Monday, August 7, 2023

سچی محبت

عینک صاف کرتے ہوئے فضل صاحب نے اپنی بیوی سے کہا: ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے۔ 

بیوی: لیکن ٹھیک 5 بج کر 55 منٹ پر میں پانی کا گلاس لے کر دروازے پرآجاتی اور آپ آ پہنچتے ۔

شوہر: ہاں میں نے 30 سال کام کیا لیکن آج تک سمجھ نہیں سکا کہ میں اس لیے آتا تھا کہ تم پانی لاتی تھی یا تم پانی اس لیے لاتی تھی کہ میں آتا تھا۔

بیوی: ہاں.. اور یاد ہے.. آپ کے ریٹائر ہونے سے پہلے جب آپ کو شوگر کی بیماری نہیں تھی اور میں آپ کی پسندیدہ کھیر بناتی، تب آپ کہتے کی آج دوپہر میں ہی خیال آیا کہ اگر کھیر کھانے کو مل جائے تو مزہ آ جائے ..
 
شوہر: ہاں.. واقعی.. دفتر سے نکلتے وقت جو سوچتا ، گھر آ کر دیکھتا کہ تم نے وہی بنایا ہے.

بیوی: اور تمہیں یاد ہے جب میں پہلی ڈیلیوری کے وقت میکے گئی تھی اور جب درد شروع ہوا تو مجھے لگا کاش ! تم میرے پاس ہوتے.. اور ایک گھنٹے کے اندر تم وہاں کسی خواب کی طرح آ گئے؟
شوہر: ہاں.. اس دن یونہی سوچا تم سے مل لوں!!

بیوی: اور جب تم میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  غزل کے دو شعر پڑھتے 
شوہر: ہاں اور تم شرما کے اپنی پلکیں جھکا لیتی میں سمجھ لیتا مجھے میری غزل کی داد مل گئی !!

بیوی: اور ہاں ایک مرتبہ چائے بناتے ہوئے میرا ہاتھ ہلکا سا جل گیا تھا اور اسی شام آپ نے جیب سے برنول کی ٹیوب نکالی اور کہا اسے الماری میں رکھ دو۔

شوہر: ہاں..  گزشتہ روز ہی میں نے دیکھا تھا کہ ٹیوب ختم ہو گئی ہے، پتہ نہیں کب اس کی ضرورت پڑ جائے ، یہ سوچ کر میں ٹیوب لے آیا تھا!!

 بیوی: تم کہتے آج آفس کے بعد وہیں آجانا ساتھ فلم دیکھے گے اور باہر کھانا بھی کھاۓ گے۔
شوہر: اور جب تم آتی تو اسی رنگ کا جوڑا پہن کر آتی جیسا میں نے سوچا ہوتا تھا ۔

پھر قریب جا کر بیوی کا ہاتھ تھاما اور کہا: ہاں ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے لیکن.. "ہم دونوں تھے!!"
 
بیوی: آج بیٹا اور بہو اکٹھے ہیں لیکن.. باتیں نہیں واٹس ایپ ہوتا ہے.. لگاؤ نہیں ٹیگ ہوتا ہے, کیمسٹری نہیں کمینٹ ہوتا ہے, پیار نہیں لایک ہوتا ہے, میٹھی نوک جھونک نہیں ان فرینڈ ہوتا ہے,  کوئی اٹیچمنٹ نہیں .. کوئی تبصرہ نہیں ..

اُنہیں بچے نہیں چاہیے، اُنہیں پب جی, کینڈی کرش ساگا، ٹیمپل رن اور سب وے سرفرز چاہیے ۔

شوہر: چھوڑو ان سب باتوں کو.. اب ہم وائبریٹ موڈ پر ہیں، ہماری بیٹری کی بھی 1 ہی ڈنڈی بچی ہیں..
ہائے..!!  کہاں چلی..؟

بیوی: چائے بنانے ..
 شوہر: ارے میں کہنے ہی والا تھا کہ چائے بنا لو۔
 بیوی:  پتا ہے میں ابھی بھی کوریج میں ہوں اور میسجز بھی آتے ہیں۔
 دونوں ہنس دیے..

شوہر: ہاں ہمارے زمانے میں موبائل نہیں تھے..!!

ہاں دوستو شاید یہی سچی محبت ہے۔  جو آج کے ہم جیسے نوجوان کبھی حاصل نہیں کر سکتے ہیں
اردو گلوبل

Sunday, August 6, 2023

تخریبی عمل اور تعمیراتی کام

‏مشہور سلطنت عثمانیہ کے ایک سلطان نے جب پرانے محلات میں سے چند ایک کو گرا کر ان کی جگہ نئے محل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ، تو سلطان نے اپنے وزیروں ، مشیروں سے سلطنت کے سب سے زیادہ قابل اور ھنر مند انجینئر کے بارے میں استفسار کیا ، تو وزیروں ، مشیروں نے جواب دیا ، ھماری سلطنت میں صرف ایک ھی ایسا انجینئر ھے جو آپ کے معیار پر پورا اتر سکتا ھے ۔
‏   
‏سلطان نے اُس انجینئر کو بلوا بھیجا ، اُسے اچھی طرح سمجھایا کہ وہ اِس سے کیا کام لینا چاھتا ھے ، انجینئر نے سلطان کی خواھش اور ضرورت کو سمجھتے ھوئے محلات کو ازسر نو تعمیر کرنے کا ٹھیکہ لے کر کام شروع کر دیا ۔

‏  کہانی میں یہاں تک تو سب کچھ عام اور مانوس دیکھائی دیتا ھے ، لیکن غیر معمولی بات یہ ھے کہ تعمیرات میں سلطان ھر چھوٹی بڑی چیز کی مکمل چھان بین کرتے ھوئے انجینئر کے ساتھ کسی سائے کی طرح رھتا تھا ۔
‏انجینئر کے ایک ایسے کام نے سلطان کی توجہ کھینچ لی جو اُس سے پہلے سلطنت میں کسی نے بھی نہیں کیا تھا ۔
‏ ھوا یُوں کہ جب انجینئر نے محلات کو گِرانا شروع کیا تو اُس نے توڑ پھوڑ کیلئے جن مزدوروں سے کام لیا تھا ، محلات کی تعمیر کرتے ھُوئے انہیں ساتھ شامل نہیں کیا ۔
‏ بلکہ اُنہیں اُن کی مزدوری دے کر فارغ کر دیا گیا ۔

‏   جب سلطان نے یہ سب دیکھا تو انجینئر کو دربار میں بلوایا ۔

‏اور کہا !!! 
‏   جب تم محلات گِرانے کا کام کر رھے تھے ، اُس وقت تم نے جن مزدوروں کو استعمال کیا ، 
‏تعمیرات میں اُن کو استعمال کیوں نہیں کیا ، تمھارے اِس اچھوتے عمل کی کیا وجہ ھے ؟

‏   انجینئر نے مختصر سا جواب دے کر سلطان کو ششدر کر دیا ،
‏" حضور ، جو تخریب کے لائق ھے وہ تعمیر کے لائق نہیں ھے "

‏جو شخص تباہ و بربادی کرنے میں مہارت رکھتا ھے ، اُس سے تعمیر و ترقی کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔

‏انسانی فطرت کی بہترین تشریح ھے کہ جو شخص تخریب کے کام میں مہارت حاصل کر لے تو پھر یقیناً اس کی جمالیاتی حس مر جاتی ھے ، وہ تعمیری کاموں کی بجائے تخریبی کاموں میں مصروف رھتا ھے اور اِسی میں اُسے لذت بھی ملتی ھے ، ایسے میں اگر اس سے تعمیری کام کروائیں گے تو اُس کے فن میں تشدد کا رنگ نمایاں ھوگا

Friday, July 21, 2023

انسان کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے....

ایک شخص  نے کہا ''حاتم جیسا فراخ دل آج تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔''دوسرے شخص نے کہا۔
''کیوں نہ یہ سوال حاتم سے کیا جائے۔'' 
چنانچہ حاتم سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اپنے آپ سے زیادہ سخی اور عظیم انسان دیکھا سنا تھا۔'' حاتمی کافی دیر تک سر جھکا کر سوچتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا ''بہت زیادہ مال و دولت لٹانے کا نام سخاوت نہیں ' میرے نزدیک سخی اور عظیم انسان وہ ہے جو اپنے بڑے سے بڑے فائدہ کے لیے کسی کا چھوٹے سے چھوٹا احسان بھی قبول نہ کرے۔ میں اپنی زندگی میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کا دل میرے دل سے بہت بڑا تھا۔'' ان دونوں  نے بیک آواز کہا۔

کوئی بات نہیں

آج کے دن کی سب سے خوبصورت بات

"کوئی بات نہیں"

ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرےکا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے، پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل چکا ہے، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا، میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے والا ہی تھا، مگر اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آئی، اور میری زبان سے نکلا "کوئی بات نہیں"۔ اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہوگئی۔ پاسپورٹ دھل چکا تھا، اور اب اس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواہ میں بیگم پر غصہ کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشا پیش کرکے بنواتا یا بیگم کو دلاسا دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔۔

سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔ اپنوں سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن "کوئی بات نہیں" کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔۔

بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے۔ لیکن ان کی غیر اخلاقی غلطیوں پر "کوئی بات نہیں" کہ دینے سے وہ آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرکر فرمائیں "کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں" تو آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کرائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔

میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازہ بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزا ہوجاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں بال آجاتا ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یادداشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔

وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہر حال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ نقصان ہوجانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خسارہ ہوچکا وہ تو ہوچکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ "کوئی بات نہیں"َ۔ یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب "کوئی بات نہیں" کو للہیت کے رنگ میں ادا کرتا ہے، تو "انا اللہ وانا الیہ راجعون" کہتا ہے.

بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ "کوئی بات نہیں" کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کرکے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ "کوئی بات نہیں" کہ کر غلطی کی پرورش کرے۔ خود کو تکلیف پہونچے تو آدمی "کوئی بات نہیں" کہے تو اچھا ہے، لیکن کوئی کسی کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو "کوئی بات نہیں" کہ کر معمولی اور قابل نظر انداز ٹھہرالے، تو یہ ایک گری ہوئی حرکت ہوگی۔ اسی طرح جب کوئی اجتماعی ادارہ مفاد پرستوں کے استحصال اور نا اہلوں کی نا اہلی کا شکار ہو رہا ہو اور "کوئی بات نہیں" کہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کرلی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا ہوگا۔

غرض کہ یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر تسلی کا سامان بنے۔

اور یہی جملہ مکروہ اور قابل نفرت ہوجاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے...

Thursday, July 13, 2023

بیٹری اور موبائل فون

بیٹری اور موبائل فون
ابو یحیی کی بہت عمدہ تحریر

موبائل فون دور جدید میں ہر انسان کی ضرورت بن گیا ہے ۔ خاص کر سفر میں تو لوگ اس کے بغیر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتے ۔ تاہم موبائل فون کی یہ خامی ہے کہ لینڈ لائن فون کے برعکس یہ بیٹری سے چلتا ہے جو کچھ دیر استعمال کے بعد ختم ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اسے چارج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ تاہم اکثر اوقات طویل سفر میں بیٹری کو چارج کرنے کی سہولت نہیں ملتی۔ چنانچہ سفر میں لوگ بہت محتاط ہوکر صرف ضرورت کی جگہ پر موبائل فون کو استعمال کرتے ہیں ۔

دنیا کے سفر میں انسانوں کو دی گئی زندگی ایسی ہی ایک بیٹری کے سہارے رواں دواں ہے ۔ مگر اس سفر میں بیٹری کو چارج کرنے کی کوئی سہولت نہیں ۔ زندگی کی اس بیٹری کو بس ایک دفعہ ہی استعمال ہونا ہے ۔ جس کے بعد بیٹری ختم، زندگی ختم۔ بدقسمتی سے موبائل کی بیٹری کو دیکھ بھال کر استعمال کرنے والے انسان اکثر اس حقیقت سے غافل رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی کی بیٹری ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ڈسچارج ہورہی ہے ، مگر کسی کو فکر نہیں ۔

ہمارے ہاں لوگوں کی اوسط عمر ساٹھ ستر سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے ہم میں سے کسی کی بیٹری پچاس فیصد، کسی کی ساٹھ فیصد کسی کی نوے فیصد ختم ہو چکی ہے ، مگر ہم محتاط نہیں ہوتے ۔ ہم وقت کو ضائع کرتے رہتے ہیں ۔ فضول باتوں ، لایعنی مشغلوں ، بے فائدہ بحثوں اور بے وقت آرام میں زندگی کی بچی کھچی بیٹری بھی ضائع کرتے جا رہے ہیں ۔ جو یہ نہیں کرتے وہ اپنا وقت دنیا کمانے، جائدادیں بڑھانے، مال و اسباب جمع کرنے ، شان و شوکت میں اضافے میں ضائع کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے جو دس فیصد بچی ہوئی بیٹری میں اپنے موبائل پر وڈیو گیم کھیلنا شروع کردے ۔

ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی بچی ہوئی تھوڑی سی بیٹری پر گیم کھیل رہا ہے یا پھر اسے کسی بامقصد کام میں لگا رہا ہے ۔

Monday, July 10, 2023

بڑی رقم

بیوی: آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
شوہر: کیوں؟
بیوی: کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی
شوہر: کیوں؟
بیوی: اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
شوہر: ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
بیوی: اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
شوہر: کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
بیوی: ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
شوہر: تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
بیوی:آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
شوہر: واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔

تین دن بعد

شوہر: (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
ماسی: صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
شوہر: اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟
ماسی: نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں' 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔
شوہر: 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا' چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔
آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔
ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔

Tuesday, July 4, 2023

کچرے والا ٹرک

ایک دن میں ٹیکسی میں بیٹھا ہوائی اڈے کی جانب گامزن تھا، گھر سے ہوائی اڈے کی جانب جانے والا رستہ ہائی وے پر ہونے کے باعث تقریباً سیدھا تھا. گھر سے نکلے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور نے پانی خریدنے کے لیے گاڑی کو قریبی مارکیٹ والے رستے پر ڈال دیا. 
جیسے ہی ہم مارکیٹ کی حدود میں پہنچے، مارکیٹ کی پارکنگ سے ایک کار پوری رفتار سے ریورس میں نکلی اور اچانک ہمارے سامنے آ گئی،  ٹیکسی ڈرائیور نے تیزی سے بریک پیڈل دبایا، ٹائر احتجاجاً چرمرائے، ٹیکسی اس گاڑی سے ٹکرانے سے بال بال بچی تھی۔
صریحاً غلطی دوسرے ڈرائیور کی تھی، مگر اس صورتحال کی عجیب بات یہ ہے کہ دوسری گاڑی کے "بے وقوف" ڈرائیور نے اپنی کار سے سر باہر نکالا اور رخ ہماری طرف کرتے ہوئے گالی گلوچ کرنے لگا۔
  ٹیکسی ڈرائیور کی غلطی نہ ہونے کے باوجود اس نے اپنا غصہ دبایا اور اس بیوقوف سے معذرت کرتے ہوئے معافی مانگی، اس کی جانب مسکراہٹ اچھالی، سامنے والا ڈرائیور بڑبڑاتے ہوئے اپنی گاڑی نکال کر وہاں سے چلا گیا ۔
  میں حیران ہوا کہ اس ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کیا کیا؟ میں نے اس سے پوچھا: جب وہ غلطی پر ہے تو تم اس سے معافی کیوں مانگ رہے تھے ؟

  اس آدمی کی لاپرواہی اور غلطی ہمیں کسی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی تھی؟

  یہاں ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے ایک ایسا نکتہ سمجھایا جسے میں نے ہمیشہ یاد رکھا. 

  اس نے کہا: بہت سے لوگ کچرا اٹھانے والے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، جو کچرے کے ڈھیروں سے لدے ادھر ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں (ہر قسم کے مسائل، مایوسی، غصہ، ناکامی اور فرسٹریشن ) اور جب یہ فضلہ ان کے اندر زیادہ مقدار میں جمع ہوجاتا ہے، تو انہیں ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اسے کسی بھی جگہ پر خالی کر دیں ، اس لیے وہ کوڑے دان کی تلاش میں رہتے ہیں. 
اس لیے اپنے آپ کو نہ ہی کچرا بنائیں اور نہ ہی کچرا کنڈی. 

  اگر ایسے لوگوں سے سامنا ہوجائے تو کبھی بھی ان کی گالم گلوچ کو ذاتی طور پر نہ لیں، بس مسکرائیں، معذرت کریں اور اپنے غصے پر قابو پالیں، پھر اپنے رستے پر چل دیں، اور خدا سے دعا کریں کہ وہ ان منتشر لوگوں کی رہنمائی کرے اور ان کی پریشانی دور کرے، اور ہمیں لوگوں کے اس گروہ کی طرح ہونے سے بچائے جو اپنے اندر فضلہ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے کام کی جگہ پر، گھر پر یا سڑک پر دوسرے لوگوں پر پھینکتے رہتے ہیں۔ 
شیخ علی الطنطاوی کہتے ہیں اسی واقعے کے بعد میں نے ایسے لوگوں کو "کچرے والا ٹرک" کا نام دینا شروع کیا، اور ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ کسی طرح ان سے پہلو بچا کر گزر جاؤں. 


Tuesday, April 25, 2023

اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج

میں نے دوبارہ پوچھا لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی' تم کام یابی کے کسی بھی فارمولے پر پورے نہیں اترتے' تعلیم واجبی' عقل اوسط درجے کی' کاروباری سینس نہ ہونے کے برابر' حلیہ اور پرسنیلٹی بھی بے جان اورسونے پر سہاگا تم اپنے کاروبار کوبھی وقت نہیں دیتے' ہفتہ ہفتہ دفتر نہیں جاتے لیکن اس کے باوجود تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا۔

سیلاب میں بھی سارے شہر کے گودام پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر تمہارے گودام میں پانی داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہو جائے تو یہ تمہارے مال کو چھوئے بغیر چپ چاپ نکل جاتا ہے' تم لوہا بیچنا شروع کر دو تو وہ چاندی کے برابر ہو جاتا ہے اور حتیٰ کہ تمہارے نلکے کا پانی بھی منرل واٹر ہے۔

آخر اس کے پیچھے سائنس کیا ہے؟'' میری تقریر سن کر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ''میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں لیکن یقین کرو مجھے زندگی میں ایک واقعے کے سوا کوئی نیکی' اپنی کوئی صفت نظر نہیں آتی'شاید اللہ کے کرم کی یہی وجہ ہو'' وہ رکا اور بولا ''میں نے نویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا' میں شروع میں والد کے ساتھ فروٹ کی ریڑھی لگانے لگا'والد کا انتقال ہو گیاتو میں ایک آڑھتی کی دکان پر منشی بھرتی ہو گیا۔

زندگی بے مقصد' بے رنگ اور الجھی ہوئی تھی' دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا' میں ایک دن اپنے ایک دوست کی کریانے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا' وہاں درمیانی عمر کی ایک خاتون آئی' اسے دیکھتے ہی میرا دوست اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا' وہ اس سے پرانے پیسے مانگ رہا تھا جب کہ وہ مزید سودے کے لیے منتیں کر رہی تھی۔

عورت مجبور دکھائی دے رہی تھی جب کہ میرا دوست اس کے ساتھ غیر ضروری حد تک بدتمیزی کر رہا تھا' میں ان کی تکرار سنتا رہا' خاتون جب مایوس ہو کر چلی گئی تو میں نے اپنے دوست سے ماجرا پوچھا' اس کا جواب تھا' یہ بیوہ ہے' اس کا خاوند سعودی عرب میں کام کرتا تھا' خاندان خوش حال تھا لیکن پھر خاوند روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اس کی زمین جائیداد پر اس کے دیوروں نے قبضہ کر لیا۔

اس کے پاس اب چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ نہیں' دو بچیاں ہیں' وہ اسکول جاتی ہیں' یہ ان پڑھ اور بے ہنر عورت ہے' اس کا ذریعہ روزگار کوئی نہیں' سعودی عرب سے دو چار ماہ بعد خاوند کی تھوڑی سی پنشن آ جاتی تھی اور یہ اس میں گزارہ کر لیتی تھی مگر اب وہ بھی رک گئی ہے' میرے والد صاحب اسے ادھار راشن دے دیتے تھے لیکن یہ بھی اب تھک گئے ہیںلہٰذا میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے اپنے پیسے مانگ لیتا ہوں'یہ ہمارا روز کا تماشا ہے' تم چھوڑو' یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟'' وہ رکا اور ہنس کر بولا ''یہ ایک عام سی کہانی تھی' ایسے کردار ہر شہر' ہر قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔

آپ کسی کریانہ اسٹور پر چلے جائیں' آپ کو ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟ میں نے اپنے دوست سے اس کا پتا لیا' اس کے خاوند کا نام پوچھا' بازار گیا' دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا' بوری بنائی اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دے دی' وہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر آ گئی' پانچ اور سات سال کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئیں' میں نے سودا ان کی دہلیز پر رکھا اور ادب سے عرض کیا' میرے والد ارشد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔

انھوں نے آپ کے خاوند سے کچھ رقم ادھار لی تھی' وہ مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دے گئے ہیں' میرے حالات سردست اچھے نہیں ہیں اور میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کر سکتا' میری تنخواہ کم ہے' آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو پندرہ دن بعد گھر کا سودا دے دیا کروں گا' اس سے میرا قرض بھی اتر جائے گا اور آپ کے گھر کا نظام بھی چلتا رہے گا' وہ عورت اور اس کی بچیاں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں' میں نے انھیں سلام کیا اور واپس آ گیا' میں اس کے بعد انھیں ہرپندرہ دن بعد راشن پہنچانے لگا'' وہ خاموش ہوگیا۔

میں نے اس سے پوچھا''تم خود غریب تھے' تم ان کے راشن کے لیے رقم کہاں سے لاتے تھے؟'' اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ''تم شاید یقین نہیں کرو گے میں نے اپنی جیب سے صرف وہی سودا خریدا تھا' پندرہ دن بعد ان کا سودا فری ہو چکا تھا'' وہ خاموش ہو گیا' میں نے پوچھا ''کیسے؟'' وہ بولا ''میں اگلے دن دکان پر گیا تو میرے مالک نے مجھے مشورہ دیا' ہماری دکان کا تھڑا خالی ہوتا ہے۔

تمہارا کام شام کے وقت اسٹارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی تم گھنٹے میں ختم کر دیتے ہو اور سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہو' میں تمہیں چاول اور دالیں دے دیتا ہوں' تم یہ تھڑے پر رکھو اور پانچ پانچ' دس دس کلو بیچ دو' تمہیں اس سے فائدہ ہو جائے گا' غلہ منڈی میں تھوک کا کام ہوتا تھا' ہمارے پاس پانچ دس کلو کے بے شمار خریدار آتے تھے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے تھے' مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا'میں اپنے مالک سے دالیں' چاول اور چینی خریدتا تھا۔

اس کے پانچ پانچ اور دس دس کلو کے پیکٹ بناتا تھا اور کھڑے کھڑے بیچ دیتا تھا' آپ یقین کریں دو ہفتوں میں میری آمدنی چار پانچ گنا بڑھ گئی اور میں پندرہ دن بعد جب اس بیوہ کے گھر گیا تو میرے پاس سودا بھی ڈبل تھا اور میری جیب بھی ٹھیک ٹھاک بھاری تھی' میں نے ایک ماہ بعد اسے بچیوں کی فیس' کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی رقم دینا شروع کر دی' اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں دو سال بعد اس دکان کا مالک تھا جس پر میں منشی ہوتا تھا' وہ دکان بعدازاں پورے کمپلیکس میں تبدیل ہو گئی اور میں دکان دار سے سیٹھ بن گیا۔

میں منڈیوں میں اجناس سپلائی کرنے لگا اور آج میں تمہارے سامنے ہوں' مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا' کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس کی وجہ وہ عورت اور اس کی دو بچیاں تھیں' وہ بچیاں بڑی ہوئیں' ایک ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئی' دوسری نے بی اے کے بعد بیوٹی پارلر بنا لیا' وہ اب چودہ پندرہ سیلون چلا رہی ہے جب کہ آنٹی ایک یتیم خانہ اور بیوہ گھر چلا رہی ہے'' وہ ایک بار پھر رک گیا' میں نے اس سے پوچھا ''تم نے اس کے بعد کیا کیا؟'' وہ ہنس کر بولا''مجھے نیکی کا چسکا پڑ گیا' میں نے اس کے بعد اس جیسے گھرانوں کو راشن دینا اور فیملیز کی مدد کرنا شروع کر دیا۔

میں پہلے اپنی کمائی کا دس فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا اور یہ اب آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے 60 فیصد ہو چکا ہے' میرے منافع کا 60 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ ہوتا ہے' میں اپنی ذات کے لیے صرف 40فیصد رکھتا ہوں لیکن یہ 40 فیصد بھی بے انتہا ہے۔

میں روز صبح اٹھتا ہوں اور آنٹی کو دعا دیتا ہوں' وہ اگر اس دن میری زندگی میں نہ آتی تو میں شاید آج بھی کسی دکان پر منشی ہوتا اور سات آٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہوتا' وہ آئی اور اس نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس پر کام یابی اور خوش حالی کے پُل ہیں'' وہ خاموش ہوگیا۔

مجھے یقین ہے آپ کو یہ کہانی فرضی لگے گی اور آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میرے پاس اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن آپ یقین کریں یہ کہانی سو فیصد سچی ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے' دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مثالیں موجود ہیں' میں اپنے ملک میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اللہ سے تجارت کی اور یہ خود بھی ارب پتی ہو گئے اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے لیے بھی زندگی آسان ہو گئی۔

آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی زندگی میں ایک بار ایسا کر کے دیکھ لیں' آپ اٹھیں اور کسی بیوہ' کسی یتیم کا ہاتھ پکڑ لیں' آپ کسی طالب علم کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں اور آپ اس کے بعد اللہ کا کرم دیکھیں' آپ کو اگر اس کے بعد خوش حالی' مسرت اور کام یابی نصیب نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے وصول کر لیجیے گا' آپ یقین کریں دنیا میں صرف ایک ہی تجارت ہے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے۔

دنیا میں صرف ایک اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا' جو کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتی' جو کبھی کریش نہیں ہوتی اور وہ ہے اللہ کی اسٹاک ایکسچینج لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ایک بار اس اسٹاک ایکسچینج میں کھاتا کھول کر دیکھیں' آپ کو تجارت کا مزہ آئے گا

Friday, June 3, 2022

بس یہی وقت ہے اگر سمجھ گئے تو

 ایک شکاری نے کنڈی میں گوشت کی بوٹی لگا کر دریا میں پھینکی ۔ ایک مچھلی اسے کھانے دوڑی ۔ وہیں ایک بڑی مچھلی نے اسے روکا کہ اسے منہ نہ لگانا ، اس کے اندر ایک چھپا ہوا کانٹا ھے جو تجھے نظر نہیں آرہا۔

Tuesday, May 24, 2022

اللہ سے تجارت کرو گے...؟

 ﮔﺎﮨﮏ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ: 

پھلوں ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﮭﺎﺅ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﮯ؟

 ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: ﮐﯿﻠﮯ 12 ﺩﺭﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺐ 10 ﺩﺭﮨﻢ۔

ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ: