Saturday, February 20, 2021

احساس کی انتہا

ایک ریڑھی والے سے گول گپے کھانے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔"بھائی !! لاہور کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟"
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "سامنے اس ہوٹل کے پاس ۔"
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی ۔چائے واقعی بڑی مزیدار تھی ۔جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ گول گپے والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں ۔واپس دوڑتے ہوئے گول گپے والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں ،میں نے آپ سے گول گپے تو کھائے ہیں لیکن پیسے نہیں دیے؟"
تو گول گپے والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔"بھائی جس کے بچوں کی روزی انہی گول گپوں پہ لگی ہے ،وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟"
"تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟"
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
تو کہنے لگے"بھائی یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں،اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمساری نہ اٹھانا پڑے۔۔۔۔

جب تک مسلمان اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ اسکی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (مفہوم الحدیث)

ریاست مدینہ

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس زکوة کا مال آتا ہے
فرمانے لگے : غریبوں میں تقسیم کردو
بتلایا گیا اسلامی حکومت میں کوئی بھی فقیر نہیں رہا (اللہ اکبر)
فرمایا : اسلامی لشکر تیار کرو
بتلایا گیا اسلامی لشکر ساری دنیا میں گھوم رہے ہیں
فرمایا : نوجوانوں کی شادیاں کر دو
بتلایا گیا کہ شادی کے خواہش مندوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے
فرمایا : اگر کسی کے ذمہ قرض ہے تو ادا کر دو ، قرض ادا کرنے
کے بعد بھی مال بچ جاتا ہے
فرمایا : دیکھو ( یہودی اور عیسائیوں ) میں سے کسی پر قرض ہے تو ادا کردو
یہ کام بھی کر دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اھل علم کو مال دیا جائے ، 
اُن کو دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اس کی گندم خرید کر پہاڑوں کے اوپر ڈال دو
کہ مسلم حکومت میں کوئی پرندہ بھی بھو کا نہ رہے..

_(عربی کتاب "عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ از عبدالستار الشیخ الدمشقی "┅┄

کاش! میں اس قبر میں دفن کِیا جاتا



وہ ایک یتیم بچہ تھا۔اس کے چچا نے اس کی پرورش کی۔جب وہ بچہ جوان ہُوا تو چچانے اونٹ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی۔اس نے اسلام کے متعلق سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار نہ کرسکا۔
جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا "مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے۔میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا۔مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں"
چچا نے جواب دیا "دیکھ! اگر تو محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا۔تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا"
اس نے جواب دیا "چچا جان! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی اتباع قبول کروں گا۔شرک اور بت پرستی سے بیزار ہو چکا ہوں۔اب آپ کا جو منشاء ہے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے۔میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لیے میں ان کیلئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا"
اس نے یہ کہہ کر چچا کے دِیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہُوا اور کہا "میں مومن اور مسلمان ہوگیا ہوں، محمّد (صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں۔ستر پوشی کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے"
ماں نے ایک کمبل دے دِیا۔اس نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنالیا آدھا اوپر کر لِیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔
علی الصبح مسجدِ نبوی میں پہنچ گیا اور ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگا۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) جب مسجد میں آئے تو اسے دیکھ کر پوچھا "کون ہو؟"
کہا "میرا نام عبدالعزٰی ہے۔فقیر و مسافر ہوں طالبِ ھدایت ہو کر آپ کے در پر آپہنچا ہوں"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "آج سے تمہارا نام عبداللہ ہے "ذوالبجادین" لقب ہے۔تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو"
یوں عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحابِ صُفّہ میں شامل ہو گئے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا کرتے۔
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ہوتی ہے۔
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "عمر! اسے کچھ نہ کہو۔یہ تو اللہ اور اس کے رسول کیلئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے"
عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوۂ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا "الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں"
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا "یارسول اللہ ﷺ میں تو شہادت کا طالب ہوں"
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم نے فرمایا "جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گے"
تبوک پہنچ کر یہی ہُوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے۔
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے۔رات کا وقت تھا۔پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رہے تھے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرما رہے تھے "اپنے بھائی کو میرے قریب کرو"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی "اے اللہ! میں ان سے راضی ہُوا، تُو بھی ان سے راضی ہو جا"
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کاش! اس قبر میں، مَیں دفن کِیا جاتا...!! 
{بحوالہ مدارج النبوۃ(جلد 2صفحہ 90۔91)}

بنک اور کریڈٹ کارڈ


ایک لڑکا بڑے غصے میں گھر سے چلا آیا .

اتنا غصہ تھا کہ غلطی سے پاپا کے جوتے پہن کے نکل گیا
میں آج بس گھر چھوڑ دوں گا!! اور تبھی لوٹوں گا جب بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔!!

جب موٹر سائیکل نہیں دلوا سکتے تھے، تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں ؟!!

آج میں پاپا کا پرس بھی اٹھا لایا تھا .... جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے .

مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں کے حساب کی ڈائری ہوگی ....

پتہ تو چلے کتنا مال چھپا ہے ماں سے بھی .

اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو .

جیسے ہی میں عام راستے سے سڑک پر آیا، مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے ....
میں نے جوتا نکال کر دیکھا .
میری ایڑھی سے تھوڑا سا خون رس آیا تھا .
جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی، درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا .

اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر .

جیسے ہی کچھ دور چلا ....
مجھے پاؤں میں گیلا گیلا سا لگا، سڑک پر پانی پھیلا ہوا تھا .
پاؤں اٹھا کے دیکھا تو جوتے کی تلی پھٹی ہوئی تھی .

جیسے تیسے لنگڑا كر بس سٹاپ پر پہنچا پتہ چلا ایک گھنٹے تک بس نہیں آئے گی.

میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاشی لی جائے .

میں نے پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا .

لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرضے لئے پر !!!

لیپ ٹاپ تو گھر میں میرے پاس ہے؟

دوسرا ایک جوڑ مڑا دیکھا، اس میں ان کے آفس کی کسی شوق ڈے کا لکھا تھا
انہوں نے شوق لکھا: اچھے جوتے پہننا .
اوہ .... اچھے جوتے پہننا ؟؟؟
پر انکے جوتے تو . !!!!

ماں گذشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی ہے: نئے جوتے لے لو ...
اور وہ ہر بار کہتے: "ابھی تو 6 ماہ جوتے اور چل جائیں گے .."
میں اب سمجھا کتنے چل جائیں گے؟؟؟

تیسری پرچی .
پرانا سکوٹر دیجئے ایکسچینج میں نئی موٹر سائیکل لے جائیں .
پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا .
پاپا کا سکوٹر .
اوہ ہ ہ ہ ہ

میں گھر کی طرف بھاگا .
اب پاؤں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی .
میں گھر پہنچا .
نہ پاپا تھے نہ سکوٹر .
اوههه!!
نہیں!!
میں سمجھ گیا کہاں گئے؟ .

میں بھاگا .
اور
ایجنسی پر پہنچا .
پاپا وہیں تھے .

میں نے ان کو گلے سے لگا لیا، اور آنسؤوں سے ان کا کندھا بھیگ گیا .

نہیں ... پاپا نہیں ........ مجھے نہیں چاہئے موٹر سائیکل .

بس آپ نئے جوتے لے لو اور مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے .

وہ بھی آپ کے طریقے سے .

"ماں" ایک ایسی بینک ہے جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کر سکتے ہیں .

اور

"پاپا" ایک ایسا کریڈٹ کارڈ ہے جن کے پاس بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خواب پورے کرنے کی کوشش ہے..!!

*خدارا اپنے والدین کی قدر کریں❤❤*

غلطی اور اللّٰہ سے معافی

*💕 کبھی کبھی ہم اتنے شرمسار ہوتے ہیں اپنی غلطیوں پر کہ اللہ کی طرف پلٹ جانے سے بھی ڈرتے ہیں
، اس سے معافی مانگتے ہوئے بھی ڈرنے لگتے ہیں.
 کیا وہ معاف کرے گا بھی یا نہیں..؟ 
خود کو اس بچے کی جگہ رکھ کر سوچو جو غصے میں اپنی ماں پر چلایا ہو اور چلاتے ہی منہ کے بل زمین پر آ گرا ہو بس اس ٹھوکر کی دیر ہے تمہارے پکارنے کی دیر ہے، 
تمہاری آنکھ سے نکل کر رخسار تک آنسو کے آنے کی دیر ہے،
ماں اپنی تکلیف بھول کر، تمہاری چلاتی ہوئی آواز کو بھول کر تمہیں سینے سے لگا لیتی ہے، 
اب بھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اللہ تمہیں نہیں تھامے گا..؟
 اب بھی تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری تکلیف دور نہیں کرے گا..؟ 
وہ جس کی محبت عرش اور فرش سے کہیں وسیع ہے وہ جس کی محبت اس کے غضب پر بھاری ہے..* 💕

کلمہ اورطوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ  ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100 
 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ 
 ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

 " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ  ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ 
 ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ 

 " ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ 
 ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
 " ﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ" 

 ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ  ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔😓😓

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ  " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ 

 "ﮔﻠﻮ " ۔ 

 ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ساہیوﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ساہیوال ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ  ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ اپنے گاؤں کی وین ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔ 😍

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔😓 ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ 
!!!۔۔ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!!

ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے.

خوش رہیں۔۔💞

شایان شان

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا  اور چلا گیا لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو صحیح ۔

کامیابی کا راز

آپ کسی کو کامیابی کا راستہ تو دکھا سکتے ہو مگر  کامیاب نہیں کروا سکتے

مجھے ایک عظیم بزنس مین کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ھوا۔
اس انٹرویو میں اس نے دلچسپ باتیں کہیں۔
"دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ھو سکتا۔"

"انسان کی معاشی زندگی تب شروع ھوتی ھے جب وہ اپنے کام کا آغاز خود کرتا ھے۔"

👈اسکی دوسری بات
"کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔"

"اگر تعلیم سے روپیہ کمایا جا سکتا تو آج دنیا کا ھر پروفیسر ارب پتی ھوتا۔"

اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں۔
"ان میں سے کوئی بھی پروفیسر ، ماہر تعلیم شامل نہیں۔"

"دنیا میں ھمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی۔"
یہ لوگ وقت کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور میں ھی کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
"کامیابی ان کو کالج یا یونیورسٹی کی بجائے کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ھے۔"

میں زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا۔
"میری کمپنی میں اسوقت اعلی تعلیم یافتہ 30 ھزار مرد اور خواتین کام کرتے ہیں
یہ تعلیم یا فتہ لوگ مجھ سے وژن ، عقل اور دماغ میں بہت بہتر ہیں لیکن ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں۔
انہیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں۔

"اگرکوئی شخص میرے لیے کام کر سکتا ھے تو وہ اپنے لئے بھی کر سکتا ھے۔"
👈بس اس کے لئے زرا سا حوصلہ چاھئیے۔

"دنیا میں ھر چیز کا متبادل موجود ھے لیکن محنت کا نہیں۔"

"دنیا میں نکمے لوگوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں لیکن کام کرنے والوں کے لئے ساری دنیا کھلی پڑی ھے۔"
 
👈اس کی باتیں سن کے میں نے سوچا
👈جو خود کچھ نہیی کر سکتے وہ دوسروں کو بھی روکتے ھیں اور جو کچھ کرتے ھیں وہ دوسروں کو بھی کہتے ھیں آؤمل کر کریں ناکامی کام میں نہیی نااہل لوگوں میی ھوتی ھے  اب فیصلہ آپکا ناکام کی ماننی ھے یا جو کام کرنے کی ہمت کرنے میں لگا ھے اسکی

کاش کاش کاش۔ ۔ ۔
میں اس کی باتیں ان تمام پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بےروزگاری کا رونا روتے ہیں۔
مگر اب بھی فیصلہ آپ کا ہے کا آپ اس پوسٹ کو اپنی کامیابی کا راز سمجھیں یا ہوا میں اڑا دیں۔


پختہ ایمان....

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)