Monday, March 22, 2021

روز نیا کنواں نہ کھودیں

آج سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک نئے مکان میں شفٹ ہوا۔ شفٹ ہونے کے بعد میں نے اس گھر میں اپنا گیزر لگانا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے اور گرم پانی کے بغیر گذارہ ممکن نہیں تھا۔ میں نے ایک پلمبر کو بلایا ۔ اس نے کام دیکھا اور پھر مجھے کہا کہ آپ کا یہ کام پندرہ سور روپے میں ہو گا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آپ ایک ہزار میں کام کر دیں۔ لیکن اس نے کہا کہ اس کا باٹا ریٹ ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ بارگین نہیں کرتا۔

خیر میری مجبوری تھی ۔ میں چپ رہا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ گیزر لگا دیں۔ مجھے اس کا رویہ اچھا نہیں لگا ۔ کیونکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ جان بوجھ کر ڈیل خراب کرنا چاہتا ہے۔ اسے میری مجبوری کا علم تھا اس لئے وہ اپنی بات پر قائم رہا۔

اس نے آدھے گھنٹے کے اندر گیزر لگا دیا۔ اس کے بعد پندرہ سو لئے اور چل دیا۔ گیزر بھی اس نے جس طرح لگایا وہ مجھے پتہ ہے، ایک ایک چیز میں اس کو پکڑا رہا تھا۔ سارے معاملے میں اس کی مدد کرتا رہا۔ خیر اس نے اپنے پیسے لئے اور چلا گیا۔ مجھے بھی بات بھول بھال گئی۔
کچھ عرصہ بعد میں دو چار گلی چھوڑ کر ایک کشادہ مکان میں شفٹ ہو گیا۔ لیکن یہاں بھی گیزر لگانے کا مسئلہ درپیش تھا۔ پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ اسی پلمبر کو بلاؤں جس نے پہلے فٹ کیا تھا۔ لیکن اس کا رویہ یاد آیا تو میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور کسی اور بندے کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ خیر تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ایک پلمبر مل گیا۔ وہ میرے ساتھ آیا ۔ کام کا جائزہ لیا اور کہا میں آپ سے اس کام کے ایک ہزار لوں گا۔
میں نے کہا کہ میں تنخواہ دار آدمی ہوں کوئی مہربانی کریں۔ جس پر اس نے مسکرا کر کہا کہ بھائی جان کوئی بات نہیں آپ مجھے آٹھ سو روپے دے دینا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کام شروع کریں۔ وہ آیا اور اپنے ساتھ ایک اور لڑکا بھی لایا۔ ان دونوں نے آدھے گھنٹے میں گیزر لگایا۔ چائے پینے کے بعد میں نے آٹھ سو اس بندے کو دیئے ۔ اس نے پیسے لئے۔ شکر الحمداللہ کہا۔ تین سو ساتھ لائے لڑکے کو دیئے ، پانچ سو اپنی جیب میں ڈالے، میرا شکریہ ادا کیا اور جاتے جاتے فیڈ بیک بھی لیا کہ بھائی آپ کام سے تو مطمئن ہیں ۔ جس پر میں نے اس کے کام کی تعریف کی اور اس کا نمبر بھی لے لیا۔

دو چار دن بعد ایک دوست کی کال آئی کہ یار آپ نے گیزر جس بندے سے لگوایا ہے اس کا نمبر تو دے دیں۔ کیونکہ میں نے نیا گیزر لیا ہے۔ میں نے فوراً سے اس بندے کا نمبر ڈائل کیا اور اسے اپنے دوست کے گھر پہنچنے کا کہا۔ اس نے آٹھ سو میں اس کا بھی کام کر دیا۔ اس کے بعد اس پلمبر کو میں نے اپنے ریفرنس سے کوئی دس جگہ نلوں، پائپوں اور گیزر کے کام کے لئے بھیجا۔ ہر جگہ اس نے اپنا تعلق بنایا، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور نئے ریفرنس بھی ڈھونڈے۔

آج اس بندے کی مارکیٹ میں سینٹری کی سب سے بڑی دکان ہے۔ اس کے پاس دس کے قریب اسٹاف ہے جس میں پلمبر، الیکٹریشن اور پینٹرز موجود ہیں۔ آج بھی اس کا رویہ یہی ہے۔ خوش اخلاقی ، فیڈ بیک، جس کے ساتھ ایک بار کام کرتا ہے وہ بندہ اسے یاد رکھتا ہے۔ اس کے پاس آتا ہے، اس سے مشورہ لیتا ہے۔
اس کی کامیابی کے پیچھے ایک ہی راز ہے کہ یہ جو کنواں کھودتا ہے اسے دوبارہ اپنے غلط اور لالچی رویے سے بند نہیں کرتا۔ یہ ہر نئے کنویں سے تھوڑا سا پانی لیتا ہے اور آئندہ کے لئے دوبارہ پانی لینے کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ہی بار میں پیسہ نہیں کمانا چاہتا ۔ یہ اپنے کسٹمرز کے دل میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان کے تعلقات کی وجہ سے مزید آگے جاتا ہے اور مزید اچھا کام کر کے اپنا سرکل بڑا کرتا جا رہا ہے۔
مجھے وہ پہلا بندہ بھی یاد ہے۔ میں نےاسے کچھ عرصہ پہلے دیکھا ہے۔ وہ آج بھی انہی حالوں میں ہے۔ اس کی آج بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی کنواں وہ کھودے اسے فوراً بند بھی کر دے۔ لیکن اس کے اس رویے کی وجہ سے اس کا اپنا بخت بند ہو چکا ہے۔ یہ ایک بندے سے ایک ہی بار میں جو لے سکتا ہے لے لیتا ہے اور پھر نئے بندے کی تلاش میں نکل جاتا ہے ۔ زندگی اس کی بھی چل رہی ہے لیکن اس میں ترقی نہیں، عزت نہیں ، ریفرنس نہیں، فیڈ بیک نہیں، مہربانی نہیں اور آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ بندہ جب اکیلا ہو گا تو یہی سوچتا ہو گا کہ میری قسمت ہی خراب ہے یا یہ لوگ ہی خراب ہیں۔

یاد رکھیں اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو محنت سے کھودے کنویں کو فوراً اپنے لالچ اور غلط رویے کی وجہ سے بند نہ کریں۔ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اپنے کسمٹرز کو اچھا کام دیں۔ ان کا اعتماد جیتیں۔ ان سے عزت لیں۔ ان کو عزت دیں۔ اگر پیسے کم بھی بچ رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن تعلق بچنا چاہیئے ، آگے کے رابطے کی وجہ رہنی چاہیئے۔ اس زمین پر لوگ بستے ہیں اور لوگ ہی لوگوں کے کام آتے ہیں۔

(نقل وچسپاں)

ظلم کے خلاف آواز

قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالب کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصِّر رہا۔ طالبعلم شکستہ دلی سے اورغمزدہ باہر  تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلباء پر تھی جو سر جُھکائے اور خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلباء سے پوچھا: قانون کیوں وضع کیئے جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا: لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے۔
دوسرے طالب علم نے کہا: معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے۔
تیسرے نے کہا؛ تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے۔
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا: یہ سب جواباتُ ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔ 
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔
استاد نے کہا: جی، بالکل یہی جواب ہے جو میں سننا چاہتا تھا۔ تاکہ عدل کو غالب کیا جا سکے۔
استاد نے پھر پوچھا: لیکن عدل اور انصاف کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا: تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا: اچھا، مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو، کیا میں نے تمہارے ساتھی طالبعلم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟
سارے طلباء نے بیک زبان جواب دیا؛ جی ہاں سر، آپ نے زیادتی کی ہے۔
اس بار استاد نے غصے سے اونچا بولتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے۔ پھر تم سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فائدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کیلئے کسی کے اندر ھمت اور جراءت ہی نہ ہو؟ 
جب تمہارے ساتھی طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے، اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ اور یاد رکھو جب انسانیت گرتی ہے تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔
اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے
 طالب علم کو واپس اندر بلایا، سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی، اور باقی طلباء کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے کہا: یہی تمہارا آج کا سبق ہے۔ اور جاؤ، جا کر معاشرے میں ایسی نا انصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کیلئے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔۔۔

کہانی کے دو رخ

انیس سو چھپن میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا' یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹا۔ سمندر میں موجود ایک چٹان سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔ حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی۔ کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر کھڑا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔ یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو' آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قراردے دیا۔ کپتان کو پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا' یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔ یہ اس کہانی کا ایک پہلو تھا اور اس پہلو کو دیکھنے' سننے اور پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا کہیں گے ۔ اب آپ اس کہانی کا دوسرا اینگل ملاحظہ کیجئے اور اس اینگل کے آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔اس واقعے کے پچیس سال بعد ائر فورس کے ایک ریٹائر افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی' اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا' 1956ءمیں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
اس نے ایک جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندها، وہ اس ٹینک کو جھیل میں ڈبو کر بھرتا جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پر گرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ جھیل پر چلا جاتا وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندر اچھل کود محسوس ہوئی اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگر اس نے ٹینک پیچھے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا جہاز گر جائے گا اس نے فورا ٹینک کھول دیا، ٹینک سے پانی کی آبشار سی نیچے گری اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی پیچھے کی طرف گر گئی یہ پانی اور بھینس نیچے بحری جہاز کے ڈیک پر گر گئی۔ آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے آپ کو سارا سینیاریو تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔

لہذا یاد رکھیے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی، کسی شخص کی دلیل پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا موقف سامنے نہیں آتا صورتحال واضح نہیں ہوتی۔ حقائق کیا ہوتے ہیں، حقائق کہانی کی طرح ہوتے ہیں اور آپ جب تک کہانی کا دوسرا پہلو یا اس کا دوسرا اینگل نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک اسٹوری مکمل نہیں ہوتی، اس وقت تک حقیقت آپ کے سامنے نہیں آتی لہذا زندگی میں جب بھی آپ ایسی صورتحال کا شکار ہوں آپ ہمیشہ دونوں فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ کریں۔

Sunday, March 21, 2021

معاشرے کیلئے رول ماڈل

شادی کی پہلی رات خاوند کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے بیوی کے قریب آ کر بیٹھ گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنی بیوی کو سلام کیا اس کے بعد پانچ ہزار حق مہر دینے لگا ۔ بیوی نے کہا " میں نے حق مہر نہیں لینی میں آپ کو معاف کرتی ہوں " خاوند نے دوسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے یہ ہی جواب دیا ، پھر خاوند نے تیسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے پھر وہ ہی جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
خاوند نے وہ پیسے اپنے بٹوے میں رکھ دیۓ اور چند منٹوں کے لیے سوچوں میں گم ہو گیا کہ کتنی توکل والی اور وفا والی بیوی ہے جو پیسوں سے زیادہ مجھے ترجیح دے رہی ہے ۔۔۔۔
اس کے بعد خاوند نے منہ دیکھاٸی کے لیے بیوی کو پانچ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ پھر خاوند نے دس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ، پھر خاوند نے پندرہ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ، پھرخاوند نے بیس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔پھر پچیس ، تیس ، چالیس حتی کہ خاوند نے پچاس ہزار دیا بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ خاوند نے تنگ آ کر پورا بٹوہ بیوی کے حوالے کر دیا جس کے اندر ایک لاکھ روپے تھے پھر بھی بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔۔۔۔خاوند نے بیوی سے کہا ۔۔
" آپ کو اور کیا چاہیے " بیوی نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ 
خاوند نے کہا "کون سا وعدہ" 
"بیوی نے کہا مجھ سے ایک وعدہ کرو مجھے کھبی چھوڑوں کے تو نہیں "
خاوند نے شادی کی پہلی رات بیوی کو نہ چھوڑنے کا وعدہ کر لیا ۔ یہ لڑکی کوٸی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ اس نے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور اس کے والدین نے داماد سے ضمانت کی طور پر پانچ لاکھ ۔ یا دس لاکھ بھی نہیں لکھوایا تھا ۔ ایسی عورتیں نصیب والے مردوں کو ملتی ہیں جو صرف خاوند سے پیار کرتی ہیں ان کی نظر میں پیسوں کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی ۔ایسی بیویاں معاشرے کے لیے رول ماڈل ہیں ۔جن کی وجہ سے ہمارہ معاشرہ چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
چاہت خلوص کی کچھ کم نہ تھی 
کم شناس لوگ دولت پر مر گۓ۔

رب تعالی عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین۔

Wednesday, March 17, 2021

خاندان

ﻭﺍﻟﺪ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ. ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ..
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ؛
ﭘﺎﭘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﮟ!!
ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ...
ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ..
ﭘﺘﻨﮓ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ...
ﺗﺐ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ. ،،،،
ﺑﯿﭩﺎ ..
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﺲ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ..
ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﻦ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺟﯿﺴﮯ...
ﮔﮭﺮ،
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ،
ﻧﻈﻢ ﻭ ﺿﺒﻂ،
ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ...
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ.

ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮨﯽ ﺣﺸﺮ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﭘﺘﻨﮓ ﮐﺎ ﮨﻮﺍ...
"ﻟﮩﺬﺍ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻨﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﺖ ﺗﻮﮌﻧﺎ"

"ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﻨﮓ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﮨﯽ 'ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ' ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ!"

والدین کی قدر کریں یہ ہمیشہ آپ کے پاس نہیں رہیں گے

ماں کی دعا

ماں کی دعا کیسے قبول ہوتی ہے؟ 


وہ گاڑی سے اترا اور بڑی تیزی سے ہوائی اڈے کی جانب لپکا؛ جہاز اڑنے کے لئے تیار تھا اور اسے ایک کانفرنس میں شرکت کرنی تھی جو اسی کے اعزاز میں دی جا رہی تھی۔ جلدی جلدی جہاز میں پہنچ کر اپنی مقررہ نشت پر بیٹھا اور ابھی جہاز اڑنے کے بعد کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک اعلان ہوا:
آسمانی بجلی کے کڑکنے ، اور تیز اور طوفانی بارش کی وجہ سے انتظامی آلات میں خلل واقع ہو گیا ہے، لہذا جہاز کو نزدیک ترین ہوائی آڈے پر اتارا جا رہا ہے۔
وہ جہاز سے اترتے ہی ہوائی اڈے کے عملے کے منتظم کے پاس پہنچا اور گویا ہوا:
میں ایک جانا مانا عالمی متخصص
ڈاکٹر ہوں، میرے لیے میرا ایک ایک منٹ انسانوں کی جانوں کے برابر قیمت رکھتا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں
14 گھنٹے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں؟
کارکنوں میں سے ایک بولا:
جناب ڈاکٹر ذیشان صاحب! اگر آپ کو زیادہ جلدی ہے تو ایک گاڑی کرائے پر لے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیے ، یہاں سے گاڑی میں وہ مقام تین گھنٹے سے زیادہ دور نہیں۔
اس نے ایک گاڑی کرائے پر لی اور اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گیا ، لیکن یہاں بھی قسمت کام نہ آئی، موسلا دھار بارش اور جھکڑ آڑے آئی اور وہ سفر جاری نہ رکھ سکا،
ابھی یہ راہ میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے تھے کہ احساس ہوا راستہ گم ہو گیا ہے، ناامیدی کے ساتھ آگے چل ہی رہے تھے کہ اچانک ایک چھوٹے سے گھر پر نظر پڑی، اس طوفان میں غنیمت جان کر نیچے اترا اور جا کر دروازہ بجا دیا۔ آواز آئی: جو کوئی بھی ہے اندر آ جاؤ دروازہ کھلا ہے۔
اندر ایک بڑھیا زمین پر جائےنماز بچھائے بیٹھی تھی ۔
اس نے کہا: ماں جی اجازت ہے میں آپ کا فون استعمال کر لوں؟
بڑھیا مسکرائی اور بولی: بیٹا کون سا فون؟ یہاں تو نہ بجلی ہے نہ فون! لیکن تم بیٹھو، سامنے چائے رکھی ہے پیالی میں ڈال کر پیو تھکن دور ہو جائے گی اور کھانے کو بھی کچھ نہ کچھ رکھا ہو گا ، کھا لو تاکہ آگلے سفر کے لیے بدن میں طاقت آئے۔
ڈاکٹر نے بڑھیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیالی میں چائی ڈالی اور پینے میں مشغول ہو گیا جبکہ کہ بڑھیا نماز و دعا میں مشغول تھی۔ اچانک بجلی کوندی تو ان کی نظر پڑی اس بڑھیا کی جا نماز کی بغل میں ایک بچہ کنبل میں لپٹا پڑا ہے جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلاتی جا رہی ہے۔ جب کافی دیر بعد بڑھیا نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو ڈاکٹر نے کہا: میں آپ کے اس اخلاق اور لطف و کرم کا نہایت ھی مشکور ہوں، میرے لیے بھی دعا کیجیے ، آپ کے اخلاق حسنہ اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ کی دعا ضرور قبول ہو گی۔
بڑھیا بولی: نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں تم راہگیر ہو اور راہگیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ میں نے تمہارے لیے بھی دعا کی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری ہر دعا سنی ہے، بس ایک دعا کی قبولیت میں شاید ابھی کچھ دیر ھو
. ڈاکٹر نے پوچھا: کون سی دعا؟
بڑھیا بولی: یہ جو بچہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ادھ موا پڑا ہے، میرا پوتا ہے، نہ اس کی ماں زندہ رہی نہ باپ، اس بڑھاپے میں اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں اسے کوئی موزی مرض ہے، جس کا وہ علاج نہیں کر سکتے، کہتے ہیں ایک ہی ڈاکٹر ہے بڑا نامی گرامی،!!!!!!! نام بتایا تھا اس کا۔۔۔! ہاں ذیشان ... وہ اس کا اپریشن کر سکتا ہے۔ لیکن میں بڑھیا کہاں اس تک پہنچ سکتی ہوں ؟ لے کر جاؤ بھی تو پتہ نہیں قبول کرے یا نہ کرے، میری تو خیر ہے یہ بچارہ بچہ خوار ہو جائے گا؛ بس اب اللہ سے ہی امید ہے کہ وہ میری مشکل آسان کر دے...!
ڈاکٹر کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں؛ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا: خدا کی قسم، آپ کی دعا نے ہوائی جہاز کو نیچے اتار لیا ، آسمان پر بجلیاں کوندوا دیں، مجھے رستہ بھو لوا دیا تاکہ میں یہاں تک کھینچا چلا آؤں، خدا کی قسم ، مجھے یقین نہیں آتا کہ خدا ایک دعا کو اس طرح قبول کر کے اپنے بندےکے لیے یوں اسباب فراہم کرتا ھے۔

حضرت نوح علیہ السلام اور ابلیس لعین

روایت ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر جا کر رکی تو تو ابلیس نے پانی پر بیٹھ کر حضرت نوح علیہ السلام سے کہا، اے نوح (علیہ السلام) تو نے بد دعا کر کے دنیا کو پانی میں غرق کر دیا۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام جواب دیا، اب تمہارا کام یہ ہے کہ خدا سے توبہ کرو اور خدا کے فرمانبردار بندے بن جاؤ ۔ ابلیس نے کہا کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اگر قبول ہونے کی امید ہے تو آپ میرے حق میں سفارش فرما دیجیئے ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے مناجات میں حق تعالٰی سے عرض کیا کہ ابلیس توبہ کی درخواست کرہا ہے، کیا حکم ہے ۔ حکم ہوا شیطان سے کہہ دو کہ اگر وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کر لے تو توبہ قبول کر لی جائے گی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کا حکم ابلیس کو سنایا تو ابلیس نے جواب دیا، کہ میں نے زندہ آدم کو تو سجدہ نہیں کیا تھا، اب مرنے کے بعد ان کو کب سجدہ کرنے والا ہوں ۔ ابلیس نے کہا، چونکہ آپ نے خدا کی جانب میری سفارش کی تھی اس لئے شکریہ کے طور پر آپ سے تین باتیں عرض کرتا ہوں۔ 

١۔ جس وقت غصہ آئے مجھے یاد کر لیا کرو، غصہ کے وقت میں انسان کا چہرہ ، منہ ، ناک بن جاتا ہوں اور خون کی طرح رگ رگ میں دوڑتا پھرتا ہوں ۔ 

٢۔ لڑائی کے وقت بھی مجھے یاد کر لیا کرو ۔ اس موقع پر میں لوگوں کے دلوں میں بیوی بچے کا خیال ڈال دیتا ہوں ۔ 

۳۔ کسی نامحرم عورت کے ساتھ کبھی تخلیہ میں نہ بیٹھنا ۔ میں ایسے وقت نہ معلوم کیا کر گزرتا ہوں ۔ 

ایک روایت میں ہے کہ ابلیس نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا تھا، کہ حسد ، حرص نہ کرنا ۔ حسد کی وجہ سے میں اور حرص کی وجہ سے آدم علیہ السلام  جنت سے نکال دیئے گئے ۔ 

وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ طوفان کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم زمین پر آباد ہو گئی، تو ابلیس لعین نے حضرت نوح علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، آپ نے مجھ پر احسان عظیم فرمایا ہے، آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اس احسان کے بدلے میں آپ جو بات مجھ  سے دریافت فرمائیں گے، اس کا صحیح صحیح جواب دوں گا ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے شیطان کی بات سن کر منہ پھیر لیا ۔ وحی آئی کہ اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہو، ابلیس سے پوچھ لو، وہ تمہیں صحیح صحیح جواب دے گا ۔ نوح علیہ السلام نے ابلیس لعین سے پوچھا، یہ بتا دنیا میں تیرا یار و مدد گار کون ہے؟ ابلیس نے جواب دیا، میرے یار و مدد گار وہ لوگ ہیں جو بخل اور تکبر کرتے ہیں، اور ہر کام میں عجلت کے عادی ہیں ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا، تُو میرا کس بات پر شکریہ ادا کرنے آیا تھا، میں نے تجھ پر کیا احسان کیا ہے؟ تو شیطان نے جواب دیا، کہ آپ نے بد دعا کر کے ساری قوم غرق کرا دی۔ مجھے ان کی گمراہی کے فکر سے نجات مل گئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام یہ سن کر بہت پشیمان ہوئے اور عجلت پسندی سے چار برس تک بارگاہِ الہٰی میں گریہ و زاری کرتے رہے۔۔۔۔

100 سال بعد

آج سے 100 سال بعد
مثال کے طور پر 2121 میں ہم سب اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ زیر زمین ہوں گے
اور اجنبی ہمارے گھروں میں رہیں گے
اور ہماری جائیداد غیر لوگوں کی ملکیت ہوگی
انہیں ہماری کچھ یاد بھی نہیں رہے گی ابھی بھی ہم میں سے کون اپنے دادا کے باپ کا سوچے گا .. ہم اپنی نسلوں کی یاد میں تاریخ  کا حصه بن جائیں گے، جبکہ لوگ ہمارے نام اور شکلیں بھول جائیں گی.. 
سو سال میں کئی  اندھیرے اور ٹھہراؤ آئیں گے
تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا کتنی معمولی تھی، اور سب کچھ اور دوسرے سے زیادہ پا لینے کے خواب کتنے نادان اور خسارے کی سوچ کے حامل تھے،
اور ہم چاہیں گے کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی نیکیاں سمیٹتے اور نیکیاں کرتے ہوئے گزاریں تو وه موقع آج ھمارے پاس خوش قسمتی سے موجود ھے.. جب تک ہم باقی ہیں۔۔
 ابھی زندگی باقی ہے ۔۔
غور کریں اور بدلیں.. 
اے اللہ ہمیں ہدایت دے..
اے اللہ ہمارا انجام اچھا کر..

ایک عِبادت گُزار خادِمہ

بصرہ کے قاضی عبیداللّہ بِن حسن رحمة اللّہ علیہ سے منقول ہے کہ: میرے پاس ایک حسِین و جمیل عجمی لونڈی تھی۔ اس کے حُسن و جمال نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا تھا۔

ایک رات وہ سو رہی تھی۔ جب رات گئے میری آنکھ کُھلی تو اسے بِستر پر نہ پا کر میں نے کہا: " یہ تو بہت بُرا ہُوا۔ " پِھر میں اسے ڈھونڈنے کے لئے جانے لگا تو دیکھا کہ وہ اپنے پروردِگار عزوَجل کی عِبادت میں مشغول ہے۔

اس کی نُورانی پیشانی اللّہ سبحان و تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھی۔ وہ اپنی پُرسوز آواز سے بارگاہِ خداوندی میں اِس طرح عرض گُزار تھی:
" اے میرے خالق! تجھے مجھ سے جو محبّت ہے اسی کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ تُو میری مغفِرت فرما دے۔ "
جب میں نے یہ سُنا تو کہا اِس طرح نہ کہہ بلکہ یوں کہہ:" اے مولیٰ عزوَجل! تجھے اس محبّت کا واسطہ جو مجھے تُجھ سے ہے، تُو میری مغفِرت فرما دے۔ "

یہ سُن کر وہ عابِدہ و زاہِدہ لونڈی جو حقیقت میں ملکہ بننے کے لائق تھی کہنے لگی:
" اے غافل شخص! اللّہ عزوَجل کو مجھ سے محبّت ہے اِسی لئے تو اس کریم پروردِگار عزوَجل نے مجھے شِرک کی اندھیری وادیوں سے نِکال کر اِسلام کے نُور بار شہر میں داخل کِیا۔ اس کی محبّت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی یاد میں میری آنکھوں کو جگایا اور تجھے سُلائے رکھا۔ اگر اسے مجھ سے محبّت نہ ہوتی تو وہ مجھے اپنی بارگاہ میں حاضری کی ہرگِز اِجازت نہ دیتا۔ "

قاضی عبیداللّہ بِن حَسن رحمة اللّہ علیہ کہتے ہیں: میں اس کے حُسن و جمال اور چہرے کی نُورانیت سے پہلے ہی بہت متاثر تھا، اب اس کی یہ عارِفانہ گُفتگُو سُنی تو میری حیرانگی میں مزید اضافہ ہُوا اور میں سمجھ گیا کہ یہ اللّہ عزوَجل کی ولِیہ ہے۔ میں نے کہا: اے اللّہ سبحان و تعالیٰ کی نیک بندّی! جا تُو اللّہ سبحان و تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ جب لونڈی نے سُنا تو کہا: میرے آقا! یہ آپ نے اچھا نہیں کِیا کہ مجھے آزاد کر دیا۔ اب تک مجھے دوہرا اجر مِل رہا تھا (یعنی ایک آپ کی اطاعت کا اور دوسرا اللّہ عزوَجل کی اطاعت کا ) لیکن اب آزادی کے بعد مجھے صرف ایک اجر مِلے گا۔

سرخ چوڑیاں

مکان کے اُوپر والی سٹوری بنوا رها هوں _مزدوری کا تمام کام ٹهیکے پر دیا _ ٹهیکیدار صاحب آگے ٹهیکہ دے کر چھ سو روپیہ فی هزار چهت پر اینٹیں چڑهوا رها تها _
مزدور آیا
💞فی پهیرا بیس اینٹیں اٹهاتا _ سیڑهی کے اُنیس سٹیپ چڑهتا اور اِس طرح اُس نے دو گهنٹے میں ایک هزار اینٹ چهت پر پہنچا دی _ تب تک بارش شروع هو گئ  تو سلپ هونے کے خطرے سے مزدور نے کام روک دیا
💞 ٹهیکیدار سے چھ سو روپیہ لے کر جانے لگا تو میں نے کہا کہ کهانا کها کر جانا _ وه بولا کے سر جی ,  ساتھ هی چوک میں منگل بازار لگا هوا , گهر کے لیے سودا لے آؤں تو آ کر روٹی کهاتا هوں
 واپس آیا تو اُس کے هاتھ میں بهرا هوا ایک  شاپر تها _ میں نے پوچها کہ کیا میں دیکھ سکتا هوں کے تم نے کیا شاپنگ کی , تو تهوڑا هچکچا کر بولا کہ جی ضرور دیکھ لیں _ !
میں بہت پیار کے ساتھ شاپر میں سے ایک ایک آئٹم نکال کر دیکهنے لگ گیا ___ شاپر میں کیا تها _ ؟
پاؤ والا گهی کا پیکٹ , اتنی هی چینی  _ چهوٹا پیک چائے کی پتی _ آدها کلو مٹر , چار پانچ آلو , تین عدد پیاز , چهوٹا پیکٹ نمک , تهوڑی سی سرخ مرچیں , ایک ٹکیا دیسی صابن ,  سگریٹ کی ڈبی _  پلاسٹک کا ایک چهوٹا سا گهوڑا , زیرو سائز کی چھ عدد سرخ چوڑیاں , دو گولیاں پینا ڈول اور ایک پیکٹ نسوار _
پوچها کہ گهر میں هانڈی روٹی کرنے کیلئے جلاؤ گے کیا  _ ؟  تو بولا کہ جاتے هوئے پانچ کلو لکڑی اور دو کلو آٹا  لے کر جاؤں گا _ همسائے میں هی لکڑی کا ٹال اور آٹا چکی هے _
پهر پوچها کہ اب بارش میں گهر کیسے جاؤ گے اور تمہارا گهر یہاں سے کتنا دور هے _ تو بولا کہ آٹھ کلو میٹر دور  گهر هے  میرا _ پیدل جاؤنگا اور یا کسی بائک والے سے لفٹ لے لوں گا
💞 آخری سوال کیا کہ پلاسٹک کا گهوڑا اور چوڑیاں کتنے کی ملیں اور اِنکا کیا کرو گے  _ ؟  تو بولا کہ دونوں چیزیں پانچ پانچ روپے کی ملیں _ گهوڑا میرے ڈیڑھ سالہ شہزادے کے لئے اور چوڑیاں میری ایک ماه کی شہزادی کیلئے _ شہزادی کو سرخ چوڑیاں بہت سجیں گی _
شاپر میں اُس محنت کش کی پوری دنیا تهی..