نیویارک کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ سے ٹکرا کر ایک بوڑھا آدمی گر پڑا۔ ایمبولینس آئی اور اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئی۔ راستے میں نرس نے اس بوڑھے کی جیب سے بٹوا نکال کر تلاشی لی تو اسے ایک نام اور پتہ ملا جو شاید اس کے بیٹے کا تھا۔ نرس نے اسے پیغام بھیجا جلدی پہنچو اور یہ نوجوان فوراً ہی ہسپتال پہنچ گیا۔ نرس نے بوڑھے سے جس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا سے کہا تمہارا بیٹا تم سے ملنے آیا ہے۔ تیز اثر دواؤں کے زیر اثر ہوش میں آئے ہوئے بوڑھے نے ہاتھ بڑھایا اور نوجوان نے بڑھ کر تھام لیا۔ یہ نوجوان مسلسل چار گھنٹے تک اس بوڑھے کے پاس رہا اور شفقت سے بوڑھے کا ہاتھ تھامے بار بار گلے لگاتا اور بوڑھے کی تیمار داری اور حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ نرس نے اس دوران کئی بار نوجوان سے آرام کرنے یا ادھر ادھر چل پھر لینے کو بھی کہا مگر اس نے انکار کیا اور بوڑھے کے پاس موجود رہا۔ صبح کے وقت اس بوڑھے کی وفات ہو گئی۔ اس نوجوان نے نرس سے پوچھا؛ یہ بوڑھا آدمی کون تھا؟ نرس نے حیرت سے کہا؛ کیا یہ تیرا باپ نہیں تھا؟ اس نے کہا؛ نہیں، مگر میں نے محسوس کیا تھا کہ اسے اپنے بیٹے کی اشد ضرورت تھی جو اس کے قریب رہ کر اس کی تیمار داری کرے اور اسکی محرومیوں کا ازالہ کرے اس لیے میں اس کے پاس رہا محتاج اور ضرورتمند کے ساتھ اچھائی ضرور کیجیئے، یہ اچھائی ایک دن آپ کے پاس ایسی جگہ سے واپس لوٹ کر آئے گی جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔
Thursday, August 6, 2020
زندگی کی حقیقت
آج طبیعت کچھ افسردہ سی تھی…معلوم نہیں کیوں؟اور شاید اسی بوجھل طبیعت کو دیکھ کر نماز فجر کے بعد بہن زبردستی گھر سے قریب پارک میں لے آئی تھی' جہاں پر سورج کی کرنوں کا استقبال کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ تھی تو کہیں پھول اپنی مہک کو فضا میں گھولتے ہوئے اس کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ غرض چہار جانب بادِصبا صبح کی آمد کی خوشی میں موسم کو تازگی بخش رہی تھی۔
انسان جب قدرت سے اتنا قریب ہوتا ہے تو اس کی مشاہدے کی آنکھ خود بخود کھل جاتی ہے۔۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی زندگی، انسانی زندگی کا عکس ہوتا ہے جو بھٹکے ہوئے کے لیے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پھر خدا بھی کہتا ہے''سو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔''
غور کرنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور آج ایک عجیب پہلو پہ میری سوچیں اٹک گئیں۔
میری نگاہوں کے حصار میں سامنے کھڑا سرسبز درخت تھا جسے موسم بہار نے پھولوں سے سجا دیا تھا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آج کل اس باغ کی خوب صورتی انہیں رنگ برنگے پھولوں سے تھی۔
مگر میں اس خوب صورتی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسرے نظام قدرت نے میری توجہ کو اپنی قبضے میں لے رکھا تھا۔
کوے کی ایک جوڑی نہ جانے کس پریشانی میں درخت کے اطراف منڈلا رہی تھی… زور زور سے آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ شاید دانہ تلاش کررہے ہوں!؟
کہیں ان کا بچے کو سانپ نے تو نہیں کھا لیا… یا ہوسکتا ہے کھانا نہ مل رہا ہو اور بچہ بھوکا ہو!؟ میں بھی طرح طرح کے اندازے لگا رہی تھی۔
ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا کہ دونوں خاموش ہوگئے… شاید دانہ مل گیا جو پریشانی لاحق تھی وہ دور ہوگئی!!
دونوں اب اپنے گھونسلے کی جانب پرواز کررہے تھے جہاں ان کے بچے ان کے منتظر تھے۔ چونچ میں دانہ پھنسائے اب بچوں کو کھلا رہے تھے۔
سوچوں نے رخ بدلا… ان پرندوں کی زندگی ہی یہی ہے۔
اٹھو' کھانے کی تلاش کے لیے نکلو… کھاؤ' پھر کسی دن کسی دوسری مخلوق کی غذا بن جاؤ۔یہ بھی نظام قدرت ہی ہے ویسے۔
مگر یہاں پر ایک الجھن نے جنم لیا۔ہم انسان بھی تو یہی کرتے ہیں۔کھالے، پی لے، جی لے' اسی کواپنی زندگی کا منشور بنالیا ہے… ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہماری زندگی کا مقصد ہر گز ہرگز یہ نہیں ہوسکتا!!
پھر کیا ہے انسان کی زندگی کا مقصد؟ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے بہن کی مدد لی۔۔تو وہ بولی ''کھانا انسانی زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے… کہ اس کا جینا بھی اللہ کے لیے ہو اور مرنا بھی…غرض ہر عمل اس لیے ہو کہ اس کا رب راضی ہوجائے۔ جیسے قرآن میں ہے''اللہ کی رضا کے لیے عمل کیسا ہو!؟'' کتاب اللہ اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق۔ اور جو کوئی اللہ کے لیے عملِ صالح کرے گا تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔ وہ منزل یعنی جنت پالے گا۔''
الجھن رفع ہوئی… مزید سوچوں کو ذہن میں جگہ ملی اور عمل صالح بغیر ایمان کے کیوں بے فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو عمل خالصتاً اللہ کے لیے کیا جاتا ہے وہی قبول ہوتا ہے اور منزل تک پہنچانے کے لیے بہرہ مند ثابت ہوتا ہے۔
طبیعت اب قدرے بہتر محسوس ہورہی تھی شاید اس لیے کہ اس بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کا راستہ معلوم ہوگیا تھا۔ دل یہی عہد باندھ رہا تھا رب کے ساتھ کہ زندگی کے آخری لمحات تک اسی راستے پر چلتے جانا ہے… اور یہ دعا بھی لب پہ جاری تھی ''اے اللہ ! بے شک' میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، عفت اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔
انسان جب قدرت سے اتنا قریب ہوتا ہے تو اس کی مشاہدے کی آنکھ خود بخود کھل جاتی ہے۔۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی زندگی، انسانی زندگی کا عکس ہوتا ہے جو بھٹکے ہوئے کے لیے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پھر خدا بھی کہتا ہے''سو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔''
غور کرنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور آج ایک عجیب پہلو پہ میری سوچیں اٹک گئیں۔
میری نگاہوں کے حصار میں سامنے کھڑا سرسبز درخت تھا جسے موسم بہار نے پھولوں سے سجا دیا تھا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آج کل اس باغ کی خوب صورتی انہیں رنگ برنگے پھولوں سے تھی۔
مگر میں اس خوب صورتی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسرے نظام قدرت نے میری توجہ کو اپنی قبضے میں لے رکھا تھا۔
کوے کی ایک جوڑی نہ جانے کس پریشانی میں درخت کے اطراف منڈلا رہی تھی… زور زور سے آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ شاید دانہ تلاش کررہے ہوں!؟
کہیں ان کا بچے کو سانپ نے تو نہیں کھا لیا… یا ہوسکتا ہے کھانا نہ مل رہا ہو اور بچہ بھوکا ہو!؟ میں بھی طرح طرح کے اندازے لگا رہی تھی۔
ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا کہ دونوں خاموش ہوگئے… شاید دانہ مل گیا جو پریشانی لاحق تھی وہ دور ہوگئی!!
دونوں اب اپنے گھونسلے کی جانب پرواز کررہے تھے جہاں ان کے بچے ان کے منتظر تھے۔ چونچ میں دانہ پھنسائے اب بچوں کو کھلا رہے تھے۔
سوچوں نے رخ بدلا… ان پرندوں کی زندگی ہی یہی ہے۔
اٹھو' کھانے کی تلاش کے لیے نکلو… کھاؤ' پھر کسی دن کسی دوسری مخلوق کی غذا بن جاؤ۔یہ بھی نظام قدرت ہی ہے ویسے۔
مگر یہاں پر ایک الجھن نے جنم لیا۔ہم انسان بھی تو یہی کرتے ہیں۔کھالے، پی لے، جی لے' اسی کواپنی زندگی کا منشور بنالیا ہے… ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہماری زندگی کا مقصد ہر گز ہرگز یہ نہیں ہوسکتا!!
پھر کیا ہے انسان کی زندگی کا مقصد؟ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے بہن کی مدد لی۔۔تو وہ بولی ''کھانا انسانی زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے… کہ اس کا جینا بھی اللہ کے لیے ہو اور مرنا بھی…غرض ہر عمل اس لیے ہو کہ اس کا رب راضی ہوجائے۔ جیسے قرآن میں ہے''اللہ کی رضا کے لیے عمل کیسا ہو!؟'' کتاب اللہ اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق۔ اور جو کوئی اللہ کے لیے عملِ صالح کرے گا تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔ وہ منزل یعنی جنت پالے گا۔''
الجھن رفع ہوئی… مزید سوچوں کو ذہن میں جگہ ملی اور عمل صالح بغیر ایمان کے کیوں بے فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو عمل خالصتاً اللہ کے لیے کیا جاتا ہے وہی قبول ہوتا ہے اور منزل تک پہنچانے کے لیے بہرہ مند ثابت ہوتا ہے۔
طبیعت اب قدرے بہتر محسوس ہورہی تھی شاید اس لیے کہ اس بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کا راستہ معلوم ہوگیا تھا۔ دل یہی عہد باندھ رہا تھا رب کے ساتھ کہ زندگی کے آخری لمحات تک اسی راستے پر چلتے جانا ہے… اور یہ دعا بھی لب پہ جاری تھی ''اے اللہ ! بے شک' میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، عفت اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔
Wednesday, August 5, 2020
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
حضرت خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپؓ کا گھوڑا ''اشکر'' جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ترکے میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپؓ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہؓ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے حضورؐ سے حضرت خالدؓ کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔
خالد بن ولیدؓ کا پیغام مسلم امت کے نام :
موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،،
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولیدؓ کو موت بستر پر نہ آتی۔
رضی اللہ تعالٰی عنہُ
Tuesday, August 4, 2020
والدین کی دعا کا اثر دیکھیں
اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جائیں اور قدرت الٰہیہ کا تماشا دیکھیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے گئے؛مگر انھیں کوئی ایسی شے نظر نہیں آئی۔
آپ نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی خبر لاؤ۔ عفریت نے غوطہ لگایا مگر کچھ نہ پایا، اور واپس آکر عرض کیا:
اے اللہ کےنبی!
میں نے غوطہ لگایا مگر سمندر کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، اور نہ کوئی شے دیکھی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے قوی جن کو غوطہ خوری کا حکم فرمایا۔ مگر وہ بھی نامراد واپس آیا، اگرچہ یہ اس سے دوگنی مسافت تک اندر گیا تھا۔
اب آپ نے اپنے وزیر *آصف بن برخیا* کو سمندر میں اُترنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر میں ایک سفید کافوری قبہ لاکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کیا، جس میں چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا، تیسرا ہیرے کا اور چوتھا زمرد کا۔ چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود اندر سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں داخل ہوا تھا حالانکہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کے اندر *ایک خوبصورت نوجوان* صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے۔
آپ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اس سے سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اس سمندر کی تہہ میں تم کیسے پہنچ گئے؟
اس نے جواب دیا:
اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ معذور تھے اور میری ماں نابینا تھی، میں نے ان دونوں کی ستر سال تک خدمت کی۔ میری ماں کا جب انتقال ہونے لگا تو اس نے دعا کی: خداوندا! اپنی طاعت میں میرے فرزند کو عمر دراز عطا فرما۔
اسیطرح جب میرے باپ کا وصال ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی: پروردگار میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت میں لگا جہاں شیطان کا دخل نہ ہو سکے۔ میں اپنے والد کو دفن کرکے جب اس ساحل پر آیا تو مجھے یہ قبہ نظر آیا۔ اس کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں اس کے اندر چلا گیا۔ اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا اور اس نے قبہ کو سمندر کی تہہ میں اُتار دیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس سے دریافت کیا: تم کس زمانے میں یہاں آئے؟
نوجوان نے جواب دیا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں مگر وہ اب تک بالکل جوان ہے اور اس کا بال بھی سفید نہیں ہوا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تم وہاں کھاتے کیاہو؟
نوجوان نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی!ایک سبز پرندہ روزانہ اپنی چونچ میں سر برابر کی ایک زرد چیز لے کر آتا ہے میں اسے کھا لیتا ہوں اور اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کا لطف ہوتا ہےـ اس سے میری بھوک بھی مٹ جاتی ہے اور پیاس بھی رفع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی، سردی، نیند، سستی، غنودگی اور نامانوسی و وحشت یہ تمام چیزیں مجھ سے دور رہتی ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اب تم ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہو یا تمہیں تمہاری جگہ پہنچا دیاجائے؟
نوجوان: حضور! مجھے میری ہی جگہ بھجوا دیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت آصف بن برخیاؓ کو حکم فرمایا تو انھوں نے قبہ اٹھا کر پھر سمندر کی تہہ میں پہنچادیا۔
اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے دیکھو والدین کی دعا کتنی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن کی نافرمانی سے بچو۔
📗 _نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ215/214۔_
جہیز لعنت ہے
کل ایک لڑکی کا میسج آیا کہ کوئی اچھی سی جاب بتا سکتے ہیں ؟؟ جب میں نے وجہ پوچھی تو حیران کے ساتھ خاموش سا ہوگیا۔۔۔
ہوا یوں کچھ دن پہلے اک فیملی لڑکی کو دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی ماشااللہ پیاری ہے اور ماسٹر کیا ہوا ہے۔۔چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی گئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا آگیا ۔ لڑکے کی ماں نے کہا کے ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر ہوتا اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں لڑکی کی بات اور ہنسی مزاق ہو رہا تھا اب وہاں سناٹا تھا۔۔۔
آخر کار جواب نا ہو گیا۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نا نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا بےروزگار )بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیتے۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا کہ اتنا باپ نے پڑھایا ہے کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش تھا اور ماں آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
میں اکثر جو لکھتا ہوں کہانی نہیں حقیقت لکھتا ہوں۔۔
باقی اگر جہیز کی پوسٹ کردو تو ہر مرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کہنے لگتا ہے اور حقیقت میں خاموش بیٹھے چائے پیتے ہیں۔۔
اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر
آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے
فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں
صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے
یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا
یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے
دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا
اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے
اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے
عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں
قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں،
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں
آخرت کو بہت یاد کریں
فرائض کو ترجیح دیں
اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین
مرد ذات ہوتی ہی گھٹیا ہے
کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،،
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔
مثبت اور منفی لوگ
میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی۔
Sunday, August 2, 2020
آزمائش
جب کوئی آزمائش آتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم ٹوٹ گئے ہیں اب آگے کچھ نہیں رہا اور اس اذیت سے بڑی کوئی اذیت ہو ہی نہیں سکتی۔اب ہم پہلے جیسے نہیں ہو سکتے۔اور زندگی جیسے رک سی جاتی ہے۔
بتاؤ ایسا کیوں لگتا ہے ؟
ہاں ہم پہلے جیسے تو بلکل نہیں رہتے آزمائش کچھ سیکھانے ہی آتی ہے۔جیسے اللہ مردہ زمین پہ بارش برساتا ہے اور وہاں پھول کھل اٹھتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ تمہارے مردہ دلوں پہ کسی اذیت سے آنسو ٹپکیں اور وہاں پھول نہ کھلیں۔
اور آزمائش پتا ہے کیوں آتی ہے۔
یا تو کسی چھوٹی مصبیت میں ڈال کے اللہ بڑے نقصان سے بچا لیتا ہے۔
یا تمہارا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے جس کے تم اہل بھی نہیں ہوتے آزمائش بس اس درجے کو بڑھانے آتی ہے
یا تمہاری اپنی کوتاہی کے سبب تم کسی آمائش میں جکڑے جاتے ہو۔
آزمائش کے بعد انسان کو اللہ پھر سے بناتا ہے جوڑتا ہے پہلے سے بہت اچھا۔جیسے مردہ زمین میں بارش سے جان ڈالتا ہے ناویسے ہی تمہیں پھر سے خوشیاں دیتا ہے تمہارے دل میں سکون اتارتا ہے تمہیں اپنی رحمت سے پہلے سے بہت اچھا انسان بنا دیتا ہے
الحمد للہ ان تمام آزمائشوں پر جو مجھے اس سے جوڑنے کا سبب بنی۔
Saturday, August 1, 2020
سب سے بڑی قربانی......
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.
اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔
قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔
قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔
دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔
کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔
اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔
قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟
اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟
آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔
یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)