Friday, February 5, 2021

ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ

ایک ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍکٹھی ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﻤﯿﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ کے ﺍﺱ کونے ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ بہت ﺑﮍا ﺗﺎﺟﺮ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎئی ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ خانہ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ بار بار ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ہمارا ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ میرے گھر تک ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ۔
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔۔۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺻﺎﺣﺐ، ﺍلله ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ کے لیئے، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ کی اشد ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﺍلله تعالٰی ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ۔۔۔
تاجر ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ آگے ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ۔
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ صاحب ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ الله ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍپنے ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ہوئے کہا:
ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ لیئے ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ پر ﺍلله ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐھ دیجیئے
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ اس کی آنکھوں میں آنسووں آ گئے اور ﻣﻨﮧ سے ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله نکلنا ﺷﺮﻭﻉ ہو گیا
ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ہوا ﺍﻭر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ:
بتایئے ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ...؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ابھی ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ سے کام چل جائے گا۔
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ نہیں یہ بتایئے ﺁﭖ ﮐو مکمل ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ٹوٹل ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮر پر 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ
ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ 8 لاکھ روپے کا ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ لے ﻟﯿﺠﯿﮱ ﮔﺎ اور آج سے اس مسجد کی تمام ذمہ داری میری ہے
یہ سن کر امام صاحب بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے واپس آ گئے

ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ، ﺳﻠﯿﻘﮧ، ﺗﻤﯿﺰ اور ادب ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ بھی ﮨﺪﺍﮨﺖ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ مگر افسوس ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ، ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩین ﺳﮯ پیچھے رہ گئے ﮨﯿﮟ

*ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ کی ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮈﺍلنی ہوگی*

ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻃﻮﻃﺎ ﻣﺮﭺ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی میٹھی بولی ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی ﮐﮍﻭﮮ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻟﺘﺎ یے۔

دلچسپ و عجیب

ایک عورت اپنے تین ماہ کا بچہ ڈاکٹر کو دکھانے آئی،کہ ڈکٹر صاحب میرے بچے کے کان میں درد ہیں،ڈاکٹر نے بچے کا معائینہ کیا اور کہا واقع اس کے کان میں انفیکشن ہوا ہے اور نوٹ پیڈ اٹھا کر کچھ دوائی لکھی اور رخصت کیا،میں حیران تھا،عورت جانے لگی تو میں نے آواز دے کر انہیں روکا، وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگی جیسے کچھ بھول گئی ہو۔
میں نے کہا بہن جی آپ کا بچہ تین ماہ اور سات دن کا ہے جو بول بھی نہیں سکتا،تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے کان میں تکلیف ہے، وہ مسکرائی اور میری طرف رخ کرکے کہنے لگی، بھائی جی، آپ کان کی تکلیف پہ حیران ہیں میں اس کے رگ رگ سے واقف ہوں،یہ کب روتا ہے،کب جاگتا ہے، کب سوتا ہے،مجھے اس کے سارے دن کا شیڈول پتہ ہے کیوں کہ میں ماں ہوں اس کی، انسان کو جب کوئی تکلیف ہو تو اس کے دن بھر کا شیڈول بدل جاتا ہے،اور کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات بدل جاتے،طبیعت خراب ہونے سے انسان ھر وقت بے چین رہتا ہے،کل رات سے میرا بچہ بھی خلاف معمول روئے جا رہا روئے جارہا ہے،رات جاگ کہ گزاری میں نے اس کے ساتھ، صبح کو میں نے غور کیا تو بچہ جب رو رہا تھا تو ساتھ ہی اپنا ننھا ہاتھ اپنے ننھی سی کان کی طرف لے جا رہا تھا،میں بچے کو اس کے باپ کے پاس لے گئی،کہ اس کہ کان میں درد ہے،وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے کیسے پتا چلا، اس نے بچے کے کان پہ ھاتھ رکھا تو بچہ اور زور سے رونے لگا،اور میں بھی بچے کی تکلیف دیکھ کے رونے لگی،اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکی،کیوں کہ میں ماں ہوں، عورت چلی گئی اور میں نم آنکھوں سے دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ ماں تین ماہ کے بچے کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں اور میں روزانہ ماں سے کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہوں اور وہ یقینًا میرے سارے جھوٹ جانتی ہیں کیوں کہ وہ ماں ہیں،،،تب سے میں نے کبھی ماں سے جھوٹ نہیں بولا،
اللہ سب ماؤں کو زندہ سلامت رکھیں اور جن کی ماں دنیا سے پردہ کر گئیں ہوں " اللہ " انہیں جنت الفردوس میں داخل کریں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

رشتے یوں بنائیں

ریلیشن بناتے وقت سوچ و بچار نہیں کی جاتی ، جذباتی ہو کر دو لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات صرف ایک وقتی کشش کی بدولت زندگی بھر ساتھ چلنے کا خواب دیکھ لیتے ہیں ۔ جب بات زندگی بھر کی ہو تو فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر اور تمام پہلو کو مد نظر رکھنے کے بعد کرنا چاہئے ۔
میں نے بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے کہ بہت سے تعلق جلد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔ایک ایسا تعلق جس میں دو لوگ ایک دوسرے کو تو اون کرتے ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے رشتوں کو دل سے قبول نہیں کرتے ۔ جب وقتی کشش ختم ہوتی ہے تو پھر مسائل کا سمندر جنم لیتا ہے ۔

یاد رکھئے کہ جب کوئی آپ کو قبول کرتا ہے تو آپ سے جڑے رشتوں کو قبول کرنا بھی لازم ہوتا ہے ۔ بہت مرتبہ دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں " میرا تعلق صرف تم سے ہے اور میں تمہارے کسی اور رشتے یا فیملی ممبر کو تسلیم کرنا ضروری نہیں سمجھتا ، صرف ایک مجبوری کے تحت نبھا رہا ہوں " ۔
یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ میری نظر میں جب ہم کسی شخص کو قبول کرتے ہیں یا کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہمارے دل میں اس شخص سے جڑے ہر رشتے کی محبت اور احترام موجود ہوتا ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص سے محبت ہو لیکن اس سے جڑے ہر رشتے سے نفرت ہو ۔ ہاں البتہ ایک آدھ شخص سے کوئی چڑ ہونے کی کچھ خاص وجوہات ضرور ہو سکتی ہیں ۔۔۔

جسے مجھ سے محبت ہوگی اسے مجھے سے جڑے رشتے بھی اچھے لگیں گے ، مجھے جس سے محبت ہوگی اس سے جڑے رشتوں کا بھی میرے دل میں احترام ہوگا ۔ جب دو لوگ ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں تو ساتھ جڑے رشتوں کی قدر اور احترام خود ہی پیدا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
ایک مرد کی حیثیت سے اگر میں اپنی ہونے والی شریک حیات کے رشتوں کی قدر نہ کروں ، اس کے بڑوں کا احترام نہ کروں تو میں کبھی بھی خود کو ایک اچھا مرد تسلیم نہیں کروں گا ۔ یہاں بات شریک حیات کی نہیں بلکہ تربیت کی ہے ۔ اچھی تربیت ہمیشہ بڑوں کا احترام کرنے کا سبق دیتی ہے پھر وہ بڑے میرے اپنے ہوں یا کسی اور کے ۔ میرے دادا ابو کہتے تھے کہ پہلے رشتہ کرتے وقت یہ بات لازم دیکھی جاتی تھی کہ لڑکا بڑوں کا احترام کرتا ہے یا نہیں ؟ ۔

آپ جب بھی کسی شخص کا انتخاب کریں تو اس بات کا دھیان ضرور رکھ لیا کریں کہ وہ آپ سے جڑے رشتوں کی قدر کرتا/ کرتی ہے یا نہیں ؟ وہ آپ سے جڑے رشتوں سے محبت کرتا/کرتی ہے یا نہیں ؟ وہ رشتوں کو جوڑنے کی بات کرتا/ کرتی ہے یا صرف توڑنے کی ؟ جو صرف توڑنے کی بات کرے وہ اپنے رشتے بھی کبھی جوڑ کر نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔
ایک مرد میں دیکھ لیا کریں کہ وہ باقی خواتین کی کتنی عزت کرتا ہے ؟ جو ہر خاتون کی عزت کرتا ہوگا وہ آپ کو بھی ساری زندگی عزت دے گا کیونکہ اس کا مطلب ہوا کہ خواتین کی عزت اس کی تربیت اور اس کے خون میں شامل ہے ۔ جو کہتا ہے کہ میں صرف تمہاری عزت کرتا ہوں ، دوسری خواتین کی آپ کے سامنے برائی کرے ان کے کردار پر انگلی اٹھائے تو یاد رکھئے گا کہ ایسا مرد آپ کے کردار پر انگلی اٹھاتے ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرے گا ۔۔۔

عورت کی خصلت کو پہچان لیا کریں کہ وہ کب آپ سے الگ ہونے کی بات کرتی ہے ۔ الگ ہونا ایک عورت کا حق ہے مگر ساتھ رہنے اور رشتوں کو جوڑ کر رکھنے والی خاتون اعلی ظرف اور تربیت کی حامل ہوتی ہے ۔ بڑوں کا احترام اور ایک دستر خوان پر گھر کے تمام افراد کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔۔ وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اس کے بچوں کو دادا دادی اور باقی تمام رشتوں کا پیار اور محبت ملے البتہ مسلسل کوشش کے بعد بھی اگر اسے کامیابی نہیں ملتی اور قربانی دینے کے باوجود بھی اسے رسوا کیا جائے ، بات بات پر اس کو بے عزت کیا جائے تو پھر الگ ہو جانے میں اس عورت کا نہیں بلکہ ان رشتوں کا قصور ہوتا ہے جو اس کی محبت اور خلوص کی قدر نہیں کرتے ۔۔۔

Thursday, February 4, 2021

اللہ کی طرف سے ڈھیل

کہتے ہیں ایک شخص نے اپنی نوجوان اور خوبصورت بیوی کے کہنے پر اپنی ماں کو گھر سے نکال کر گداگری پر مجبور کر دیا، بوڑھی ماں بیچاری ایسے قسمپرسی کے حالات میں دو دن میں ہی مر گئی۔

وقت کے بادشاہ نے خواب دیکھا اور خواب میں ایک بزرگ نے بادشاہ سے اُسی آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا کہ فلاں بستی میں اس شخص کو اپنے پاس بُلاؤ اور اُسے 100 اونٹ سونے کی اشرفیوں سے لاد کر دو۔ بادشاہ غور کرنے والوں میں سے تھا اُسے پتہ چل گیا تھا کہ اُسکا خواب عام خواب نہیں ہے اور کسی بات کی طرف اشارہ ہے چنانچہ اُس نے اپنے دانا وزیر کو اپنا خواب بیان کیا۔

وزیر نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت اگر اُس بستی میں وہ آدمی رہتا ہے جو آپ کو خواب میں بتایا گیا ہے تو آپکے خواب میں ضرور کوئی حکمت چُھپی ہے۔

بادشاہ نے وزیر کی بات سُن کر اپنے ساتھ سپاہیوں کا دستہ لیا اور بزرگ کی بتائی ہوئی بستی میں خود جا پہنچا اور بستی کے باہر درخت کے نیچے بیٹھے ایک بوڑھے باریش سے اُس شخص کے بارے میں دریافت کیا۔

اس بوڑھے نے بادشاہ سے کہا وہ کوئی اچھا انسان نہیں ہے وہ اپنی ماں پر ظلم کرتا تھا اور اس کے ظلموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس کی بوڑھی ماں دُنیا سے رخصت ہو گئی، جائیں بستی میں پہلا مکان اُسی کا ہے۔

بادشاہ جب اُس شخض کے دروازے پر پہنچا تو وہ شخص بادشاہ کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔ اُسے لگا کہ بادشاہ اب اُسے اُس کے اعمالوں کی سزا دے گا۔

مگر بادشاہ اُسے اپنے ساتھ محل لیکر آیا اور اُسے 100 اونٹ سونے کی اشرفیوں سے لاد کر انعام کے طور پر دیئے جنہیں پاکر ظالم کی تو لاٹری لگ گئی، وہ بادشاہ کا شُکر ادا کرتے ہُوئے دولت کے نشے میں چُور اپنی بستی واپس آگیا اور عیش عشرت کی زندگی گُزارنی شروع کر دی۔

اُدھر بادشاہ اور اُسکے دانا وزیر نے اُس شخص پر مکمل نظر رکھی ہُوئی تھی اور وہ خواب کی حقیقت جاننا چاہتے تھے مگر کئی سال گُزر گئے اُس شخص کے حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی وہ عیش و عشرت اور شباب و شراب میں ڈوبا اپنی خَرمستیوں میں مصروف زندگی گُزار رہا تھا اور پھر ایک دن نشے میں اپنے ہی گھر کی چھت سے نیچے گرا اور مر گیا۔

بادشاہ کو جب اُسکے مرنے کی خبر ملی تو وہ واپس اُس شخص کی بستی میں گیا اور اور پھر بستی کے باہر درخت کے نیچے اُسی بوڑھے باریش سے ملا جس نے اُسے اس شخص کا پتہ بتایا تھا۔

بُوڑھے نے جو اہل علم تھا بادشاہ کو دیکھا اور بولا جس دن میں نے آپکو اس شخص کی شکایت لگائی تھی میں چاہتا تھا کہ آپ اسے سزا دیں تاکہ شائد اس کے گُناہوں کی کُچھ تلافی ہو جائے مگر مالک کو کُچھ اور منظور تھا۔

بادشاہ نے بُوڑھے سے پُوچھا مالک کو کیا منظور تھا محترم؟

بوڑھا بولا اُس دن آپ نے اسے سونے سے لدے ہُوئے اونٹ عنایت کیے تو مُجھے پتہ چل گیا کہ رب کائنات اسے ڈھیل دے رہا ہے۔ اس کی رسی کو دراز کر رہا ہے اور خدا نہیں چاہتا کہ یہ شخص توبہ کے قریب بھی جائے اور پھر ایسا ہی ہُوا دولت کے نشے میں چُور ہو کر وہ ہر چیز بھول گیا۔ آسائشوں نے اُسے نہ تو اُسکے خالق کو یاد کرنے دیا اور نہ ہی کبھی اُسے اپنے کیے ہُوئے کاموں پر ندامت ہُوئی اور اسی عیش و عشرت میں اُس نے کبھی توبہ نہیں کی اور ہلاک ہو گیا۔

🔘 یہ واقعہ نصیحت ہے کہ اپنے والدین کی خوب خدمت کریں اور اللہ کریم سے توبہ کرتے رہیں۔ کہیں ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی ڈھیل سے ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھا رہے۔ اگر ایسا ہے تو فورا ٹوبہ کیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہمیں توبہ کی مہلت ہی نہ دے۔

انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے  پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں.

کھڑک سنگھ کا انصاف

کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔ آپ نے یہ مقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر اس کے پیچھے کی داستان کا پتہ نہیں ہوگا۔

کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔

ایک دن کھڑک سنگھ معمولات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتا تھا)

بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جا پہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا۔

وائسرائے: نام؟
کھڑک سنگھ

وائسرائے: تعلیم؟
کھڑک سنگھ: "تسی مینوں جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"

وائسرائے ہنستے ہوئے "سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟"

کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے "بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ، میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں، ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔"

وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کر دیے اور  کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔

اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا۔

کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون تھی۔

جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے۔

ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا "مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے۔ اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی: "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصے سے دیکھا اور پوچھا "کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا؟"

دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا "نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی۔ دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی۔ ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھانا تھا۔"

کھڑک سنگھ نے غصے سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مر گیا نا؟ پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ رکیے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟"

جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟

"جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے" پولیس والے نے جواب دیا۔

تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کر رہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے۔

فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)

پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔

🔘 اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری ہو اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہوجاۓ گی۔

 آگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔ شکریہ

چــــــــــــــور

استاد صاحب بیوی کے ساتھ بھتیجے کی شادی کی تقریب میں پہنچے تو بارات سے زیادہ استاد صاحب کا استقبال کیا گیا اور کرتے بھی کیوں نہ دُلہا  استاد صاحب کا بھتیجا ہونے کے ساتھ ساتھ طالبعلم بھی تھا۔
سب ہی کہتے تھے کہ خُدا نے آپ کی شخصیت میں عجیب کشش رکھی ہے جو بھی طالبعلم آپ سے پڑھ لیتا ہے وہ ہمیشہ آپ جیسا بننے کی خواہش کرتا ہے اور یہ سچ بھی تھا۔
استاد صاحب شہر کی بڑی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
استاد صاحب کے طالبعلموں نے اپنی ترقی اور تربیت سے ہمیشہ اُن کا نام روشن کیا تھا۔
استاد صاحب کو بھی بہت ناز تھا کہ قیامت والے دِن جب اعمال کی پوچھ گُچھ ہوگی تو میں کہہ دوں گا کہ میرے اعمالِ صالح میرے طالبعلم ہیں، جِن کی میں نے تربیت کی اور معاشرے میں بھلائی پھیلانے کا سبب بنا۔
شادی کی تقریب ،  رات کو تقریباً بارہ بجے ختم ہوئی استاد صاحب بیوی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہونے لگے ابھی اگلی ہی سڑک پر پُہنچے تھے کہ چھ موٹر سائیکل سواروں نے استاد صاحب کی کار کو گھیرے میں لے لیا۔
چار سوار موٹر سائیکلوں سے اُتر کر کار کے سامنے آگئے اور دو موٹر سائیکل پر ہی بیٹھے رہے۔
ایک نے استاد صاحب کی کنپٹی پر پستول رکھی اور بولا "ابے او ،  گاڑی سے باہر آ جاؤ اور آنٹی کو باہر آنے کو بول۔ جلدی کر اور اگر کچھ گڑ بڑ کی تو بھیجے میں ساری گولیاں اُتار دوں گا۔" 
استاد صاحب نے بیوی کو اشارہ کیا تو وہ بھی کار سے باہر آگئی۔
ایک چور نے استاد صاحب کی تلاشی لی جو کچھ اُن کے مطلب کا تھا لے لیا اور ایک چور نے اُن کی بیوی کے سارے زیور زبردستی اُتروا لیے۔
ایک موٹرسائیکل سوار پیچھے سے بولا یار گاڑی بھی اچھی ہے آج بڑا ہاتھ مارتے ہیں چلو گاڑی بھی لے اُڑتے ہیں کوئی ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔
  دوسرا چور بولا ٹھیک ہے پھر اِن دونوں کو مار دیتے ہیں ورنہ پھنس جائیں گے۔ 
ایک اور بولا نہیں یار اِن  کو باندھ کر سڑک کی دوسری جانب پھینک دو صُبح کوئی کھول دے گا کیوں بے گناہوں کو مارنا ہے۔
استاد صاحب بولے بیٹا جو کچھ چاہیے لے لو لیکن ہمیں کچھ نہ کرنا میرے گھر میں چھوٹے بچے  ہیں اور  ہمارے سِوا اُن کا کوئی نہیں ہے خُدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
ایک موٹر سائیکل سوار موٹر سائیکل سے اُترا اور بولا تُم لوگ سامان سمیٹو میں اِن کو باندھتا ہوں جیسے ہی وہ استاد صاحب کے سامنے پہنچا تو بولا اوہ یار یہ تو میرے استاد  ہیں ،  چھوڑ دو اِن کو سب کچھ پھینک دو چلو یہاں سے بھاگو۔
جونہی سب نے اپنی ساتھی کی بات سُنی اُنہوں نے سب کچھ وہاں پھینکا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
استاد صاحب کی بیوی بولی شُکر ہے آپ کی وجہ سے بچ گئے ورنہ آج بہت نقصان ہوجاتا۔
استاد صاحب وہیں زمین پر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے اُن کی بیوی بولی کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
استاد صاحب بولے میری تو زندگی بھر کی کمائی لُٹ گئی مُجھے شرم آتی ہے اپنے آپ پر کہ میں نے معاشرے میں چور پیدا کیے ہیں ۔
استاد صاحب بولے میں اپنے طالبعلموں کی تربیت نہیں کرسکا مجھے تو ناز تھا کہ قیامت والے دِن یہ لوگ میری بخشش کا سبب بنیں گے لیکن اب مُجھے ڈر لگ رہا ہے کہ قیامت والے دِن فرشتے مُجھے گھسیٹ کر جہنم میں لیجائیں گے کہ میں اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب بولے چور وہ نہیں چور تو اُن کا اُستاد نِکلا جو اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب کہتے وہ میرے دل سکون لے گئے،  وہ مجھ سے میرا مان لے گئے کہ میرے طالبعلم غلط کام نہیں کر سکتے۔
استاد صاحب بے بسی سے کار کے ساتھ بیٹھے بار بار بول رہے تھے چور وہ نہیں چور تو میں ہوں , چور وہ نہیں چور تو میں ہوں.
کیا آپ بھی استاد ہیں؟ 
کیا آپ نے اپنا فرض پورا کیا؟

Wednesday, February 3, 2021

الفاظ بولتے ہیں

ایک پینٹر کو ایک کشتی پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ 
کام کے دوران اُسے کشتی میں ایک سوراخ نظر آیا اور اُس نے اِس سوراخ کو بھی مرمت کر دیا۔ 
پینٹنگ مکمل کر کے شام کو اس نے کشتی کے مالک سے اپنی اُجرت لی اور گھر چلا گیا۔

دو دن بعد کشتی والے نے اُسے پھر بلایا اور ایک خطیر رقم کا چیک دیا۔ پینٹر کے استفسار پر اُس نے بتایا کہ اگلے دن اس کے بچّےبغیر اُس کے علم میں لائے کشتی لے کر سمندر کی طرف نکل گئے۔ اور پھر جب اُسے خیال آیا کہ کشتی میں تو ایک سُوراخ بھی تھا تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ 

لیکن شام بچّوں کوہنستے مسکراتے آتے دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ھو گیا۔ اُس نے پینٹر سے کہا کہ یہ رقم تمہارے احسان کا بدل تو نہیں مگر میری جانب سے تمہارے لیئے محبت کا ایک ادنیٰ اظھار ہے۔۔۔۔

آپ کی زندگی میں بھی بہت سےایسے چھوٹے چھوٹے کام آئیں گے جو آپ کے کام نہیں ۔۔۔۔ 
مگر وہ کام بھی کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔
نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
کسی نہ کسی کی زندگی بچاتی ہے 
کسی نہ کسی کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔
مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے .

الفاظ بولتے ہیں.

پینڈو لڑکا

مما  وہ پینڈو سا ہے میں اس سے شادی نہیں  کرنی 
افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی 
ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے 
افشاں نے کہا مما  وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہنے کی تمیز نہ اسے بات کرنے کی تمیز ہے 
میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی 
ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نا ہو 
افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی کہا صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی 
تم شادی سے انکار کر دو 
صارم نے کہا میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی  جا سکتا 
افشاں نے کہا میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی 
صارم نے کہا تم خود انکار کر دو 
میں تو کچھ نہ کہنے والا 
افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے کر رہے 
افشاں نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری ٹیبلٹ کھا لی 
ہسپتال کے گئے 
ڈاکٹرز نے معدہ  واش کیا جان  بچ گئی 
افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما  مجھ پہ رحم کرو 
میں اس جاہل انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی 
وہ بھی گاوں میں 
ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں وہ صارم بہت اچھا لڑکا ہے کیا ہوا وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے 
وہ گاوں میں رہتا ہے تو 

لیکن وہ لڑکا اچھا ہے 
افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی 
افشاں کی شادی صارم سے کروا دی 
افشاں نے بس سمجھ لیا زندگی برباد ہو گئی 
سارے خواب ختم ہو گئے 
سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں 
سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا 
پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے شادی ہو گئی لیکن مجھ سے دور رہو 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے افشاں آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں 
افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی صارم 
صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی 
صارم نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی 
اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ  آپ کے لیئے افشاں نے انگھوٹی 
اٹھا کر سائڈ پہ رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئ رونے لگی 
صارم نوافل ادا کرنے لگا 
پھر افشاں کے پاس لیٹ گیا 
یوں زندگی کا سفر شروع ہوا افشاں کا دم گھٹنے لگا صارم کے ساتھ 
صارم دیکھنے میں خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ڈیسینٹ سا بھی نہیں  تھا 
افشاں ماڈرن سی لڑکی تھی صارم صبح اٹھتے ہی افشاں کا ماتھا چومتا 
پھر خود ناشتہ بناتا افشاں کو غصہ آتا یہ بندہ مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے 
افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا 
صارم رات کو تھکا ہارا آتا افشاں بس خاموش سی اپنی دنیا میں گم سی رہتی اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی 
صارم کی 
صارم بھی افشاں کو کچھ نہ کہتا تھا 
گھر آ کر کھانا بناتا افشاں کو کھانا دیتا 
افشاں پتھر دل تھی شاید  
نہ گھر کی صفائی کرتی نہ وہ کبھی صارم کے کپڑے صفائی کرتی 
صارم اپنے کام خود کرتا سال گزر گیا 
صارم افشاں کی ہر بے رخی چوم کر برداشت کرتا 
افشاں کو یوں لگتا تھا ایک بدو سا انسان پلے پڑ گیا ہے 
صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا 
پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا جو ہمسفر ہو 
صارم نے ایک دن کہا افشاں تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی 
پاگل 
دیکھو رنگ کتنا دھیما  پڑ گیا تمہارا 
تمہارے بال دیکھو کتنے روکھے سے ہو گئے 
صارم افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں خو چھوا تھا 
افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا 
افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے صارم 
صارم نے کہا نہیں چھوڑوں  گا افشاں نے دھکا دیا 
آئل صارم کے اوپر گر گیا 
افشاں  جانے لگی اٹھ کر 
صارم نے بازو پکڑا پاس بیٹھا لیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا افشاں میں یوں ایسے آپ کو نہیں دیکھ سکتا 
افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے 
صارم نے پاس بٹھایا آئل لگانا شروع کیا افشاں کے سر میں 
افشاں کے سر میں آئل لگایا پھر چہرے پہ سکرب  کرنے لگا 
افشاں خاموش بیٹھی 
صارم نے مسکراتے ہوئے کہا چڑیل جاو اب شاور لے کر او اور پنک  ڈریس پہنو  
میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں

افشاں حیران تھی اتنی بے رخی پہ بھی اتنا پیار کرتا ہے صارم 
افشاں شاور لے کر آئی آج چہرے پہ عجیب سی چمک تھی 
افشاں نے اپنی دوست کو کال کی یار صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ 
اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے اس کی قدر کرو 
افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے 
اس کئ دوست نے کہا افشاں قمست والوں کو ایسے مرد ایسے ہمسفر والے ملتے ہیں 
اتنے میں صارم نے آواز لگائی جاں پناہ کھانا تیار ہے آ جاو 
افشاں مسکرانے لگی 
آج بریانی سے مزے کی خوشبو آ رہی تھی 
افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا تعریف کرے صارم کی لیکن 
خاموش رہی کھانا کھایا کمرے میں سونے چلی گئی 
صارم نے برتن اٹھائے واش  کرنے لگا 
برتن واش کیئے سارا دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ پڑا سو گیا 
صبح اٹھا  افشاں کو اٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ تیار کر دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ  لے کر آوں  گا 
رات کو صارم گھر آیا 
ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی گارڈن میں 
ہلکی سی ہوا چل رہی تھی شام کا وقت تھا ہلکی دی روشنی تھی 
صارم گھٹنے کے بل بیٹھ گیا گلاب کا پھول افشاں کو دیا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں 
افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد میرا آج برتھ ڈے ہے 
صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا افشاں 
پیپرز نکالے ایک لفافے سے کہا افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا افشاں جانتی ہو یہ پیپرز کا چیز کے ہیں 
افشاں کا دل دھڑکنے لگا کیا ہے یہ صارم 
صارم نے کہا یہ ہم دونوں کی خوشی ہے افشاں 
افشاں نے کہا بتاو صارم یہ کیا ہے 
صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں میں نے کیا گھر لیا ہے اور تمہارے نام کیا ہے 
افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا 
افشاں نے دیکھا نیا گھر وہ بھی میرے نام 
افشاں کرسی پہ بیٹھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے 
صارم اتنی محبت 
صارم کی آنکھ سے پہلی بار آنسو چھلکا تھا 
صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا 
افشاں ایک چیز مانگوں 
افشاں نے ہاں میں سر ہلا دیا 
افشاں ہمیشہ خوش رہنا 
جانتی ہو تم پری سی ہو معصوم سی 
بہت پیاری ہو تم میں بہت خوش نصیب ہوں تم جیسی ہمسفر ملی مجھے 
افشاں ہماری شادی کو دو سال گزر گئے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سینے سے نہیں لگایا 
مجھے آج سینے سے لگا لو نا 
افشاں نہ چاہتے ہوئے آج صارم کو سینے سے لگا لیا 
صارم زور سے سینے سے لگا روتے ہوئے کہنے لگا 
یہ بانہیں کیا پتا پھر نصیب ہوں نہ ہوں 
اتنا کہہ کر صارم کمرے میں چلا گیا 
افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے صارم کو کیا سمجھتی صارم کتنا اچھا انسان ہے کتنا برا سلوک کیا میں صارم کے ساتھ 
افشاں کا دل چاہ رہا تھا صارم کی بانہوں میں سما جاوں 
صارم کی بے بے پناہ محبت 
دو سال میں صارم کو اگنور کرتی رہی صارم پھر بھی مجھے چاہتا رہا 
رات بھر افشاں خواب دیکھتی رہی کل صارم کے لیئے ناشتہ خود بناوں گی 
صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی 
صارم کو اب کبھی اداس نہ ہونے دوں گی 
رات بیت گئی افشاں اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا 
صارم کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی 
کافی ٹائم گزر گیا صارم نہ اٹھا افشاں کمرے میں گئی محبت سے آواز دینے لگی صارم اٹھ جائیں میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے 
صارم کروٹ کیئے سویا تھا 
افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا دیکھا صارم کا جسم ٹھنڈا پر چکا ہے 
افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا 
صارم کے بستر پہ خون پڑا تھا منہ پہ خون لگا ہوا تھا 
افشاں چیخنے  لگی 
زور زور کر آوازیں دینے لگی صارم اٹھ جاو یہ کیا ہوا آپ کو 
صارم اٹھو نا 
محلے والے اکھٹے ہو گئے ہسپتال لے گئے 
ڈاکٹر نے چیک کیا دیکھا صارم 
ڈاکٹر نے کہا میں نے کہا تھا اسے اپنا خیال رکھو اپنا علاج کرواو 
کسی کو ساتھ لیکر آو لیک  شاید یہ جینا نہیں چاہتا تھا 
افشاں نے روتے ہوئے کہا کیا تھا صارم کو 
ڈاکٹر نے ایک آہ بھری اور کہنے لگا صارم کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بلڈ کینسر تھا 
شاید اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا 
مجھے اکثر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے جیوں  
کوئی ہے ہی نہیں جو مجھے اپنا کہہ سکے 
میرے گھر میرا انتظار  کرنے والا کوئی نہیں ہے 
کوئی نہیں ہے جو مجھے محبت سے پوچھے دن کیسا گزرا 
کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں 
رات کو کمرےمیں اکیلا  درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے 
افشاں زمیں پہ گر گئی صارم یہ کیا کر دیا تم نے 
صارم مجھے معاف کر دو صارم 
میں پاگل ہو گئی تھی 
صارم نہ جاو مجھے چھوڑ کر 
صارم میں مر جاوں گی صارم تمہارے بنا 
صارم کی لاش سامنے پڑی تھی جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کو ترستا رہا 
افشاں صارم کے چہرے کو ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کے اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا 
صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو 
تبسم تو بس اتنا کہتا ہے کسی کے جذبات سے مت کھیلو 
کسی کو اتنا نہ ستاو کے وہ مر جائے 
اپنے ہمسفر کو سینے سے لگا ایک دوسرے کو گالی دینے کی بجائے ایک دوسرے کو چوم لو
انا میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا 
چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں جب موت آ گھیرے 
محبت بانٹتے رہو 
کسی کے مرنے کے بعد پچھتاوے سے اچھا ہے کسی کو زندگی میں ہی سینے سے لگا لو.

سلطان محمود غزنوی اور محبتِ رسولﷺ


سلطان محمود غزنوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اياز پر بڑے مهربان تھے اور اس سے محبت كرتے تھے ، اسي طرح  اياز كے بيٹے سے بھي محبت كرتے تھے اور چونكه اس كا نام محمد تھا لہٰذا اس كے ساتھ عزت سے پيش آتے ۔ 

نامحرم کی محبت

نامحرم کی محبت کی مثال ایک نشے کے انجیکشن جیسی ہے۔۔۔

جس کے نشے میں ہمیں سب رنگین نظر آتا ھے ۔۔

لیکن جیسے ھمارا نشہ اترتا ہے
 تو ہم اپنی دنیا برباد کر چکے ہوتے ہیں۔۔۔