Sunday, February 7, 2021

خوش رہنا

ماہرین کہتے ہیں آپ کے آس پاس کے حالات پر آپ کا اختیار صرف ١٠ فیصد ہوتا ہے لیکن خوش رہنے کا ٩٠ فیصد اختیار
آپ کے اپنے پاس ہے, خوش رہنا ایک آرٹ ہے .اس آرٹ کو سکھانے والے ماہرین چند سائنسی تحقیق پر ثابت شدہ ٹپس بتاتے ہیں، ضروری نہیں سب آپ کے کام کی ہوں مگر ٹرائی ضرور کیجئے کوئی ایک ضرور کام کرے گی

1.دن میں ایک بار اپنی دستیاب نعمتیں شمار کر کے لکھ لیں

2. رات میں چھ سے آٹھ گھنٹے بھرپور نیند لیں اور دوپہر میں بیس سے تیس منٹ آرام ضروری ہے

3. ہفتے میں کم از کم تین بار گھر کے سب افراد کے ساتھ
بیٹھ کر کھانا کھائیں

4. گھر کے اندر کچن گارڈن بنائیں دن کا کچھ وقت پودوں کے ساتھ گزاریں

5. پانچ سے سات منٹ ہلکی ورزش کیجیئے

6. دن میں کسی نہ کسی کی مدد ضرور کریں

7. زرا سی اداسی آنے پر وضو کر لیں

8. اپنی پسند کی خوشبو لگائیں

9. پانی زیادہ پئیں کم از کم تین لیٹر جب اداس ہوں تو دو گلاس پئیں

10. " نو کمپلین ڈے " بنائیں, آج کسی سے کوئی شکایت نہیں پھر دن بڑھاتے جائیں, نو کمپلین ویک, نو کمپلین منتھ

11. گھر میں دفتر میں جدت ترازی کی مہم چلائیں, ہر روز ماحول میں کچھ تبدیلی کی کوشش کریں, گھر میں موجود سامان کی ترتیب بدلتے رہا کریں

12. خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں کو فون کریں ان کے دکھ درد میں حوصلہ دیں اور خوشیوں پر کھل کر مبارکباد پیش کریں

13. مہینے میں دو بار دعوت کریں, کبھی رشتے داروں کو، کبھی دوست احباب کو کبھی اپنے بچوں کے دوستوں کو دعوت پر بلائیں

14. لوگ کیا کہیں گے..! یہ سوچنا چھوڑ دیں

15. اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار دن یاد کیجئے اور ایسا زندگی بھر ہر روز کیا کیجیئے, چھوٹی سی چھوٹی خوشی کو یاد کریں, یہ یادیں آپ کو سارا دن خوش رکھیں گی

16. صدقہ دیں اور سب سے آسان صدقہ مسکراہٹ ہے, ہلکی سی ایک مسکراہٹ تیز دھوپ میں بادل کے ٹکڑے کی طرح دل کو ترو تازہ کردیتی ہے, خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

17:اور پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں۔"

خلیفۂ وقت اور بڑھیا

خلیفہ وقت بُڑھیا کو سلام کرتا ہے !! السلام علیکم اماں جی !!!
بُڑھیا اپنا شکن آلود چہرہ اُٹھا کر اجنبی کا جائزہ لیتی ہے !!
وعلیکم السلام بیٹا !!!
فاروق کے پاس وقت بہت کم ہوا کرتا تھا !! اُسے لمبی چوڑی تقریروں کی عادت نہیں تھی !!
دو جُملوں میں حال بتاتا تھا !! اور دو جُملوں سے حال جان بھی لیتا تھا !!
اماں کیسی گُزر رہی ہے !! ؟؟؟؟؟؟؟ خطاب کے بیٹے کا پہلا سوال !!!
بیٹا عُمر کی خلافت میں کیسی گزر سکتی ہے دیکھ لے میرا حال !!! وہ اپنی بادشاہت میں مست ہے اور میں یہاں عُسرت میں کسی طور وقت کا چرخہ کاتے جا رہی ہوں !!
عُمر جلالی تھا !! اُس کے جلال ہی کے آسمانوں پر چرچے تھے !!! غُصے میں آ گیا !!
اماں مدینہ سے ہزاروں میل دُور اس ویرانے میں کون کس حال میں ہے !! عُمر کیسے جان سکتا ہے !! ؟؟؟ کیا تیرا شِکوہ بے جا نہیں !!! ؟؟؟؟
بُڑھیا بھی عُمر ہی کی رعایا تھی !! تڑپ کر بولی !!
تو بیٹا عُمر سے مُلاقات ہو تو اُسے میری طرف سے ایک پیغام دے دینا !!
"" کہ جس علاقے کی تُو خبر نہیں رکھ سکتا اُسے اپنی خلافت میں کیوں شامل کر رکھا ہے !!! ؟؟ ""
عُمر سکتے میں آ جاتا ہے !!
نیلا آسمان !! صحرا میں اُڑتی ریت !! جُگالی کرتے دو اُونٹ اور پاس کھڑا ہمسفر عجیب منظر دیکھتے ہیں !!!
عُمر مسکرا رہا تھا !! مُسکراتا ہی چلا جا رہا تھا !!!! 
اور پھر چند ہی لمحوں میں ہچکیوں سے رونے لگتا ہے !!!
آنسو داڑھی میں ہیروں کی طرح چمک رہے تھے !!!
ہمراہی پُوچھتا ہے !! 
یا امیر المؤمنین کیا ماجرا ہے !!! ؟؟
اِتنی پیاری مسکراہٹ اور عجیب و غریب گِریہ !!
عُمر کا سادہ سا جواب !! خوش اس لیے ہوا کہ اِس بُڑھیا تک پہنچ گیا !!
اور رو اِس لیے رہا ہوں کہ پتا نہیں میری خلافت میں ایسے اور کتنے ویرانے آباد ہوں گے !! اپنی زندگی میں وہاں تک کبھی پہنچ سکوں گا یا نہیں !!!!!!
ــــ

Saturday, February 6, 2021

یقین رکھو

صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب دور اسے ایک کمرے کا ہیولا سا نظر آیا.



 وہ اسے نظر کا دھوکا سمجھ رہا تھا. چونکہ سمت تو وہ کھو چکا تھا اس لئے اس دھوکے کی طرف نڈھال بڑھنے لگا.

 وہ کمرہ دھوکا نہ تھا بلکہ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا. 
مسافر نے جلدی جلدی ہینڈ پمپ چلانا شروع کیا.

 لیکن عرصے سے استعمال نہ ہوا ہینڈ پمپ پانی اٹھانے سے قاصر تھا.

وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا. 
اچانک ایک کونے میں اسے ایک بوتل نظر آئی پانی سے بھری ہوئی بہت اچھے سے بند یہ بوتل اس نے اٹھائی اور بیتاب ہو کر پینے کو ہی تھا کہ بوتل کے نیچے ایک پرچہ نظر آیا.


 کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا

 یہ پانی پمپ میں ڈال کر اسے چلائیں اور برائے مہربانی استعمال کے بعد اسے واپس بھر کر یہاں رکھ دیں. 

 مسافر ایک امتحان سے دوچار ہوگیا. ایک طرف شدت پیاس تھی دوسری طرف خطرہ تھا.

 پتہ نہیں پمپ کام کرے یا نہیں..؟ ایسے نہ ہو یہ پانی بھی کھو دوں.؟

 مسافر نے لیکن رسک لیا اور پمپ میں پانی ڈال دیا.

 کچھ دیر میں ہی پمپ نے کام شروع کردیا. مسافر نے جی بھر کر پانی پیا نہایا دھویا اور بوتل بھر کر واپس پرچے پر رکھ دی لیکن ساتھ ہی ایک لکیر اور لکھ دی   " یقین رکھو" 


 زندگی کے صحرا میں ہینڈ پمپ کی طرح ہمیں بھی موقع ملتا ہے.
اس پانی کی بوتل کی طرح ہمیں بھی رسک لینے کا امتحان درپیش ہوتا ہے. ہم بھی اسی مسافر کی طرح تذبذب کا شکار ہوتے ہیں.

ہم بھی چاہتے ہیں کوئی ہمیں دلاسہ دے کندھے پر تھپتھپا کر کہے تم کرسکتے ہو.

 اس تسلی دلاسوں میں لیکن سب سے اہم ہمارا یقین ہوتا ہے.
 اللہ رب العزت کی ذات پر یقین ہی اس سفر کی ضمانت بنتی ہے.  

Friday, February 5, 2021

اللہ جس کو ہدایت دے

ایک شخص تھا جو بڑا امیر و کبیر تھا ، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا ، جس میں درجنوں ملازمین تھے ، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے ، دن بھر وہ اپنے بزنس میں مگن رہتا شام کو گھر واپس آتا ، اس کا جو اپنا بیڈروم تھا اس کی صفائی ایک جوان العمر لڑکی کرتی تھی ، ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا ،بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا ، اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا ، میں تو پورے پولیس اسٹیشن خرید سکتا ہوں ، ملازمین سب میری بات مانیں گے ، لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو اس نے جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زور دار آواز میں کہا ٹھہر جاؤ ، وہ مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی ، مالک نے کہا سب کھڑکیاں دروازے بند کردو اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں ۔ لیکن اس کے دل تقوی تھا اَللّہ کا خوف تھا ، آنسوں بہہ رہے ہیں اور اَللّہ سے دعاء بھی کر رہی ہے ،چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرنا شروع کر دیئے، کافی دیر ہوگئی لیکن وہ آ نہیں رہی تھی مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہوگئی اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کی اور تو میرے پاس آئی نہیں ؟ تو اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا مالک میں نے سارے دروازے بند کردیئے ساری کھڑکیاں بند کر دی مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہوپا رہی ہے ، تو اس نے غصے سے کہا وہ کونسی کھڑکی ہے جو تجھ سے بند نہیں ہورہی ہے ؟ تو لڑکی نے کہا میرے مالک جس کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے،میں نے وہ ساری کھڑکی بند کر دی لیکن جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے۔ اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پارہی ہے اگر آپ سے بند ہوسکتی ہے تو آکر بند کر دیں فوراً بات سمجھ میں آ گئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا وہ اٹھا جلدی سے وضو کیا نماز پڑھی اَللّہ سے معافی مانگی۔ ہم میں سے ہر شخص غور کریں کوئی اس کھڑکی کو بند کر سکتا ہےجس سے رب العالمین دیکھتا ہے تو پھر ہم جرآت کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں تو پھر ڈٹائی کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں ؟ وقتی طور پر نفس کا غالب آجانا یہ الگ بات ہے لیکن ہم گناہ کرتے ہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں عادت ہوتی ہے ہمارے گناہ کرنے کی ہم گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتے ہیں پھونک ماری یوں اڑا دی اسی لئے نا کہ ہم کو اس کھڑکی کا یقین نہیں ہے۔اَللّہ پاک ہم سب کو یقین کی دولت سے مالا مال فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ( آمین.

ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ

ایک ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍکٹھی ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﻤﯿﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ کے ﺍﺱ کونے ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ بہت ﺑﮍا ﺗﺎﺟﺮ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎئی ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ خانہ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ بار بار ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ہمارا ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ میرے گھر تک ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ۔
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔۔۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺻﺎﺣﺐ، ﺍلله ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ کے لیئے، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ کی اشد ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﺍلله تعالٰی ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ۔۔۔
تاجر ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ آگے ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ۔
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ صاحب ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ الله ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍپنے ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ہوئے کہا:
ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ لیئے ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ پر ﺍلله ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐھ دیجیئے
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ اس کی آنکھوں میں آنسووں آ گئے اور ﻣﻨﮧ سے ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله نکلنا ﺷﺮﻭﻉ ہو گیا
ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ہوا ﺍﻭر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ:
بتایئے ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ...؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ابھی ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ سے کام چل جائے گا۔
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ نہیں یہ بتایئے ﺁﭖ ﮐو مکمل ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ٹوٹل ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮر پر 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ
ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ 8 لاکھ روپے کا ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ لے ﻟﯿﺠﯿﮱ ﮔﺎ اور آج سے اس مسجد کی تمام ذمہ داری میری ہے
یہ سن کر امام صاحب بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے واپس آ گئے

ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ، ﺳﻠﯿﻘﮧ، ﺗﻤﯿﺰ اور ادب ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ بھی ﮨﺪﺍﮨﺖ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ مگر افسوس ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ، ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩین ﺳﮯ پیچھے رہ گئے ﮨﯿﮟ

*ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ کی ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮈﺍلنی ہوگی*

ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻃﻮﻃﺎ ﻣﺮﭺ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی میٹھی بولی ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی ﮐﮍﻭﮮ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻟﺘﺎ یے۔

دلچسپ و عجیب

ایک عورت اپنے تین ماہ کا بچہ ڈاکٹر کو دکھانے آئی،کہ ڈکٹر صاحب میرے بچے کے کان میں درد ہیں،ڈاکٹر نے بچے کا معائینہ کیا اور کہا واقع اس کے کان میں انفیکشن ہوا ہے اور نوٹ پیڈ اٹھا کر کچھ دوائی لکھی اور رخصت کیا،میں حیران تھا،عورت جانے لگی تو میں نے آواز دے کر انہیں روکا، وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگی جیسے کچھ بھول گئی ہو۔
میں نے کہا بہن جی آپ کا بچہ تین ماہ اور سات دن کا ہے جو بول بھی نہیں سکتا،تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے کان میں تکلیف ہے، وہ مسکرائی اور میری طرف رخ کرکے کہنے لگی، بھائی جی، آپ کان کی تکلیف پہ حیران ہیں میں اس کے رگ رگ سے واقف ہوں،یہ کب روتا ہے،کب جاگتا ہے، کب سوتا ہے،مجھے اس کے سارے دن کا شیڈول پتہ ہے کیوں کہ میں ماں ہوں اس کی، انسان کو جب کوئی تکلیف ہو تو اس کے دن بھر کا شیڈول بدل جاتا ہے،اور کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات بدل جاتے،طبیعت خراب ہونے سے انسان ھر وقت بے چین رہتا ہے،کل رات سے میرا بچہ بھی خلاف معمول روئے جا رہا روئے جارہا ہے،رات جاگ کہ گزاری میں نے اس کے ساتھ، صبح کو میں نے غور کیا تو بچہ جب رو رہا تھا تو ساتھ ہی اپنا ننھا ہاتھ اپنے ننھی سی کان کی طرف لے جا رہا تھا،میں بچے کو اس کے باپ کے پاس لے گئی،کہ اس کہ کان میں درد ہے،وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے کیسے پتا چلا، اس نے بچے کے کان پہ ھاتھ رکھا تو بچہ اور زور سے رونے لگا،اور میں بھی بچے کی تکلیف دیکھ کے رونے لگی،اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکی،کیوں کہ میں ماں ہوں، عورت چلی گئی اور میں نم آنکھوں سے دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ ماں تین ماہ کے بچے کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں اور میں روزانہ ماں سے کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہوں اور وہ یقینًا میرے سارے جھوٹ جانتی ہیں کیوں کہ وہ ماں ہیں،،،تب سے میں نے کبھی ماں سے جھوٹ نہیں بولا،
اللہ سب ماؤں کو زندہ سلامت رکھیں اور جن کی ماں دنیا سے پردہ کر گئیں ہوں " اللہ " انہیں جنت الفردوس میں داخل کریں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

رشتے یوں بنائیں

ریلیشن بناتے وقت سوچ و بچار نہیں کی جاتی ، جذباتی ہو کر دو لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات صرف ایک وقتی کشش کی بدولت زندگی بھر ساتھ چلنے کا خواب دیکھ لیتے ہیں ۔ جب بات زندگی بھر کی ہو تو فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر اور تمام پہلو کو مد نظر رکھنے کے بعد کرنا چاہئے ۔
میں نے بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے کہ بہت سے تعلق جلد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔ایک ایسا تعلق جس میں دو لوگ ایک دوسرے کو تو اون کرتے ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے رشتوں کو دل سے قبول نہیں کرتے ۔ جب وقتی کشش ختم ہوتی ہے تو پھر مسائل کا سمندر جنم لیتا ہے ۔

یاد رکھئے کہ جب کوئی آپ کو قبول کرتا ہے تو آپ سے جڑے رشتوں کو قبول کرنا بھی لازم ہوتا ہے ۔ بہت مرتبہ دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں " میرا تعلق صرف تم سے ہے اور میں تمہارے کسی اور رشتے یا فیملی ممبر کو تسلیم کرنا ضروری نہیں سمجھتا ، صرف ایک مجبوری کے تحت نبھا رہا ہوں " ۔
یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ میری نظر میں جب ہم کسی شخص کو قبول کرتے ہیں یا کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہمارے دل میں اس شخص سے جڑے ہر رشتے کی محبت اور احترام موجود ہوتا ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص سے محبت ہو لیکن اس سے جڑے ہر رشتے سے نفرت ہو ۔ ہاں البتہ ایک آدھ شخص سے کوئی چڑ ہونے کی کچھ خاص وجوہات ضرور ہو سکتی ہیں ۔۔۔

جسے مجھ سے محبت ہوگی اسے مجھے سے جڑے رشتے بھی اچھے لگیں گے ، مجھے جس سے محبت ہوگی اس سے جڑے رشتوں کا بھی میرے دل میں احترام ہوگا ۔ جب دو لوگ ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں تو ساتھ جڑے رشتوں کی قدر اور احترام خود ہی پیدا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
ایک مرد کی حیثیت سے اگر میں اپنی ہونے والی شریک حیات کے رشتوں کی قدر نہ کروں ، اس کے بڑوں کا احترام نہ کروں تو میں کبھی بھی خود کو ایک اچھا مرد تسلیم نہیں کروں گا ۔ یہاں بات شریک حیات کی نہیں بلکہ تربیت کی ہے ۔ اچھی تربیت ہمیشہ بڑوں کا احترام کرنے کا سبق دیتی ہے پھر وہ بڑے میرے اپنے ہوں یا کسی اور کے ۔ میرے دادا ابو کہتے تھے کہ پہلے رشتہ کرتے وقت یہ بات لازم دیکھی جاتی تھی کہ لڑکا بڑوں کا احترام کرتا ہے یا نہیں ؟ ۔

آپ جب بھی کسی شخص کا انتخاب کریں تو اس بات کا دھیان ضرور رکھ لیا کریں کہ وہ آپ سے جڑے رشتوں کی قدر کرتا/ کرتی ہے یا نہیں ؟ وہ آپ سے جڑے رشتوں سے محبت کرتا/کرتی ہے یا نہیں ؟ وہ رشتوں کو جوڑنے کی بات کرتا/ کرتی ہے یا صرف توڑنے کی ؟ جو صرف توڑنے کی بات کرے وہ اپنے رشتے بھی کبھی جوڑ کر نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔
ایک مرد میں دیکھ لیا کریں کہ وہ باقی خواتین کی کتنی عزت کرتا ہے ؟ جو ہر خاتون کی عزت کرتا ہوگا وہ آپ کو بھی ساری زندگی عزت دے گا کیونکہ اس کا مطلب ہوا کہ خواتین کی عزت اس کی تربیت اور اس کے خون میں شامل ہے ۔ جو کہتا ہے کہ میں صرف تمہاری عزت کرتا ہوں ، دوسری خواتین کی آپ کے سامنے برائی کرے ان کے کردار پر انگلی اٹھائے تو یاد رکھئے گا کہ ایسا مرد آپ کے کردار پر انگلی اٹھاتے ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرے گا ۔۔۔

عورت کی خصلت کو پہچان لیا کریں کہ وہ کب آپ سے الگ ہونے کی بات کرتی ہے ۔ الگ ہونا ایک عورت کا حق ہے مگر ساتھ رہنے اور رشتوں کو جوڑ کر رکھنے والی خاتون اعلی ظرف اور تربیت کی حامل ہوتی ہے ۔ بڑوں کا احترام اور ایک دستر خوان پر گھر کے تمام افراد کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔۔ وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اس کے بچوں کو دادا دادی اور باقی تمام رشتوں کا پیار اور محبت ملے البتہ مسلسل کوشش کے بعد بھی اگر اسے کامیابی نہیں ملتی اور قربانی دینے کے باوجود بھی اسے رسوا کیا جائے ، بات بات پر اس کو بے عزت کیا جائے تو پھر الگ ہو جانے میں اس عورت کا نہیں بلکہ ان رشتوں کا قصور ہوتا ہے جو اس کی محبت اور خلوص کی قدر نہیں کرتے ۔۔۔

Thursday, February 4, 2021

اللہ کی طرف سے ڈھیل

کہتے ہیں ایک شخص نے اپنی نوجوان اور خوبصورت بیوی کے کہنے پر اپنی ماں کو گھر سے نکال کر گداگری پر مجبور کر دیا، بوڑھی ماں بیچاری ایسے قسمپرسی کے حالات میں دو دن میں ہی مر گئی۔

وقت کے بادشاہ نے خواب دیکھا اور خواب میں ایک بزرگ نے بادشاہ سے اُسی آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا کہ فلاں بستی میں اس شخص کو اپنے پاس بُلاؤ اور اُسے 100 اونٹ سونے کی اشرفیوں سے لاد کر دو۔ بادشاہ غور کرنے والوں میں سے تھا اُسے پتہ چل گیا تھا کہ اُسکا خواب عام خواب نہیں ہے اور کسی بات کی طرف اشارہ ہے چنانچہ اُس نے اپنے دانا وزیر کو اپنا خواب بیان کیا۔

وزیر نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت اگر اُس بستی میں وہ آدمی رہتا ہے جو آپ کو خواب میں بتایا گیا ہے تو آپکے خواب میں ضرور کوئی حکمت چُھپی ہے۔

بادشاہ نے وزیر کی بات سُن کر اپنے ساتھ سپاہیوں کا دستہ لیا اور بزرگ کی بتائی ہوئی بستی میں خود جا پہنچا اور بستی کے باہر درخت کے نیچے بیٹھے ایک بوڑھے باریش سے اُس شخص کے بارے میں دریافت کیا۔

اس بوڑھے نے بادشاہ سے کہا وہ کوئی اچھا انسان نہیں ہے وہ اپنی ماں پر ظلم کرتا تھا اور اس کے ظلموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس کی بوڑھی ماں دُنیا سے رخصت ہو گئی، جائیں بستی میں پہلا مکان اُسی کا ہے۔

بادشاہ جب اُس شخض کے دروازے پر پہنچا تو وہ شخص بادشاہ کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔ اُسے لگا کہ بادشاہ اب اُسے اُس کے اعمالوں کی سزا دے گا۔

مگر بادشاہ اُسے اپنے ساتھ محل لیکر آیا اور اُسے 100 اونٹ سونے کی اشرفیوں سے لاد کر انعام کے طور پر دیئے جنہیں پاکر ظالم کی تو لاٹری لگ گئی، وہ بادشاہ کا شُکر ادا کرتے ہُوئے دولت کے نشے میں چُور اپنی بستی واپس آگیا اور عیش عشرت کی زندگی گُزارنی شروع کر دی۔

اُدھر بادشاہ اور اُسکے دانا وزیر نے اُس شخص پر مکمل نظر رکھی ہُوئی تھی اور وہ خواب کی حقیقت جاننا چاہتے تھے مگر کئی سال گُزر گئے اُس شخص کے حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی وہ عیش و عشرت اور شباب و شراب میں ڈوبا اپنی خَرمستیوں میں مصروف زندگی گُزار رہا تھا اور پھر ایک دن نشے میں اپنے ہی گھر کی چھت سے نیچے گرا اور مر گیا۔

بادشاہ کو جب اُسکے مرنے کی خبر ملی تو وہ واپس اُس شخص کی بستی میں گیا اور اور پھر بستی کے باہر درخت کے نیچے اُسی بوڑھے باریش سے ملا جس نے اُسے اس شخص کا پتہ بتایا تھا۔

بُوڑھے نے جو اہل علم تھا بادشاہ کو دیکھا اور بولا جس دن میں نے آپکو اس شخص کی شکایت لگائی تھی میں چاہتا تھا کہ آپ اسے سزا دیں تاکہ شائد اس کے گُناہوں کی کُچھ تلافی ہو جائے مگر مالک کو کُچھ اور منظور تھا۔

بادشاہ نے بُوڑھے سے پُوچھا مالک کو کیا منظور تھا محترم؟

بوڑھا بولا اُس دن آپ نے اسے سونے سے لدے ہُوئے اونٹ عنایت کیے تو مُجھے پتہ چل گیا کہ رب کائنات اسے ڈھیل دے رہا ہے۔ اس کی رسی کو دراز کر رہا ہے اور خدا نہیں چاہتا کہ یہ شخص توبہ کے قریب بھی جائے اور پھر ایسا ہی ہُوا دولت کے نشے میں چُور ہو کر وہ ہر چیز بھول گیا۔ آسائشوں نے اُسے نہ تو اُسکے خالق کو یاد کرنے دیا اور نہ ہی کبھی اُسے اپنے کیے ہُوئے کاموں پر ندامت ہُوئی اور اسی عیش و عشرت میں اُس نے کبھی توبہ نہیں کی اور ہلاک ہو گیا۔

🔘 یہ واقعہ نصیحت ہے کہ اپنے والدین کی خوب خدمت کریں اور اللہ کریم سے توبہ کرتے رہیں۔ کہیں ہم اللہ تعالی کی دی ہوئی ڈھیل سے ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھا رہے۔ اگر ایسا ہے تو فورا ٹوبہ کیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہمیں توبہ کی مہلت ہی نہ دے۔

انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے  پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں.

کھڑک سنگھ کا انصاف

کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔ آپ نے یہ مقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر اس کے پیچھے کی داستان کا پتہ نہیں ہوگا۔

کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔

ایک دن کھڑک سنگھ معمولات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتا تھا)

بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جا پہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا۔

وائسرائے: نام؟
کھڑک سنگھ

وائسرائے: تعلیم؟
کھڑک سنگھ: "تسی مینوں جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"

وائسرائے ہنستے ہوئے "سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟"

کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے "بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ، میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں، ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔"

وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کر دیے اور  کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔

اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا۔

کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون تھی۔

جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے۔

ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا "مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے۔ اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی: "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا۔"

جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصے سے دیکھا اور پوچھا "کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا؟"

دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا "نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی۔ دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی۔ ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھانا تھا۔"

کھڑک سنگھ نے غصے سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مر گیا نا؟ پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ رکیے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟"

جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟

"جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے" پولیس والے نے جواب دیا۔

تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کر رہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے۔

فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)

پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔

🔘 اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری ہو اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر ہوجاۓ گی۔

 آگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔ شکریہ

چــــــــــــــور

استاد صاحب بیوی کے ساتھ بھتیجے کی شادی کی تقریب میں پہنچے تو بارات سے زیادہ استاد صاحب کا استقبال کیا گیا اور کرتے بھی کیوں نہ دُلہا  استاد صاحب کا بھتیجا ہونے کے ساتھ ساتھ طالبعلم بھی تھا۔
سب ہی کہتے تھے کہ خُدا نے آپ کی شخصیت میں عجیب کشش رکھی ہے جو بھی طالبعلم آپ سے پڑھ لیتا ہے وہ ہمیشہ آپ جیسا بننے کی خواہش کرتا ہے اور یہ سچ بھی تھا۔
استاد صاحب شہر کی بڑی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
استاد صاحب کے طالبعلموں نے اپنی ترقی اور تربیت سے ہمیشہ اُن کا نام روشن کیا تھا۔
استاد صاحب کو بھی بہت ناز تھا کہ قیامت والے دِن جب اعمال کی پوچھ گُچھ ہوگی تو میں کہہ دوں گا کہ میرے اعمالِ صالح میرے طالبعلم ہیں، جِن کی میں نے تربیت کی اور معاشرے میں بھلائی پھیلانے کا سبب بنا۔
شادی کی تقریب ،  رات کو تقریباً بارہ بجے ختم ہوئی استاد صاحب بیوی کے ساتھ کار میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہونے لگے ابھی اگلی ہی سڑک پر پُہنچے تھے کہ چھ موٹر سائیکل سواروں نے استاد صاحب کی کار کو گھیرے میں لے لیا۔
چار سوار موٹر سائیکلوں سے اُتر کر کار کے سامنے آگئے اور دو موٹر سائیکل پر ہی بیٹھے رہے۔
ایک نے استاد صاحب کی کنپٹی پر پستول رکھی اور بولا "ابے او ،  گاڑی سے باہر آ جاؤ اور آنٹی کو باہر آنے کو بول۔ جلدی کر اور اگر کچھ گڑ بڑ کی تو بھیجے میں ساری گولیاں اُتار دوں گا۔" 
استاد صاحب نے بیوی کو اشارہ کیا تو وہ بھی کار سے باہر آگئی۔
ایک چور نے استاد صاحب کی تلاشی لی جو کچھ اُن کے مطلب کا تھا لے لیا اور ایک چور نے اُن کی بیوی کے سارے زیور زبردستی اُتروا لیے۔
ایک موٹرسائیکل سوار پیچھے سے بولا یار گاڑی بھی اچھی ہے آج بڑا ہاتھ مارتے ہیں چلو گاڑی بھی لے اُڑتے ہیں کوئی ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔
  دوسرا چور بولا ٹھیک ہے پھر اِن دونوں کو مار دیتے ہیں ورنہ پھنس جائیں گے۔ 
ایک اور بولا نہیں یار اِن  کو باندھ کر سڑک کی دوسری جانب پھینک دو صُبح کوئی کھول دے گا کیوں بے گناہوں کو مارنا ہے۔
استاد صاحب بولے بیٹا جو کچھ چاہیے لے لو لیکن ہمیں کچھ نہ کرنا میرے گھر میں چھوٹے بچے  ہیں اور  ہمارے سِوا اُن کا کوئی نہیں ہے خُدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
ایک موٹر سائیکل سوار موٹر سائیکل سے اُترا اور بولا تُم لوگ سامان سمیٹو میں اِن کو باندھتا ہوں جیسے ہی وہ استاد صاحب کے سامنے پہنچا تو بولا اوہ یار یہ تو میرے استاد  ہیں ،  چھوڑ دو اِن کو سب کچھ پھینک دو چلو یہاں سے بھاگو۔
جونہی سب نے اپنی ساتھی کی بات سُنی اُنہوں نے سب کچھ وہاں پھینکا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
استاد صاحب کی بیوی بولی شُکر ہے آپ کی وجہ سے بچ گئے ورنہ آج بہت نقصان ہوجاتا۔
استاد صاحب وہیں زمین پر گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے اُن کی بیوی بولی کیا ہوا آپ رو کیوں رہے ہیں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
استاد صاحب بولے میری تو زندگی بھر کی کمائی لُٹ گئی مُجھے شرم آتی ہے اپنے آپ پر کہ میں نے معاشرے میں چور پیدا کیے ہیں ۔
استاد صاحب بولے میں اپنے طالبعلموں کی تربیت نہیں کرسکا مجھے تو ناز تھا کہ قیامت والے دِن یہ لوگ میری بخشش کا سبب بنیں گے لیکن اب مُجھے ڈر لگ رہا ہے کہ قیامت والے دِن فرشتے مُجھے گھسیٹ کر جہنم میں لیجائیں گے کہ میں اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب بولے چور وہ نہیں چور تو اُن کا اُستاد نِکلا جو اپنا فرض پورا نہ کرسکا۔
استاد صاحب کہتے وہ میرے دل سکون لے گئے،  وہ مجھ سے میرا مان لے گئے کہ میرے طالبعلم غلط کام نہیں کر سکتے۔
استاد صاحب بے بسی سے کار کے ساتھ بیٹھے بار بار بول رہے تھے چور وہ نہیں چور تو میں ہوں , چور وہ نہیں چور تو میں ہوں.
کیا آپ بھی استاد ہیں؟ 
کیا آپ نے اپنا فرض پورا کیا؟