Sunday, February 14, 2021

بدشگونی یا نیک شگون

اکثر و بیشتر آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا ہوگا، تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ دن اچھا نا گزرنے پر یا کوئی کام الٹ ہو جانے پر لوگ مخلتف چیزوں کو کوس رہے ہوتے ہیں مثلاً 

" آج صبح فلاں شخص میرت متھے لگا، میرا تو سارا دن ہی برا گزرا ۔۔۔
آج صبح ہی صبح فلاں کام الٹ ہو گیا جس کی وجہ سے آج میں سارا دن مصیبت میں رہا۔۔۔ 
آج فلاں شخص نے یہ بات مجھ سے کہہ دی جس کی وجہ میرا سے سارا دن خراب گزرا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ " 

اسے بدفالی کہتے ہیں اور بدفالی بھلے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو یہ صریح گناہ ہے_اسلام میں بدفالی اور بدشگونی کی حد درجے ممانعت کی گئ ہے، بدشگونی سے مراد تو یہی ہے کہ العیاذ باللہ ہمارا رب پہ اعتقاد کمزور پڑ گیا ہے اور ہم اللہ سے بدگمانی کر رہے ہیں_

ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ بدفالی یا بدشگونی تو منع ہے لیکن نیک شگون اور نیک فالی ہرگز منع نہیں_ اگر ایک کام اچھا ہوتا ہے تو آپ اللہ پہ نیک گمان کر سکتے ہیں کہ جیسے اللہ تعالی نے میرا یہ کام آسان بنایا وہ باقی کے سارے کام بھی اپنی رحمتِ واسعہ سے اچھے کرے گا_ واثق امید ہے کہ یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی اس امیدِ رحمت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے گا__

صحیح مسلم، سنن ابی داود اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: 

" ان عند ظن عبدی بی ان ظن بی خیر فلہ وان ظن شر فلہ " 

" میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، وہ اگر میرے بارے میں اچھا گمان کرتا ہے تو میرا اس کے ساتھ معاملہ ویسا ہی ہے، اور وہ میرے بارے میں برا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اس کے ساتھ ویسا ہی ہے۔۔۔"

حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں 
(صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان کی بنیاد ہے اسکی رحمت، اسکی قدرت اور اسکے مختارِ کل ہونے کا یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے__

جو اللہ تعالی کے بارے اچھا گمان رکھتا ہے اللہ تعالی اسکی دستگیری فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بندہ اپنے تئیں نیک کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ظن کو پورا کر دکھائے گا_ اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے بارے زبان سے یا عمل کے ذریعے بدگمان ہوگا تو اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ ناراض ہوں گے اور اس کے ظن کے مطابق ویسا ہی فیصلہ فرمائیں گے کیوں کہ اس کی رحمت سے مایوس تو وہی ہوتے ہیں جو کفر کرتے ہیں_
 
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے بدگمانی ایک مومن مسلمان کو زیب نہیں دیتی، البتہ حسنِ ظن باللہ ایک مسلمان کا حقیقی شیوہ ہے__
منقول

انسان نما کرونا

بات آج کی 
نعیم ثاقب 

انسان کے لیے صرف کرونا وائرس ہی مہلک نہیں بلکہ اس اردگرد چلتے پھرتے باتیں کرتے انسان نما کرونے وائرس اصل سے کہیں زیادہ جان لیوا ھوتے ہیں    
"ورجینیاوولف " کا کہنا ھے کہ وہ جو آپ کے خواب چھینتا ہے ، آپ کی زندگی چھین لیتا ھے۔ 
"مارک ٹوین نے کہا: "ان لوگوں سے دور رہیں جو آپ کے ارادوں کو کمزور 
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
یہ چھوٹے اور پست ذہن کےلوگ ہوتے ہیں اگر آپ بڑا بننا چاہتے ہیں اور اپنے بڑے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں  تو یہ ضرور دیکھ لیں کہ آپ کے ارد گرد کون لوگ ہیں اور آپ کن سے اپنے خواب شئیر کرتے ہیں بڑے خواب دیکھنے کے بعد سب سے اہم چیزلوگوں کا انتخاب ہے جن کو آپ اپنے خواب بتاتے ہو درست انتخاب عزائم کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کو آسان بنا دیتا ہے 
جب آپ چھوٹے اور منفی  لوگوں کواپنا  بڑا خواب بتائیں گے، تو وہ آپ کی حوصلہ شکنی کریں گے، اس میں فضول نقص نکالیں گے آئیڈیا چوری کرکے آپ کے مقابلے پہ آ جائیں گے آپ کا خواب ہر ایک کے ساتھ ، خاص طور پر چھوٹے ذہنوں کے ساتھ شئیر کرنے کے لیے نہیں ہے ، جو آپ کو ناکامی کی متعدد وجوہات دیکھنے پر مجبور کردے گا کہ خواب کیوں ناقابل عمل ہے لیکن وہ پوائنٹس نہیں بتاۓگا جو آپ کے خواب کی تعبیر کو ممکن بنا سکتے ہیں. 
جان سی میکسویل نے کہا: "جتنا بڑا خواب ھو ، اس کے حصول کے لیے آپ کو اتنا ہی بڑا آدمی بننا چاہئے۔" 
ایک چھوٹے  ذہن والا شخص بڑے مستقبل کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ہمیشہ بڑے خواب کا گلا گھونٹ دیتاہے ۔اپنے خوابوں میں ان لوگوں کو  کبھی بھی شریک نہ کریں جو بڑی تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
بہت سے خواب اس لیے بھی مر جاتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا منصوبہ ان لوگوں  کے ساتھ بناتے جن میں 'بڑی تصویر' کے نظریہ کی کمی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے آس پاس رہو جو آپ کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے تحریک دیتے ہیں ، نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے بڑے خوابوں کو اپنی چھوٹی سوچ سے مسل دیتے ہیں ۔
ایلون مسک جس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً پینتیس بلین ڈیلرز ہے ناسا وغیرہ میں تحقیق کررہا ہوتا، لیکن اس نے ملازمت کی بجائے ایک ایسی کمپنی کا آغاز کیا جو سپیس کے میدان میں  ناسا کا مقابلہ کرتی ہے۔ رچرڈ برانسن ٹریول ایجنٹ ہوتا، لیکن ورجن گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایمیزون کے باس ، جیف بیزوس ، کتاب بیچنے والی دکان میں جنرل منیجر ہوتے ، لیکن اس کے بجائے اب تک کی سب سے بڑی آن لائن فروخت  کا آغاز کیا۔
بل گیٹس کا خواب تھا ہر گھر میں ایک ذاتی کمپیوٹر ہو اور آج ، کچھ گھروں میں ایک سے زیادہ  کمپیوٹرز بھی ہیں۔ اسٹیو جاب کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ وہ پورے کمپیوٹر کو فون میں بند کر دے  اور آج آئی فون میں پرسنل کمپیوٹر سے بھی زیادہ فنکشن ہیں۔
ان عظیم لوگوں کی کامیابی  کا راز یہ تھا کہ انہوں نے خود کو چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگوں سے دور رکھا۔ 
ہینری فورڈ کی کہانی کہ اس نے کس طرح اپنے مالک اور سرپرست ، تھامس ایڈیسن کے ساتھ پٹرول موٹر کے بارے میں اپنے خیالات شیئر کیے ، بڑے ذہنوں  کی ایک انتہائی دلکش مثال ہے۔ 
1896 میں ، الیکٹرک بلب ایجاد کرنے والا عظیم موجد ایڈیسن کار ڈیزائن کرنے کے خیال پر کام کر رہا تھا جب اس نے سنا کہ اس کی کمپنی میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے تجرباتی کار بنائی ہے۔ ایڈیسن نے اس نوجوان سے نیویارک میں کمپنی کی پارٹی میں ملاقات کر کے کار کے بارے میں انٹرویو کیاوہ اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا۔ 
اس نے نوجوان کا آئیڈیا سنا جو کہ ایڈیسن سے بہتر تھا وہ خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا " یہ ہے اصل چیز " ویلڈن 
امریکہ کےانتہائی معزز موجد کی حوصلہ افزائی کے ان الفاظ کے ساتھ ، فورڈ نے اپنا کام جاری رکھا ، ایک کار ایجاد کی اور دولت مند بن گیا۔
9 دسمبر 1914 کو ، ایڈیسن کی لیبارٹری اور فیکٹری جل گئی۔ ان کی عمر 67 سال تھی اور انشورنس کور سے نقصان زیادہ تھا آگ کی راکھ سرد ہونے سے پہلے فورڈ نے ایڈیسن کو 750،000 ڈالر کا چیک دیا ، جس میں نوٹ لکھا ھوا تھا کہ ایڈیسن کو ضرورت پڑنے پر اور بھی مل سکتا ہے۔
1916 میں ، فورڈ نے اپنا گھر ایڈیسن کے گھر کے ساتھ والی عمارت میں منتقل کردیا اور جب ایڈیسن چل نہیں سکتا تھا بلکہ صرف وہیل چیئر تک محدود تھا تو فورڈ نے اپنے گھر میں  بھی وہیل چیئر رکھ لی  ، تاکہ وہ اپنے دوست کے ساتھ وہیل چیئر ریس لگاسکے۔
ایڈیسن نے فورڈ کو اعتماد دیا اور حوصلہ دیا اور اسے زندگی بھر کا دوست بنالیا۔ کبھی بھی دوسرے لوگوں کی کامیابیوں اور خوابوں سے حسد نہ کریں۔ جب آپ دوسروں کے خوابوں کی حمایت کرتے ہیں تو آپ ان کوزندگی بھر کے لئے اپنا  مداح بنا لیتے ہیں ۔اگر آپ اپنے بڑے خوابوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چھوٹے لوگوں سے دور رہنا ھو گا.جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑے سے مر جاتے ہیں۔ حسد اصل میں آپ کی کامیابی کے لیے چھوٹے ذہنوں کی طرف سے خراج تحسین ھوتا ہے۔ ارسطو نے کہا: "حسد دوسروں کی خوش قسمتی سے تکلیف کا نام ہے۔" حسد سے بھرا ھوا دماغ ہر اچھی اور بری چیز کو ناپسند کرتا ھے ۔
نپولین بوناپارٹ کا کہنا ھے: "حسد کمتری کا اعلامیہ ہے۔" حاسد لوگوں کو اپنے قریبی سرکل میں نہ لائیں۔ وہ آپ کے خواب کو دیوالیہ کردیں گے۔
والٹ ڈزنی نے کہا: " ہمارے تمام خواب سچ ہوسکتے ہیں اگر ہمارے اندر ان کے لیے محنت کرنے کا حوصلہ ھو ۔"
بڑے خواب دیکھیں، مگر اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات ضرور کریں ۔ بڑے خواب دیکھنے کے لئے جوان ہونا شرط نہیں ارادے کی مضبوطی اور خود پر یقین بنیادی شرط ہے اپنی صلاحیتوں کو آزمائیں اور عزائم کی تکمیل کے لیے کمر کس لیں پھر منزل زیادہ دور نہیں رہتی۔ مستقبل ان لوگوں کا ہوتا ھے جو اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں ۔
کبھی بھی اپنے خوابوں سے دستبردار نہ ہوں اور جب کوئی آپ سے کہے کہ ، "یہ نہیں ہوسکتا" تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی کو کبھی بھی مت بتانے دیں ، "آپ کچھ نہیں کر سکتے۔" آپ کےخواب ہیں اور آپ نے ان کی حفاظت کرنی ہے اور آپ کے خوابوں کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
البرٹ آئن اسٹائن نے کہا: "میں ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ سے کہا کہ "یہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں آج ان کی وجہ سے ہی یہ سب کر پایا ہوں "
اور آخری بات !انسان کو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ انسان نما کرونوں سے بچنے کی بھی اشد ضرورت ھے کیونک اصل کی علامتیں تو ظاہر ھو جاتیں ہیں لیکن یہ چالاک کرونے کوئی نشان نہیں چھوڑتے ۔

مٹی اور قیمت

لوہے کی ایک بار کی قیمت120 روپے ہے
اس سے اگر آپ گھوڑوں کے لئے نعل بنا دیں تو اسکی قیمت 1000روپے ہو گی۔
اس سے سوئیاں بنا دیں تو اسکی قیمت3000روپے ہو گی۔ اور اگر اس سے آپ گھڑیوں کے لئے بیلنس سپرنگ بنا دیں تو اسکی قیمت تین لاکھ روپے ہو گی۔
آپ نے اپنے آپ کو کیا بنایا ہے یہ امر آپکی قیمت طے کرتا ہے

مٹی کو بازار میں بیچیں تو قیمت بہت کم ہوگی
لیکن اینٹیں بنا کر بیچیں تو کچھ زیادہ قیمت ہوگی
اسی  مٹی سے برتن  بنا کر بیچیں تو دس گنا قیمت ہوگی۔

اگر مٹی کو خوبصورت مورتی یا مجسمہ بنا کر بیچیں تو وہ لاکھوں میں بکے گی۔

آپ خود کو دنیا میں کیا بنا کر پیش کرتے ہیں؟

ایک عام،روایتی اور منفی سوچ سے بھر پور انسان یا پھر
ایک بہترین،مثبت اور پر امن محبت پھیلانے والا فائدہ مند قیمتی ترین انسان ؟

فیصلہ آپ نے کرنا ہے

Sunday, February 7, 2021

تاریخ کے جھروکے __!!


مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ🇲🇻 بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔

مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔

عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

مگر یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا ؟

یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔

وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ 

مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے نمودار ہوتا تھا اور لوگ سمندر کے کنارے بنے بت خانہ میں ایک دوشیزہ کو بناؤ سنگھار کرکے رکھ دیتے وہ عفریت رات اس بت خانے میں گزارتا اور صبح وہ لڑکی مردہ پائی جاتی اور لوگ اس کی لاش کو جلاتے.

عفریت کے لئے دوشیزہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی ہوتا تھا اس بار قرعہ اندازی میں ایک بیوہ بڈھیا کی بیٹی کا نام نکل آئی اس پر رو رو کر بڈھیا نڈھال ہوچکی تھی گاؤں کے لوگ بھی بڈھیا کے گھر جمع تھے ،دور سے آئے اس مسافر نے بھی 
بڈھیا کے گھر کا رخ کیا اس کے استفسار پر اسے سب کچھ بتایا گیا کہ عفریت کے مظالم کتنے بڑھ گئے ہیں۔

مسافر نے بڈھیا کو دلاسہ دیا اور عجیب خواہش کا اظہار کیا کہ آج رات آپ کی بیٹی کی جگہ بت خانے میں مجھے بٹھایا جائے، پہلے تو وہ لوگ خوف کے مارے نہ مانے کہ عفریت غصہ ہوئے تو ان کا انجام بد ہوسکتا ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا وہ راضی ہوگئے، مسافر نے وضو کیا اور بت خانے میں داخل ہو کر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی 
عفریت آیا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلا گیا، لوگ صبح نہار بت خانہ کے باہر جمع ہوئے تاکہ لاش جلائی جا سکے لیکن مسافر کو زندہ دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئے۔

یہ مسافر مشہور مسلم داعی مبلغ اور سیاح ابو البرکات بربری تھے، ابو برکات کی آمد اور عفریت سے دو دو ہاتھ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، بادشاہ نے شیخ کو شاہی اعزاز کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا شیخ ابو برکات نے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی بادشاہ نے اسلام قبول کیا اور صرف 2 ماہ کے اندر مالدیب کے سب لوگ بدھ مت سے تائب ہو کر مسلمان ہوچکے تھے۔

یہ 1314ء کی بات ہےاس مبلغ اور داعی نے مالدیب کو اپنا مسکن بنایا لوگوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی، ہزاروں مسجدیں تعمیر کیں، اور مالدیب میں ہی فوت ہوئے اسی مٹی پر ہی دفن ہوئے۔

کہنے کو ابو البرکات بربری ایک شخص لیکن تنہا ایک امت کا کام کر گئے، آج بھی ان کو برابر اجر مل رہا ہوگا۔"

خوش رہنا

ماہرین کہتے ہیں آپ کے آس پاس کے حالات پر آپ کا اختیار صرف ١٠ فیصد ہوتا ہے لیکن خوش رہنے کا ٩٠ فیصد اختیار
آپ کے اپنے پاس ہے, خوش رہنا ایک آرٹ ہے .اس آرٹ کو سکھانے والے ماہرین چند سائنسی تحقیق پر ثابت شدہ ٹپس بتاتے ہیں، ضروری نہیں سب آپ کے کام کی ہوں مگر ٹرائی ضرور کیجئے کوئی ایک ضرور کام کرے گی

1.دن میں ایک بار اپنی دستیاب نعمتیں شمار کر کے لکھ لیں

2. رات میں چھ سے آٹھ گھنٹے بھرپور نیند لیں اور دوپہر میں بیس سے تیس منٹ آرام ضروری ہے

3. ہفتے میں کم از کم تین بار گھر کے سب افراد کے ساتھ
بیٹھ کر کھانا کھائیں

4. گھر کے اندر کچن گارڈن بنائیں دن کا کچھ وقت پودوں کے ساتھ گزاریں

5. پانچ سے سات منٹ ہلکی ورزش کیجیئے

6. دن میں کسی نہ کسی کی مدد ضرور کریں

7. زرا سی اداسی آنے پر وضو کر لیں

8. اپنی پسند کی خوشبو لگائیں

9. پانی زیادہ پئیں کم از کم تین لیٹر جب اداس ہوں تو دو گلاس پئیں

10. " نو کمپلین ڈے " بنائیں, آج کسی سے کوئی شکایت نہیں پھر دن بڑھاتے جائیں, نو کمپلین ویک, نو کمپلین منتھ

11. گھر میں دفتر میں جدت ترازی کی مہم چلائیں, ہر روز ماحول میں کچھ تبدیلی کی کوشش کریں, گھر میں موجود سامان کی ترتیب بدلتے رہا کریں

12. خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں کو فون کریں ان کے دکھ درد میں حوصلہ دیں اور خوشیوں پر کھل کر مبارکباد پیش کریں

13. مہینے میں دو بار دعوت کریں, کبھی رشتے داروں کو، کبھی دوست احباب کو کبھی اپنے بچوں کے دوستوں کو دعوت پر بلائیں

14. لوگ کیا کہیں گے..! یہ سوچنا چھوڑ دیں

15. اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار دن یاد کیجئے اور ایسا زندگی بھر ہر روز کیا کیجیئے, چھوٹی سی چھوٹی خوشی کو یاد کریں, یہ یادیں آپ کو سارا دن خوش رکھیں گی

16. صدقہ دیں اور سب سے آسان صدقہ مسکراہٹ ہے, ہلکی سی ایک مسکراہٹ تیز دھوپ میں بادل کے ٹکڑے کی طرح دل کو ترو تازہ کردیتی ہے, خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

17:اور پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں۔"

خلیفۂ وقت اور بڑھیا

خلیفہ وقت بُڑھیا کو سلام کرتا ہے !! السلام علیکم اماں جی !!!
بُڑھیا اپنا شکن آلود چہرہ اُٹھا کر اجنبی کا جائزہ لیتی ہے !!
وعلیکم السلام بیٹا !!!
فاروق کے پاس وقت بہت کم ہوا کرتا تھا !! اُسے لمبی چوڑی تقریروں کی عادت نہیں تھی !!
دو جُملوں میں حال بتاتا تھا !! اور دو جُملوں سے حال جان بھی لیتا تھا !!
اماں کیسی گُزر رہی ہے !! ؟؟؟؟؟؟؟ خطاب کے بیٹے کا پہلا سوال !!!
بیٹا عُمر کی خلافت میں کیسی گزر سکتی ہے دیکھ لے میرا حال !!! وہ اپنی بادشاہت میں مست ہے اور میں یہاں عُسرت میں کسی طور وقت کا چرخہ کاتے جا رہی ہوں !!
عُمر جلالی تھا !! اُس کے جلال ہی کے آسمانوں پر چرچے تھے !!! غُصے میں آ گیا !!
اماں مدینہ سے ہزاروں میل دُور اس ویرانے میں کون کس حال میں ہے !! عُمر کیسے جان سکتا ہے !! ؟؟؟ کیا تیرا شِکوہ بے جا نہیں !!! ؟؟؟؟
بُڑھیا بھی عُمر ہی کی رعایا تھی !! تڑپ کر بولی !!
تو بیٹا عُمر سے مُلاقات ہو تو اُسے میری طرف سے ایک پیغام دے دینا !!
"" کہ جس علاقے کی تُو خبر نہیں رکھ سکتا اُسے اپنی خلافت میں کیوں شامل کر رکھا ہے !!! ؟؟ ""
عُمر سکتے میں آ جاتا ہے !!
نیلا آسمان !! صحرا میں اُڑتی ریت !! جُگالی کرتے دو اُونٹ اور پاس کھڑا ہمسفر عجیب منظر دیکھتے ہیں !!!
عُمر مسکرا رہا تھا !! مُسکراتا ہی چلا جا رہا تھا !!!! 
اور پھر چند ہی لمحوں میں ہچکیوں سے رونے لگتا ہے !!!
آنسو داڑھی میں ہیروں کی طرح چمک رہے تھے !!!
ہمراہی پُوچھتا ہے !! 
یا امیر المؤمنین کیا ماجرا ہے !!! ؟؟
اِتنی پیاری مسکراہٹ اور عجیب و غریب گِریہ !!
عُمر کا سادہ سا جواب !! خوش اس لیے ہوا کہ اِس بُڑھیا تک پہنچ گیا !!
اور رو اِس لیے رہا ہوں کہ پتا نہیں میری خلافت میں ایسے اور کتنے ویرانے آباد ہوں گے !! اپنی زندگی میں وہاں تک کبھی پہنچ سکوں گا یا نہیں !!!!!!
ــــ

Saturday, February 6, 2021

یقین رکھو

صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب دور اسے ایک کمرے کا ہیولا سا نظر آیا.



 وہ اسے نظر کا دھوکا سمجھ رہا تھا. چونکہ سمت تو وہ کھو چکا تھا اس لئے اس دھوکے کی طرف نڈھال بڑھنے لگا.

 وہ کمرہ دھوکا نہ تھا بلکہ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا. 
مسافر نے جلدی جلدی ہینڈ پمپ چلانا شروع کیا.

 لیکن عرصے سے استعمال نہ ہوا ہینڈ پمپ پانی اٹھانے سے قاصر تھا.

وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا. 
اچانک ایک کونے میں اسے ایک بوتل نظر آئی پانی سے بھری ہوئی بہت اچھے سے بند یہ بوتل اس نے اٹھائی اور بیتاب ہو کر پینے کو ہی تھا کہ بوتل کے نیچے ایک پرچہ نظر آیا.


 کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا

 یہ پانی پمپ میں ڈال کر اسے چلائیں اور برائے مہربانی استعمال کے بعد اسے واپس بھر کر یہاں رکھ دیں. 

 مسافر ایک امتحان سے دوچار ہوگیا. ایک طرف شدت پیاس تھی دوسری طرف خطرہ تھا.

 پتہ نہیں پمپ کام کرے یا نہیں..؟ ایسے نہ ہو یہ پانی بھی کھو دوں.؟

 مسافر نے لیکن رسک لیا اور پمپ میں پانی ڈال دیا.

 کچھ دیر میں ہی پمپ نے کام شروع کردیا. مسافر نے جی بھر کر پانی پیا نہایا دھویا اور بوتل بھر کر واپس پرچے پر رکھ دی لیکن ساتھ ہی ایک لکیر اور لکھ دی   " یقین رکھو" 


 زندگی کے صحرا میں ہینڈ پمپ کی طرح ہمیں بھی موقع ملتا ہے.
اس پانی کی بوتل کی طرح ہمیں بھی رسک لینے کا امتحان درپیش ہوتا ہے. ہم بھی اسی مسافر کی طرح تذبذب کا شکار ہوتے ہیں.

ہم بھی چاہتے ہیں کوئی ہمیں دلاسہ دے کندھے پر تھپتھپا کر کہے تم کرسکتے ہو.

 اس تسلی دلاسوں میں لیکن سب سے اہم ہمارا یقین ہوتا ہے.
 اللہ رب العزت کی ذات پر یقین ہی اس سفر کی ضمانت بنتی ہے.  

Friday, February 5, 2021

اللہ جس کو ہدایت دے

ایک شخص تھا جو بڑا امیر و کبیر تھا ، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا ، جس میں درجنوں ملازمین تھے ، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے ، دن بھر وہ اپنے بزنس میں مگن رہتا شام کو گھر واپس آتا ، اس کا جو اپنا بیڈروم تھا اس کی صفائی ایک جوان العمر لڑکی کرتی تھی ، ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا ،بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا ، اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا ، میں تو پورے پولیس اسٹیشن خرید سکتا ہوں ، ملازمین سب میری بات مانیں گے ، لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو اس نے جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زور دار آواز میں کہا ٹھہر جاؤ ، وہ مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی ، مالک نے کہا سب کھڑکیاں دروازے بند کردو اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں ۔ لیکن اس کے دل تقوی تھا اَللّہ کا خوف تھا ، آنسوں بہہ رہے ہیں اور اَللّہ سے دعاء بھی کر رہی ہے ،چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرنا شروع کر دیئے، کافی دیر ہوگئی لیکن وہ آ نہیں رہی تھی مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہوگئی اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کی اور تو میرے پاس آئی نہیں ؟ تو اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا مالک میں نے سارے دروازے بند کردیئے ساری کھڑکیاں بند کر دی مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہوپا رہی ہے ، تو اس نے غصے سے کہا وہ کونسی کھڑکی ہے جو تجھ سے بند نہیں ہورہی ہے ؟ تو لڑکی نے کہا میرے مالک جس کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے،میں نے وہ ساری کھڑکی بند کر دی لیکن جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے۔ اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پارہی ہے اگر آپ سے بند ہوسکتی ہے تو آکر بند کر دیں فوراً بات سمجھ میں آ گئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا وہ اٹھا جلدی سے وضو کیا نماز پڑھی اَللّہ سے معافی مانگی۔ ہم میں سے ہر شخص غور کریں کوئی اس کھڑکی کو بند کر سکتا ہےجس سے رب العالمین دیکھتا ہے تو پھر ہم جرآت کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں تو پھر ڈٹائی کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں ؟ وقتی طور پر نفس کا غالب آجانا یہ الگ بات ہے لیکن ہم گناہ کرتے ہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں عادت ہوتی ہے ہمارے گناہ کرنے کی ہم گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتے ہیں پھونک ماری یوں اڑا دی اسی لئے نا کہ ہم کو اس کھڑکی کا یقین نہیں ہے۔اَللّہ پاک ہم سب کو یقین کی دولت سے مالا مال فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ( آمین.

ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ

ایک ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍکٹھی ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﻤﯿﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ کے ﺍﺱ کونے ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ بہت ﺑﮍا ﺗﺎﺟﺮ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎئی ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ خانہ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ بار بار ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ہمارا ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ میرے گھر تک ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ۔
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔۔۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺻﺎﺣﺐ، ﺍلله ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ کے لیئے، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ کی اشد ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﺍلله تعالٰی ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ۔۔۔
تاجر ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ آگے ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ۔
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ صاحب ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ الله ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍپنے ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ہوئے کہا:
ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ لیئے ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ پر ﺍلله ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐھ دیجیئے
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ اس کی آنکھوں میں آنسووں آ گئے اور ﻣﻨﮧ سے ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله نکلنا ﺷﺮﻭﻉ ہو گیا
ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ہوا ﺍﻭر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ:
بتایئے ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ...؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ابھی ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ سے کام چل جائے گا۔
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ نہیں یہ بتایئے ﺁﭖ ﮐو مکمل ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ٹوٹل ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮر پر 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ
ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ 8 لاکھ روپے کا ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ لے ﻟﯿﺠﯿﮱ ﮔﺎ اور آج سے اس مسجد کی تمام ذمہ داری میری ہے
یہ سن کر امام صاحب بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے واپس آ گئے

ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ، ﺳﻠﯿﻘﮧ، ﺗﻤﯿﺰ اور ادب ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ بھی ﮨﺪﺍﮨﺖ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ مگر افسوس ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ، ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩین ﺳﮯ پیچھے رہ گئے ﮨﯿﮟ

*ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ کی ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮈﺍلنی ہوگی*

ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻃﻮﻃﺎ ﻣﺮﭺ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی میٹھی بولی ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی ﮐﮍﻭﮮ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻟﺘﺎ یے۔

دلچسپ و عجیب

ایک عورت اپنے تین ماہ کا بچہ ڈاکٹر کو دکھانے آئی،کہ ڈکٹر صاحب میرے بچے کے کان میں درد ہیں،ڈاکٹر نے بچے کا معائینہ کیا اور کہا واقع اس کے کان میں انفیکشن ہوا ہے اور نوٹ پیڈ اٹھا کر کچھ دوائی لکھی اور رخصت کیا،میں حیران تھا،عورت جانے لگی تو میں نے آواز دے کر انہیں روکا، وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگی جیسے کچھ بھول گئی ہو۔
میں نے کہا بہن جی آپ کا بچہ تین ماہ اور سات دن کا ہے جو بول بھی نہیں سکتا،تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے کان میں تکلیف ہے، وہ مسکرائی اور میری طرف رخ کرکے کہنے لگی، بھائی جی، آپ کان کی تکلیف پہ حیران ہیں میں اس کے رگ رگ سے واقف ہوں،یہ کب روتا ہے،کب جاگتا ہے، کب سوتا ہے،مجھے اس کے سارے دن کا شیڈول پتہ ہے کیوں کہ میں ماں ہوں اس کی، انسان کو جب کوئی تکلیف ہو تو اس کے دن بھر کا شیڈول بدل جاتا ہے،اور کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات بدل جاتے،طبیعت خراب ہونے سے انسان ھر وقت بے چین رہتا ہے،کل رات سے میرا بچہ بھی خلاف معمول روئے جا رہا روئے جارہا ہے،رات جاگ کہ گزاری میں نے اس کے ساتھ، صبح کو میں نے غور کیا تو بچہ جب رو رہا تھا تو ساتھ ہی اپنا ننھا ہاتھ اپنے ننھی سی کان کی طرف لے جا رہا تھا،میں بچے کو اس کے باپ کے پاس لے گئی،کہ اس کہ کان میں درد ہے،وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے کیسے پتا چلا، اس نے بچے کے کان پہ ھاتھ رکھا تو بچہ اور زور سے رونے لگا،اور میں بھی بچے کی تکلیف دیکھ کے رونے لگی،اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکی،کیوں کہ میں ماں ہوں، عورت چلی گئی اور میں نم آنکھوں سے دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ ماں تین ماہ کے بچے کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں اور میں روزانہ ماں سے کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہوں اور وہ یقینًا میرے سارے جھوٹ جانتی ہیں کیوں کہ وہ ماں ہیں،،،تب سے میں نے کبھی ماں سے جھوٹ نہیں بولا،
اللہ سب ماؤں کو زندہ سلامت رکھیں اور جن کی ماں دنیا سے پردہ کر گئیں ہوں " اللہ " انہیں جنت الفردوس میں داخل کریں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔