Wednesday, October 26, 2011

عبادت اور کاروبار - سبق آموز قصہ

حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے- حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کیلیۓ حیران کن تھی- وہ تیس برس تک دنیاداری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزاراتھا اور اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندرسے روشن ہوگۓ تھے وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گۓ تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا،لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے- وہ ان کے لیۓ دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرمادیتا تھا- اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا- وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی- انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں- خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لیۓ کپڑوں کے نۓ ڈیزائن بناۓ- یہ ڈیزائن یورپ بھجواۓ- باہر سے آرڈر آۓ اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کردیا- یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے- دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو،تین کروڑ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین کروڑ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا ـ پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعدازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں- انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ  سے لو لگائی لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گۓ توانہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اور مکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی- وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گۓ تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آگۓـ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی

حاجی صاحب کی گارمنٹس فیکٹری تھی، حاجی صاحب صبح صبح فیکٹری چلے جاتے اور رات بھیگنے تک کام کرتے تھے- ایک دن وہ فیکٹری پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایک درمیانے قد کاٹھ کا کتا گھسٹ گھسٹ کر ان کے گودام میں داخل ہو رہا ہے، حاجی صاحب نے غور کیا تو پتہ چلا کتا شدید زخمی ہے، شاید وہ کسی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا جس کے باعث اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور وہ صرف ایک ٹانگ کے ذریعے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ان کے گودام تک پہنچا تھا- حاجی صاحب کو کتے پر بڑا رحم آیا، انہوں نے سوچا وہ کتے کو جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، اس کا علاج کراتے ہیں اور جب کتا ٹھیک ہو جائے گا تو وہ اسے گلی میں چھوڑ دیں گے- حاجی صاحب نے ڈاکٹر سے رابطے کے لیۓ فون اٹھایا لیکن نمبر ملانے سے قبل ان کے دل میں ایک انوکھا خیال آیا اور حاجی صاحب نے فون واپس رکھ دیا- حاجی صاحب نے سوچا کتا شدید زخمی ہے، اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، اس کا جبڑا زخمی ہے اور پیٹ پر بھی چوٹ کا نشان ہے چنانچہ کتا روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتا- حاجی صاحب نے سوچا' اب دیکھنا یہ ہے قدرت اس کتے کی خوراک کا بندوبست کیسے کرتی ہے، حاجی صاحب نے مشاہدے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ بیٹھ بیٹھ گئے- وہ کتا سارا دن گودام میں بیہوش پڑا رہا، شام کو جب اندھیرا پھیلنے لگا تو حاجی صاحب نے دیکھا ان کی فیکٹری کے گیٹ کے نیچے سے ایک دوسرا کتا اندر داخل ہوا، کتے کے منہ میں ایک لمبی سی بوٹی تھی- کتا چھپتا چھپاتا گودام تک پہنچا، زخمی کتے کے قریب آیا، اس نے پاؤں سے زخمی کتے کو جگایا اور بوٹی اس کے منہ میں دے دی- زخمی کتے کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا چنانچہ اس نے بوٹی واپس اگل دی- صحت مند کتے نے بوٹی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، بوٹی چبائی، جب وہ اچھی طرح نرم ہو گئی تو اس نے بوٹی کا لقمہ سا بنا کر زخمی کتے کے منہ میں دے دیا- زخمی کتا بوٹی نگل گیا، اسکے بعد وہ کتا گودام سے باہر آیا، اس نے پانی کے حوض میں اپنی دم گیلی کی، واپس گیا اور دم زخمی کتے کے منہ میں دے دی- زخمی کتے نے صحت مند کتے کی دم چوس لی- صحت مند کتا اس کروائی کے بعد اطمینان سی واپس چلا گیا- حاجی صاحب مسکرا پڑے- اس کے بعد یہ کھیل روزانہ ہونے لگا- روز کتا آتا اور زخمی کتے کو بوٹی کھلاتا، پانی پلاتا اور چلا جاتا- حاجی صاحب کئی دنوں تک یہ کھیل دیکھتے رہے- ایک دن حاجی صاحب نے اپنے آپ سے پوچھا "وہ قدرت جو اس زخمی کتے کو رزق فراہم کر رہی ہے کیا وہ مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے گی؟" سوال بہت دلچسپ تھا، حاجی صاحب رات تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ توکل کی حقیقت بھانپ گئے-  انہوں نے فیکٹری اپنے بھائی کے حوالے کی اور تارک الدنیا ہو گئے- وہ مہینے میں تیس دن روزے رکھتے اور صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک رکوع و سجود کرتے، وہ برسوں اللہ کے دربار میں کھڑے رہے، اس عرصے میں اللہ انہیں رزق بھی دیتا رہا اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بھی- یہاں تک کہ وہ صوفی بابا کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنے لگے لیکن پھر ایک دوسرا واقعہ پیش آیا اور صوفی بابا دوبارہ حاجی صاحب ہو گئے

یہ سردیوں کی ایک نیم گرم دوپہر تھی، صوفی بابا کی بیٹھک میں درجنوں عقیدت مند بیٹھے تھے- صوفی بابا ان کے ساتھ روحانیت کے رموز پر بات چیت کر رہے تھے- باتوں ہی باتوں میں صوفی بابا نے کتے کا قصہ چھیڑ دیا اور اس قصے کے آخر میں حاضرین کو بتایا "رزق ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہم بیوقوف انسانوں نے رزق کا پیچھا شروع کر دیا ہے- اگر انسان کی توکل زندہ ہو تو رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے بلکل اس کتے کی طرح جو زخمی ہوا تو دوسرا کتا اس کے حصے کا رزق لے کر اس کے پاس آ گیا- میں نے اس زخمی کتے سے توکل سیکھی- میں نے دنیاداری ترک کی اور اللہ کی راہ میں نکل آیا- آج اس راہ کا انعام ہے میں آپ کے درمیان بیٹھا ہوں- ان تیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اللہ تعالی نے کسی نہ کسی وسیلے سے مجھے رزق نہ دیا ہو یا میں کسی رات بھوکا سویا ہوں- میں ہمیشہ اس زخمی کتے کو تھینک یو کہتا رہتا ہوں جس نے مجھے توکل کا سبق سکھایا تھا-" صوفی بابا کی محفل میں ایک نوجوان پروفیسر بھی بیٹھا تھا، پروفیسر نے جینز پہن رکھی تھی اور اس کے کان میں ایم پی تھری کا ائر فون لگا تھا- نوجوان پروفیسر نے ائر فون اتارا اور قہقہہ لگا کر بولا "صوفی بابا ان دونوں کتوں میں افضل زخمی کتا نہیں تھا بلکہ وہ کتا تھا جو روز شام کو زخمی کتے کو بوٹی چبا کر کھلاتا تھا اور اپنی گیلی دم سے اس کی پیاس بجھاتا تھا- کاش آپ نے زخمی کتے کے توکل کی بجائے صحت مند کتے کی خدمت، قربانی اور ایثار پر توجہ دی ہوتی تو آج آپ کی فیکٹری پانچ، چھ سو لوگوں کا چولہا جلا رہی ہوتی-" صوفی بابا کو پسینہ آ گیا- نوجوان پروفیسر بولا "صوفی بابا! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے، وہ صحت مند کتا اوپر والا ہاتھ تھا جبکہ زخمی کتا نیچے والا- افسوس آپ نے نیچے والا ہاتھ تو دیکھ لیا لیکن آپ کو اوپر والا ہاتھ نظر نہ آیا- میرا خیال ہے آپ کا یہ سارا تصوف اور سارا توکل خود غرضی پر مبنی ہے کیونکہ ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے" نوجوان اٹھا' اس نے سلام کیا اور بیٹھک سے نکل گیا- حاجی صاحب نے دو نفل پڑھے، بیٹھک کو تالا لگایا اور فیکٹری کھول لی، اب وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی

Tuesday, June 7, 2011

5 Important Lessons to learn From a Humble Pencil.


 
1: It tells you that everything you do
will always leave a mark.

2: You can always correct the mistakes
you make....

3: The important thing in life is what you
are from inside and not from outside.

4: In life you will under go painful sharpning
which will make you better in whatever you do.

5: Finally, to be the best you can be,
you must allow yourself to be held and
guided by the hand that holds you.

Monday, May 30, 2011

انگور اور شراب




السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

انگور اور شراب

مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔

اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟

شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟

کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟

شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔

کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟

شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔

کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!

ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔

کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟

With Good Regards

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔



Monday, May 23, 2011

!....آنکھیں کہیں جنہیں

!....آنکھیں کہیں جنہیں
٭ گناہ کی پہلی سیڑھی اور حیاکی پہلی زینت ہیں۔ 
٭ دیکھنے کی حس ماند پڑ جائے تو باقی حسیں زیادہ محتاج ہوجاتی ہیں۔ 
٭ لاشعوری تخلیق ، ظاہری آنکھ کی محتاج نہیں ہوتی۔ 
٭ دل کو پرسکون رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی پلکوں کے نیچے حیا کا بسیرا کرلو۔ 
٭ ظاہری آنکھ سے عشق کی ابتدا نہیں ہوتی۔

بڑے لوگ .... بڑی باتیں

٭ جس کے دل میں ماں کیلئے محبت ہے، وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر شکست نہیں کھا سکتا۔ 
٭ خاموشی سب سے زیادہ آسان کام اور سب سے زیادہ فائدہ مند عادت ہے۔ 
٭ جس چیز کا علم نہیں، اس کو مت کہو، جس چیز کی ضرورت نہیں، اس کی جستجو نہ کرو، جو راستہ معلوم نہیں اس پر سفر مت کرو۔ 
٭ انسان بہت عظیم ہے، کسی کے تحقیر نہ کرو، ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آﺅ۔ 
٭ اگر اچھی بات تمہارے دشمن میں بھی ہو تو اسے قبول کرنے سے دریغ نہ کرو۔ 

انمول تحفہ

انمول تحفہ
خلوص ایک خداداد صلاحیت ہے۔ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے۔ خلوص کے چند لمحے انسان ساری زندگی نہیں بھلا سکتا۔ تھوڑی سی مسکراہٹ اجنبی کیلئے زندگی کا ساتھ ہوسکتی ہے۔ خلوص سے بولے میٹھے میٹھے لفظ، کسی مریض کیلئے زندگی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ 
مسکراہٹ ایک ایسا تحفہ ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ ایسی مسکراہٹ سے پرہیز کریں جو کسی کا دل دکھائے۔ اگر کوئی شخص آپ کو پھول پیش کرے تو اسے کبھی نہ ٹھکراﺅ کیونکہ اس کے پاس اس خلوص سے مہنگا تحفہ نہیں ہے۔ 

مخلص دوست

مخلص دوست
تنہائی اور تاریکی سے ہر کوئی ڈرتا ہے لیکن اصل میں تنہائی ایک مخلص ساتھی ہے، جس کے سینے میں ہمارے بہت سے راز محفوظ ہیں۔ جب کوئی بھی ہمیں سمجھنے والا، ہمارے آنسو پونچھنے والا نہیں ہوتا، جب جب ظالم دنیا میں قدم قدم پر دکھ کا سامنا ہوتا ہے، جب کبھی کسی ایسے کندھے کی تلاش ہو جس پر سر رکھ کر ہم رو سکیں، اپنا غم بیان کرسکیں، اپنا آپ ہلکا کرسکیں، جبکہ ہر ہونٹ تمسخرانہ مسکراہٹ لئے ہوئے ہوں، محبت کا ڈھونگ رچانے والے لالچ کی طمع میں گرفتا ر ہوں اور نفرت کے تیر سے دل کو چھلنی کردیں، تو ایسے میں پوری شدت کے ساتھ مخلص دوست کی یاد ہی ستاتی ہے، جو کسی غمگسار دوست کی طرح پاس آکر گلے سے لگاتی ہے اور نہ صرف آنسو کو پونچھتی ہے بلکہ دل کو بھی بہلاتی ہے۔