Saturday, March 13, 2021

سات مجاہدوں کی ماں

حضرت عفراء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سات بیٹے تھے۔ان کی پہلی شادی حارث بن رفاعہ سے ہوئی، ان سے تین بیٹے معاذ، معوذ، اور عوف پیدا ہوئے اور دوسری شادی بکیراللیثی سے ہوئی اور ان سے چار بیٹے ایاس، عاقل، خالد اور عامر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ پہلے تینوں بیٹے بنوعفراء ماں کے نام سے پکارے جاتے تھے۔آپ کے سات بیٹے تھے سبھی نبی کریم ٖ ﷺ کے ہمراہ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
آپ کے ساتوں بیٹوں نے غزوہ بدر میں بہت عمدہ کردار ادا کیا۔معرکے کے آغاز میں عفراء کے بیٹے معوذ اور عوف رضی اللہ عنہم آگے بڑھے اور دعوت دی مگر مشرکین نے انکار کردیا۔عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوکر عرض کی 'یارسول اللہﷺ! اللہ رب العزت اپنے بندے کے کس کارنامے سے مسکراتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:-بغیر زرہ پہنے دشمن کی صفوں میں گھس جانا 
حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے زرہ اتار پھینک دی۔ پھر تلوار پکڑی اور معرکے میں کودگئے۔انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ موت پر غالب آجائیں گے یا موت ان پر غالب آجائے گی۔آپ معرکہ آرائی میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے اللہ سے جاملے۔ پھر ان کے دونوں حقیقی بھائی معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما نے مل کر ابوجہل بن ہشام کوقتل کیا۔
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا'ہمارے لئے کون دیکھے گا کہ ابوجہل نے کیا کیا؟حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گئے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے اسے تلوار سے وار کرکے ٹھنڈا کردیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑ کر کہا"ارے ابوجہل ہے؟اس نے کہا !کیا تم نے کبھی مجھ سے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے؟کاش مجھے کسان کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔
رسول اللہﷺ عفراء کے دونوں بیٹوں کی لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا:اللہ تعالی عفراء رضی اللہ عنہ نے دونوں بیٹوں پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ان دونوں نے مل کر امت کے فرعون کو قتل کیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عفراء رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے عاقل، عوف، اور معوذ رضی اللہ عنہما میدان بدر میں شہید ہوئے۔یہ اعزاز حضرت عفراء رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا کہ سات بیٹے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور تین شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ہم میں سے بہت سے کم لوگ ان کے بارے میں جانتے تھے۔

_[انتخاب: صحابیات'طیبات​]_

Friday, March 12, 2021

بدبودار معاشرہ

       امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بچے کے خلاف مقدمہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھرمیں ایک کتا پالا ہوا ہے، روزانہ چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے، اسے نہلاتا ہے، اس کی ضروریات پوری کرتاہے، اسے اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے، روزانہ سیر کرواتا ہے اور کھلاتا پیلاتا بھی خوب ہے اور میں بھی اسی گھرمیں رہتی ہوں لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا، اس لئے عدالت کو چائیے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کا پاپند کرے۔

          جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمے لڑنے کی تیاری کرلی، ماں بیٹے نے وکیل کر لیا دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے جو فیصلہ سنایا ملاحظہ کیجئے۔

    "عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں 5 منٹ کے لیے بھی آنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ ملک کا قانون ہے جب اولاد 18سال کی ہوجائے تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے یا بالکل علیحدہ ہو جائے۔

    رہی بات کتے کی تو کتے کے حقوق لازم ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے، البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چائیے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے تو وہ اسے بوڑھوں کے گھر لے جائیں گے اور وہاں اس کی خبرگیری کریں گے۔

   یہ وہ متعفن اقدار ہیں جن کے پیچھے ہمارے بہت سے لوگ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ یقین کریں ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت جیسی اعلیٰ روایات ہماری اسی مغربی تقلید کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہیں۔

    اسلام میں دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انکے ساتھ احسان کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے، اس لیے اگر ہم اسلام کے دامن میں پناہ نہیں لیتے تو بہت جلد ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہی ہوگا جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھ کر انکی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔

قوت ایمانی

ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ایک ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﯿﺰ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﮍﯾﺎ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ رضی اللّٰه عنهُ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺍﭨﮭﺎﻟﯿﮟ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﻠﻌﮯ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:
"ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ، ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔"
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﻮﻻ: "ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﻮﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﮨﻮﮔﺎ۔"
ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ:
"ﯾﮧ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ تو ﻣﺮ ﺟﺎﺋﮯ۔"
ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﻮﻻ، ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﭘﮍﯾﺎ ﭘﮑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ:
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺑﺎﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻷﺭﺽ ﻭﺭﺏ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﻀﺮ ﻣﻊ ﺍﺳﻤﻪ ﺩﺍﺀ۔
ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺯﮨﺮ ﭘﮭﺎﻧﮏ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔۔۔!!!

ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
"ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﮔﺮ ﻣﻮﺕ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺯﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮕﺎﮌﺗﺎ۔" ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﺋﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﻠﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﺪﺍ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺘﻨﺎ ﺯﮨﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ، ﺍﮔﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻣﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻣﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﮐﻨﺎﺭ، ﻭﮦ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﻧﻮ ﺗﻮ ﻗﻠﻌﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔"
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﻗﻠﻌﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﻮﺕِ ﺍﯾﻤﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔۔۔۔

اچھا انسان

اچھا انسان وہی ہے جو معاف کرنا جانتا ہے
انسان انسان کو ایسے معاف کرے جیسے اللہ تعالی سے اُمید رکھتا ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دے

ہم انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پُتلا ہے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتے ہیں  ہم فرشتے نہیں جو ہر گناہ سے پاک ہیں ایک انسان غلطی کرتا ہے تو وہی غلطی کسی  دوسرے سے بھی ہو سکتی ہے دوسروں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہو گی

 ہمیشہ ایک انسان غلطی کرتا رہے اور دوسرا نہ کرے ایسا نہیں ہوتا کسی کے پاس علم زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ زیادہ علم بہتر ہے تو یہ کہنا غلط ہو گا اگر زیادہ علم والے کا عمل کم ہے اور کم علم والے کا عمل زیادہ ہے تو میری نظر میں کم علم بہترین انسان ہے جو علم کم ہونے کے باوجود زیادہ عمل کی طرف سے توجہ رکھے ہوئے ہے

ہم مسلمان ہیں اور ہمیں ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور جلدی سے معاف کر دو  اُن کے لیئے دل میں بغض نہ رکھو  ان کے ساتھ خوش سلوکی سے پیش آؤ اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اس سے بدلہ لو اور اسے جگہ جگہ ذلیل کرو وہ کیسا مومن مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں ہمارے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بھی اس کے رزق اور مال میں برکت ہوتی ہے اور بندے کے معاف کر دینے سے اپنا کچھ کم نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس کی عزت اور بھی بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے.
اللہ تعالی سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنی غلطیوں کو جاننے اور اس کو سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کی غیبت کرنے  جھوٹ بولنے  غرور کرنے اور دلوں میں بغض رکھنے کسی سے حسد کرنے اور کسی کا دل دُکھانے سے باز رکھے آمین یا رب العالمین 

داغ.....

کیا دیکھ رہی ہو؟
اپنی جلی ہوئی بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ایک پل کو رکی....سوال پوچھنے والے کو دیکھنے کی بجائے آنکھیں موند لیں اس نے.....جب آگ لگتی ہے تو جلن نہیں ہوتی کیا تمھے تکلیف نہیں ہوتی جو چیختی چلاتی نہیں ہو....اب کی بار اس نے لب کھولے اور مسکراہٹ سجائے ہوئے کہا..... یہ روز کی بات ہے اب عادت پڑ چکی ہے.....
نہیں میں نہیں مانتا روز نئے زخم ملنا الگ بات ہے پر روز انہی زخموں کو بار بار جلایا جانا ناخنوں کو جسم میں گاڑھ دینا پھر روز ان کی گہرائی میں مزید اضافہ کرنا سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے تو تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ عادت پڑ چکی ہے.....
جب یہ زخم ملتے ہیں نہ تکلیف تب نہیں ہوتی تکلیف تب ہوتی ہے جب ان زخموں کے نشان جسم سے جا نہیں پاتے جب روز مجھے یہ داغ دیکھنے پڑتے ہیں تو مجھ پر گزری راتوں کا ایک ایک پل یاد آتا ہے یہ داغ میرے جسم پر نہیں روح پر پڑ چکے ہیں جنہیں میں لاکھ کوششوں کے بعد بھی مٹا نہیں پاتی جب زخم نہیں بھی ملتے نہ تب بھی  یہ داغ میری روح کو نوچتے ہیں یادیں میرے دماغ کو ناخنوں کی مانند کھڑوچتی ہیں تکلیف تب ہوتی ہے بہت ہوتی ہے اذیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بس نہیں چلتا کچھ ایسا کروں کہ چھڑی لے کر اپنے جسم کی پوری کھال ہی اتار دوں تاکہ یہ تازہ زخم اور داغ دوبارہ نہ دیکھ سکوں.....
اتنی تکلیف سہتی ہو پر حلق سے ایک آواز تک نہیں نکلتی تمھارے کیوں مجھے تم انسان نہیں لگتی یا پھر انسان ہو ہی نہیں کیونکہ کوئی انسان اتنے ضبط سے اتنی طاقتور مخلوق کا تشدد برداشت نہیں کر سکتا....تم بھول رہے ہو اسی لئے خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے اس نے مسکرا کر جواب دیا جسے سن کر وہ یکدم خاموش ہو گیا اس کی گرم سانسوں کے تھپیڑے پڑنا کم ہو گئے اور پھر مدہم سی آواز آئی کاش  میں تمھاری مدد کر سکتا ان بھیڑیوں سے چھٹکارا دلا سکتا تمھے تمھارے اپنوں کے تم پر کئے گئے یہ ظلم مجھے یقین دلا دیتے ہیں کہ کچھ  انسان خود شیطان ہوتے ہیں.....
میری مدد میرا رب کرے گا بس شاید ابھی وقت نہیں ہے اس لئے خاموش ہے وہ پر مجھے یقین ہے اس دیری میں بھی کوئی حکمت ہو گی اس کی اور میں نے اپنا معاملہ اسی پر چھوڑ رکھا ہے وہ بہتر جانتا ہے معاف کرنا ہے یاسزا دینی ہے.... یہی توکل تم انسانوں کو اشرف المخلوقات بناتا ہے آج اس راز کو جان لیا ہے میں نے کوشش کروں گا خدامجھے معاف کر دے اور اب اسی کی طرف لوٹ رہا ہوں کبھی جو مجھے معاف کر سکو تو بس زرا سی آواز دے لینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا... ....کافی دیر خاموشی محسوس کرکے اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا اس کو نوچنے والے درندوں میں سے ایک بھیڑیا کم ہو گیا تھا درد کی لہریں اٹھتی اٹھتی کناروں تک آ ہی گئی تھیں اور پھر باندھ توڑ کر  آنسوؤں کی شکل میں  آنکھوں سے بہنے لگی تھیں.....

روح پر جوداغ پڑ جائیں وہ کسی مرہم دوا سے نہیں جاتے وہ داغ اپنی تکلیف کی پہلے دن جیسی شدت سمیت قبر تک ساتھ جاتے ہیں..... 

Thursday, March 11, 2021

بہترین تحفہ

زندگی کا بہترین تحفہ وقت ہے


👈 ‏ایک سال کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو...
جو امتحان میں ناکام ہوا...

👈 ایک مہینہ کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو۔۔۔۔
 جسے تنخواہ نہیں ملی......

👈 ایک ہفتے کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو ہسپتال میں داخل ہے......

👈 ‏ایک دن کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جس نے روزہ رکھا.....

👈 ایک گھنٹہ کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو کسی کا انتظار کر رہا ہوں......

👈 ایک منٹ کی اہمیت کا جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جس کی ٹرین چھوٹ گئی ہو......

👈 ‏ایک سیکنڈ کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو کسی حادثے سے بچ گیا.....

زندگی کا بہترین تحفه "وقت" ہوتا ہے جو ہم اپنے پیاروں کے لیے اپنی مصروفیت میں سے نکالتے ہیں...!

Wednesday, March 10, 2021

آدمی اور بلی

ایک آدمی بازار جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک بلی پر پڑی جو روڈ کی ایک طرف کسی مین ہول میں پھنسی ہوئی تھی۔ بلی زور زور سے چیخ رہی تھی اور پوری طاقت لگا رہی تھی مگر اس ہول سے باہر نہ نکل پا رہی تھی۔ اتنے میں اس آدمی نے بلی کو دیکھ لیا اور اس کے دل میں بلی کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی۔ یہ آدمی اس کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا کہ بلی اس کا ہاتھ پکڑ کر زور لگائے گی تو شاید باہر نکل آئے۔ بلی بیچاری پہلے ہی بہت ڈری ہوئی تھی سمجھی کہ یہ آدمی مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے تو بلی اس کے ہاتھ کو پنجے مارنے لگی۔تین دفعہ آدمی نے لگا تار ہاتھ آگے کیا کہ بلی شاید اس کا ہاتھ تھام کر مین ہول سے نکل پائے لیکن تینوں دفعہ بلی نے اس کے ہاتھ پر خوب پنجے مارے۔ یہ دیکھ کر پاس میں کھڑے ایک شخص نے بولا : او بیوقوف۔۔۔تمہیں بلی کی فطرت کا نہیں پتہ؟۔یہ کبھی بھی تمہاری مدد نہیں لے گی بلکہ ہر بار تمہارا ہاتھ ہی زخمی کرے گی، کیوں اپنا ٹائم ضائع کرتے ہو، چھوڑو اس کو۔ نکلنا ہوا تو خود ہی نکل آئے گی ورنہ کسی گاڑی کے نیچے آکے مر جائے گی۔ خود کو بلاوجہ ہلکان مت کرو۔ جو آدمی بلی کی مدد کی غرض سے اپنا ہاتھ زخمی کروا رہا تھا، اسکی بات پر ٹس سے مس نہ ہوا اور ایک بار پھر اپنا ہاتھ پیار سے آگے کر دیا۔ دوسرا آدمی جو تنقید کر رہا تھا سر ہلا کر چلا گیا کہ یہ تو بیوقوف ہے۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دوں۔تھوڑی دیر بلی اسی طرح اس کو پنجے مارتی رہی پر آخرکار بلی سمجھ گئی کہ اس آدمی نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہچانا۔ بلی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زور لگایا اور مین ہول سے باہر آگئی اور اپنی راہ لی۔ 

دنیا میں لوگ ہمیشہ کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں 
دنیا کا آسان ترین کام تنقید کرنا ہے، 
ہمیشہ دوسروں کی مدد کرو اور ہر ایک کے ساتھ ویسا برتاؤ کرو جیسا تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ کریں مگر امیدیں نہ لگاؤ بس اپنا فرض ٹھیک سے ادا کرو کیونکہ تمہارا کام صرف اپنا محاسبہ ہے۔

Tuesday, March 9, 2021

علم ہی نہیں عمل بھی.....

یہ 1957ء كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا- تقریب کے اختتام پر *پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم* ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف كی كی درخواست كی- ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کئے، نظریں اٹھائیں اور بیوروکریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

"میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟"

سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں-
ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

"تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں- وہ لوگ تاریخ کیسے بناسکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو- تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے-"

سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا- 

(مختار مسعود کی کتاب آواز دوست)

انوکھا خط

انوکھا خط 
اشتیاق احمد
شاہد قمر کو ملنے والا خط اس کے لیے ایک انوکھا خط تھا۔
وہ خط اسے گھر کے دروازے کے اندر کی طرف چوکھٹ پر پڑا ملا تھا۔ گویا کوئی اس خط کو نیچے سے سرکا گیا تھا۔ خط پر ڈاک خانے کی مہر نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ خط لکھنے والے نے یہ خط خود یہاں ڈالا تھا یا کسی کے ذریعے سے بھیجا تھا۔ صبح کا گیا جب وہ شام کو تھکا ہارا لوٹا اور گھر کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو اس کی نظر خط پر پڑی۔ ا س نے ایک حیرت بھری نظر اس پر ڈالی اور اسے اٹھا لیا۔ بے چینی کے عالم میں لفافہ چاک کیا تو اندر سے ایک سفید کاغذ نکلا۔ اس پر یہ الفاظ درج تھے:
"مجھے معلوم ہے آج کل آپ بالکل بے کار ہیں۔ آپ کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ آپ تمام دن ملازمت تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ میں بھی اس دنیا میں اکیلا ہوں اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے کام آنا چاہتا ہوں۔ آپ کل شام ٹھیک سات بجے مجھ سے اس پتے پر مل لیں۔ میرا نام سرفراز غالب ہے۔ پتا تلاش کرنے میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اپنا موبائل نمبر بھی لکھ رہا ہوں۔ اگر آپ نہ آنا چاہیں تو اس نمبر پر فون کر کے بتا دیجیے گا۔" آپ کا مخلص۔ سرفراز غالب۔
اس نے خط کو تین چار بار پڑھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ اس طرح کسی کو بلانا عجیب سی بات تھی۔ شاید وہ شخص کوئی غیر قانونی کاروبار کرتا ہے، تبھی تو اس نے یہ پراسرار انداز اختیار کیا ہے، ورنہ آج کے دور میں ملازمتوں کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں اور ملازمت کے خواہش مند لوگوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ اگر وہ کوئی غیر قانونی کاروبار کرتا ہے تو کیا میں اس کے پاس ملازمت کر سکتا ہوں؟ جواب میں ا س کا سر خودبخود نہیں میں ہل گیا۔ اس کی والدہ نے اسے ایک ہی بات سکھائی تھی:
"حرام روزی نہ کمانا، صرف حلال کھانا۔ حلال کھانا بے شمار مصیبتوں سے بچاتا ہے اور آخرت میں حلال روزی کھانا کام آتا ہے۔ اس کے برعکس حرام روزی کھانے والا ہمیشہ پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے۔ ان کی کمائی یا تو ڈاکٹروں کی جیبوں میں جاتی ہے یا پھر فضولیات میں خرچ ہوتی رہتی ہے۔ برکت ان کے گھروں سے گویا پر لگا کر اڑ جاتی ہے، لہٰذا حالات کچھ بھی ہوں میرے بیٹے! تمہارا رزق حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ بس میں تو تمہیں یہی نصیحت کرتی ہوں۔"
والدین کی وفات کے بعد وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ غربت کی وجہ سے وہ میٹرک سے آگے پڑھ بھی نہیں سکا۔ ان کی وفات سے پہلے بھی وہ ملازمت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا تھا، لیکن آج کے دور میں میٹرک پاس لوگوں کو ملازمت آسانی سے نہیں ملتی۔ ماں ہمیشہ دلاسا دیا کرتی: "کوئی بات نہیں بیٹا، مل جائے گی ملازمت۔ تم خود کو ہلکان نہ کرو۔" والدین ایک حادثے میں ختم ہوگئے تو اس پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ پہلے تو باپ کی مزدوری سے گھر کا خرچ چلا رہا تھا۔ اب یہ ذریعہ بھی بند ہوگیا۔ اس نے مزدوری شروع کر دی، لیکن ساتھ ہی وہ ملازمت حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ جس دن اسے مزدوری نہ ملتی، اس دن وہ ملازمت کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرتا۔ آج کا دن بھی اس نے ملازمت کی تلاش میں گزارا تھا۔

رات اسے دیر تک نیند نہ آئی۔ بار بار اس خط کا خیال آتا رہا۔ نہ جانے خط لکھنے والا کون ہے؟ اسے کیسے جانتا ہے؟ وہ ضرور کوئی جرائم پیشہ ہوگا۔ آج سونے سے پہلے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس شخص سے کم ازکم ملاقات تو ضرور کرے گا۔
دوسرے دن وہ ٹھیک سات بجے شام خط میں لکھے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک بالکل نئی بنائی ہوئی کوٹھی تھی اور بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ گھنٹی کا بٹن دباتے ہوئے اس کا دل زور سے دھڑکا۔ جلد ہی ایک ملازم باہر نکلا۔ اس نے پہلے تو اس کا سر سے لے کر پیر تک جائزہ لیا، پھر بولا:"جی فرمائیے؟"
"مجھے سر فراز غالب صاحب سے ملنا ہے۔ میرا نام شاہد قمر ہے۔ مجھے ان کا پیغام ملا ہے۔"
"اوہ اچھا، آپ میرے ساتھ آئیں۔"
ملازم اسے دروازے کے اندر لے آیا۔ دروازے کے دونوں طرف خوب صورت باغیچے لگائے گئے تھے۔ گھاس پر کرسیاں موجود تھیں۔
"آپ بیٹھیں، میں صاحب کو بتاتا ہوں۔" یہ کہہ کر ملازم چلا گیا۔ جلد ہی ملازم واپس آتا نظر آیا۔
"آئیے۔" اس نے کہا۔
ملازم کے ساتھ چلتا ہوا وہ ایک کمرے میں داخل ہوا۔ اندر ایک خوب صورت سا آدمی بستر پر نیم دراز تھا۔ وہ اسے دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
"آئیے ، تشریف رکھیے۔" پھر بشیر سے کہا:" بشیر تم جاﺅ اور خانساماں سے چائے کا کہہ دو۔"
"جی اچھا!" ملازم یہ کہہ کر چلا گیا۔
"آپ شاہد قمر ہیں۔ میرا خط آپ کو ملا ہوگا اور آپ وہ پڑھ کر آئے ہیں۔ یہی بات ہے نا؟"
شاہد قمر نے پوچھا:"جی ہاں، بالکل… لیکن… آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟"
"بتاتا ہوں۔ آپ کے گھر کے میں نے دو تین چکر لگائے، لیکن ہر بار دروازے پر تالا لگا نظر آیا۔ آخر میں نے خط لکھ کر اندر ڈال دیا۔"
"وہ تو ٹھیک ہے… لیکن۔"
"آپ ضرور یہ خیال کرتے رہے ہوں گے کہ میں نے جو یہ پراسرار طریقہ اختیار کیا ہے، اس لیے میں ضرور کوئی جرائم پیشہ آدمی ہوں، ورنہ اس طرح کیوں خط لکھتا۔ یہی سوچتے رہے ہیں نا آپ؟"
"جی ہاں، اس میں شک نہیں کہ مجھے ایسے ہی خیالات آتے رہے، لیکن میں نے ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچا کہ میں کوئی غیر قانونی یا غلط کام قبول کروں گا۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں۔ میں مزدوری کر کے روکھی سوکھی تو کھا لوں گا۔ ناجائز کام ہرگز نہیں کروں گا۔ میری والدہ کی مجھے یہ نصیحت ہے۔"
"کیا نصیحت ہے بھلا آپ کی والدہ کی۔" سرفراز غالب مسکرایا۔
"انھوں نے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ بیٹا! حلال روزی کھانا۔ حرام سے خود کو ہمیشہ بچانا۔ حرام روزی طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جب کہ حلال کھانے والے ہمیشہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں، لہٰذا میں حرام روزی کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔"
"حیرت ہے۔ کمال ہے۔"سرفراز غالب کے منہ سے نکلا۔
"جی، کیا مطلب؟ آپ کو کس بات پر حیرت ہے؟" شاہد قمر کے لہجے میں حیرت تھی۔
"ایک خاتون نے مجھے بھی اتفاق سے بالکل یہی نصیحت کی تھی۔"
"آپ کا مطلب ہے آپ کی والدہ نے؟"

"وہ میری والدہ نہیں تھیں، لیکن میں ان کا احترام اپنی والدہ کی طرح کرتا تھا۔ بچپن میں انھوں نے مجھے بہت سہارا دیا تھا۔ ان دنوں میں اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ گاﺅں میں رہتا تھا۔ گاﺅں کے سکول میں پڑھتا تھا۔ وہ خاتون ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ پھر میرے ماں باپ فوت ہوگئے۔ ہم بھائی بہن اکیلے رہ گئے۔ اس زمانے میں اس خاتون نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ میں زندگی میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ ا س نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔ وہ خود بے حد غریب تھی، لیکن شاید اس میں نیکی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہماری سبھی ضرورتیں پوری کرنا گویا اس نے اپنی ذمے داری خیال کر لیا تھا۔ پھر ہمارے ایک دور کے رشتے دار ہمیں تلاش کرتے وہاں آگئے۔ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ ہمارے بارے میں انہیں پتا چلا تھا، اس لیے وہ گاﺅں میں پہنچ گئے اور ہمیں شہر لے آئے۔ جب ہم اس خاتون سے رخصت ہورہے تھے تو میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ وہ آنسو مجھے آج تک یاد ہیں، لیکن ہم شہر جانے پر مجبور تھے۔ ہمارے دور کے ماموں بہت دولت مند تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں ہماری زندگی بن جائے گی۔ سو ہم شہر چلے آئے۔ اس کے بعد ہم زندگی کے جھمیلوں میں ایسے الجھے، ایسے الجھے کہ ہمیں اس خاتون کا خیال بھی نہ آیا۔ پھر ماموں اپنا سارا کاروبار ہمارے حوالے کر کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اب جب کہ ہم لوگ ہر چیز کے مالک بن گئے تو مجھے اس خاتون کی یاد آئی۔ میں گاﺅں گیا۔ پتا چلا کہ اس خاتون کا تو مدت ہوئی انتقال ہوگیا ہے۔ ا س کا بیٹا اب شہر میں فلاں جگہ رہتا ہے۔
میں شہر آیا۔ اس کے بیٹے کا مکان تلاش کیا۔ اس مکان پر تالا نظر آیا۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا۔اس کے حالات معلوم ہونے پر میں رو پڑا۔ جس خاتون نے ہمیں پالا پوسا تھا، ہمیں ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی، آج اس کی اپنی اولاد مزدوری کرتی پھر رہی تھی۔ میں بے چین ہوگیا۔ میں نے اس کے گھر کے کئی چکر کاٹے۔ شام کے بعد میری اپنی بہت مصروفیات ہوتی ہیں۔ میں آ نہ سکا۔ سو میں نے خط لکھ کر ڈال دیا اور آپ یہاں چلے آئے۔ خط ڈالنے کے بعد مجھے خیال آیا تھا کہ نہ جانے آپ میرے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے، لیکن میں نے سوچا تھا کہ اگر آپ نہ آئے تو میں پھر جا کر ملاقات کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ یہ میری کہانی تھی۔ آپ کی والدہ کے ہم پر بہت بہت احسانات ہیں۔ میری بہنیں بھی آپ سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔ لیجیے کہانی ختم ہونے پر وہ رہ نہیں سکیں، اندر آگئیں۔"
یہاں تک کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا، البتہ اس کی بہنوں نے کہا: "بھائی جان! السلام علیکم۔"
"وعلیکم السلام!" شاہد قمر کے منہ سے نکلا۔
وہ حیرت زدہ تھا۔ اسے اپنے کانوں پر، اپنی آنکھوں پر، اپنے تمام حواس پر یقین نہیں آرہا تھا اور سر فراز غالب کہہ رہا تھا:" یہ گھر آپ کا اپنا گھر ہے۔ اب میں ایک بڑے کارخانے کا مالک ہوں۔ وہ کارخانہ آپ کا ہے۔ اس میں جو کام بھی آپ کو پسند ہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مجھے اتنی خوشی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔"
شاہد قمر کی نظریں ان لوگوں پر جم گئیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان آنسوﺅں میں بچپن کی صورتیں تیرنے لگیں۔ اسے سب یاد آتا جارہا تھا کہ بچپن میں وہ ان لوگوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔

رابطہ اور تعلق

ایک دفعہ ایک صحافی اپنے  پرانے ریٹائرڈ استاد کا انٹرویو کر رہا تھا اور اپنی تعلیم کے پرانے دور کی مختلف باتیں پوچھ رہا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران نوجوان صحافی نے اپنے استاد سے پوچھا۔۔سر ایک دفعہ آپ نے اپنے لیکچر کے دوران ۔۔contact ...اور connection ... کے الفاظ پر بحث کرتے ہوے ان دو الفاظ کا فرق سمجھایا تھا اس وقت بھی میں کنفیوز تھا