Saturday, February 20, 2021

غلطی اور اللّٰہ سے معافی

*💕 کبھی کبھی ہم اتنے شرمسار ہوتے ہیں اپنی غلطیوں پر کہ اللہ کی طرف پلٹ جانے سے بھی ڈرتے ہیں
، اس سے معافی مانگتے ہوئے بھی ڈرنے لگتے ہیں.
 کیا وہ معاف کرے گا بھی یا نہیں..؟ 
خود کو اس بچے کی جگہ رکھ کر سوچو جو غصے میں اپنی ماں پر چلایا ہو اور چلاتے ہی منہ کے بل زمین پر آ گرا ہو بس اس ٹھوکر کی دیر ہے تمہارے پکارنے کی دیر ہے، 
تمہاری آنکھ سے نکل کر رخسار تک آنسو کے آنے کی دیر ہے،
ماں اپنی تکلیف بھول کر، تمہاری چلاتی ہوئی آواز کو بھول کر تمہیں سینے سے لگا لیتی ہے، 
اب بھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اللہ تمہیں نہیں تھامے گا..؟
 اب بھی تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری تکلیف دور نہیں کرے گا..؟ 
وہ جس کی محبت عرش اور فرش سے کہیں وسیع ہے وہ جس کی محبت اس کے غضب پر بھاری ہے..* 💕

کلمہ اورطوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ  ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100 
 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ 
 ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

 " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ  ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ 
 ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ 

 " ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ 
 ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
 " ﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ" 

 ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ  ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔😓😓

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ  " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ 

 "ﮔﻠﻮ " ۔ 

 ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ساہیوﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ساہیوال ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ  ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ اپنے گاؤں کی وین ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔ 😍

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔😓 ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ 
!!!۔۔ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!!

ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے.

خوش رہیں۔۔💞

شایان شان

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا  اور چلا گیا لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو صحیح ۔

کامیابی کا راز

آپ کسی کو کامیابی کا راستہ تو دکھا سکتے ہو مگر  کامیاب نہیں کروا سکتے

مجھے ایک عظیم بزنس مین کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ھوا۔
اس انٹرویو میں اس نے دلچسپ باتیں کہیں۔
"دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ھو سکتا۔"

"انسان کی معاشی زندگی تب شروع ھوتی ھے جب وہ اپنے کام کا آغاز خود کرتا ھے۔"

👈اسکی دوسری بات
"کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔"

"اگر تعلیم سے روپیہ کمایا جا سکتا تو آج دنیا کا ھر پروفیسر ارب پتی ھوتا۔"

اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں۔
"ان میں سے کوئی بھی پروفیسر ، ماہر تعلیم شامل نہیں۔"

"دنیا میں ھمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی۔"
یہ لوگ وقت کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور میں ھی کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
"کامیابی ان کو کالج یا یونیورسٹی کی بجائے کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ھے۔"

میں زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا۔
"میری کمپنی میں اسوقت اعلی تعلیم یافتہ 30 ھزار مرد اور خواتین کام کرتے ہیں
یہ تعلیم یا فتہ لوگ مجھ سے وژن ، عقل اور دماغ میں بہت بہتر ہیں لیکن ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں۔
انہیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں۔

"اگرکوئی شخص میرے لیے کام کر سکتا ھے تو وہ اپنے لئے بھی کر سکتا ھے۔"
👈بس اس کے لئے زرا سا حوصلہ چاھئیے۔

"دنیا میں ھر چیز کا متبادل موجود ھے لیکن محنت کا نہیں۔"

"دنیا میں نکمے لوگوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں لیکن کام کرنے والوں کے لئے ساری دنیا کھلی پڑی ھے۔"
 
👈اس کی باتیں سن کے میں نے سوچا
👈جو خود کچھ نہیی کر سکتے وہ دوسروں کو بھی روکتے ھیں اور جو کچھ کرتے ھیں وہ دوسروں کو بھی کہتے ھیں آؤمل کر کریں ناکامی کام میں نہیی نااہل لوگوں میی ھوتی ھے  اب فیصلہ آپکا ناکام کی ماننی ھے یا جو کام کرنے کی ہمت کرنے میں لگا ھے اسکی

کاش کاش کاش۔ ۔ ۔
میں اس کی باتیں ان تمام پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بےروزگاری کا رونا روتے ہیں۔
مگر اب بھی فیصلہ آپ کا ہے کا آپ اس پوسٹ کو اپنی کامیابی کا راز سمجھیں یا ہوا میں اڑا دیں۔


پختہ ایمان....

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)

موت سے سبق

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــــــں :

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا ، شیر نے تین شکار کیے ،

ایک ہرن
ایک گائے
اور ایک خرگوش کا ۔

واپسی پر ریچھ بڑا اترا کر چلنے لگا کہ شکار میں ہمارا حصہ بھی ہے ، شیر بھانپ گیا اس نے ریچھ سے کہا کہ :

شکار کے متعلق کیا کہتے ہو ؟؟؟

اس نے کہا کہ شکار تین حصوں میں بٹے گا ۔

شیر نے کہا : اچھا ۔۔۔۔۔!!!!

پھر کرو تین حصے ۔

ریچھ کہتا ہے کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے بڑا ہے اسلئے گائے تیرے حصے میــــں ... میــــــــں درمیانہ ہوں اسلئے ہرن میرا اور خرگوش لومڑی کا ۔

شیر اس کی چالاکی کو سمجھ گیا اس نے پنجہ مارا اور ریچھ کو بھی مار دیا اب لومڑی سمجھ گئی ، چالاک جو ٹھہری ، اس نے سارا معاملہ سمجھ لیا ۔

اب شیر نے اس سے پوچھا کہ بتا :

تو کیسے حصہ کرے گی ؟

لومڑی نے کہا کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے ، خرگوش ناشتے میں کھائیں اور گائے دوپہر کو اور ہرن رات کو تناول فرمائیں ۔

شیر بڑا خوش ہوا اس نے لومڑی سے پوچھا کہ :


تو نے یہ تقسیم کہاں سے سیکھی ہے ؟؟؟

إس نے کہا : ریچھ کی موت سے ۔

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــں :

اے غافل انسان ! تو بھی کچھ موت سے سیکھ جا جب تیرے پاس تیرے اپنے ( عزیز و اقارب ) موت کی نیند سو جاتے ہیــــــــں ... تُو تو بھی سمجھ اور دھیان کر ......!!!

ﺑﯿﭩﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ؟ ؟


 ﺳﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺗﻼﻭﺕ ﺧﺘﻢ ﮐﯽ ، ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ، ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﺎﻭﻧﮕﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﮧ ﺣﺼﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺩﺳﺖ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ﻭﺭﻧﮧ ۔ ۔ ۔
" ﻭﺭﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ؟ "
ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺗﻠﺦ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﯿﮟ ، ﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
 " ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ۔ ۔ ۔ "
ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺫﺭﺍ ﺧﻮﺩ ﺳﺮ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ۔ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ،
 ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ !
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺳﮯ ﺣﻖ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺣﺼﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ؟؟ ۔ ۔ ۔
 ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ ۔ ۔ ۔
 ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ ،
 ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ
" ﺑﯿﭩﯽ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ💞💞

انسان خطا کا پتلا

خطا کا پتلا ہونا انسان کا وصف ٹھہرا تو اللہ نے بھی  اپنے رحم و کرم اور غافر الذنب کے وصف کو فوقیت دی، اللہ نے انسان کو ایسے معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے جیسے وہ نومولود بچہ ہو، جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہی نہ ہو، معافی مانگی جائے تو وہ مانگنا دل سے ہو، توبہ کی جائے تو وہ حقیقی ہو، اور ایسی ہو کہ دوبارہ اس عمل کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے جس سے توبہ کی ہے، پھر بھی ہم دل کے ہلکے ہیں ہماری توبہ ٹوٹتی جڑتی رہتی ہے، لیکن یاد رکھیں بار بار معافی مانگتے ہوئے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پتہ نہیں اب کی بار معافی ملے یا نہ ملے توبہ قبول ہو یا نہ ہو، اللہ کی طرف جانے والے راستے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، یہ اربابِ اقتدار کے وہ دروازے نہیں ہیں جو "میں'' پرستی میں ڈوبے، غرور و تکبر میں مبتلا ہیں کہ کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو دروازوں کے کواڑوں اسقدر سختی سے بھینچ ڈالتے ہیں کہ کوئی صدائیں لگاتا مر بھی جائے تو رحم کی کوئی کلی انکے پتھروں سے سخت دلوں میں نہیں کھلتی، یہ تو میرے اللہ کے دروازے ہیں جو بڑے سے بڑے گناہگار کے لیے بھی کبھی بند نہیں ہوئے، جب وہ معافی اور توبہ ویسے کرے جیسا اوپر بیاں ہو چکا ہے۔

چیزیں مل جاتی ہیں

یقین جانیں کہ کھوئ ہوئی چیزوں کی جگہ اچھی اور بہترین چیزیں لے لیتی ہیں۔ انسان کا گھر ، انسان کی دنیا نت نئی چیزوں سے بھرتی ہی رہتی ہے۔

جبکہ ہميں دنیاوی چیزوں کی نہیں"خوبیوں"کی ضرورت ہے ۔
ایمان کی، اخلاص کی اور اخلاق کی کہ ہم بہت اچھے نہ بھی بن سکیں تو بہت برے بھی نہ ہوجائیں۔

ہم کسی کے لیے سیڑھی نہ بن سکیں کہ اسے اوپر تک نہ لے جاسکیں تو اسے کھینچ کر نیچے بھی نہ پٹخ دیں۔

ہم گڑھے کھودنے والوں میں سے نہ ہوں بلکہ ان گڑھوں کو بھرنے والے ہوں۔

*آسانیاں پیداکرنا ظرف ہے، اور یہ بھی نیکی ہے کہ راستے کی رکاوٹ نہ بنا جائے۔