کیا دیکھ رہی ہو؟
اپنی جلی ہوئی بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ایک پل کو رکی....سوال پوچھنے والے کو دیکھنے کی بجائے آنکھیں موند لیں اس نے.....جب آگ لگتی ہے تو جلن نہیں ہوتی کیا تمھے تکلیف نہیں ہوتی جو چیختی چلاتی نہیں ہو....اب کی بار اس نے لب کھولے اور مسکراہٹ سجائے ہوئے کہا..... یہ روز کی بات ہے اب عادت پڑ چکی ہے.....
نہیں میں نہیں مانتا روز نئے زخم ملنا الگ بات ہے پر روز انہی زخموں کو بار بار جلایا جانا ناخنوں کو جسم میں گاڑھ دینا پھر روز ان کی گہرائی میں مزید اضافہ کرنا سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے تو تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ عادت پڑ چکی ہے.....
جب یہ زخم ملتے ہیں نہ تکلیف تب نہیں ہوتی تکلیف تب ہوتی ہے جب ان زخموں کے نشان جسم سے جا نہیں پاتے جب روز مجھے یہ داغ دیکھنے پڑتے ہیں تو مجھ پر گزری راتوں کا ایک ایک پل یاد آتا ہے یہ داغ میرے جسم پر نہیں روح پر پڑ چکے ہیں جنہیں میں لاکھ کوششوں کے بعد بھی مٹا نہیں پاتی جب زخم نہیں بھی ملتے نہ تب بھی یہ داغ میری روح کو نوچتے ہیں یادیں میرے دماغ کو ناخنوں کی مانند کھڑوچتی ہیں تکلیف تب ہوتی ہے بہت ہوتی ہے اذیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بس نہیں چلتا کچھ ایسا کروں کہ چھڑی لے کر اپنے جسم کی پوری کھال ہی اتار دوں تاکہ یہ تازہ زخم اور داغ دوبارہ نہ دیکھ سکوں.....
اتنی تکلیف سہتی ہو پر حلق سے ایک آواز تک نہیں نکلتی تمھارے کیوں مجھے تم انسان نہیں لگتی یا پھر انسان ہو ہی نہیں کیونکہ کوئی انسان اتنے ضبط سے اتنی طاقتور مخلوق کا تشدد برداشت نہیں کر سکتا....تم بھول رہے ہو اسی لئے خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے اس نے مسکرا کر جواب دیا جسے سن کر وہ یکدم خاموش ہو گیا اس کی گرم سانسوں کے تھپیڑے پڑنا کم ہو گئے اور پھر مدہم سی آواز آئی کاش میں تمھاری مدد کر سکتا ان بھیڑیوں سے چھٹکارا دلا سکتا تمھے تمھارے اپنوں کے تم پر کئے گئے یہ ظلم مجھے یقین دلا دیتے ہیں کہ کچھ انسان خود شیطان ہوتے ہیں.....
میری مدد میرا رب کرے گا بس شاید ابھی وقت نہیں ہے اس لئے خاموش ہے وہ پر مجھے یقین ہے اس دیری میں بھی کوئی حکمت ہو گی اس کی اور میں نے اپنا معاملہ اسی پر چھوڑ رکھا ہے وہ بہتر جانتا ہے معاف کرنا ہے یاسزا دینی ہے.... یہی توکل تم انسانوں کو اشرف المخلوقات بناتا ہے آج اس راز کو جان لیا ہے میں نے کوشش کروں گا خدامجھے معاف کر دے اور اب اسی کی طرف لوٹ رہا ہوں کبھی جو مجھے معاف کر سکو تو بس زرا سی آواز دے لینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا... ....کافی دیر خاموشی محسوس کرکے اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا اس کو نوچنے والے درندوں میں سے ایک بھیڑیا کم ہو گیا تھا درد کی لہریں اٹھتی اٹھتی کناروں تک آ ہی گئی تھیں اور پھر باندھ توڑ کر آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہنے لگی تھیں.....
روح پر جوداغ پڑ جائیں وہ کسی مرہم دوا سے نہیں جاتے وہ داغ اپنی تکلیف کی پہلے دن جیسی شدت سمیت قبر تک ساتھ جاتے ہیں.....
اپنی جلی ہوئی بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ایک پل کو رکی....سوال پوچھنے والے کو دیکھنے کی بجائے آنکھیں موند لیں اس نے.....جب آگ لگتی ہے تو جلن نہیں ہوتی کیا تمھے تکلیف نہیں ہوتی جو چیختی چلاتی نہیں ہو....اب کی بار اس نے لب کھولے اور مسکراہٹ سجائے ہوئے کہا..... یہ روز کی بات ہے اب عادت پڑ چکی ہے.....
نہیں میں نہیں مانتا روز نئے زخم ملنا الگ بات ہے پر روز انہی زخموں کو بار بار جلایا جانا ناخنوں کو جسم میں گاڑھ دینا پھر روز ان کی گہرائی میں مزید اضافہ کرنا سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے تو تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ عادت پڑ چکی ہے.....
جب یہ زخم ملتے ہیں نہ تکلیف تب نہیں ہوتی تکلیف تب ہوتی ہے جب ان زخموں کے نشان جسم سے جا نہیں پاتے جب روز مجھے یہ داغ دیکھنے پڑتے ہیں تو مجھ پر گزری راتوں کا ایک ایک پل یاد آتا ہے یہ داغ میرے جسم پر نہیں روح پر پڑ چکے ہیں جنہیں میں لاکھ کوششوں کے بعد بھی مٹا نہیں پاتی جب زخم نہیں بھی ملتے نہ تب بھی یہ داغ میری روح کو نوچتے ہیں یادیں میرے دماغ کو ناخنوں کی مانند کھڑوچتی ہیں تکلیف تب ہوتی ہے بہت ہوتی ہے اذیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بس نہیں چلتا کچھ ایسا کروں کہ چھڑی لے کر اپنے جسم کی پوری کھال ہی اتار دوں تاکہ یہ تازہ زخم اور داغ دوبارہ نہ دیکھ سکوں.....
اتنی تکلیف سہتی ہو پر حلق سے ایک آواز تک نہیں نکلتی تمھارے کیوں مجھے تم انسان نہیں لگتی یا پھر انسان ہو ہی نہیں کیونکہ کوئی انسان اتنے ضبط سے اتنی طاقتور مخلوق کا تشدد برداشت نہیں کر سکتا....تم بھول رہے ہو اسی لئے خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے اس نے مسکرا کر جواب دیا جسے سن کر وہ یکدم خاموش ہو گیا اس کی گرم سانسوں کے تھپیڑے پڑنا کم ہو گئے اور پھر مدہم سی آواز آئی کاش میں تمھاری مدد کر سکتا ان بھیڑیوں سے چھٹکارا دلا سکتا تمھے تمھارے اپنوں کے تم پر کئے گئے یہ ظلم مجھے یقین دلا دیتے ہیں کہ کچھ انسان خود شیطان ہوتے ہیں.....
میری مدد میرا رب کرے گا بس شاید ابھی وقت نہیں ہے اس لئے خاموش ہے وہ پر مجھے یقین ہے اس دیری میں بھی کوئی حکمت ہو گی اس کی اور میں نے اپنا معاملہ اسی پر چھوڑ رکھا ہے وہ بہتر جانتا ہے معاف کرنا ہے یاسزا دینی ہے.... یہی توکل تم انسانوں کو اشرف المخلوقات بناتا ہے آج اس راز کو جان لیا ہے میں نے کوشش کروں گا خدامجھے معاف کر دے اور اب اسی کی طرف لوٹ رہا ہوں کبھی جو مجھے معاف کر سکو تو بس زرا سی آواز دے لینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا... ....کافی دیر خاموشی محسوس کرکے اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا اس کو نوچنے والے درندوں میں سے ایک بھیڑیا کم ہو گیا تھا درد کی لہریں اٹھتی اٹھتی کناروں تک آ ہی گئی تھیں اور پھر باندھ توڑ کر آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہنے لگی تھیں.....
روح پر جوداغ پڑ جائیں وہ کسی مرہم دوا سے نہیں جاتے وہ داغ اپنی تکلیف کی پہلے دن جیسی شدت سمیت قبر تک ساتھ جاتے ہیں.....