Sunday, January 24, 2021

بات صرف سوچ کی ہے....

بات صرف سوچ کی ہے....
عورت اپنی ہو یا پرائی... اسے دوسروں سے ڈسکس نہیں کرتے.... مذاق نہیں بناتے.. برے خطاب نہیں دیتے.
 اخلاقیات آپکی نسلوں کو نواز دیں گی. اور بد اخلاقی نسلوں کو بگاڑ دیتی ہے . (واقعی سوچ، نیت اور عمل کا اثر اگلی نسل تک ضرور جاتا ہے، مشاہدہ کر کے دیکھ لیجیے) 
کچھ عرصہ ہوا، میرے بہنوئی گاؤں کے چھوٹے سے ہوٹل میں کسی آدمی کے ساتھ کاروباری معاملہ کرنے بیٹھے ہوئے تھے. ان کی ساتھ والی میز پر ایک صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے.. دوستوں میں شیخی بگھارنے کے لیے ان صاحب نے کسی خاتون کو فون ملایا اور سپیکر آن کر کے بات چیت شروع کر دی. وہ صاحب شادی شدہ اور تین بیٹیوں کے والد محترم ہیں. ہنس ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے اور داد طلب نظروں سے ارد گرد کی عوام کو متاثر کرتے ہوئے انہوں نے اس خاتون کی عزت سر بازار نیلام کر دی. خاتون بھی گاؤں ہی کی ہیں اور طلاق یافتہ ہیں...
خاتون کا عمل بے حد غلط، لیکن اس فون کال کے پیچھے شاید ایک اعتبار ہو گا، ایک اپنے پن کا احساس ہو گا اور بے خوفی ہو گی... جو منہ کے بل جا گری ہو گی... 
احمق عورتیں کیوں بھول جاتی ہیں کہ احترام بس محرم رشتوں سے ملتا ہے...؟ ؟اسکے علاوہ تو کوئی لاکھوں میں ایک مرد ہوتا ہے جو اجنبی عورت عزات و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہو گا.

شہزادے کی ذہانت

ایک شہزادہ کم صورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ''اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔

 دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے! بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔

 ہر جنگل کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرو کہ وہ خالی ہوگا، تمہیں کیا خبر کہ اس میں کہیں شیر سو رہا ہو۔میں نے سنا ہے کہ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر کہا: میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا!

جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔ جب باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا! کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔

 بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنایا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدشکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زور سے بند کیے۔

 شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ 

اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصّہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

 سچّی بات یہ ہے کہ دو فقیر ایک کمبل اوڑھ کر آرام سے لیٹ سکتے ہیں لیکن دوبادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے:

 اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے۔

دوسری ماں

دوسری ماں کہاں سے ملے گی..
ابن قیم رحمه الله نے ایک عجیب بات لکهی ہے.... 
فرماتے ہیں

 میں گلی میں جارہا تها میں نے دیکها ایک دروازہ کهلا ماں اپنے بچے کو مار رہی ہے تهپڑ لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تو نے مجهے بڑا ذلیل کیا.بڑا پریشان کیا.نافرمان ہے.کوئی بات نہیں مانتا.نکل جا میرے گهر سے.وہ بچہ رو رہا تها.دهکے کها رہا تها.جب گهر سے باہر نکلا.ماں نے کنڈی لگا دی.
فرماتے ہیں میں کهڑا ہوگیا کہ ذرا منظر تو دیکهوں.بچہ روتے روتے ایک طرف کو چل پڑا ذرا آگے گیا رک کر پهر واپس آگیا.

میں نےپوچها بچے تم واپس کیوں آگئے. کہنے لگا.سوچا کہیں اور چلا جاوں.پهر خیال آیا کہ مجهے دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے.مجهے ماں کی محبت نہیں مل سکتی.میں اسی لیے واپس آگیا ہوں.محبت ملے گی اسی در سے ملے گی.

کہتے ہیں بچہ بات کرکے وہیں بیٹھ گیا.میں بهی وہیں بیٹها. بچے کو نیند آئی.اس نے دہلیز پر سر رکها سو گیا.کافی دیر گزری ماں نے کسی وجہ سے دروزہ کهولا.ضرورت کے لیے باہر جانا چاہتی تهی.بیٹے کو دیکھا دہلیز پر سر رکهے سو رہا ہے.اٹهایا.......کیوں دہلیز پر سر رکهے سو رہے ہو؟؟
امی مجهے دنیا میں دوسری ماں نہیں مل سکتی. میں اس دہلیز کو چهوڑ کر کیسے جاوں..

فرمایا بچے کی بات سے ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے. بچے کو سینے سے لگا لیا......میرے بیٹے جب تیرا یقین ہے کہ اس گهر کے سوا تیرا گهر کوئی نہیں 
میرے در کهلے ہیں آجا میں نے تیری غلطیوں کو معاف کردیا.
فرماتے ہیں........

جب گناہگار بندہ اپنے رب کے دروازے پر اس طرح آتا ہے

 رب کریم میری خطاوں کو معاف کردے.

میرے گناہوں کو معاف کردے.

اے بے کسوں کے دستگیر.

اے ٹوٹے دلوں کوتسلی دینے والے.

اے پریشانیوں میں سکون بخشنے والی ذات.

اے بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے والی ذات.

اے گناہوں کو اپنی رحمت کے پردوں میں چهپا لینے والی ذات.

تو مجه پر رحم فرما دے.

مجهے در در دهکے کهانے سے بچا لے.

اللہ اپنی ناراضگی سے بچا لے.

پروردگار آئندہ نیکوکاری کی زندگی عطافرما.

جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہے. اللہ تعالی اس بندے کی توبہ کو قبول کر لیتے ہیں.
اللہ تعالي ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 آمین

Saturday, January 23, 2021

محبوب کی نظر کرم

کوٹ مٹھن شریف میں ایک مجذوب تھا 
جو ہر آتے جاتے سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا کہ 
" عید کڈاں؟ " ( عید کب ہوگی؟ ) 
کچھ  لوگ اس مجذوب کی بات اَن سُنی کر دیتے 
اور کچھ سُن کر مذاق اُڑاتے گُزر جاتے 
 ایک دن حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ اس جگہ سے گزرے 
تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا 
 " عید کڈاں؟ " ( عید کب ھوگی؟ )
آپ صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا 
" یار ملے جڈاں" ( جب محبوب ملے وھی دن عید کا دن ھو گا )
 یہ الفاظ سُنتے ھی مجذوب کی  آنکھُوں سے 
موتیوں کی طرح آنسوؤں جاری ھو گے 
وہ مزید ترستی آنکھوں سے گویا ھوا سرکار 
" یار ملے کڈاں؟ " ( محبوب کب  ملے گا؟ ) 
خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
" مَیں مرے جڈاں " ( جب " مَیں " مرے  گئی تب )
بس یہ فرمانا تھا  کہ مجذوب نے کپکپاتے اور تھرتھراتے ھوۓ عرض کیا حضور 
" مَیں مرےِ کڈاں؟ " ( میں کب مرے گی؟ ) 
سرکار رحمتہ اللہ علیہ مسکراۓ اُسے پیار سے تھپکی دیتے یہ کہتے چل دیے 
" یار ڈیکھے جڈاں " ( جب محبوب نظرِ کرم کرے گا )

Thursday, January 21, 2021

اصلی اور نسلی



مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا...
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا، "بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو ابا جی نے پوچھا "اب رکھو گے نیا کتا یا نہیں ؟؟" میں نے کہا "رکھوں گا اگر کوئی اچھا مل گیا۔۔۔" تو ابا بولے "اسے ہی اٹھا لو ہے تو کتا ہی"۔۔۔ میں ہنس دیا، "ابا جی یہ بے نسلا کتا ہے میں کیوں رکھوں؟؟؟"
ابا ہنس دیئے اور بولے، "کیا فرق ہے نسلے بے نسلے میں؟ وہ بھی بھونکے گا اور یہ بھی بھونک لیتا ہے، شاید اسکی بھونک اچھی ہو۔۔۔ میں نے کہا کہ ابا جی بھونک تو نہیں دیکھنی بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اب دیکھیں یہ ٹھہرے گلی کے آوارہ کتے، ہر چیز میں منہ مارنے والے۔۔۔ اپنا کتا دیکھا۔۔!  کبھی گھر کے اس حصے میں نہیں آیا،  کبھی کسی برتن میں منہ نہیں مارا،  کبھی ایسا نہیں ہوا کوئی کھلا برتن پڑا ہو اور اس منہ مارا ہو، کسی کا لباس تک کبھی ناپاک نہیں کیا۔۔۔
ابا ہنس دیئے اور بولے "بیٹا کچھ باتیں کتوں اور انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں پر شرط ہے دونوں نسلی اور خاندانی ہوں۔۔۔ میں نے پوچھا "مثلا؟"ً تو ابا نے کہا "بیٹا وہ ہر برتن میں منہ نہیں مارتے۔۔۔ پھر بولے، "تمہیں یاد ہے؟؟ ایک دفعہ گاۓ کا دودھ نکال کر میں نے یوں ہی رکھ دیا تھا اور ایک آوارہ کتا باڑ پھلانگ کر اندر آگیا اور تمہارے والے کتے نے اسے مارا تھا۔۔۔" میں نے کہا "جی ابا۔۔۔" تو ابا بولے "بیٹا۔۔۔!!! ہمارے خاندان ، گلی ،محلے اور گاؤں کی لڑکیاں جو سکول کالج پڑھتی ہیں، یہ سب کھلا برتن ہی ہیں۔ بیٹا اب یہ چُناؤ تمہارا ہے کہ تم کیا بنو گے؟ گلی کا کوئی آوارہ کتا۔۔۔ یا اچھے خاندان کا با عزت لڑکا۔۔۔"
اور پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ آج کالج سے واپسی پر میں نے ایک دوشیزہ پر جملہ کسا تھا اور سیٹی بھی ماری تھی۔۔۔ جس کے بعد ابا جی نے انسانوں والی پیار کی زبان میں میری کتے والی کرتے ھوئے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔۔۔

سچی توبہ

کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں ایسے گوہر

قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،

سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا

ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،

مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،

ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا

انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،

سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟

اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تو ملتا!!!! ، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا

*توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین 🌏 پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔آمیـــــــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــــــن یا رب العالمین ..

کھیر کی دیگ

ٹیوب ویل کے گرد گاؤں کی کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، ایک عورت نے دوسری سے پوچھا "آج کیا کھایا؟" اُس نے جواب دیا 
"کوئی ایک مہینہ پہلے کھیر کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ کھیر ہی کھا رہی ہوں"
ایک عورت کے کان میں یہ بات پڑی تو اس نے سوچا میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں کھیر ویسے بھی اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔۔ چنانچہ اس نے گھر پہنچتے ہی کھیر کی دیگ اتارنے کا پروگرام بنایا۔۔ وہ کھیر کی دیگ سب سے چھپ کر مہینہ بھر اکیلی کھانا چاہتی تھی۔۔ لہذٰا اس نے دیگ پکا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دی۔۔ پہلے دن کھیر کھائی، دوسری دن بھی کھائی، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً بھری دیگ ضائع کرنی پڑی۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ ٹیوب ویل پہنچی تو کپڑے دھوتے ہوئے کسی عورت نے اسی عورت سے پوچھ لیا کہ آج کیا کھایا؟ تو اس نے وہی جواب دیا۔۔ "ایک ماہ سے ہر روز کھیر کھارہی ہوں"
وہ اس کے پاس گئی اور حیرانی سے کہنے لگی " بہن میں نے تو دو دن کھائی تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑی۔۔۔ تمہاری ہمت ہے جو ایک ماہ سے کھائے جا رہی ہو"
وہ عورت اس کی بات سن کر ہنس پڑی۔۔ اور کہنے لگی "میں نے ایک ماہ پہلے کھیر کی دیگ اتروا محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں کھیر پکتی ہے وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا یے، اس طرح ہر روز کھیر کھاتی ہوں"
دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں، محفلوں اور دعوتوں کا رواج عام کریں، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقین کریں آپ کے "فیلنگ سیڈ" پر گردواطراف ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل مواقع پر عزیز و اقارب اپنی جمع پونجی میں سے بالکل اسی طرح آپ پر خرچ کریں گے جیسا کہ آپ نے کیا ہوگا، آپ کو ہر محفل میں ہر دعوت پر مدعو کیا جائے گا. جزاک اللہ

حقیقی خوشی

 ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک کروڑ پتی شخص تھا ، پوچھا :" زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی؟"

وہ کروڑ پتی شخص بولا:

میں زندگی میں خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ میں آیا.سب سے پہلا مرحلہ تھا مال اور اسباب جمع کرنے کا. لیکن اس مرحلے میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو مجھے مطلوب تھی.پھر دوسرا مرحلہ آیا قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے کا. لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس چیز کا اثر بھی وقتی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی.

پھر تیسرا مرحلہ آیا بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کا. جیسے فٹ بال ٹیم خریدنا، کسی ٹورسٹ ریزارٹ وغیرہ کو خریدنا . لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں تصور کرتا تھا.چوتھی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیرس خریدنے میں حصہ لوں.

دوست کی بات پر میں نے فوراً وہیل چیرس خرید کر دے دیں. لیکن دوست کا اصرار تھا کہ میں اس کے ساتھ جا کر اپنے ہاتھ سے وہ وہیل چیرس ان بچوں کے حوالے کروں. میں تیار ہو گیا اور اس کے ساتھ گیا. وہاں میں نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ کرسیاں دیں. میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی عجیب چمک دیکھی. میں نے دیکھا کہ وہ سب کرسیوں پر بیٹھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں اور جی بھر کے مزہ کر رہے ہیں. ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی پکنک اسپاٹ پر آئے ہوئے ہیں.

لیکن مجھے حقیقی خوشی کا احساس تب ہوا جب میں وہاں سے جانے لگا اور ان بچوں میں سے ایک نے میرے پیر پکڑ لیے. میں نے نرمی کے ساتھ اپنے پیر چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ میرے چہرے کی طرف بغور دیکھتا ہوا میرے پیروں کو مضبوطی سے پکڑے رہا.

میں نے جھک کر اس بچے سے پوچھا : کیا آپ کو کچھ اور چاہیے؟

اس بچے نے جو جواب مجھے دیا اس نے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی سے روشناس کرایا بلکہ میری زندگی کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا.اس بچے نے کہا: میں آپ کے چہرے کے نقوش اپنے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں تاکہ جب جنت میں آپ سے ملوں تو آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار اپنے رب کے سامنے بھی آپ کا شکریہ ادا کر سکوں.."


تین سوال

کہاجاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے ذہن میں ہمیشہ تین سوال کھٹکتے ، رہتے،،،،،

"پہلا سوال یہ کہ میں واقعی سبکتگین کا بیٹا ہوں کے نہیں... کیونکہ ان کے متعلق مشہور تھا  کہ یہ بادشاہ کے سگے بیٹے نہیں بلکہ لے پالک ہے

دوسرا یہ یہ کہ علماء واقعی انبیاء کے وارث ہے ؟ یہ تو خود بے اختیار قوم ہے انبیاء کا وارث تو بادشاہِ وقت یا کسی با اختیار آدمی کو ہونا چاہیے تھا

سلطان اور ایران کا بادشاہ

حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایران کا بادشاہ اپنے سفیر کیساتھ ملاقات کے لۓ آیا ھوا تھا دن سارا سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال میں گزر گیا رات کے کھانے کے بعد ایرانی بادشاہ اور سفیر کو مہمان خانے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا۔۔۔

 سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ خود بھی مہمان خانہ میں ھی ایک الگ خیمہ نما کمرے میں ٹھہرے تا کہ مہمان داری میں