Wednesday, February 3, 2021

الفاظ بولتے ہیں

ایک پینٹر کو ایک کشتی پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ 
کام کے دوران اُسے کشتی میں ایک سوراخ نظر آیا اور اُس نے اِس سوراخ کو بھی مرمت کر دیا۔ 
پینٹنگ مکمل کر کے شام کو اس نے کشتی کے مالک سے اپنی اُجرت لی اور گھر چلا گیا۔

دو دن بعد کشتی والے نے اُسے پھر بلایا اور ایک خطیر رقم کا چیک دیا۔ پینٹر کے استفسار پر اُس نے بتایا کہ اگلے دن اس کے بچّےبغیر اُس کے علم میں لائے کشتی لے کر سمندر کی طرف نکل گئے۔ اور پھر جب اُسے خیال آیا کہ کشتی میں تو ایک سُوراخ بھی تھا تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ 

لیکن شام بچّوں کوہنستے مسکراتے آتے دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ھو گیا۔ اُس نے پینٹر سے کہا کہ یہ رقم تمہارے احسان کا بدل تو نہیں مگر میری جانب سے تمہارے لیئے محبت کا ایک ادنیٰ اظھار ہے۔۔۔۔

آپ کی زندگی میں بھی بہت سےایسے چھوٹے چھوٹے کام آئیں گے جو آپ کے کام نہیں ۔۔۔۔ 
مگر وہ کام بھی کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔
نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
کسی نہ کسی کی زندگی بچاتی ہے 
کسی نہ کسی کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔
مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے .

الفاظ بولتے ہیں.

پینڈو لڑکا

مما  وہ پینڈو سا ہے میں اس سے شادی نہیں  کرنی 
افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی 
ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے 
افشاں نے کہا مما  وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہنے کی تمیز نہ اسے بات کرنے کی تمیز ہے 
میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی 
ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نا ہو 
افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی کہا صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی 
تم شادی سے انکار کر دو 
صارم نے کہا میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی  جا سکتا 
افشاں نے کہا میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی 
صارم نے کہا تم خود انکار کر دو 
میں تو کچھ نہ کہنے والا 
افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے کر رہے 
افشاں نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری ٹیبلٹ کھا لی 
ہسپتال کے گئے 
ڈاکٹرز نے معدہ  واش کیا جان  بچ گئی 
افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما  مجھ پہ رحم کرو 
میں اس جاہل انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی 
وہ بھی گاوں میں 
ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں وہ صارم بہت اچھا لڑکا ہے کیا ہوا وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے 
وہ گاوں میں رہتا ہے تو 

لیکن وہ لڑکا اچھا ہے 
افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی 
افشاں کی شادی صارم سے کروا دی 
افشاں نے بس سمجھ لیا زندگی برباد ہو گئی 
سارے خواب ختم ہو گئے 
سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں 
سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا 
پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے شادی ہو گئی لیکن مجھ سے دور رہو 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے افشاں آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں 
افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی صارم 
صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی 
صارم نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی 
اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ  آپ کے لیئے افشاں نے انگھوٹی 
اٹھا کر سائڈ پہ رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئ رونے لگی 
صارم نوافل ادا کرنے لگا 
پھر افشاں کے پاس لیٹ گیا 
یوں زندگی کا سفر شروع ہوا افشاں کا دم گھٹنے لگا صارم کے ساتھ 
صارم دیکھنے میں خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ڈیسینٹ سا بھی نہیں  تھا 
افشاں ماڈرن سی لڑکی تھی صارم صبح اٹھتے ہی افشاں کا ماتھا چومتا 
پھر خود ناشتہ بناتا افشاں کو غصہ آتا یہ بندہ مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے 
افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا 
صارم رات کو تھکا ہارا آتا افشاں بس خاموش سی اپنی دنیا میں گم سی رہتی اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی 
صارم کی 
صارم بھی افشاں کو کچھ نہ کہتا تھا 
گھر آ کر کھانا بناتا افشاں کو کھانا دیتا 
افشاں پتھر دل تھی شاید  
نہ گھر کی صفائی کرتی نہ وہ کبھی صارم کے کپڑے صفائی کرتی 
صارم اپنے کام خود کرتا سال گزر گیا 
صارم افشاں کی ہر بے رخی چوم کر برداشت کرتا 
افشاں کو یوں لگتا تھا ایک بدو سا انسان پلے پڑ گیا ہے 
صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا 
پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا جو ہمسفر ہو 
صارم نے ایک دن کہا افشاں تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی 
پاگل 
دیکھو رنگ کتنا دھیما  پڑ گیا تمہارا 
تمہارے بال دیکھو کتنے روکھے سے ہو گئے 
صارم افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں خو چھوا تھا 
افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا 
افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے صارم 
صارم نے کہا نہیں چھوڑوں  گا افشاں نے دھکا دیا 
آئل صارم کے اوپر گر گیا 
افشاں  جانے لگی اٹھ کر 
صارم نے بازو پکڑا پاس بیٹھا لیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا افشاں میں یوں ایسے آپ کو نہیں دیکھ سکتا 
افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے 
صارم نے پاس بٹھایا آئل لگانا شروع کیا افشاں کے سر میں 
افشاں کے سر میں آئل لگایا پھر چہرے پہ سکرب  کرنے لگا 
افشاں خاموش بیٹھی 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہا چڑیل جاو اب شاور لے کر او اور پنک  ڈریس پہنو  
میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں

افشاں حیران تھی اتنی بے رخی پہ بھی اتنا پیار کرتا ہے صارم 
افشاں شاور لے کر آئی آج چہرے پہ عجیب سی چمک تھی 
افشاں نے اپنی دوست کو کال کی یار صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ 
اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے اس کی قدر کرو 
افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے 
اس کئ دوست نے کہا افشاں قمست والوں کو ایسے مرد ایسے ہمسفر والے ملتے ہیں 
اتنے میں صارم نے آواز لگائی جاں پناہ کھانا تیار ہے آ جاو 
افشاں مسکرانے لگی 
آج بریانی سے مزے کی خوشبو آ رہی تھی 
افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا تعریف کرے صارم کی لیکن 
خاموش رہی کھانا کھایا کمرے میں سونے چلی گئی 
صارم نے برتن اٹھائے واش  کرنے لگا 
برتن واش کیئے سارا دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ پڑا سو گیا 
صبح اٹھا  افشاں کو اٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ تیار کر دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ  لے کر آوں  گا 
رات کو صارم گھر آیا 
ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی گارڈن میں 
ہلکی سی ہوا چل رہی تھی شام کا وقت تھا ہلکی دی روشنی تھی 
صارم گھٹنے کے بل بیٹھ گیا گلاب کا پھول افشاں کو دیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں 
افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد میرا آج برتھ ڈے ہے 
صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا افشاں 
پیپرز نکالے ایک لفافے سے کہا افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا افشاں جانتی ہو یہ پیپرز کا چیز کے ہیں 
افشاں کا دل دھڑکنے لگا کیا ہے یہ صارم 
صارم نے کہا یہ ہم دونوں کی خوشی ہے افشاں 
افشاں نے کہا بتاو صارم یہ کیا ہے 
صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں میں نے کیا گھر لیا ہے اور تمہارے نام کیا ہے 
افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا 
افشاں نے دیکھا نیا گھر وہ بھی میرے نام 
افشاں کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے 
صارم اتنی محبت 
صارم کی آنکھ سے پہلی بار آنسو چھلکا تھا 
صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا 
افشاں ایک چیز مانگوں 
افشاں نے ہاں میں سر ہلا دیا 
افشاں ہمیشہ خوش رہنا 
جانتی ہو تم پری سی ہو معصوم سی 
بہت پیاری ہو تم میں بہت خوش نصیب ہوں تم جیسی ہمسفر ملی مجھے 
افشاں ہماری شادی کو دو سال گزر گئے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سینے سے نہیں لگایا 
مجھے آج سینے سے لگا لو نا 
افشاں نہ چاہتے ہوئے آج صارم کو سینے سے لگا لیا 
صارم زور سے سینے سے لگا روتے ہوئے کہنے لگا 
یہ بانہیں کیا پتا پھر نصیب ہوں نہ ہوں 
اتنا کہہ کر صارم کمرے میں چلا گیا 
افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے صارم کو کیا سمجھتی صارم کتنا اچھا انسان ہے کتنا برا سلوک کیا میں صارم کے ساتھ 
افشاں کا دل چاہ رہا تھا صارم کی بانہوں میں سما جاوں 
صارم کی بے بے پناہ محبت 
دو سال میں صارم کو اگنور کرتی رہی صارم پھر بھی مجھے چاہتا رہا 
رات بھر افشاں خواب دیکھتی رہی کل صارم کے لیئے ناشتہ خود بناوں گی 
صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی 
صارم کو اب کبھی اداس نہ ہونے دوں گی 
رات بیت گئی افشاں اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا 
صارم کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی 
کافی ٹائم گزر گیا صارم نہ اٹھا افشاں کمرے میں گئی محبت سے آواز دینے لگی صارم اٹھ جائیں میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے 
صارم کروٹ کیئے سویا تھا 
افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا دیکھا صارم کا جسم ٹھنڈا پر چکا ہے 
افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا 
صارم کے بستر پہ خون پڑا تھا منہ پہ خون لگا ہوا تھا 
افشاں چیخنے  لگی 
زور زور کر آوازیں دینے لگی صارم اٹھ جاو یہ کیا ہوا آپ کو 
صارم اٹھو نا 
محلے والے اکھٹے ہو گئے ہسپتال لے گئے 
ڈاکٹر نے چیک کیا دیکھا صارم 
ڈاکٹر نے کہا میں نے کہا تھا اسے اپنا خیال رکھو اپنا علاج کرواو 
کسی کو ساتھ لیکر آو لیک  شاید یہ جینا نہیں چاہتا تھا 
افشاں نے روتے ہوئے کہا کیا تھا صارم کو 
ڈاکٹر نے ایک آہ بھری اور کہنے لگا صارم کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بلڈ کینسر تھا 
شاید اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا 
مجھے اکثر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے جیوں  
کوئی ہے ہی نہیں جو مجھے اپنا کہہ سکے 
میرے گھر میرا انتظار  کرنے والا کوئی نہیں ہے 
کوئی نہیں ہے جو مجھے محبت سے پوچھے دن کیسا گزرا 
کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں 
رات کو کمرےمیں اکیلا  درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے 
افشاں زمیں پہ گر گئی صارم یہ کیا کر دیا تم نے 
صارم مجھے معاف کر دو صارم 
میں پاگل ہو گئی تھی 
صارم نہ جاو مجھے چھوڑ کر 
صارم میں مر جاوں گی صارم تمہارے بنا 
صارم کی لاش سامنے پڑی تھی جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کو ترستا رہا 
افشاں صارم کے چہرے کو ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کے اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا 
صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو 
تبسم تو بس اتنا کہتا ہے کسی کے جذبات سے مت کھیلو 
کسی کو اتنا نہ ستاو کے وہ مر جائے 
اپنے ہمسفر کو سینے سے لگا ایک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے ایک دوسرے کو چوم لو
انا میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا 
چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں جب موت آ گھیرے 
محبت بانٹتے رہو 
کسی کے مرنے کے بعد پچھتاوے سے اچھا ہے کسی کو زندگی میں ہی سینے سے لگا لو.

سلطان محمود غزنوی اور محبتِ رسولﷺ


سلطان محمود غزنوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اياز پر بڑے مهربان تھے اور اس سے محبت كرتے تھے ، اسي طرح  اياز كے بيٹے سے بھي محبت كرتے تھے اور چونكه اس كا نام محمد تھا لہٰذا اس كے ساتھ عزت سے پيش آتے ۔ 

نامحرم کی محبت

نامحرم کی محبت کی مثال ایک نشے کے انجیکشن جیسی ہے۔۔۔

جس کے نشے میں ہمیں سب رنگین نظر آتا ھے ۔۔

لیکن جیسے ھمارا نشہ اترتا ہے
 تو ہم اپنی دنیا برباد کر چکے ہوتے ہیں۔۔۔

Tuesday, January 26, 2021

فرمانبرداری والی روزی


گھی والی چوری بندہ طوطے کو بھی ڈالتا ھے اور چوھے کو بھی۔۔ طوطے کو خوش ھو کر ڈالتا ھے اور چوہے کو پھنسانے کیلے اور بطور سزا کے ۔۔۔۔۔ چوہا بڑا خوش ھو رھا ھوتا ھے کہ اتنی اچھی روزی کا خزانہ مل گیا ھے لیکن اس وقت حقیقت سامنے اتی ھے جب لوھے کی تار گردن کا شکنجا بن جاتی ھے جس کو وہ روزی سمجھ رھا تھا وہہ مصیبتوں کا پہاڑ بن جاتی۔۔۔۔ ایسے ہی اللہ تعالی کچھ لوگوں کو روزی خوش ھو کر دیتا ھے اور کچھ لوگوں کو ناراض ھو کر بطور سزا کہ ۔۔۔ 
اب کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ روزی خوش ھو کر دے رھا ھے یا ناراض ھوکر  دے راھا ھے۔۔۔۔ اگر روزی بڑھتی جاے اور ساتھ اللہ کی فرمابرداری بھی بڑھتی جاے اور انسان  جھکتا جاے اپنے اللہ کے سامنے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ خوش ھو کر روزی دے رھا ھے ۔۔۔۔اور اگر روزی بھی بڑھتی جا  رھی ھے اور ساتھ اللہ کی نافرمانی بھی بڑھتی جارھی ھے اور انسان اللہ سے دور ھوتا جا رھا ھے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ ناراض ھوکر روزی دے رھا ھے  ۔۔۔۔روزی حا صل کر لینا کوی کمال کی بات نہیں وہ تو جانور بھی حاصل کر لیتے ہیں اور غیر مسلم ہم سے بھی بہتر حاصل کر لتے ہیں مسلمان ہمیشہ اللہ کی رضا والی روزی حاصل کرتا ھے اور اللہ کی ناراضگی والی روزی سے پناہ مانگتا ھے ۔۔۔۔اچھا جب ایک چوھا پھنستا ھے تو باقی چوھے دیکھ رھے ھوتے ہیں تو پھر کیوں باقی چوہے  پھنس جاتے ہیں وہ اس لیے کہ جب لوھے کی تار چوھے کی گردن پر پڑتی ھے تو چوھے کا منہ  کھل جاتا ھے جو چوری سے بھرا ھوتا ھے اور  تار اتنی باریک ھوتی ھے کہ وہ نظر نہیں اتی چوری سے بھرا منہ نظر ا راھا ھوتا ھے  وہ کہتے یہ نکلے تو ہم بھی یہ چوری کھایں ۔۔۔۔ایسے ہی نافرمان بندے کے اوپر  جو مصیبتوں پریشانیوں اور بیماریوں  کی تار ھوتی ھے وہ دوسرے بندوں کو نظر نہیں ا رھی ھوتی  سامنے چوری سے بھرا منہ نظر ا رھا ھوتا ھے بندے کہتے ہیں اس کا سر نکلے تو ہم پھنسایں اس وقت پتہ چلتا ھے  جب نافرمانی کی وجہ سے روزی کی شکل میں مصیبتیں پریشانیاں اور ذلتیں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

Monday, January 25, 2021

پر عزم انسان

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں 
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا.

قوتِ برداشت

لوہار کی بند دکان میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا...
یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری سے ٹکرا کر بہت معمولی سا زخمی ہو گیا، گھبراہٹ میں سانپ  نے پلٹ کر آری  پر پوری قوت سے ڈنگ مارا، سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا...
اگلی بار سانپ  نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپٹ کر، اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی، دوسرے دن جب دکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا...

بعض اوقات غصے میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا زیادہ نقصان کیا ہے...
اچھی زندگی کیلئے بعض اوقات ہمیں
کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ حادثات کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
 نظر انداز کرنا چاہیئے...
اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیے، ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک رد عمل دکھائیں. ہمارے کچھ رد عمل ہمیں محض نقصان ہی نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری جان بهی لے لیں...

سب سے بڑی قوت۔۔۔ قوتِ برداشت ہے ...

اپنوں سے غداری کا انجام

سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاٶں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے: 

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"...

جو چاہئے سو مانگئے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی،وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے،مسافر سمجھ کر خدمت کی،بادشاہ بہت خوش ہوا،جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہوکہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو،جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا،دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا،ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا، کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ،تو وہ دیہاتی بڑے میاں گئے،محل کے دروازے پر پہنچے،کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی،کہنے لگا نہیں مل سکتے،مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی،اب جودربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوںاسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے،چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا،دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا،اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے،پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا،دربان نےکہا مل تو لو،کہا اب نہیں ملنا ہے،کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے،تھوڑی دورچلاگیا،جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراًلے کر آو وہ ہمارا محسن ہے،واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے،ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ،تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔
یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہویاچھوٹی٬اس کا سوال صرف اﷲ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔
؂
جو چاہئے سو مانگیے اﷲ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے یاحی یاقیوم۔

Sunday, January 24, 2021

پختہ ایمان۔۔۔۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)