Sunday, January 24, 2021

قضا و قدر

میڈیکل کے کچھ اسٹوڈنٹ کالج کے باهر خوش گپیوں میں مصروف تھے کے اچانک ایک گاڑی بڑی تیزی سے آئی اس نے درمیان میں کھڑے لڑکے کو ٹکر مار دی. باقی لڑکے بال بال بچ گئے. جس لڑکے کو چوٹ لگی تھی اسے فوری هسپتال منتقل کر دیا گیا.
چونکه وه میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اسلیے اس کے باقی ساتھی بھی پہنچ گئے ِفوری طور پر خون کے نمونے لیے گئے علاج شروع هوگیا - ایکسرے روپورٹ آگئی - ڈاکٹر نے اس کو بتایا که اس کے گردے کو سخت چوٹ لگی هے - اس میں سے خون رِس رها هے - اگر فوری نه نکالا گیا تو موت واقع هو سکتی هے -میں آپ سے یه فیصله لینے آیا هوں - وقت کم هے آپ کو فوراً فیصله کرنا هوگا - اس اسٹوڈنٹ کے پاس مواقفت کے سوا کوئی چاره نهیں تها - فوری طور پر آپریشن هوا اور گردے کو نکال کر لیباٹری میں ٹیسٹ کے لیے بهیجوا دیا گیا-
2 ،3 دن گزرے- سٹوڈنٹ ابهی تک اپنے بیڈ پر هی تها که وه ڈاکٹر جس نے لڑکے کا آپریشن کیا تها ، مسکراتا هوا اس کے پاس آیا - ڈاکٹر نے کہا که کیا کبھی تم نے قضا و قدر کے بارے میں سنا هے؟ اسٹوڈنٹ نے کها یه تو درست هے هم قضا و قدر پر یقین رکهتے هیں لیکن میرا نقصان کچھ زیاده هوچکا هے- ڈاکٹر کهنے لگا میں نے بهی تمهاری طرح قضاو قدر کو سن رکها تها مگر جب هم نے تمهارا معامله دیکها تو مجهے قضا و قدر پر اور زیاده یقین هو گیا هے -پهر اس نے بتایا که جب هم نے تمهارا گرده نکالا تو لیباٹری میں اسے ٹیسٹ کے لیے بهیجوایا-
جب اسے ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم هوا که گردے میں کینسر کا آغاز هو چکا هے- میڈیکل میں اس قسم کے کینسر کا علم کافی عرصے بعد هوتا هے اس وقت علاج نا ممکن هوتا هے - اور مریض کی موت واقع هو جاتی هے- تم بہت خوش قسمت هو که گردے کے کینسر کا بالکل ابتدائی اسٹیج پر علم هوگیا- اور تمهیں کینسر زده گردے سے نجات مل گئی - دیکهو بیٹا ! گاڑی نے تمهیں اسی جگه ٹکر ماری جہاں پر کینسر تها - الله تعالی تمهیں دوباره زندگی دینا چاهتا تها- بلا شبه یه قضا و قدر تهی که تم اس بلڈنگ کے نیچے کهڑے هوئے اور پهر گاڑی نے اتنے سارے لڑکوں میں صرف تم هی ٹکر ماری-
یاد رکهو..! الله تعالی اپنے بندوں کے ساتھ ماں باپ سے بهی کہیں زیاده مهربان هے- اور ہمارے ساتھ جو بھی معاملات ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں اس لیے انسان کو اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ جو بھی کرتا ہے ہمارے بھلے کے لیے کرتا ہے.

شرم و حیا

#شرم_و_حیاء____ایمان_کی_ایک_اھم_ترین_شاخ ! 
شرم و حیاء انسان کا وہ فطرتی وصف ھے جس سے اُسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ھوتی ھے ۔ اسی کی بدولت انسان کو عفت و عصمت ، پاک بازی و پارسائی اور پاک دامنی حاصل ھوتی ھے ۔ اور اسی کے سبب وہ دوسروں کے ساتھ مروت و لحاظ اور چشم پوشی کا معاملہ کرتا ھے ۔ بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسی ایک فطرتی وصف کی برکت سے انسان بہت سے گناھوں سے محفوظ رہتا ھے ۔ شرم و حیاء کا یہ وصف ھر انسان میں فطرتی طور پر موجود ھوتا ھے اور اگر اِس کی شروع ھی سے نگہداشت اور حفاظت کی جائے تو انسان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وصف بھی خوب نشو و نما پاتا ھے اور پھر جب انسان اور یہ وصف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گھل مل جاتے ھیں تو پھر یہ انسان کی عادت بن کر رہ جاتا ھے اور اُس کی پوری زندگی کو سنوار دیتا ھے ۔ لیکن اگر اِس کی بروقت صحیح حفاظت اور مناسب تربیت نہ کی جائے اور اسے یوں ھی آزاد اور بےمہار چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ وصف انسان کی زندگی کا ایک بدنما داغ بن کر اُبھرتا ھے اور اِسکی وجہ سے انسان کی مکمل زندگی داغدار بن جاتی ھے ۔

اسلام نے اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعہ انسان کو زندگی کے تمام مواقع پر شرم و حیاء کی صحیح نگہداشت اور مناسب تربیت کرنے کا حکم دیا ھے ۔ وضع قطع ھو یا بود و باش ، چال چلن ھو یا نشست و برخاست ، اجتماعی زندگی ھو یا انفرادی زندگی غرض ھر موقع پر اسلام نے انسان کو شرم و حیاء کا پابند اور اُس کا مکلف بنایا ھے ۔

خود رسول اکرم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی زندگیاں شرم و حیاء سے عبارت تھیں ۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن کے زمانہ میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام ھو رھا تھا اور آپ ﷺ اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رھے تھے تو آپؐ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ : ''تم اپنا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ لو تا کہ اینٹ کی رگڑ نہ لگ سکے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایسا کیا تو آپؐ پر بیہوشی طاری ھو گئی ، جب ھوش آیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر تھا : ''میرا تہبند ! '' حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تہبند باندھ دیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء کا مادہ اِس قدر غالب تھا کہ آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے محسوس ھوتے تھے ! چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیاء والی ھوتی ھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے بھی زیادہ شرم و حیاء والے تھے ۔ (صحیح بخاری)

حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چادر اُوڑھے ھوئے اپنے بستر پر لیٹے ھوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ اپنی بات کر کے چلے گئے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ : ''تم بھی اپنے کپڑے ٹھیک کر لو (پھر مجھے اجازت دی) میں بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلا گیا ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا : '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا بات ھے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آنے پر جتنا اھتمام کیا اتنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے آنے پر نہیں کیا؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''عثمان بہت ھی حیاء والے آدمی ھیں تو مجھے ڈر ھوا کہ اگر میں اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دوں گا تو وہ اپنی ضرورت کی بات کہہ نہ سکیں گے۔'' اس حدیث کے بہت سے راوی یہ بھی روایت کرتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا : ''کیا میں اُس سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ھیں؟۔'' (مسلم)

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت زیادہ باحیاء ھونے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرمایا کہ : ''بعض دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں ھوتے اور دروازہ بھی بند ھوتا لیکن پھر بھی غسل کے لئے اپنے کپڑے نہ اُتار سکتے اور وہ اتنے شرمیلے تھے کہ (غسل کے بعد) جب تک وہ کپڑے سے ستر نہ چھپا لیتے کمر سیدھی نہ کر سکتے یعنی سیدھے کھڑے نہ ھو سکتے تھے۔''. (مسند احمد)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ھیں کہ : ''میں نے (حیاء کی وجہ سے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرم والی جگہ کبھی نہیں دیکھی۔'' (شمائل ترمذی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ : ''تم لوگ اللہ سے حیاء کیا کرو ! کیوں کہ میں بیت الخلاء میں جاتا ھوں تو اللہ سے شرما کر اپنے ستر کو ڈھک لیتا ھوں۔'' (کنزالعمال) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ (اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کی وجہ سے) جب کسی تاریک کمرے میں غسل کر لیتے تو سیدھے کھڑے نہ ھوتے بلکہ کمر جھکا کر کبڑے بن کر چلتے اور کپڑے لے کر پہن لیتے (اور پھر سیدھے ھوتے) (حلیۃ الاولیاء) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ لنگی باندھے بغیر پانی میں کھڑے ھیں تو آپؓ نے فرمایا : ''میں مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے یہ مجھے اِس سے زیادہ پسند ھے کہ میں اِن کی طرح کروں۔'' (حلیۃ الاولیاء)

حضرت اشج عبد القیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ھیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ھیں.'' میں نے پوچھا وہ دو خصلتیں کون سی ھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''برد باری اور حیاء۔'' میں نے پوچھا : ''یہ پہلے سے میرے اندر تھیں یا اب پیدا ھوئی ھیں؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں ! پہلے سے تھیں۔'' میں نے کہا : ''تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا فرمایا جو اُسے پسند ھیں۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ''حیاء'' تو سارے کی ساری خیر ھی ھے۔'' (مسند بزار)

مگر افسوس کہ آج کل کے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو جو عروج بخشا جا رھا ھے ۔ بےشرمی و بےحیائی کو جو فروغ دیا جا رھا ھے ۔ اُ سے جس طرح رُوشن خیالی اور جدت پسندی قرار دیا جا رھا ھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے جس آزادی و بہادری اور جرأت و دلیری کے ساتھ سر انجام دینے کی کوششیں کی جا رھی ھیں اُنہیں دیکھ کر آج کل کے دور میں بڑی ھی مشکل سے یہ باور ھوتا ھے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ درخشاں تاریخ میں کبھی ھمارے آباؤ اجداد او ر ھماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسی گزری ھوں گی کہ جن کی عفت و عصمت ، پاک بازی و پاک دامنی اور اُن کی بے داغ جوانی پر آج کی تاریخ بجا طور پر فخر محسوس کرتی ھو گی ۔

مولوی اور چرواہا

ایک ایمان افروز کہانی
علاقے میں قحط سالی تھی اور جانور سب کچھ کھا کر فارغ ہو گئے تھے مزید کچھ کھانے کو رہا نہیں تھا او مویشی مالکان نہایت پریشان تھے، اس دوران مولوی اللہ وسایا نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اگر اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔
شاید یہ اس کا مولوی صاحب کے پیچھے زندگی کا پہلا جمعہ تھا کہ بات اس کے دل میں اتر کر یقین کا درجہ پا گئی، اس نے واپس آکر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پہ چلا گیا، اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا کہ وہ ذرا اپنی بکریاں چرانے جا رہا ہے اس لیے وہ اسے اپنے اوپر سے گزرنے دے، یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو ہانکا اور دریا کے اوپر سے چلتا ہوا دریا پار کر گیا، علاقہ گھاس سے بھرا پڑا تھا، درختوں کے پتے بھی سلامت تھے کیونکہ یہاں تک کسی کو رسائی حاصل نہیں تھی۔
اب تو یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر خود واپس آ جاتا اور شام کو جا کر واپس لے آتا، اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا تو لوگ چونکے اوراس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے، وہ سیدھا سادہ صاف دل انسان تھا، صاف صاف بات بتا دی کہ جناب ہم تو دریا پار اپنی بکریاں چرانے جاتے ہیں، بات سب نے سنی مگر یقین کسی نے نہ کیا کیونکہ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی مگر بات ہوتے ہوتے مولوی اللہ وسایا تک جا پہنچی۔ 

مولوی اللہ وسایا نے اس بکروال کو بلوایا اور اصل حقیقت بتانے کو کہا، بکروال نے مولوی اللہ وسایا ہی کو اپنا ریفرنس بنا لیا کہ مولوی جی میں تو خود آپ کے پاس شکریہ ادا کرنے آنے والا تھا کہ آپ نے ایک جمعہ میں یہ نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ مولوی اللہ وسایا صاحب ٹک ٹک دیدم نہک شیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے، بھائی ایسی باتیں تو ہم ہر جمعے کو کرتے ہیں مگر ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔
مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ بس میں تو بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوا بکریوں سمیت پار چلا جاتا ہوں، آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی، لوگ بھی صبح دریا کے کنارے جمع ہو گئے اور بکروال بھی آ گیا، مجمع زیادہ تھا، مولوی صاحب نے ایک دو دفعہ اندر ہی اندر ارادہ کیا کہ انکار کر دیں۔
مگر وہ جو مولوی صاحب کو مسجد سے کندھوں پر اٹھا کر لائے تھے،اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور مولانا اللہ وسایا کے حق میں تعریفی موشگافیاں کر رہے تھے۔ آخر کار مولوی صاحب نے ایک رسہ منگوایا اور پہلے اسے درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا اور پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا سا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے، مگر پہلا پاؤں ہی شڑاپ سے پانی میں چلا گیا اور مولوی اللہ وسایا صاحب ڈبکیاں کھانے لگے۔
بدحواسی میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ ابھی کمرکمر پانی میں اٹھ کر کھڑے بھی ہو سکتے ہیں،وہ پانی کے بہاؤ میں بہنا بھی شروع ہو گئے، لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا اور سوکھنے کے لیے سائیڈ لٹا دیا، مولوی صاحب کی درگت نے بکروال کو بھی پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو کیا ہو گیا ہے مگر چونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا لہٰذا اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا، اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا، ان کو پار چھوڑ کر واپس بھی آ گیا۔
لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے مگر وہ سب سے بے نیاز سیدھا مولوی اللہ وسایا کے پاس پہنچا اور کہا کہ مولوی صاحب میں آپ کی بسم اللہ کی طرف سے کافی پریشان تھا مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔
اس نے درخت سے بندھے رسے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مولوی صاحب یہ ہے آپ کی بسم اللہ کی بیماری، آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا ہے، آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا لہٰذا اللہ نے بھی آپ کو رسے کے حوالے کر دیا تھا، کمال کرتے ہیں آپ بھی مولوی صاحب، میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی مگر آپ نے اللہ سے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا لہٰذا اللہ نے آپ کو رسوا کر دیا۔
یہی کچھ حال ہماری نمازوں اور دعاؤں کا ہے، ہر ایک عبادت یقین سے خالی ہے، اسلیے 
دعائیں قبول نہیں ہو رہیں

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا شکر

یونیورسٹی سے آتے ھوئے ایک بھکاری پر نظر پڑی جو خاصی دھوپ میں بیٹھا ھوا تھا.. جس کے نہ ہاتھ تھے اور نہ ھی پاؤں.. جس کے اوپر بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں اور وہ ان کو اڑا بھی نہیں سکتا تھا.. کچھ دیر بعد مجھ پر یہ انکشاف ھوا کہ وہ نہ بول سکتا ھے نہ ھی سن سکتا ھے.. وہ بھیک مانگنے کے لئے تو بیٹھا ھوا تھا لیکن صدا لگانے کے بھی قابل نہیں تھا..

میں مُسلسل اس کو دیکھتا اور یہ سوچتا رھا کہ اس بھکاری کی جگہ میں بھی تو ھو سکتا تھا پھر اس کی جگہ پر میں کیوں نہیں..؟؟

میں نے تو کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے میں اس حال میں نہیں.. آخر میں کیوں نہیں اس جگہ پر..؟؟ مجھے کیوں الله نے ویسا نہیں بنایا..؟؟ وہ چاھتا تو مجھے دنیا کا مظلوم ترین انسان بنا دیتا ' پر اس نے نہیں بنایا..

میں ساری زندگی بھی سجدے میں رھوں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا.. ھاتھ ' پاؤں ' آنکھیں ' کان ' سب کچھ تو دے رکھا ھے الله نے..

وہ چاھتا تو مجھے بھی دنیا میں محروم کر دیتا لیکن مجھے تو الله مسلسل عطا کیے جا رھ ھے.. عطا پر عطا ' مسلسل مہربانی.. میری نافرمانیوں ' کوتاھیوں کے باوجود مجھے دیتا ھی چلا جا رھا ھے الله..

اس سارے رحم و کرم کے بعد بھی میں شکر کیوں نہ کروں..؟؟

اِن آنکھوں کا جن سے میں دیکھ سکتا ھوں..
اس زبان کا جس سے میں ذکر کر سکتا ھوں..
ان ھاتھوں کا جن سے میں دعا مانگ سکتا ھوں..

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا آخر ھم کیوں شکر ادا نہ کریں..؟؟ اور شکر کا سب سے احسن طریقہ یہ ھے کہ ھم ابھی سے ' آج سے اللہ کی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا عہد کر لیں..

پورے خلوصِ دل سے___

والدین کی خوشی

جانتے ہو 
 ہم اپنے ماں باپ پر سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں...؟
ہم ان کے سامنے *"بڑے"* بن جاتے ہیں ...
*"سیانے"* ہو جاتے ہیں ...
اپنے تحت بڑے *"پارسا نیک اور پرہیزگار"* بن جاتے ہیں ...
وہی ماں باپ جنہوں نی ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.
انہیں *"سبق"* پڑھانے لگتے ہیں ...
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.
اماں جی یہ آپ نے کیا کیا...؟
آپ کو نہیں پتا ایسے نہیں کرتے ...
ابا جی آپ یہاں کیوں گیے...؟
اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے  ..
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..
اب کیسے سمجھاؤں, آپ کو ...؟

جانتے ہو ...
ہمارا یہ *"بڑا پن یا سیانا پن"* ہمارے اندر کے *"احساس"* کو مار دیتا ہے ...
وہ احساس جس سی ہم یہ محسوس کر سکیں ...
 کہ ہمارے ماں باپ اب بالکل بچے بن گئے ہیں۔.. 
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی گنجلکوں سی آزاد  ہوتے جا رہے ہیں ...
 چھوٹی سے خوشی ...
تھوڑا سا پیار...
ہلکی سی مسکراہٹ ... 
انہیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ...

انہیں *"اختیار"* سے محروم نہ کرو  ....
*"سننے"* کا اختیار ...
*"کہنے"* کا اختیار ...
*"ڈانٹنے"* کا اختیار ...
*"پیار"* کرنے کا اختیار ...
یہی سب انکی خوشی ہے ..
چھوٹی سے دنیا ہے ...

ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور  کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ...
 یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں کہ اب وقت انکا نہیں رہا ...
وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ...
اور بلآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں  کا شکار ہونے لگتے ہیں ...

اس لئے ...
اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے  ..
تو ان کے سامنے  زیادہ *"سیانے"*  نہ بنیں ...
*"بچے"* بن کے رہیں ..
تا کہ آپ خود بھی *"بچے"* رہیں ...

سورۃ الکوثر میں عددی معجزہ

"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"

سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔

قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے

لیکن جب

- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔

- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔

- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔

- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔

سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑھو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے

اللہ کی شان کہ یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین

_*ثواب کی نیت سے اپنے تمام *"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"* 

سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔

قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے

لیکن جب

- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔

- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔

- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔

- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔

سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑھو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے

اللہ کی شان کہ یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین

لوہا اور قرآن کا معجزہ


#قرآن_میں_لوھے_کے_متعلق_پیشن_گوئیاں_اور_قرآن_کا_معجزہ

سائنسانوں کا کہنا ھے کہ لوہا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ھے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا supernova کی صورت میں ھی بن سکتا ھے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب meteorite کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ھوا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب meteorites اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

اللہ سبحان وتعالی نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، 1400 سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوھا کیسے اور کہاں سے آیا؟

عرب کے صحراؤں میں تو لوھے کا استعمال بھی صرف تلوار اور ڈھال کے لئے ھوتا تھا۔

قرآن کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ھے جس کا مطلب لوھا ھے۔ لوھے کے نام پر پوری سورة موجود ھے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ھے کہ: 

"اور ہم نے لوھے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔" 

(سورة الحدید، آیت نمبر 25) 

سبحان اللہ 

قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ھے کہ یہ رب کا سچا کلام ھے۔ جو اس آخری پیغمبر پر نازل ھوا جو اُمی کہلاتے تھے۔

سورہ حدید آیت 4

﴿۴﴾ وھی ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی ھے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ھے سب اس کو معلوم ھے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ھے۔

یعنی اللہ جانتا ھے جو کچھ زمین میں داخل ھوتی ھے اور جو اس سے نکلتی ھے۔ 

اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ھے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ھے۔ اور  لوھے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہو سکتی اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ھے۔

اب حیران کرنے والی بات یہ ھے کہ قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر 57 ھے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ھے۔ اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ھے۔ یعنی اللہ نے اس سورہ کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہ بات حقیقت ھے کہ لوھے کہ بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوھا ہیموگلبن کی صورت میں ھمارے خون میں موجود ھے۔ جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کام کرتا ھے۔

عربی زبان کے ٢٨ حروف ہیں اور ھر حرف سے کوئی عدد منسوب ھے.حروف کو  مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ھے.
سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ھے۔

 ا         ب       ج          د        ہ        و        ز       ح      ط  
1         2        3         4        5        6       7       8       9
ی       ک        ل         م         ن       س       ع     ف      ص 
10     20      30        40       50      60     70    80     90
ق       ر        ش        ت        ث        خ       ذ     ض       ظ
100  200    300      400     500    600   700  800    900
غ 
1000

ا کے لئے 1 ب کے لئے 2 کا عدد ھے ج کے لئے 3 اور د کے لئے 4

اسی طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔

 اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔
1 + 30 + 8 + 4 + 10 + 4 = 57

الحدید سورت کا نمبر بھی 57 ھے۔ 

اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ھے۔
8+ 4 + 10 + 4 = 26

اب آپ سوچیں گے کہ اب 26 کیا چیز ھے؟؟؟

جی جناب یہ لوھے کا ایٹومک  نمبر ھے۔ 
Atomic number of iron is 26

سورہ حدید میں رکوع کی تعداد 4 ھے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی 4 ھے۔

 ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوھا زمین کی سب سے اندرونی تہہ (inner core) میں پایا جاتا ہے.  Inner core 80% لوہے اور 20% نکِل پر مشتمل ھے. زمین کی اس تہہ یعنی inner core کی پیمائش(موٹائی) 2475 کلومیٹر ھے۔ جبکہ سورہ حدید میں حروف کی تعداد بھی 2475 بنتی ھے.

 سورہ حدید قران مجید کی 57 ویں سورت ھے جبکہ سائنسدانوں کے مطابق inner core کا درجہ حرارت بھی  5700 کیلون یعنی5427 ڈگری سنٹی گریڈ ھے.  جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی 57 ھے.

ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ھے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوزن ری ایکشن شروع ھوتا ھے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ھے جب کسی ستارا کہ تمام ہائیڈروجن ختم ھو جاتی ھے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ھے اور ہیلیئم کے آئیٹم فیوزن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے پھر اور آخر میں لوھا بنتا ھے جب کسی ستارا میں لوھا پیدا ھونا شروع ھو جائے تو وہ ستارا مر جاتا ھے اور بلاسٹ کر کے لوھا کائنات میں چھوڑ دیتا ھے۔
زمین پر موجود لوھا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا۔ جس کو قرآن نے 1400 سال سے بھی پہلے بیان کر دیا۔

اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کر رھی ھے مگر پھر بھی ھم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔

بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے💖

#محمدسکندرجیلانی

شفاخانہ برائے توجہ اور علاج

🤱🤱
 اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
     
 * 🤒🤒
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ.*

    🤒🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ *اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.*
 
   💆‍♂💆‍♂ 
*اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.*
         
  💆‍♂💆‍♂
*پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.
     💆‍♂💆‍♂
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

    💆‍♂💆‍♂
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 
میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے *وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……*

   ........ اوہ میرے خدایا…
     
     💆‍♂💆‍♂
اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے.

    👵
*آج ماں جی کو رحمان کی رحمت میں گئے ایک ماہ اور آٹھ روز ہو گئے ہیں۔  
آج مجھے پھر بخار ہوا ہے, آغوش تھراپی کی اشد ضرورت ہے۔ پر میرا مرکزی ممتا شفاخانہ برائے توجہ اور علاج ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے۔  
مجھے آپ دوستوں سے رہنمائی درکار ہے۔ 
اب بھلا میں کیسے ٹھیک ہونگا ⁉️*

*💰💰 .. 
شاید اس تحریر کو پڑھنے سے کسی کو سیدھی راہ مل جائے اور کسی کے غم دور ہو جائیں...

انوكھی شہزادی

حضرت سیّدنا شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی جب شادی کے لائق ہوئی
تو بادشاہ کے یہاں سے رشتہ آیا مگر آپ نے تین دن کی مہلت مانگی 
اور مسجد مسجد گھوم کر کسی پارسا نوجوان کو تلاش کرنے لگے۔
ایک نوجوان پر آپ کی نگاہ پڑی جس نے اچّھی طرح نماز ادا کی (اورگڑگڑا کر دعا مانگی)۔

شیخ نے اس سے پوچھا:
کیا تمہاری شادی ہو چکی ہے؟
اس نے نفی میں جواب دیا۔ 
پھر پوچھا:
کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ 
لڑکی قرآنِ مجید پڑھتی ہے،
نماز روزہ کی پابند ہے
اور سیرت و صورت والی بھی ہے۔
اس نے کہا: 

بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا!
شیخ نے فرمایا: 
میں کرتا ہوں، لو یہ کچھ درہم !ایک درہم کی روٹی،
ایک کا سالن اور ایک کی خوشبو خرید لاؤ۔
اس طرح شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی نے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔

دلہن جب دولہا کے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے۔
اس نے پوچھا:
یہ روٹی کیسی ہے؟
دولہا نے کہا:
یہ کل کی باسی روٹی ہے میں نے افطار کے لئے رکھ لی تھی۔ 
یہ سن کر وہ واپس ہونے لگی۔

یہ دیکھ کر دولہا بولا: 
مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی مجھ غریب انسان کے گھر نہیں رُک سکتی۔
دلہن بولی:
میں آپ کی مفلسی کے باعث نہیں بلکہ اس لئے لوٹ کر جارہی ہوں کہ ربُّ العالمین پر آپ کا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے
جبھی تو کل کیلئے روٹی بچا کر رکھتے ہیں۔ 

مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے آپ کو پاکیزہ خصلت اور صالح کیسے کہہ دیا...!
دولہا یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا:
اس کمزوری سے معذرت خواہ ہوں۔
دلہن نے کہا: 
اپنا عذر آپ جانیں، 
البتہ!
میں ایسے گھر میں نہیں رُک سکتی جہاں ایک وَقْت کی خوراک جمع رکھی ہو،
اب یا تو میں رہوں گی یا روٹی۔ 
دولہا نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی (اور ایسی درویش خصلت انوکھی شہزادی کا شوہر بننے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیا)


اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

*یقینِ کامِل کی بہاریں*
مُتَوکّلین کی بھی کیا خُوب اَدائیں ہیں۔
شہزادی ہونے کے باوُجُود ایسا زبردست توکل کہ کل کیلئے کھانا بچانا گوارا ہی نہیں!
یہ سب یقینِ کامِل کی بہاریں ہیں کہ جس خُدا نے آج کھِلایا ہے وہ آئندہ کل بھی کھِلانے پر یقیناً قادِر ہے۔ 

*(روض الریاحین، الحکاية الثانیة والتسعون بعد المائة، ص۱۹۲)*

چار بیویاں

ایک شخص کی چار بیویاں تھیں، چوتھی بیوی سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور اس کو بنانے سنوارنے میں ہر وقت لگا رہتا تھا۔
تیسری بیوی سے بھی وہ محبت کرتا تھا کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی جو اسے دیکھتا گرویدہ ہو جاتا اسی لئے اس کو یہ خوف لگا رہتا تھا کہ یہ کسی اور کی نہ ہو جائے
اس لئے اسے چھپا چھپا کر رکھتا تھا۔

دوسری سے بھی اسے بہت محبت تھی اس لئے کہ وہ اسکی ساری پریشانیوں کا حل اسے بتاتی اور ہمیشہ اس کی مدد کرتی رہتی۔

مگر پہلی!!! پہلی سے وہ محبت نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس سے بدستور محبت کرتی تھی۔

*------اب ہوا یہ کہ -----*

ایک دن وہ شخص اتنا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب ہوگیا،

اس نے سوچا میرے پاس چار بیویاں ہیں کسی ایک کو تو مرتے ہوئے ساتھ لے جاؤں۔
اس  نے چوتھی بیوی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو---
میں نے تم پر اتنی توجہ دی اور اپنا مال بھی تم پر سب سے زیادہ خرچ کیا----
★--جواب میں اس نے صاف صاف انکار کردیا۔

تیسری بیوی سے کہا تو اس نے جواب دیا کہ---
★--دنیا میں ابھی میرے چاہنے والے بہت ہیں میں کسی کی بھی ہو جاؤں گی.
 
دوسری بیوی نے کہا کہ---
★---میں صرف قبر تک تو ساتھ آجاؤں گی مگر اس سے آگے میں نہیں آسکتی۔

اب یہ بڑا پریشان ہوا اچانک پیچھے سے آواز آئی کہ میں تمہارے ساتھ قبر تک چلوں گی،
★---اگرچہ تم نے کبھی میری طرف توجہ نہیں کی
جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی پہلی بیوی تھی، جو عدم توجہی اور غذا کی کمی کی وجہ سے بالکل کمزور ہوچکی تھی۔
جس کے سبب قبر میں اس کے کسی کام کی نہ تھی۔

اب یہ افسوس کرتا رہا کہ---
میں نے سمجھنے میں غلطی کی
اگر میں اس پر توجہ دیتا تو آج یہ قبر میں میری اچھی رفیق اور ساتھی  ہوتی۔

🌹 *وضاحت---*🌹

*چوتھی بیوی سے مراد----- ہمارے اعضاء تھے* 

جن کو بنانے سنوارنے میں تو ہم لگے رہتے ہیں
مگر مرتے ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

*تیسری بیوی سے مراد---* 

ہمارا مال و منال دولت جائیداد وغیرہ ھے---
★---کہ ساری زندگی لوگوں سے چھپا کر رکھا 
مگر مرنے کے بعد یہ دوسروں کے  ہو جاتے ہیں.

*دوسری بیوی سے مراد---* 

ہمارے اہل وعیال رشتے دار اور دوست احباب ہیں،
دنیا میں یہی لوگ ہمارے کام آتے ہمارے مسائل حل کرواتے ہم ان سے جتنی اور جیسی چاہیں مدد لیتے رہیں  مگر یہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ قبر تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں.

*پہلی بیوی سے مراد---*
★----ہمارے اعمال ہیں- 
جو قبر میں ساتھ جائیں گے۔
لیکن ہم نے ان کی طرف توجہ نہ دے  کر قبر کے حقیقی دوست رفیق اور ساتھی سے محروم ہوئے

آئیں آج ھی  اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کا پکا عہد کرتے ہیں...
اللہ تعالی  ہمیں اپنے عہد میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے