Tuesday, January 26, 2021

فرمانبرداری والی روزی


گھی والی چوری بندہ طوطے کو بھی ڈالتا ھے اور چوھے کو بھی۔۔ طوطے کو خوش ھو کر ڈالتا ھے اور چوہے کو پھنسانے کیلے اور بطور سزا کے ۔۔۔۔۔ چوہا بڑا خوش ھو رھا ھوتا ھے کہ اتنی اچھی روزی کا خزانہ مل گیا ھے لیکن اس وقت حقیقت سامنے اتی ھے جب لوھے کی تار گردن کا شکنجا بن جاتی ھے جس کو وہ روزی سمجھ رھا تھا وہہ مصیبتوں کا پہاڑ بن جاتی۔۔۔۔ ایسے ہی اللہ تعالی کچھ لوگوں کو روزی خوش ھو کر دیتا ھے اور کچھ لوگوں کو ناراض ھو کر بطور سزا کہ ۔۔۔ 
اب کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ روزی خوش ھو کر دے رھا ھے یا ناراض ھوکر  دے راھا ھے۔۔۔۔ اگر روزی بڑھتی جاے اور ساتھ اللہ کی فرمابرداری بھی بڑھتی جاے اور انسان  جھکتا جاے اپنے اللہ کے سامنے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ خوش ھو کر روزی دے رھا ھے ۔۔۔۔اور اگر روزی بھی بڑھتی جا  رھی ھے اور ساتھ اللہ کی نافرمانی بھی بڑھتی جارھی ھے اور انسان اللہ سے دور ھوتا جا رھا ھے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ ناراض ھوکر روزی دے رھا ھے  ۔۔۔۔روزی حا صل کر لینا کوی کمال کی بات نہیں وہ تو جانور بھی حاصل کر لیتے ہیں اور غیر مسلم ہم سے بھی بہتر حاصل کر لتے ہیں مسلمان ہمیشہ اللہ کی رضا والی روزی حاصل کرتا ھے اور اللہ کی ناراضگی والی روزی سے پناہ مانگتا ھے ۔۔۔۔اچھا جب ایک چوھا پھنستا ھے تو باقی چوھے دیکھ رھے ھوتے ہیں تو پھر کیوں باقی چوہے  پھنس جاتے ہیں وہ اس لیے کہ جب لوھے کی تار چوھے کی گردن پر پڑتی ھے تو چوھے کا منہ  کھل جاتا ھے جو چوری سے بھرا ھوتا ھے اور  تار اتنی باریک ھوتی ھے کہ وہ نظر نہیں اتی چوری سے بھرا منہ نظر ا راھا ھوتا ھے  وہ کہتے یہ نکلے تو ہم بھی یہ چوری کھایں ۔۔۔۔ایسے ہی نافرمان بندے کے اوپر  جو مصیبتوں پریشانیوں اور بیماریوں  کی تار ھوتی ھے وہ دوسرے بندوں کو نظر نہیں ا رھی ھوتی  سامنے چوری سے بھرا منہ نظر ا رھا ھوتا ھے بندے کہتے ہیں اس کا سر نکلے تو ہم پھنسایں اس وقت پتہ چلتا ھے  جب نافرمانی کی وجہ سے روزی کی شکل میں مصیبتیں پریشانیاں اور ذلتیں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

Monday, January 25, 2021

پر عزم انسان

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں 
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا.

قوتِ برداشت

لوہار کی بند دکان میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا...
یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری سے ٹکرا کر بہت معمولی سا زخمی ہو گیا، گھبراہٹ میں سانپ  نے پلٹ کر آری  پر پوری قوت سے ڈنگ مارا، سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا...
اگلی بار سانپ  نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپٹ کر، اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی، دوسرے دن جب دکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا...

بعض اوقات غصے میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا زیادہ نقصان کیا ہے...
اچھی زندگی کیلئے بعض اوقات ہمیں
کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ حادثات کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
 نظر انداز کرنا چاہیئے...
اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیے، ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک رد عمل دکھائیں. ہمارے کچھ رد عمل ہمیں محض نقصان ہی نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری جان بهی لے لیں...

سب سے بڑی قوت۔۔۔ قوتِ برداشت ہے ...

اپنوں سے غداری کا انجام

سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاٶں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے: 

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"...

جو چاہئے سو مانگئے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی،وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے،مسافر سمجھ کر خدمت کی،بادشاہ بہت خوش ہوا،جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہوکہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو،جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا،دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا،ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا، کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ،تو وہ دیہاتی بڑے میاں گئے،محل کے دروازے پر پہنچے،کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی،کہنے لگا نہیں مل سکتے،مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی،اب جودربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوںاسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے،چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا،دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا،اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے،پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا،دربان نےکہا مل تو لو،کہا اب نہیں ملنا ہے،کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے،تھوڑی دورچلاگیا،جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراًلے کر آو وہ ہمارا محسن ہے،واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے،ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ،تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔
یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہویاچھوٹی٬اس کا سوال صرف اﷲ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔
؂
جو چاہئے سو مانگیے اﷲ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے یاحی یاقیوم۔

Sunday, January 24, 2021

پختہ ایمان۔۔۔۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)

قضا و قدر

میڈیکل کے کچھ اسٹوڈنٹ کالج کے باهر خوش گپیوں میں مصروف تھے کے اچانک ایک گاڑی بڑی تیزی سے آئی اس نے درمیان میں کھڑے لڑکے کو ٹکر مار دی. باقی لڑکے بال بال بچ گئے. جس لڑکے کو چوٹ لگی تھی اسے فوری هسپتال منتقل کر دیا گیا.
چونکه وه میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اسلیے اس کے باقی ساتھی بھی پہنچ گئے ِفوری طور پر خون کے نمونے لیے گئے علاج شروع هوگیا - ایکسرے روپورٹ آگئی - ڈاکٹر نے اس کو بتایا که اس کے گردے کو سخت چوٹ لگی هے - اس میں سے خون رِس رها هے - اگر فوری نه نکالا گیا تو موت واقع هو سکتی هے -میں آپ سے یه فیصله لینے آیا هوں - وقت کم هے آپ کو فوراً فیصله کرنا هوگا - اس اسٹوڈنٹ کے پاس مواقفت کے سوا کوئی چاره نهیں تها - فوری طور پر آپریشن هوا اور گردے کو نکال کر لیباٹری میں ٹیسٹ کے لیے بهیجوا دیا گیا-
2 ،3 دن گزرے- سٹوڈنٹ ابهی تک اپنے بیڈ پر هی تها که وه ڈاکٹر جس نے لڑکے کا آپریشن کیا تها ، مسکراتا هوا اس کے پاس آیا - ڈاکٹر نے کہا که کیا کبھی تم نے قضا و قدر کے بارے میں سنا هے؟ اسٹوڈنٹ نے کها یه تو درست هے هم قضا و قدر پر یقین رکهتے هیں لیکن میرا نقصان کچھ زیاده هوچکا هے- ڈاکٹر کهنے لگا میں نے بهی تمهاری طرح قضاو قدر کو سن رکها تها مگر جب هم نے تمهارا معامله دیکها تو مجهے قضا و قدر پر اور زیاده یقین هو گیا هے -پهر اس نے بتایا که جب هم نے تمهارا گرده نکالا تو لیباٹری میں اسے ٹیسٹ کے لیے بهیجوایا-
جب اسے ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم هوا که گردے میں کینسر کا آغاز هو چکا هے- میڈیکل میں اس قسم کے کینسر کا علم کافی عرصے بعد هوتا هے اس وقت علاج نا ممکن هوتا هے - اور مریض کی موت واقع هو جاتی هے- تم بہت خوش قسمت هو که گردے کے کینسر کا بالکل ابتدائی اسٹیج پر علم هوگیا- اور تمهیں کینسر زده گردے سے نجات مل گئی - دیکهو بیٹا ! گاڑی نے تمهیں اسی جگه ٹکر ماری جہاں پر کینسر تها - الله تعالی تمهیں دوباره زندگی دینا چاهتا تها- بلا شبه یه قضا و قدر تهی که تم اس بلڈنگ کے نیچے کهڑے هوئے اور پهر گاڑی نے اتنے سارے لڑکوں میں صرف تم هی ٹکر ماری-
یاد رکهو..! الله تعالی اپنے بندوں کے ساتھ ماں باپ سے بهی کہیں زیاده مهربان هے- اور ہمارے ساتھ جو بھی معاملات ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں اس لیے انسان کو اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ جو بھی کرتا ہے ہمارے بھلے کے لیے کرتا ہے.

شرم و حیا

#شرم_و_حیاء____ایمان_کی_ایک_اھم_ترین_شاخ ! 
شرم و حیاء انسان کا وہ فطرتی وصف ھے جس سے اُسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ھوتی ھے ۔ اسی کی بدولت انسان کو عفت و عصمت ، پاک بازی و پارسائی اور پاک دامنی حاصل ھوتی ھے ۔ اور اسی کے سبب وہ دوسروں کے ساتھ مروت و لحاظ اور چشم پوشی کا معاملہ کرتا ھے ۔ بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسی ایک فطرتی وصف کی برکت سے انسان بہت سے گناھوں سے محفوظ رہتا ھے ۔ شرم و حیاء کا یہ وصف ھر انسان میں فطرتی طور پر موجود ھوتا ھے اور اگر اِس کی شروع ھی سے نگہداشت اور حفاظت کی جائے تو انسان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وصف بھی خوب نشو و نما پاتا ھے اور پھر جب انسان اور یہ وصف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گھل مل جاتے ھیں تو پھر یہ انسان کی عادت بن کر رہ جاتا ھے اور اُس کی پوری زندگی کو سنوار دیتا ھے ۔ لیکن اگر اِس کی بروقت صحیح حفاظت اور مناسب تربیت نہ کی جائے اور اسے یوں ھی آزاد اور بےمہار چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ وصف انسان کی زندگی کا ایک بدنما داغ بن کر اُبھرتا ھے اور اِسکی وجہ سے انسان کی مکمل زندگی داغدار بن جاتی ھے ۔

اسلام نے اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعہ انسان کو زندگی کے تمام مواقع پر شرم و حیاء کی صحیح نگہداشت اور مناسب تربیت کرنے کا حکم دیا ھے ۔ وضع قطع ھو یا بود و باش ، چال چلن ھو یا نشست و برخاست ، اجتماعی زندگی ھو یا انفرادی زندگی غرض ھر موقع پر اسلام نے انسان کو شرم و حیاء کا پابند اور اُس کا مکلف بنایا ھے ۔

خود رسول اکرم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی زندگیاں شرم و حیاء سے عبارت تھیں ۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن کے زمانہ میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام ھو رھا تھا اور آپ ﷺ اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رھے تھے تو آپؐ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ : ''تم اپنا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ لو تا کہ اینٹ کی رگڑ نہ لگ سکے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایسا کیا تو آپؐ پر بیہوشی طاری ھو گئی ، جب ھوش آیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر تھا : ''میرا تہبند ! '' حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تہبند باندھ دیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء کا مادہ اِس قدر غالب تھا کہ آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے محسوس ھوتے تھے ! چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیاء والی ھوتی ھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے بھی زیادہ شرم و حیاء والے تھے ۔ (صحیح بخاری)

حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چادر اُوڑھے ھوئے اپنے بستر پر لیٹے ھوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ اپنی بات کر کے چلے گئے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ : ''تم بھی اپنے کپڑے ٹھیک کر لو (پھر مجھے اجازت دی) میں بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلا گیا ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا : '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا بات ھے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آنے پر جتنا اھتمام کیا اتنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے آنے پر نہیں کیا؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''عثمان بہت ھی حیاء والے آدمی ھیں تو مجھے ڈر ھوا کہ اگر میں اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دوں گا تو وہ اپنی ضرورت کی بات کہہ نہ سکیں گے۔'' اس حدیث کے بہت سے راوی یہ بھی روایت کرتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا : ''کیا میں اُس سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ھیں؟۔'' (مسلم)

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت زیادہ باحیاء ھونے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرمایا کہ : ''بعض دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں ھوتے اور دروازہ بھی بند ھوتا لیکن پھر بھی غسل کے لئے اپنے کپڑے نہ اُتار سکتے اور وہ اتنے شرمیلے تھے کہ (غسل کے بعد) جب تک وہ کپڑے سے ستر نہ چھپا لیتے کمر سیدھی نہ کر سکتے یعنی سیدھے کھڑے نہ ھو سکتے تھے۔''. (مسند احمد)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ھیں کہ : ''میں نے (حیاء کی وجہ سے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرم والی جگہ کبھی نہیں دیکھی۔'' (شمائل ترمذی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ : ''تم لوگ اللہ سے حیاء کیا کرو ! کیوں کہ میں بیت الخلاء میں جاتا ھوں تو اللہ سے شرما کر اپنے ستر کو ڈھک لیتا ھوں۔'' (کنزالعمال) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ (اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کی وجہ سے) جب کسی تاریک کمرے میں غسل کر لیتے تو سیدھے کھڑے نہ ھوتے بلکہ کمر جھکا کر کبڑے بن کر چلتے اور کپڑے لے کر پہن لیتے (اور پھر سیدھے ھوتے) (حلیۃ الاولیاء) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ لنگی باندھے بغیر پانی میں کھڑے ھیں تو آپؓ نے فرمایا : ''میں مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے یہ مجھے اِس سے زیادہ پسند ھے کہ میں اِن کی طرح کروں۔'' (حلیۃ الاولیاء)

حضرت اشج عبد القیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ھیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ھیں.'' میں نے پوچھا وہ دو خصلتیں کون سی ھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''برد باری اور حیاء۔'' میں نے پوچھا : ''یہ پہلے سے میرے اندر تھیں یا اب پیدا ھوئی ھیں؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں ! پہلے سے تھیں۔'' میں نے کہا : ''تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا فرمایا جو اُسے پسند ھیں۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ''حیاء'' تو سارے کی ساری خیر ھی ھے۔'' (مسند بزار)

مگر افسوس کہ آج کل کے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو جو عروج بخشا جا رھا ھے ۔ بےشرمی و بےحیائی کو جو فروغ دیا جا رھا ھے ۔ اُ سے جس طرح رُوشن خیالی اور جدت پسندی قرار دیا جا رھا ھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے جس آزادی و بہادری اور جرأت و دلیری کے ساتھ سر انجام دینے کی کوششیں کی جا رھی ھیں اُنہیں دیکھ کر آج کل کے دور میں بڑی ھی مشکل سے یہ باور ھوتا ھے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ درخشاں تاریخ میں کبھی ھمارے آباؤ اجداد او ر ھماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسی گزری ھوں گی کہ جن کی عفت و عصمت ، پاک بازی و پاک دامنی اور اُن کی بے داغ جوانی پر آج کی تاریخ بجا طور پر فخر محسوس کرتی ھو گی ۔

مولوی اور چرواہا

ایک ایمان افروز کہانی
علاقے میں قحط سالی تھی اور جانور سب کچھ کھا کر فارغ ہو گئے تھے مزید کچھ کھانے کو رہا نہیں تھا او مویشی مالکان نہایت پریشان تھے، اس دوران مولوی اللہ وسایا نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اگر اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔
شاید یہ اس کا مولوی صاحب کے پیچھے زندگی کا پہلا جمعہ تھا کہ بات اس کے دل میں اتر کر یقین کا درجہ پا گئی، اس نے واپس آکر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پہ چلا گیا، اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا کہ وہ ذرا اپنی بکریاں چرانے جا رہا ہے اس لیے وہ اسے اپنے اوپر سے گزرنے دے، یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو ہانکا اور دریا کے اوپر سے چلتا ہوا دریا پار کر گیا، علاقہ گھاس سے بھرا پڑا تھا، درختوں کے پتے بھی سلامت تھے کیونکہ یہاں تک کسی کو رسائی حاصل نہیں تھی۔
اب تو یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر خود واپس آ جاتا اور شام کو جا کر واپس لے آتا، اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا تو لوگ چونکے اوراس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے، وہ سیدھا سادہ صاف دل انسان تھا، صاف صاف بات بتا دی کہ جناب ہم تو دریا پار اپنی بکریاں چرانے جاتے ہیں، بات سب نے سنی مگر یقین کسی نے نہ کیا کیونکہ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی مگر بات ہوتے ہوتے مولوی اللہ وسایا تک جا پہنچی۔ 

مولوی اللہ وسایا نے اس بکروال کو بلوایا اور اصل حقیقت بتانے کو کہا، بکروال نے مولوی اللہ وسایا ہی کو اپنا ریفرنس بنا لیا کہ مولوی جی میں تو خود آپ کے پاس شکریہ ادا کرنے آنے والا تھا کہ آپ نے ایک جمعہ میں یہ نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ مولوی اللہ وسایا صاحب ٹک ٹک دیدم نہک شیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے، بھائی ایسی باتیں تو ہم ہر جمعے کو کرتے ہیں مگر ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔
مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ بس میں تو بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوا بکریوں سمیت پار چلا جاتا ہوں، آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی، لوگ بھی صبح دریا کے کنارے جمع ہو گئے اور بکروال بھی آ گیا، مجمع زیادہ تھا، مولوی صاحب نے ایک دو دفعہ اندر ہی اندر ارادہ کیا کہ انکار کر دیں۔
مگر وہ جو مولوی صاحب کو مسجد سے کندھوں پر اٹھا کر لائے تھے،اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور مولانا اللہ وسایا کے حق میں تعریفی موشگافیاں کر رہے تھے۔ آخر کار مولوی صاحب نے ایک رسہ منگوایا اور پہلے اسے درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا اور پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا سا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے، مگر پہلا پاؤں ہی شڑاپ سے پانی میں چلا گیا اور مولوی اللہ وسایا صاحب ڈبکیاں کھانے لگے۔
بدحواسی میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ ابھی کمرکمر پانی میں اٹھ کر کھڑے بھی ہو سکتے ہیں،وہ پانی کے بہاؤ میں بہنا بھی شروع ہو گئے، لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا اور سوکھنے کے لیے سائیڈ لٹا دیا، مولوی صاحب کی درگت نے بکروال کو بھی پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو کیا ہو گیا ہے مگر چونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا لہٰذا اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا، اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا، ان کو پار چھوڑ کر واپس بھی آ گیا۔
لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے مگر وہ سب سے بے نیاز سیدھا مولوی اللہ وسایا کے پاس پہنچا اور کہا کہ مولوی صاحب میں آپ کی بسم اللہ کی طرف سے کافی پریشان تھا مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔
اس نے درخت سے بندھے رسے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مولوی صاحب یہ ہے آپ کی بسم اللہ کی بیماری، آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا ہے، آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا لہٰذا اللہ نے بھی آپ کو رسے کے حوالے کر دیا تھا، کمال کرتے ہیں آپ بھی مولوی صاحب، میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی مگر آپ نے اللہ سے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا لہٰذا اللہ نے آپ کو رسوا کر دیا۔
یہی کچھ حال ہماری نمازوں اور دعاؤں کا ہے، ہر ایک عبادت یقین سے خالی ہے، اسلیے 
دعائیں قبول نہیں ہو رہیں

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا شکر

یونیورسٹی سے آتے ھوئے ایک بھکاری پر نظر پڑی جو خاصی دھوپ میں بیٹھا ھوا تھا.. جس کے نہ ہاتھ تھے اور نہ ھی پاؤں.. جس کے اوپر بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں اور وہ ان کو اڑا بھی نہیں سکتا تھا.. کچھ دیر بعد مجھ پر یہ انکشاف ھوا کہ وہ نہ بول سکتا ھے نہ ھی سن سکتا ھے.. وہ بھیک مانگنے کے لئے تو بیٹھا ھوا تھا لیکن صدا لگانے کے بھی قابل نہیں تھا..

میں مُسلسل اس کو دیکھتا اور یہ سوچتا رھا کہ اس بھکاری کی جگہ میں بھی تو ھو سکتا تھا پھر اس کی جگہ پر میں کیوں نہیں..؟؟

میں نے تو کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے میں اس حال میں نہیں.. آخر میں کیوں نہیں اس جگہ پر..؟؟ مجھے کیوں الله نے ویسا نہیں بنایا..؟؟ وہ چاھتا تو مجھے دنیا کا مظلوم ترین انسان بنا دیتا ' پر اس نے نہیں بنایا..

میں ساری زندگی بھی سجدے میں رھوں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا.. ھاتھ ' پاؤں ' آنکھیں ' کان ' سب کچھ تو دے رکھا ھے الله نے..

وہ چاھتا تو مجھے بھی دنیا میں محروم کر دیتا لیکن مجھے تو الله مسلسل عطا کیے جا رھ ھے.. عطا پر عطا ' مسلسل مہربانی.. میری نافرمانیوں ' کوتاھیوں کے باوجود مجھے دیتا ھی چلا جا رھا ھے الله..

اس سارے رحم و کرم کے بعد بھی میں شکر کیوں نہ کروں..؟؟

اِن آنکھوں کا جن سے میں دیکھ سکتا ھوں..
اس زبان کا جس سے میں ذکر کر سکتا ھوں..
ان ھاتھوں کا جن سے میں دعا مانگ سکتا ھوں..

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا آخر ھم کیوں شکر ادا نہ کریں..؟؟ اور شکر کا سب سے احسن طریقہ یہ ھے کہ ھم ابھی سے ' آج سے اللہ کی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا عہد کر لیں..

پورے خلوصِ دل سے___