہ" آخر کیا بات ہے"؟ 
بھائی صاحب  کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔۔

پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔

 کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں۔  مجھے طلاق دینا، چاہتے ہیں َ۔ 

میں نے پوچھا " یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟  اتنی اچھی فیملی ہے ؛ دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔  پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔ 

لیکن میں نے بچوں سے  پوچھا دادی کدھر ھے ۔ تو بچوں نے بتایا ؛  پاپا  انہیں ٣ دن پہلے نوئیڈا کے "اولڈ ایج ھوم" میں شفٹ کر آئے ہیں۔

میں نے نوکر سے کہا؛ مجھے اور بھائی صاحب کو چاے پلاو؛ 
کچھ دیر میں چائے آئی  َ بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پیا۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔  اور بولے میں نے ٣ دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں اپنی 61سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ھوں۔ 

پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کے لیے اتنی مصیبتیں ہوگئیں  کہ بیوی نے قسم کھا لی کی "میں ماں جی کا دھیان نہیں رکھ سکتی"
نا تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔  

روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔ 
نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے تھے۔ اور اپنی منمانی کرتے تھے۔ 

ماں نے ۱۰ دن پہلے بول دیا ۔۔۔۔۔، تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔۔ میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔ 

                     جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں  نے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے *مجھے پڑھایا* اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ھوں،

لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ 

اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ھوم میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے  تھے۔ 

           مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات۔ رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔
 
ایک بار  جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست بخار میں مبتلا پایا۔۔۔پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا۔ میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آی ہوں اس لئے گرم ہے۔ 

لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے دھلی یونیورسٹی سے *ایل ایل بی* تک پڑھایا۔

 مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔ 
کہتے کہتے رونے لگے۔۔ ۔۔ اور کہنے لگے۔ جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہونگے۔ 

ہم جنکے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم انکو ایسے لوگوں کے حوالے کر آئے '؛ '''جو انکے عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔۔ جب میں ایسی ماں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہوں۔ 

آذادی اگر اتنی پیاری ھے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔ 

جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جاینگے۔اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔
 
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے  اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔ 
اور اگر اتنا سب کچھ کر نے کے باوجود ماں، آشرم میں رہنے کے لئے مجبور ہے ۔ 
تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا۔ 

ماں کے ساتھ رہتے۔ رہتے عادت بھی ھو جائےگی۔
 ماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
 جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ 

اسی درمیان رات کے 12:30ھوگیے۔ میں نے بھابی جی کے چہرے کو دیکھا۔ 
انکے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئےتھے۔ 

میں نے ڈرائیور سے کہا " ابھی ہم لوگ نوئیڈا چلیں گے۔  بھابی جی ؛ بچے، اور ہم سارے لوگ نوئیڈا پہونچے،
  بہت زیادہ گزارش کرنے پر گیٹ کھلا۔ 
بھای صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے ۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔ 

چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب" ؟ 
بھای صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔ 

اس چوکیدار نے کہا "جہاں سارے ثبوت سامنے ہے۔ تب تو آپ اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے ۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہونگے صاحب۔

 اتنا کہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔ 

اندر سے ایک عورت آی جو وارڈن تھی۔ اسنے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔  2 بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں  اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دونگی، ؟ 

میں نے وارڈن سے کہا "بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت  پچھتاوے میں جی رہے ہیں، ۔ 

آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی 
۔ کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ 
صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے۔، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔ 

مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔ 
لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آے ھیں۔ تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔  آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک ہی آگئے۔ انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔ 

کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوی۔ پورے آشرم کے لوگ باہر تک آے۔ کسی طرح ہم لوگ آشرم کے لوگوں کو چھوڑ پائے ۔

 سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔ 

راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور  بھای صاحب ایک دوسرے کے جذبات کو اپنے پرانے رشتے پر بٹھا رہے تھے۔ گھر آتے آتے قریب 3:45 ھو گیا۔ 

بھابی جی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے۔ یہ سمجھ گئی تھیں۔ 

میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔ 

*ماں صرف ماں ھے*
اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔ 

ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔ اگر وہ کمزور ہو گئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور ھو جاۓگی ۔ اور بنا ریڑھ کا سماج کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔ 

اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کی کوئی مسئلہ ھو تو؛ انھیں یہ ضرور پڑھوایں اور اچھی طرح سمجھایں ؛  کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔  اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی سالوں  تک رہے گا۔ 

یقین مانیں سب ھوگا  تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔ 
سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔ 

اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کو دیں۔۔ تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکے۔

اپنے آپ کو پہچانو

عرب حکایت ہے کہ 
ایک بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے کو بلا کر ایک پرانی خستہ حال گھڑی دی اور کہا .... بیٹا یہ گھڑی تمہارے پڑدادا کی ہے۔ اس کی عمر دو سو سال ہوگی۔ یہ گھڑی میں تمہیں دینا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے تمہیں میرا کام کرنا ہوگا۔ اسے لیکر گھڑیوں والی دکان پر جاؤ اور پوچھو وہ یہ گھڑی کتنے میں خریدیں گے ... "

وہ لڑکا جب واپس لوٹا تو کہنے لگا .... دکان دار گھڑی کی حالت دیکھتے ہوئے پانچ درھم سے زیادہ قیمت دینے کو تیار نہیں ... "

بوڑھے باپ نے کہا..... اب اسے وہاں لے جا کر بیچو جہاں نوادرات فروخت ہوتے ہیں "

وہ لڑکا جب وہاں سے واپس آیا تو بولا وہ لوگ پانچ ہزار درھم دینے کو تیار ہیں "

یہ سن کر وہ شخص بولا....  اب اسے عجائب گھر لے جاو اور فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کرو "

لڑکے نے واپس آکر کہا ....  وہ لوگ اسے پچاس پزار درھم میں خریدنے کو تیار ہیں ...!!

یہ سن کر اس بوڑھے شخص نے بیٹے کو مخاطب کیا اور کہا .....!!

بیٹا..!! گھڑی کی قیمت لگا کر میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا اپنی ذات کو اس جگہ ضائع نہ کرنا،  جہاں تمہاری قدر و منزلت نا ہو۔ تمہاری اہمیت کا اندازہ وہیں لگایا جائیگا جنہیں پرکھنے کی سمجھ ہوگی.

مقصود تحریر یہ کہ  *اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کو ایسی جگہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں جہاں سوائے وقت ضائع کرنے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔* 

*" اپنی صلاحیتوں، خوبیوں کو صحیح سمت استعمال کرو۔ ایسی جگہ خود کو مت تھکاؤ جہاں بدلے میں سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل نہ ہو. "*