Sunday, January 24, 2021

انٹرویو

بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا _ آج اس کا انٹرویو تھا ۔

     وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا : اے کاش ، آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان  کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا  _ امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری  سے جان چھڑا لوں گا ۔! 
      صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ، بیزار ہو گیا ہوں ۔ 
     صبح غسل خانے کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے :پہلے بستر کی چادر درست کرو پھر غسل خانے جاؤ ! 
     غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے: نل بند کردیا _ تولیہ سہی جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟ 
     ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑی : پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟ 
    کیا کیا سنیں؟؟! یار، نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا - 

     آفس میں  بہت سے امیدوار بیٹھے "باس " کا انتظار کر رہے تھے _ دس بج گئے تھے  _ اس نے دیکھا ، پیسج کی  بتی ابھی تک جل رہی ہے _ امی یاد  آگئیں تو بتی بجھا دی ۔ آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا _
بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا ، اس کو بند کردیا _ والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی _
      بورڈ لگا تھا : انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا ! 
      سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی _ اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی _ اسے ہٹاکر اوپر گیا_  دیکھا ، پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے _ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں ، فوراً واپس بھیج دیتے ہیں ۔

      میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی _ تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھا : کب سے جوائن کر رہے ہو ؟ 
      ان کے سوال پر مجھے یوں لگا ، جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے 'فول' بنا رہے ہیں - 
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا : اپریل فول نہیں ، حقیقت ہے ۔

     آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا ہے_  صرف CCTV میں امیدواروں کا برتاؤ دیکھا گیا ہے _  سبھی امیدوار آئے ، مگر کسی نے  نل یا لائٹ بند نہیں کی ، سوائے تمھارے _ 
     مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین ، جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے  _ 
     جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں ، وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو ، مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکتا  _
     یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
     زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں ، تہذیب کا اپنا مقام ہے _
( منقول )

ہماری سوچ

ہر چیز بدلی نہیں جا سکتی ,,لیکن ہم اپنی سوچ تو بدل سکتے ہیں نا ؟

جانتے ہیں -----جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے وہاں دوسری ہوائیں فوراً بسیرا کر لیتی ہیں ..
اسی لیے آپکو آندھیاں محسوس ہوتی ہیں 

آپ کا جو دل ہے اگر یہ اللّٰہ کو یاد نہیں کرتا تو اِس میں خلاء (Space) آ جائے گی  

تو پھر اس جگہ کو بھرنے شیطانی خیال اور نیگٹیو (Negative)  سوچیں آئیں گی ---'کیونکہ جگہ تو بھرنی ہی ہے 

آپکو یہ تجربہ ہوا ہو گا کے جب آپ اللّٰہ کا ذکر نہیں کرتے ,نماز نہیں پڑھتے ,قرآن نہیں پڑھتے تو آپکا دماغ آہستہ آہستہ دنیا کی طرف شفٹ (Shift) ہوتا جاتا ہے --'ص
پھر ذہن میں شیطانی خیال ,لوگوں کی باتیں آتی ہیں اور پھر (At the End) آخر میں آپ کہتے ہیں زندگی بہت مشکل ہے لوگ بڑے منافق ہیں  .....

غلطی ہماری ہوتی ہے ,,,اللَٰہ نے کیا ایسا کہا کہ یہ دنیا آسان جگہ  ہے؟؟ یہاں سب لوگ اچھے ہی ملیں گے؟؟

یاد رکھیں ! جو اللہ پہ یقین رکھے گا اللہ اس سے غم اور فکریں دور کر دے گا
اور اللہ پہ یقین اللہ کو یاد رکھنے سے آتا ہے نا..  

تو اب سے جب پریشانی بڑھتی جائے ,صبر کم ہوتا جائے ..
بس سمجھ جائیں ذکر کی ضرورت ہے

پکار

  جب انسان جذبوں کی گہرائی کا احساس پا لیتا ہے تب خاموشی بولنے لگتی ہے اور الفاظ بےمعنی ٹھہرتے ہیں. 
اور جب کائنات کی بولی سمجھنے لگے تب وہ سراپا سماعت بن جاتا ہے  ششدر و حیران.  ایک معصوم بچے کی طرح سب کچھ نیا سیکھنے کے عمل سے گزرنے لگتا ہے.  سینکڑوں بار کا دیکھا آسمان ، اپنے مفہوم بدل لیتا ہے.  اس سے پرے کے جہان آشکار ہونے لگتے ہیں.

  زمین صرف قدم اٹھانے کے لیے بنیاد نہیں رہتی.  خالق کائنات کی نشانیوں سے بھرا خزانہ بن جاتی ہے.  اس کے ذروں میں نئے جہان نظر آنے لگتے ہیں.  اس کی تہوں میں نئے ممکنات کے در ملتے ہیں.  سانس لینے کا عمل شعور سے اوجھل نہیں رہتا بلکہ' شعوری احساس تشکر' میں بدل جاتا ہے.  ہر سانس '' اللہ ھو ''کی گردان بن جاتا ہے.  اللہ ھو یعنی اللہ تو ہی ہے، بس تو ہی ہے  ہر سو ہر رنگ ہر سمت میں جلوہ بس تیرا ہی ہے.  سرسراتی ہوا ہو یا بہتے پانی کا سرگم سمندری موجوں کی چنگھاڑ ہو یا طائر کا لحن ہر آواز میں تیری حمد سنائی دیتی ہے.  

کبھی تیتر کی میٹھی بولی 'سبحان تیری قدرت ' سنیے اور سر دھنیے. بچے کی پہلی چیخ مجھے ہمیشہ اللہ ھو سنائی دیتی ہے. شیر خوار کی اوں اوں میں '' تو تو تو '' سنائی دیتا ہے.   کبھی موقع ملے تو سننے کی کوشش کیجیے.  چکی کی پھک پھک دراصل ''حق حق'' ہے.  چرخے کی چرخ چوں چرخ چوں ، اللہ ھو اللہ ھو ہے. گھوڑے کی ٹک ٹکا ٹک، ھو اللہ ھو ہے.  کوے کی  کائیں کائیں ،سائیں سائیں ہے .جرس کی ٹن ٹن، کن کن کن ہے.  

ہر آواز  ہر خاموشی رب حقیقی کی طرف بلاتی پکار ہے سنیے تو زرا سنیے تو !

استعداد انسانی

گینیس ورلڈ ریکارڈ یا گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ  سے تو تقریباً سبھی واقف ہیں. کسی بھی میدان میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استعداد رکھنے والے انسان کا نام مع کام اس میں درج کیا جاتا ہے. مثال کے طور پر دنیا کا تیز ترین انسان یوسین بولٹ ہے جس نے سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کر کے 2009ء میں یہ ریکارڈ بنایا.

اسی طرح دنیا کا سب سے لمبی چھلانگ لگانے والا انسان مائیک پاول ہے، جس نے 1991ء میں  8.95 میٹر لمبی چھلانگ لگا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اسی طرح وزن اٹھانے سے لے کر نیزہ پھینکنے، ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اخروٹ توڑنے سے لے کر زیرِ آب سانس روکنے تک اور زیادہ کھانے سے لے کر دیر تک گانے تک ۔۔۔ ہزاروں میدانوں میں بنی آدم کی زیادہ سے زیادہ استطاعت ماپی جاتی ہے اور سب سے زیادہ استطاعت کے حامل شخص کو سند سے نوازا جاتا ہے اور اس کا نام اپنے میدان کے سرخیل کے طور پر کتاب اور ویب سائٹ میں درج کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر اسی استعداد کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ استطاعت بنی نوع انسان کی حد یا limitations کا تعین ہے. گویا روئے زمین پر کوئی بھی انسان سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز سے کم وقت میں طے نہیں کر سکتا۔ یا یہ کہ کائنات کا کوئی فرد بھی 104.8 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ نہیں پھینک سکتا۔ یا کہ کوئی بنی آدم 100 میٹر تیراکی 46.9 سیکنڈز سے کم وقت میں نہیں کر سکتا. و علیٰ ھٰذالقیاس. 
  
اب سوچیں کہ اگر ہر ہر میدان میں حضرت انسان کی کارکردگی کی کوئی نہ کوئی حد ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ذہنی استعداد کی کوئی حد نہ ہو؟؟؟ یادداشت کے معاملہ میں دیکھیں تو کرۂ ارض کا ایک  بھی انسان ایسا نہیں ہو گا کہ جسے ایک سال قبل کے کسی ایک دن کی تمام کارگذاری مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہو۔ بلکہ چھ ماہ قبل کی بھی نہیں یا شاید تین ماہ قبل کی بھی نہیں. بالکل ایسے ہی چیزوں کو سمجھنے میں بھی انسانی ذہن کی حد ہو گی ۔

تو پھر اگر خالقِ کائنات کی تخلیق یا ابتداء انسانی ذہن اور سمجھ کے احاطہ میں نہیں آ رہی اور صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے نہیں آ رہی تو پھر کیوں نہ اسے باقاعدہ انسانی ذہن کی حد یا limitation تسلیم کر لیا جائے۔ بجائے اس  کے کہ سرے سے وجودِ خلاق عظیم کا ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں اب یہ مان لینا چاہیئے کہ انسانی ذہن کی استطاعت بس اتنی ہے کہ وہ مخلوق اور تخلیقات کی ابتداء اور معرضِ وجود میں آنے کے عمل کو سمجھ سکتا ہے خالق کے نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دس عددی کیلکولیٹر پر اگر بارہ عدد کا سوال حل کرنے کوشش کی جائے تو جواب ہر بار E ہی آتا ہے۔ چاہے کوئی یہ عمل ہزاروں بار کرے یا ہزاروں سال کرے. اور پھر اسی طرح تو نوعِ انسانی کی ایمان بالغیب کی پرکھ مکمل ہو گی ورنہ تو سب عیاں ہو جاتا

ڈپریشن- پچھتاوے- احساس کمتری

مجھے تقریبا پچھلے تین سال سے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان باکس کیئے اپنے مسائل شیئر کیئے ۔ کچھ بہنوں کی دعائوں میں اب بھی میں شامل ہوں ۔۔ تو میں 20 نکات شیئر کر رہا ہوں آپ سے تمام مسائل کا حل ان میں موجود ہے ۔ جو اپنے 25 سال کے زندگی میں سیکھا اور دیکھا اس کی روشنی میں لکھے ہیں ۔

1: اگر آپ ڈیپریس ہیں اور کوئ آپ کو چھوڑ گیا ہے تو کبھی تنہا Room میں لائیٹ آف کرکے نا بیٹھیں ۔
یہ جو اندھیرا ہوتا ہے انسان کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کچھ باقی نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے ۔ اور سب مطلبی ہیں ۔ اس کے بعد نماز پڑھیں اور اللہ سے مدد مانگیں ۔

2: اگر آپ اداس ہیں تو چھوٹے بچوں کے پاس جاکر بیٹھ جائیں ۔ ان کی شرارتیں دیکھیں تو یقیناً آپ کو اپنا بچپن یاد آجائے گا اور آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جائے گی ۔

3: جن لوگوں کہ پاس YouTube تک رسائ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ان کی زندگی بے معنی ہے اور سب کچھ ختم ہوچکا ہے تو You Tube پہ جاکر Real Heros in The Life لکھ کر سرچ کر لیں ۔ ان کو inspiration ملے گی کہ زندگی میں کسی کے جانے سے کچھ بھی ختم نہیں ہوتا ۔ آدمی بڑا اپنے لیئے ہوتا ہے لیکن انسان بڑا انسانیت کی خدمت سے ہوتا ہے ۔

4: اگر آپ مسلمان ہیں یا کسی بھی مذہب سے ہیں تو آپ نماز یا کوئ بھی عبادت کرسکتے ہیں ۔ اور اپنے رب کے سامنے رو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز اس رب کی طرف سے ہوتی ہے ۔ بس یہ شیطان ہے جو ہمیں بدگمان کر دیتا ہے ۔

5: اگر کوئ آپ سے شادی کا وعدہ کرکے یا آپ کو طلاق دے گیا ہے یا آپ کی علیحدگی ہوگئ ہے ۔ تو آپ کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل زندگی کی شروعات تب ہی ہوتی ہے ۔ پہلے آپ زندگی کے میدان میں بیساکھیوں کے سہارے چل رہے تھے جبکہ اب آپ کو آذادی ملی ہے تو کیوں نا آپ ان کا سہارا بن جائیں ۔ جن کو سہارے کی ضرورت ہے ۔
قسمت کو کوسنا ، کسی پہ بے وفائ کا الزام لگانا اس کا کیا فائدہ یا آپ روتے رہیں یا آپ طاقتور بن جائیں ۔


6: اگر آپ فنانشل پروبلم کا شکار ہیں یا آپ کے پاس کرایہ کا گھر ہے ۔ تو ایک دفعہ کسی بھی شہر کے فلائ اوور کے نیچے پڑے ہوئے ان بچوں ،عورتوں اور مرد حضرات کو دیکھ لیں جن کے پاس ایک وقت کی روٹی نہیں ہے اور نا ہی چھت ہے ۔
اسی طرح آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی شکل و صورت اچھی نہیں ہے ۔ تو کسی بھی ہسپتال کے Fire and Burn Hall کا وزٹ کرلیں ۔ آپ کو شاید الله کی تقسیم پہ صبر آجائے گا ۔



7: اسی طرح اگر کوئ مرد آپ کو چھوڑ گیا ہو تو آپ ضرور روئیں بہت روئیں لیکن اس کے بعد آپ منگنی کریں یا نکاح کریں ۔ یقین کی جیئے آپ کا آنے والا جیون ساتھی آپ کے درد کا مداوا لازمی کرے گا ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو صبر بھی آجائے گا اور آپ کی چہرے پہ ہنسی کا باعث آپ کے بچے ہونگے ۔

8: بہت سے cases ایسے ہوتے ہیں جن میں منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں ، طلاق ہوجاتیں ہیں ۔ اس بعد انسان جیتے جی مرجاتا ہے ۔ تو اس کو اپنی زندگی میں ایک اور چانس دینا چاہیئے کیونکہ اندھیری رات کے بعد اجالا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر غم کے بعد خوشی لازمی ملتی ہے ۔
9: ہر مسلمان کو لازمی سورة النساء بمعہ ترجمہ پڑھنی چاہیئے تاکہ دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق کا پتا ہو ۔ کیونکہ یاد رکھنا اگر جیون ساتھی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہونگے تو شادی سے پہلے ہی انکار کردیں ۔ کیونکہ۔شادی کے بعد بہت سی زندگیاں خراب ہوتی ہیں ۔
10: اگر آپ نے کسی کا دل توڑ دیا اور شیطان کے بہکاوے میں آکے اس کی زندگی تباہ کردی تو یقین کریں کہ زرا کا ثواب نہیں ملتا کسی کے دل کو توڑنے کا ۔ بس اس سے لازمی معافی مانگیں اس کے سوالات کے جواب دیں آپ نے ایسا کیوں کیا تاکہ وہ اپنی زندگی سکون سے جی سکے ۔
11:- اپنی زندگی میں اپنے جیون ساتھی کو اعتبار دیں اور کسی دوسرے کی باتوں میں آکر اپنے جیون ساتھی سے تعلق مت توڑیں کیونکہ یاد رکھنا آپ کے علاوہ اس کا کوئ نہیں ہے ۔
12:- باقی اس دنیا میں بہت کم لوگ ہوگئے جن کو اپنی خوشیاں سے زیادی کسی اور کی خوشی عزیز ہو ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہار جانے سے کسی کی جیت اس کو نئ زندگی دے سکتی ہے تو اس کو جیتنے دیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ کسی کی خوشی کے لیئے ہار جانا ہی اصل جیت ہوتی ہے ۔
13: اگر آپ اللہ پاک کو اپنا رب مانتے ہیں تو اس پہ یقین بھی رکھیں ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئ مقصد نہیں ہے ۔ تو ایک دفعہ قرآن پاک کا ترجمعہ پڑھ لیں ۔ شاید آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مل جائے اور انسانوں کی بجائے اس اللہ پاک پہ کامل یقین ہوجائے ۔
14: کسی کے چلے جانے سے انسان کی زندگی نہیں رکتی اس سے ایک سبق سیکھنا چاہیئے کہ انسان کی محبت اور عادت صرف خسارہ ہے اس لیئے محبت کا منبع اللہ کو نبی پاک کو اور والدین کو ماننا چاہیئے یہ تمام وہ ذات ہیں جو بغیر کسی غرض کے انسان کا ساتھ دیتیں ہیں ۔
15: اگر آپ نے کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ہمیشہ وفا کی اچھا سوچا ان کا ہر موقع پہ ساتھ دیا اور وہ آپ کو تنہا چھوڑ گئے یا انہوں نے دھوکہ دیا ۔ تو آپ کو خوش ہونا چاہیئے کہ آپ دھوکہ کھانے والوں میں سے ہو دینے والوں میں سے نہیں ۔ قیامت کے روز وعدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا اس دن آپ کو آپ کابدلہ مل جائے گا۔
16: اگر آپ ٹوٹ گئے ہو اور آپ کو لگتا ہو کہ اللہ نے آپ پہ آپ کی سکت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہے تو آپ لوگوں کی سننے لگ جائیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا درد آپ سے بہت زیادہ ہے ۔
17: جو بھی انسان آپ کی زندگی میں اہم ہو اگر وہ روٹھ جائے تو منا لو کیونکہ جسیے جیسے وقت گزرتا ہے غلط فہمیاں بڑھتی جاتی ہیں اور پھر ایک گیپ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد آپ چاہے صلح کیوں نا کر لیں لیکن وہ پیار ومحبت پہلے جیسے نہیں رہتی ۔ کیوں کہ صرف اللہ پاک کی ذات ہے جو کہ انسان کو معاف کرکے اپنی رحمت پہلے سے زیادہ کردیتی ہے جبکہ انسان اتنا ظرف نہیں رکھتے ۔
18: میں نے زندگی میں ایک اصول یہی بنایا ہے جو آپ کی قدر کرتا ہے حال پوچھتا ہے آپ کے لیئے دعا کرتا ہے جو آپ کے ہسنے سے خوش اور رونے سے اداس ہوجاتا ہے وہی آپ کا سرمایہ ہے باقی اس کے علاوہ سب محض دکھاوا ہے ۔ کبھی اس شخص کا ساتھ نہیں چھوڑنا ۔ اگر وہ کسی وجہ سے آپ کا ساتھ چھوڑ جائے تو کبھی اس کو بلیم نہیں دیتا مسکرا کر الوداع کہتا ہوں ۔ نا اس پہ غصہ ہوتا نا ہی اس سے کوئ شکایت و شکوہ کرتا ۔ کیونکہ انسان اس دنیا میں اکیلا آتا ہے اکیلا جاتا ہے ۔ تو ہمیں کسی سے امید ضرور رکھنی چاہیئے اتنی زیادہ نہیں کہ اس کے بن میں جی نا پائیں ۔
بشکریہ
ھیلتھ ٹپس اینڈ سیکرٹس

ایک دلچسپ تجربہ


ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا، تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہوچکا ہے، خاموشی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا اور یہ عمل بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، سرایت کرنے کا عمل نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ نظر آئے گا۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں Capillary Action کہا جاتا ہے، یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے، آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہوپائے گا 
جتنی زیادہ صحبت، اُتنے زیادہ اثرات، صحبت کے اثرات ازخود سرایت کرتے جائیں گے اس لیے صحبتِ نیک رکھیے اور بری صحبت سے احتراز کیجیے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو رہیں۔

بات صرف سوچ کی ہے....

بات صرف سوچ کی ہے....
عورت اپنی ہو یا پرائی... اسے دوسروں سے ڈسکس نہیں کرتے.... مذاق نہیں بناتے.. برے خطاب نہیں دیتے.
 اخلاقیات آپکی نسلوں کو نواز دیں گی. اور بد اخلاقی نسلوں کو بگاڑ دیتی ہے . (واقعی سوچ، نیت اور عمل کا اثر اگلی نسل تک ضرور جاتا ہے، مشاہدہ کر کے دیکھ لیجیے) 
کچھ عرصہ ہوا، میرے بہنوئی گاؤں کے چھوٹے سے ہوٹل میں کسی آدمی کے ساتھ کاروباری معاملہ کرنے بیٹھے ہوئے تھے. ان کی ساتھ والی میز پر ایک صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے.. دوستوں میں شیخی بگھارنے کے لیے ان صاحب نے کسی خاتون کو فون ملایا اور سپیکر آن کر کے بات چیت شروع کر دی. وہ صاحب شادی شدہ اور تین بیٹیوں کے والد محترم ہیں. ہنس ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے اور داد طلب نظروں سے ارد گرد کی عوام کو متاثر کرتے ہوئے انہوں نے اس خاتون کی عزت سر بازار نیلام کر دی. خاتون بھی گاؤں ہی کی ہیں اور طلاق یافتہ ہیں...
خاتون کا عمل بے حد غلط، لیکن اس فون کال کے پیچھے شاید ایک اعتبار ہو گا، ایک اپنے پن کا احساس ہو گا اور بے خوفی ہو گی... جو منہ کے بل جا گری ہو گی... 
احمق عورتیں کیوں بھول جاتی ہیں کہ احترام بس محرم رشتوں سے ملتا ہے...؟ ؟اسکے علاوہ تو کوئی لاکھوں میں ایک مرد ہوتا ہے جو اجنبی عورت عزات و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہو گا.

شہزادے کی ذہانت

ایک شہزادہ کم صورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ''اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔

 دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے! بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔

 ہر جنگل کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرو کہ وہ خالی ہوگا، تمہیں کیا خبر کہ اس میں کہیں شیر سو رہا ہو۔میں نے سنا ہے کہ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر کہا: میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا!

جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔ جب باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا! کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔

 بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنایا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدشکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زور سے بند کیے۔

 شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ 

اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصّہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

 سچّی بات یہ ہے کہ دو فقیر ایک کمبل اوڑھ کر آرام سے لیٹ سکتے ہیں لیکن دوبادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے:

 اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے۔

دوسری ماں

دوسری ماں کہاں سے ملے گی..
ابن قیم رحمه الله نے ایک عجیب بات لکهی ہے.... 
فرماتے ہیں

 میں گلی میں جارہا تها میں نے دیکها ایک دروازہ کهلا ماں اپنے بچے کو مار رہی ہے تهپڑ لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تو نے مجهے بڑا ذلیل کیا.بڑا پریشان کیا.نافرمان ہے.کوئی بات نہیں مانتا.نکل جا میرے گهر سے.وہ بچہ رو رہا تها.دهکے کها رہا تها.جب گهر سے باہر نکلا.ماں نے کنڈی لگا دی.
فرماتے ہیں میں کهڑا ہوگیا کہ ذرا منظر تو دیکهوں.بچہ روتے روتے ایک طرف کو چل پڑا ذرا آگے گیا رک کر پهر واپس آگیا.

میں نےپوچها بچے تم واپس کیوں آگئے. کہنے لگا.سوچا کہیں اور چلا جاوں.پهر خیال آیا کہ مجهے دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے.مجهے ماں کی محبت نہیں مل سکتی.میں اسی لیے واپس آگیا ہوں.محبت ملے گی اسی در سے ملے گی.

کہتے ہیں بچہ بات کرکے وہیں بیٹھ گیا.میں بهی وہیں بیٹها. بچے کو نیند آئی.اس نے دہلیز پر سر رکها سو گیا.کافی دیر گزری ماں نے کسی وجہ سے دروزہ کهولا.ضرورت کے لیے باہر جانا چاہتی تهی.بیٹے کو دیکھا دہلیز پر سر رکهے سو رہا ہے.اٹهایا.......کیوں دہلیز پر سر رکهے سو رہے ہو؟؟
امی مجهے دنیا میں دوسری ماں نہیں مل سکتی. میں اس دہلیز کو چهوڑ کر کیسے جاوں..

فرمایا بچے کی بات سے ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے. بچے کو سینے سے لگا لیا......میرے بیٹے جب تیرا یقین ہے کہ اس گهر کے سوا تیرا گهر کوئی نہیں 
میرے در کهلے ہیں آجا میں نے تیری غلطیوں کو معاف کردیا.
فرماتے ہیں........

جب گناہگار بندہ اپنے رب کے دروازے پر اس طرح آتا ہے

 رب کریم میری خطاوں کو معاف کردے.

میرے گناہوں کو معاف کردے.

اے بے کسوں کے دستگیر.

اے ٹوٹے دلوں کوتسلی دینے والے.

اے پریشانیوں میں سکون بخشنے والی ذات.

اے بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے والی ذات.

اے گناہوں کو اپنی رحمت کے پردوں میں چهپا لینے والی ذات.

تو مجه پر رحم فرما دے.

مجهے در در دهکے کهانے سے بچا لے.

اللہ اپنی ناراضگی سے بچا لے.

پروردگار آئندہ نیکوکاری کی زندگی عطافرما.

جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہے. اللہ تعالی اس بندے کی توبہ کو قبول کر لیتے ہیں.
اللہ تعالي ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 آمین

Saturday, January 23, 2021

محبوب کی نظر کرم

کوٹ مٹھن شریف میں ایک مجذوب تھا 
جو ہر آتے جاتے سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا کہ 
" عید کڈاں؟ " ( عید کب ہوگی؟ ) 
کچھ  لوگ اس مجذوب کی بات اَن سُنی کر دیتے 
اور کچھ سُن کر مذاق اُڑاتے گُزر جاتے 
 ایک دن حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ اس جگہ سے گزرے 
تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا 
 " عید کڈاں؟ " ( عید کب ھوگی؟ )
آپ صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا 
" یار ملے جڈاں" ( جب محبوب ملے وھی دن عید کا دن ھو گا )
 یہ الفاظ سُنتے ھی مجذوب کی  آنکھُوں سے 
موتیوں کی طرح آنسوؤں جاری ھو گے 
وہ مزید ترستی آنکھوں سے گویا ھوا سرکار 
" یار ملے کڈاں؟ " ( محبوب کب  ملے گا؟ ) 
خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
" مَیں مرے جڈاں " ( جب " مَیں " مرے  گئی تب )
بس یہ فرمانا تھا  کہ مجذوب نے کپکپاتے اور تھرتھراتے ھوۓ عرض کیا حضور 
" مَیں مرےِ کڈاں؟ " ( میں کب مرے گی؟ ) 
سرکار رحمتہ اللہ علیہ مسکراۓ اُسے پیار سے تھپکی دیتے یہ کہتے چل دیے 
" یار ڈیکھے جڈاں " ( جب محبوب نظرِ کرم کرے گا )