Saturday, February 20, 2021

موت سے سبق

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــــــں :

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا ، شیر نے تین شکار کیے ،

ایک ہرن
ایک گائے
اور ایک خرگوش کا ۔

واپسی پر ریچھ بڑا اترا کر چلنے لگا کہ شکار میں ہمارا حصہ بھی ہے ، شیر بھانپ گیا اس نے ریچھ سے کہا کہ :

شکار کے متعلق کیا کہتے ہو ؟؟؟

اس نے کہا کہ شکار تین حصوں میں بٹے گا ۔

شیر نے کہا : اچھا ۔۔۔۔۔!!!!

پھر کرو تین حصے ۔

ریچھ کہتا ہے کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے بڑا ہے اسلئے گائے تیرے حصے میــــں ... میــــــــں درمیانہ ہوں اسلئے ہرن میرا اور خرگوش لومڑی کا ۔

شیر اس کی چالاکی کو سمجھ گیا اس نے پنجہ مارا اور ریچھ کو بھی مار دیا اب لومڑی سمجھ گئی ، چالاک جو ٹھہری ، اس نے سارا معاملہ سمجھ لیا ۔

اب شیر نے اس سے پوچھا کہ بتا :

تو کیسے حصہ کرے گی ؟

لومڑی نے کہا کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے ، خرگوش ناشتے میں کھائیں اور گائے دوپہر کو اور ہرن رات کو تناول فرمائیں ۔

شیر بڑا خوش ہوا اس نے لومڑی سے پوچھا کہ :


تو نے یہ تقسیم کہاں سے سیکھی ہے ؟؟؟

إس نے کہا : ریچھ کی موت سے ۔

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــں :

اے غافل انسان ! تو بھی کچھ موت سے سیکھ جا جب تیرے پاس تیرے اپنے ( عزیز و اقارب ) موت کی نیند سو جاتے ہیــــــــں ... تُو تو بھی سمجھ اور دھیان کر ......!!!

ﺑﯿﭩﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ؟ ؟


 ﺳﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺗﻼﻭﺕ ﺧﺘﻢ ﮐﯽ ، ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ، ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﺎﻭﻧﮕﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﮧ ﺣﺼﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺩﺳﺖ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ﻭﺭﻧﮧ ۔ ۔ ۔
" ﻭﺭﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ؟ "
ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺗﻠﺦ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﯿﮟ ، ﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
 " ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ۔ ۔ ۔ "
ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺫﺭﺍ ﺧﻮﺩ ﺳﺮ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ۔ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ،
 ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ !
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺳﮯ ﺣﻖ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺣﺼﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ؟؟ ۔ ۔ ۔
 ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ ۔ ۔ ۔
 ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ ،
 ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ
" ﺑﯿﭩﯽ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ💞💞

انسان خطا کا پتلا

خطا کا پتلا ہونا انسان کا وصف ٹھہرا تو اللہ نے بھی  اپنے رحم و کرم اور غافر الذنب کے وصف کو فوقیت دی، اللہ نے انسان کو ایسے معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے جیسے وہ نومولود بچہ ہو، جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہی نہ ہو، معافی مانگی جائے تو وہ مانگنا دل سے ہو، توبہ کی جائے تو وہ حقیقی ہو، اور ایسی ہو کہ دوبارہ اس عمل کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے جس سے توبہ کی ہے، پھر بھی ہم دل کے ہلکے ہیں ہماری توبہ ٹوٹتی جڑتی رہتی ہے، لیکن یاد رکھیں بار بار معافی مانگتے ہوئے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پتہ نہیں اب کی بار معافی ملے یا نہ ملے توبہ قبول ہو یا نہ ہو، اللہ کی طرف جانے والے راستے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، یہ اربابِ اقتدار کے وہ دروازے نہیں ہیں جو "میں'' پرستی میں ڈوبے، غرور و تکبر میں مبتلا ہیں کہ کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو دروازوں کے کواڑوں اسقدر سختی سے بھینچ ڈالتے ہیں کہ کوئی صدائیں لگاتا مر بھی جائے تو رحم کی کوئی کلی انکے پتھروں سے سخت دلوں میں نہیں کھلتی، یہ تو میرے اللہ کے دروازے ہیں جو بڑے سے بڑے گناہگار کے لیے بھی کبھی بند نہیں ہوئے، جب وہ معافی اور توبہ ویسے کرے جیسا اوپر بیاں ہو چکا ہے۔

چیزیں مل جاتی ہیں

یقین جانیں کہ کھوئ ہوئی چیزوں کی جگہ اچھی اور بہترین چیزیں لے لیتی ہیں۔ انسان کا گھر ، انسان کی دنیا نت نئی چیزوں سے بھرتی ہی رہتی ہے۔

جبکہ ہميں دنیاوی چیزوں کی نہیں"خوبیوں"کی ضرورت ہے ۔
ایمان کی، اخلاص کی اور اخلاق کی کہ ہم بہت اچھے نہ بھی بن سکیں تو بہت برے بھی نہ ہوجائیں۔

ہم کسی کے لیے سیڑھی نہ بن سکیں کہ اسے اوپر تک نہ لے جاسکیں تو اسے کھینچ کر نیچے بھی نہ پٹخ دیں۔

ہم گڑھے کھودنے والوں میں سے نہ ہوں بلکہ ان گڑھوں کو بھرنے والے ہوں۔

*آسانیاں پیداکرنا ظرف ہے، اور یہ بھی نیکی ہے کہ راستے کی رکاوٹ نہ بنا جائے۔

ماں اور پھول

ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺗﺮ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮉﺭﯾﺲ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﭖ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﮔﻠﺪﺳﺘﮯ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﮟﭘﯿﺴﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ ﺍﻭﺭ دکان سے ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔۔
ﺩﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺗﮭﮍﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : " ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ, ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ؟ "
ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " : ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ"
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ " : ﺑﯿﭩﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺅ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ, ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﻮ"
ﺟﺐ ﻟﮍﮐﯽ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﮬﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺴﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﺴﮑﺮﺍﮬﭧ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ"ﺑﯿﭩﯽ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮬﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭﮞ؟ "
ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺘﺮﻡ ! ﺟﺲ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮬﮯ ﻭﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺮﯾﺐ ﮬﯽ ﮬﮯ"
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﮑﺘﮧ ﮬﻮ ﮔﯿﺎﺯﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻼ ﺭﻧﺪﮪ ﮔﯿﺎﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮔﯿﺎ۔۔ﮔﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﮬﻮﺍ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺳﻮ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺩﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﻧﺬﺭ ﮐﺮ ﺩﮮ
(اللہ تعالیٰ سب کے والدین کواپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین)
( تاریخ اسلام کے واقعات )

غور و فکر

ایک آدمی سے ملنے اس کے کچھ دوست آۓ وه اپنے دوستوں کے لئے کافی لے آیا۔ کافی کپ ایک جیسے نہیں تھے کوئی کرسٹل کا کوئی پلاسٹک کا تو کوئی ماربل کا تھا اس آدمی کا کہنا ہے، کہ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک ایک کپ سب کو تھما دیا اور مجھے نہیں پتا کہ کس کے حصے میں کونسا کپ آیا لیکن میں نے کچھ دیر بعد غور کیا کہ سب لوگ کافی انجواۓ کرنے کے بجاۓ ایک دوسرے کے کپ کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں، جبکہ اصل چیز جس کو انجواۓ کرنا تھا وه کافی تھی جو سب کپ کے اندر ایک جیسی تھی۔

یہی حال زندگی کا ہے، جو سب کو ایک جیسی ملی ہے دکھ, اور سکھ کے ساتھ لیکن, ہم دوسروں کی زندگی کو حسرت کی نگاه سے دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی انجواۓ نہیں کر پاتے۔

Sunday, February 14, 2021

بدشگونی یا نیک شگون

اکثر و بیشتر آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا ہوگا، تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ دن اچھا نا گزرنے پر یا کوئی کام الٹ ہو جانے پر لوگ مخلتف چیزوں کو کوس رہے ہوتے ہیں مثلاً 

" آج صبح فلاں شخص میرت متھے لگا، میرا تو سارا دن ہی برا گزرا ۔۔۔
آج صبح ہی صبح فلاں کام الٹ ہو گیا جس کی وجہ سے آج میں سارا دن مصیبت میں رہا۔۔۔ 
آج فلاں شخص نے یہ بات مجھ سے کہہ دی جس کی وجہ میرا سے سارا دن خراب گزرا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ " 

اسے بدفالی کہتے ہیں اور بدفالی بھلے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو یہ صریح گناہ ہے_اسلام میں بدفالی اور بدشگونی کی حد درجے ممانعت کی گئ ہے، بدشگونی سے مراد تو یہی ہے کہ العیاذ باللہ ہمارا رب پہ اعتقاد کمزور پڑ گیا ہے اور ہم اللہ سے بدگمانی کر رہے ہیں_

ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ بدفالی یا بدشگونی تو منع ہے لیکن نیک شگون اور نیک فالی ہرگز منع نہیں_ اگر ایک کام اچھا ہوتا ہے تو آپ اللہ پہ نیک گمان کر سکتے ہیں کہ جیسے اللہ تعالی نے میرا یہ کام آسان بنایا وہ باقی کے سارے کام بھی اپنی رحمتِ واسعہ سے اچھے کرے گا_ واثق امید ہے کہ یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی اس امیدِ رحمت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے گا__

صحیح مسلم، سنن ابی داود اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: 

" ان عند ظن عبدی بی ان ظن بی خیر فلہ وان ظن شر فلہ " 

" میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، وہ اگر میرے بارے میں اچھا گمان کرتا ہے تو میرا اس کے ساتھ معاملہ ویسا ہی ہے، اور وہ میرے بارے میں برا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اس کے ساتھ ویسا ہی ہے۔۔۔"

حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں 
(صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان کی بنیاد ہے اسکی رحمت، اسکی قدرت اور اسکے مختارِ کل ہونے کا یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے__

جو اللہ تعالی کے بارے اچھا گمان رکھتا ہے اللہ تعالی اسکی دستگیری فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بندہ اپنے تئیں نیک کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ظن کو پورا کر دکھائے گا_ اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے بارے زبان سے یا عمل کے ذریعے بدگمان ہوگا تو اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ ناراض ہوں گے اور اس کے ظن کے مطابق ویسا ہی فیصلہ فرمائیں گے کیوں کہ اس کی رحمت سے مایوس تو وہی ہوتے ہیں جو کفر کرتے ہیں_
 
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے بدگمانی ایک مومن مسلمان کو زیب نہیں دیتی، البتہ حسنِ ظن باللہ ایک مسلمان کا حقیقی شیوہ ہے__
منقول

انسان نما کرونا

بات آج کی 
نعیم ثاقب 

انسان کے لیے صرف کرونا وائرس ہی مہلک نہیں بلکہ اس اردگرد چلتے پھرتے باتیں کرتے انسان نما کرونے وائرس اصل سے کہیں زیادہ جان لیوا ھوتے ہیں    
"ورجینیاوولف " کا کہنا ھے کہ وہ جو آپ کے خواب چھینتا ہے ، آپ کی زندگی چھین لیتا ھے۔ 
"مارک ٹوین نے کہا: "ان لوگوں سے دور رہیں جو آپ کے ارادوں کو کمزور 
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
یہ چھوٹے اور پست ذہن کےلوگ ہوتے ہیں اگر آپ بڑا بننا چاہتے ہیں اور اپنے بڑے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں  تو یہ ضرور دیکھ لیں کہ آپ کے ارد گرد کون لوگ ہیں اور آپ کن سے اپنے خواب شئیر کرتے ہیں بڑے خواب دیکھنے کے بعد سب سے اہم چیزلوگوں کا انتخاب ہے جن کو آپ اپنے خواب بتاتے ہو درست انتخاب عزائم کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کو آسان بنا دیتا ہے 
جب آپ چھوٹے اور منفی  لوگوں کواپنا  بڑا خواب بتائیں گے، تو وہ آپ کی حوصلہ شکنی کریں گے، اس میں فضول نقص نکالیں گے آئیڈیا چوری کرکے آپ کے مقابلے پہ آ جائیں گے آپ کا خواب ہر ایک کے ساتھ ، خاص طور پر چھوٹے ذہنوں کے ساتھ شئیر کرنے کے لیے نہیں ہے ، جو آپ کو ناکامی کی متعدد وجوہات دیکھنے پر مجبور کردے گا کہ خواب کیوں ناقابل عمل ہے لیکن وہ پوائنٹس نہیں بتاۓگا جو آپ کے خواب کی تعبیر کو ممکن بنا سکتے ہیں. 
جان سی میکسویل نے کہا: "جتنا بڑا خواب ھو ، اس کے حصول کے لیے آپ کو اتنا ہی بڑا آدمی بننا چاہئے۔" 
ایک چھوٹے  ذہن والا شخص بڑے مستقبل کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ہمیشہ بڑے خواب کا گلا گھونٹ دیتاہے ۔اپنے خوابوں میں ان لوگوں کو  کبھی بھی شریک نہ کریں جو بڑی تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
بہت سے خواب اس لیے بھی مر جاتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا منصوبہ ان لوگوں  کے ساتھ بناتے جن میں 'بڑی تصویر' کے نظریہ کی کمی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے آس پاس رہو جو آپ کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے تحریک دیتے ہیں ، نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے بڑے خوابوں کو اپنی چھوٹی سوچ سے مسل دیتے ہیں ۔
ایلون مسک جس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً پینتیس بلین ڈیلرز ہے ناسا وغیرہ میں تحقیق کررہا ہوتا، لیکن اس نے ملازمت کی بجائے ایک ایسی کمپنی کا آغاز کیا جو سپیس کے میدان میں  ناسا کا مقابلہ کرتی ہے۔ رچرڈ برانسن ٹریول ایجنٹ ہوتا، لیکن ورجن گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایمیزون کے باس ، جیف بیزوس ، کتاب بیچنے والی دکان میں جنرل منیجر ہوتے ، لیکن اس کے بجائے اب تک کی سب سے بڑی آن لائن فروخت  کا آغاز کیا۔
بل گیٹس کا خواب تھا ہر گھر میں ایک ذاتی کمپیوٹر ہو اور آج ، کچھ گھروں میں ایک سے زیادہ  کمپیوٹرز بھی ہیں۔ اسٹیو جاب کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ وہ پورے کمپیوٹر کو فون میں بند کر دے  اور آج آئی فون میں پرسنل کمپیوٹر سے بھی زیادہ فنکشن ہیں۔
ان عظیم لوگوں کی کامیابی  کا راز یہ تھا کہ انہوں نے خود کو چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگوں سے دور رکھا۔ 
ہینری فورڈ کی کہانی کہ اس نے کس طرح اپنے مالک اور سرپرست ، تھامس ایڈیسن کے ساتھ پٹرول موٹر کے بارے میں اپنے خیالات شیئر کیے ، بڑے ذہنوں  کی ایک انتہائی دلکش مثال ہے۔ 
1896 میں ، الیکٹرک بلب ایجاد کرنے والا عظیم موجد ایڈیسن کار ڈیزائن کرنے کے خیال پر کام کر رہا تھا جب اس نے سنا کہ اس کی کمپنی میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے تجرباتی کار بنائی ہے۔ ایڈیسن نے اس نوجوان سے نیویارک میں کمپنی کی پارٹی میں ملاقات کر کے کار کے بارے میں انٹرویو کیاوہ اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا۔ 
اس نے نوجوان کا آئیڈیا سنا جو کہ ایڈیسن سے بہتر تھا وہ خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا " یہ ہے اصل چیز " ویلڈن 
امریکہ کےانتہائی معزز موجد کی حوصلہ افزائی کے ان الفاظ کے ساتھ ، فورڈ نے اپنا کام جاری رکھا ، ایک کار ایجاد کی اور دولت مند بن گیا۔
9 دسمبر 1914 کو ، ایڈیسن کی لیبارٹری اور فیکٹری جل گئی۔ ان کی عمر 67 سال تھی اور انشورنس کور سے نقصان زیادہ تھا آگ کی راکھ سرد ہونے سے پہلے فورڈ نے ایڈیسن کو 750،000 ڈالر کا چیک دیا ، جس میں نوٹ لکھا ھوا تھا کہ ایڈیسن کو ضرورت پڑنے پر اور بھی مل سکتا ہے۔
1916 میں ، فورڈ نے اپنا گھر ایڈیسن کے گھر کے ساتھ والی عمارت میں منتقل کردیا اور جب ایڈیسن چل نہیں سکتا تھا بلکہ صرف وہیل چیئر تک محدود تھا تو فورڈ نے اپنے گھر میں  بھی وہیل چیئر رکھ لی  ، تاکہ وہ اپنے دوست کے ساتھ وہیل چیئر ریس لگاسکے۔
ایڈیسن نے فورڈ کو اعتماد دیا اور حوصلہ دیا اور اسے زندگی بھر کا دوست بنالیا۔ کبھی بھی دوسرے لوگوں کی کامیابیوں اور خوابوں سے حسد نہ کریں۔ جب آپ دوسروں کے خوابوں کی حمایت کرتے ہیں تو آپ ان کوزندگی بھر کے لئے اپنا  مداح بنا لیتے ہیں ۔اگر آپ اپنے بڑے خوابوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چھوٹے لوگوں سے دور رہنا ھو گا.جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑے سے مر جاتے ہیں۔ حسد اصل میں آپ کی کامیابی کے لیے چھوٹے ذہنوں کی طرف سے خراج تحسین ھوتا ہے۔ ارسطو نے کہا: "حسد دوسروں کی خوش قسمتی سے تکلیف کا نام ہے۔" حسد سے بھرا ھوا دماغ ہر اچھی اور بری چیز کو ناپسند کرتا ھے ۔
نپولین بوناپارٹ کا کہنا ھے: "حسد کمتری کا اعلامیہ ہے۔" حاسد لوگوں کو اپنے قریبی سرکل میں نہ لائیں۔ وہ آپ کے خواب کو دیوالیہ کردیں گے۔
والٹ ڈزنی نے کہا: " ہمارے تمام خواب سچ ہوسکتے ہیں اگر ہمارے اندر ان کے لیے محنت کرنے کا حوصلہ ھو ۔"
بڑے خواب دیکھیں، مگر اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات ضرور کریں ۔ بڑے خواب دیکھنے کے لئے جوان ہونا شرط نہیں ارادے کی مضبوطی اور خود پر یقین بنیادی شرط ہے اپنی صلاحیتوں کو آزمائیں اور عزائم کی تکمیل کے لیے کمر کس لیں پھر منزل زیادہ دور نہیں رہتی۔ مستقبل ان لوگوں کا ہوتا ھے جو اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں ۔
کبھی بھی اپنے خوابوں سے دستبردار نہ ہوں اور جب کوئی آپ سے کہے کہ ، "یہ نہیں ہوسکتا" تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی کو کبھی بھی مت بتانے دیں ، "آپ کچھ نہیں کر سکتے۔" آپ کےخواب ہیں اور آپ نے ان کی حفاظت کرنی ہے اور آپ کے خوابوں کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
البرٹ آئن اسٹائن نے کہا: "میں ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ سے کہا کہ "یہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں آج ان کی وجہ سے ہی یہ سب کر پایا ہوں "
اور آخری بات !انسان کو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ انسان نما کرونوں سے بچنے کی بھی اشد ضرورت ھے کیونک اصل کی علامتیں تو ظاہر ھو جاتیں ہیں لیکن یہ چالاک کرونے کوئی نشان نہیں چھوڑتے ۔

مٹی اور قیمت

لوہے کی ایک بار کی قیمت120 روپے ہے
اس سے اگر آپ گھوڑوں کے لئے نعل بنا دیں تو اسکی قیمت 1000روپے ہو گی۔
اس سے سوئیاں بنا دیں تو اسکی قیمت3000روپے ہو گی۔ اور اگر اس سے آپ گھڑیوں کے لئے بیلنس سپرنگ بنا دیں تو اسکی قیمت تین لاکھ روپے ہو گی۔
آپ نے اپنے آپ کو کیا بنایا ہے یہ امر آپکی قیمت طے کرتا ہے

مٹی کو بازار میں بیچیں تو قیمت بہت کم ہوگی
لیکن اینٹیں بنا کر بیچیں تو کچھ زیادہ قیمت ہوگی
اسی  مٹی سے برتن  بنا کر بیچیں تو دس گنا قیمت ہوگی۔

اگر مٹی کو خوبصورت مورتی یا مجسمہ بنا کر بیچیں تو وہ لاکھوں میں بکے گی۔

آپ خود کو دنیا میں کیا بنا کر پیش کرتے ہیں؟

ایک عام،روایتی اور منفی سوچ سے بھر پور انسان یا پھر
ایک بہترین،مثبت اور پر امن محبت پھیلانے والا فائدہ مند قیمتی ترین انسان ؟

فیصلہ آپ نے کرنا ہے

Sunday, February 7, 2021

تاریخ کے جھروکے __!!


مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ🇲🇻 بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔

مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔

عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

مگر یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا ؟

یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔

وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ 

مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے نمودار ہوتا تھا اور لوگ سمندر کے کنارے بنے بت خانہ میں ایک دوشیزہ کو بناؤ سنگھار کرکے رکھ دیتے وہ عفریت رات اس بت خانے میں گزارتا اور صبح وہ لڑکی مردہ پائی جاتی اور لوگ اس کی لاش کو جلاتے.

عفریت کے لئے دوشیزہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی ہوتا تھا اس بار قرعہ اندازی میں ایک بیوہ بڈھیا کی بیٹی کا نام نکل آئی اس پر رو رو کر بڈھیا نڈھال ہوچکی تھی گاؤں کے لوگ بھی بڈھیا کے گھر جمع تھے ،دور سے آئے اس مسافر نے بھی 
بڈھیا کے گھر کا رخ کیا اس کے استفسار پر اسے سب کچھ بتایا گیا کہ عفریت کے مظالم کتنے بڑھ گئے ہیں۔

مسافر نے بڈھیا کو دلاسہ دیا اور عجیب خواہش کا اظہار کیا کہ آج رات آپ کی بیٹی کی جگہ بت خانے میں مجھے بٹھایا جائے، پہلے تو وہ لوگ خوف کے مارے نہ مانے کہ عفریت غصہ ہوئے تو ان کا انجام بد ہوسکتا ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا وہ راضی ہوگئے، مسافر نے وضو کیا اور بت خانے میں داخل ہو کر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی 
عفریت آیا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلا گیا، لوگ صبح نہار بت خانہ کے باہر جمع ہوئے تاکہ لاش جلائی جا سکے لیکن مسافر کو زندہ دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئے۔

یہ مسافر مشہور مسلم داعی مبلغ اور سیاح ابو البرکات بربری تھے، ابو برکات کی آمد اور عفریت سے دو دو ہاتھ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، بادشاہ نے شیخ کو شاہی اعزاز کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا شیخ ابو برکات نے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی بادشاہ نے اسلام قبول کیا اور صرف 2 ماہ کے اندر مالدیب کے سب لوگ بدھ مت سے تائب ہو کر مسلمان ہوچکے تھے۔

یہ 1314ء کی بات ہےاس مبلغ اور داعی نے مالدیب کو اپنا مسکن بنایا لوگوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی، ہزاروں مسجدیں تعمیر کیں، اور مالدیب میں ہی فوت ہوئے اسی مٹی پر ہی دفن ہوئے۔

کہنے کو ابو البرکات بربری ایک شخص لیکن تنہا ایک امت کا کام کر گئے، آج بھی ان کو برابر اجر مل رہا ہوگا۔"