Tuesday, March 23, 2021

دولت، محبت اور فتح

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کسان کے گھر کے باہر 3 پردیسی بُوڑھے مرد آرام کی غرض سے بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے، کسان کی بیوی نے 3 پردیسی افراد کو دیکھا تو اُس کے دل میں آیا کہ یہ تینوں لمبے سفر سے آئے لگتے ہیں اور بھوکے ہوں گے چنانچہ وہ انہیں کھانے کی دعوت دینے گئی۔

کسان کی بیوی نے تینوں کو کھانے کی دعوت دی تو ایک بُوڑھا بولا " کیا آپ کے گھر میں آپکا شوہر یا رشتہ دار کوئی اور مرد موجود ہے؟" کسان کی بیوی بولی " میرا شوہر کھیتوں میں ہل چلانے گیا ہے اور وہ شام کو واپس لوٹے گا"، بُوڑھے نے عورت کی بات سُن کر جواب دیا " پھر ہم آپکے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے کیونکہ ہم صرف اُسی گھر میں کھانا کھانے جاتے ہیں جہاں کوئی مرد موجود ہو"۔

بُوڑھے کے جواب پر کسان کی بیوی واپس گھر لوٹ آئی اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئی، شام کا کسان کھیتوں سے واپس لوٹا تو اُس نے تینوں بُوڑھوں کو گھر کے قریب بیٹھا پایا تو اپنی بیوی سے پُوچھا " یہ تینوں پردیسی مہمان لگتے ہیں کیا تُم نے ان سے کھانے کا پُوچھا"۔

بیوی بولی "میں ان سے پُوچھنے گئی تھی مگر یہ تینوں کسی ایسے گھر میں کھانا نہیں کھاتے جہاں کوئی مرد موجود نہ ہو"، یہ سُن کر کسان بولا "تم ان کو دوبارہ دعوت دو اور بتاؤ کے میرا شوہر واپس لوٹ آیا ہے"۔

کسان کی بیوی دوبارہ تینوں کے پاس گئی اور بولی کہ گھر میں میرا شوہر لوٹ آیا ہے اب آپ تشریف لے آئیں اور کھانے پر ہمارے مہمان بنیں اس سے ہمیں بہت خُوشی ہوگی، کسان کی بیوی کی بات سُن کر بُوڑھا بولا " ہم تینوں اکھٹے تمہارے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے تمہیں چاہیے ہم تینوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ لیجاؤ اور کھانا کھلا دو"۔

کسان کی بیوی بُوڑھے کے عجیب جواب کو سُن کر بولی " آپ تینوں اکھٹے تشریف کیوں نہیں لاتے"، اس بات پر بوڑھے نے جواب دیا ہم تینوں میں سے کوئی ایک جہاں موجود ہو باقی دونوں وہاں سے چلے جاتے ہیں پھر اپنے ایک ساتھ کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ دولت ہے اور یہ جس گھر میں جاتا ہے وہاں کے افراد کو دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے، پھر دوسرے ساتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ یہ فتح ہے اور یہ جس گھر میں جائے اُس گھر کے افراد ہر میدان میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پھر بولا میں محبت ہُوں میں جہاں چلا جاؤں وہاں کے مکینوں کے دل محبت سے لبریز ہوجاتے ہیں اس لیے تُم گھر جاؤ اور مشورہ کرو کے تمہیں ہم میں سے کس کی ضرورت ہے۔

کسان کی بیوی گھر لوٹی اور کسان کو بُوڑھوں کے جواب سے آگاہ کیا اور بولی ہمیں چاہیے کہ ہم دولت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کریں تاکہ ہماری پیسے کی مشکلات حل ہو جائیں، یہ سُن کر کسان بولا ہمیں پیسے سے زیادہ کامیابی کی ضرورت ہے اسے لیے ہمیں فتح کو اپنے گھر بُلانا چاہیے، کسان کی بیٹی جو قریب بیٹھی دونوں کی گفتگو سُن رہی تھی بولی" اگر ہم محبت کو اپنے گھر بُلائیں تو وہ ہمارے دلوں میں اتنا اطمینان بھر دے گا کہ ہم دولت اور کامیابی کی پروا نہیں رہے گی" دونوں میاں بیوی بیٹی کی بات سے متفق ہو گئے اور کسان کی بیوی کو بھیجا کے محبت کو بُلا لاؤ۔

بیوی گئی اور بُوڑھوں سے کہا آپ میں سے محبت میرے ساتھ تشریف لے آئے تاکہ ہم اُس کی مہمان نوازی کر سکیں، یہ سُن کرخطاب کرنے والا بُوڑھا اُٹھا اور کسان کی بیوی کے ساتھ چل پڑا، جب وہ کسان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو کسان کی بیوی نے دیکھا کے باقی 2 بُوڑھے بھی پیچھے ہی چلے آرہے ہیں۔

کسان کی بیوی نے پُوچھا آپ تینوں تو اکھٹے نہیں جاتے اب کیا ہُوا کے آپ تینوں اکھٹے آگئے، آنے والے بُوڑھوں نے جواب دیا فقط محبت ہم میں سے ایک ایسا فرد ہے جسکے بارے میں ہمیں حُکم ہے کہ جہاں مُحبت تنہا جائے وہاں اُس کے پیچھے پیچھے چلے جاؤ۔

ہمارا توکل

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل جناب۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔
ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔
ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا_

ایک لونڈی درکار ہے

ہارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تھی، اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا یه اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تها ایک کا گورا.
هارون الرشید نے کہا مجهے ایک لونڈی چاهیے دو نہیں.
گوری بولی تو پهر مجهے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچها ہوتا ہے...
کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچها ہوتا هے آپ مجهے خریدیے.
ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچها تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچها ہے یا کالا؟
جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..
دونوں نے کہا بہت اچها! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا
اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں هیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بهی پڑهئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بهی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تهیں
گوری بولی:
''موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکهوں،
اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈهیر پالے''
(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی هوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتا ہے)
اور سنیے؛
''اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،
اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے هونگے کالے''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچها ہے یا نہیں؟
بادشاہ ''گوری'' کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا
اور پهر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟
کالی بولی حضور!
''ہےمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،
ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈهیر پالی''
(کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتی ہے)
اور سنیے؛
''آنکهوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،
اور آنکهہ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچها ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بهی زیادہ خوش ہوا اور پهر گوری کی طرف دیکها تو فورا بولی:
''کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے''
کالی نے جهٹ جواب دیا:
''اور ان پہ جو لکهے ہیں قرآں کے حرف کالے''
گوری نے پهر کہا کہ:
''میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے''
کالی نے جهٹ جواب دیا کہ:
''معراج کی جو شب هے کالی هے یا نہیں ہے؟؟''
گوری بولی کہ:
''انصاف کیجیے گا، کچهہ سوچیے گا پیارے!
سورج سفید روشن، تارے سفید سارے''
کالی نے جواب دیا کہ:
''ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،
کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے''
گوری کہنے لگی کہ
''رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا''
کالی نے جواب دیا
''اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا''
بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجهے لونڈی تو ایک درکار تهی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں،

رشتوں کی خوشبو ماں

سارے رشتے پیدا ہونے کے بعد بنتے ہیں ، اس زمین پر ایک واحد ایسا رشتہ ہے جو ہمارے پیدا ہونے سے نو ماہ پہلے بن جاتا ہے۔وہ بس وہی کھاتی ہے جس سے ہمیں نقصان نہ ہو ،، وہ بڑے سے بڑے درد میں بھی عذاب بھگت لیتی ہے مگر درد ختم کرنے کی دوا نہیں کھاتی کہ کہیں وہ دوا ہم کو نہ مار دے ،، ہم اس کی پسند کے کھانے چھڑا دیتے ہیں ،، ہم اس کی نیندیں بےچین کردیتے ہیں ،، وہ کسی ایک طرف ہو کر چین سے سو نہیں سکتی ، وہ سوتے میں بھی جاگتی رہتی ھے ، 9مہینے ایک عذاب سے گزرتی ہے ، گرتی ہے تو پیٹ کے بل نہیں گرتی پہلو کے بل گر کر ہڈی تڑوا لیتی ہے تجھے بچا لیتی ہے۔ 

اس نے ابھی تیری شکل نہیں دیکھی ،، لوگ شکل دیکھ کر پیار کرتے ہیں وہ غائبانہ پیار کرتی ہے ،، لوگ تصویر مانگ کر سلیکٹ کرتے ہیں ،،، دنیا کا کوئی رشتہ اس خلوص کی مثال پیش نہیں کرسکتا ،، اللہ کو اس پر اتنا اعتبار ہے کہ اس کو اپنی محبت کا پیمانہ بنا لیا ،، اور جٙنْتی ہے تو قیامت سے گزر کر جٙنْتی ہے اور ہوش آتا ہے تو پہلا سوال تیری خیریت کا ہی ہوتا ہے۔

اللہ کے بعد وہ واحد ہستی ہے جو عیب چھپا چھپا کر رکھتی ہے ، تیری حمایت میں وہ عذر تراشتی ہے کہ تیرے باپ کو مطمئن اور تجھے حیران کر دیتی ہے ،، باپ کھانا بند کرے تو وہ اپنے حصے کا کھلا دیتی ہے ، باپ گھر سے نکال دے تو وہ دروازہ چوری سے کھول دیتی ہے،، اللہ کے بعد کوئی تیرا اتنا خیال نہیں رکھتا جتنا ماں رکھتی ہے ،،، تبھی اللہ نے جنت ماں کے خدمتوں کے تلے رکھا ہے۔

سُبحَانَ اللّهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللّهِ الْعَظِيمِ ..........!!

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ  وَُ  رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا " يَا ودود , يَا مجيب الدعاء , آمِيّنْ... آمِيّنْ... يَا رَبَّ العَـــالَمِيْن ۔

اللہ تعالیٰ ہر بچے کو اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 آمین_ثم_آمین

صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے

ایک نوجوان نے کسی تنگدست بوڑھے کی مدد کی تھی۔ گردش زمانہ سے یہ نوجوان کسی سنگین جرم میں گرفتار ہوا، اور اس کو قتل کی سزا سنائی گئی، سپاہی اس کو لے کر قتل گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو تماشہ دیکھنے کے لئے سارا شہر امنڈ آیا ۔ ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جس کی مدد اس نوجوان نے کی تھی، بوڑھے نے اپنے محسن کو اس حال میں دیکھا تو اس کا دل زخمی ہوا، وہ زور زور سے رو کر دھائی دینے لگا،
" ہائے لوگو ! ہمارا نیک دل بادشاہ آج وفات پا گیا، افسوس آج دنیا تاریک ہو گئی۔"

سپاہیوں اور لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو مارے پریشانی کے نوجوان کو وہی چھوڑ کر محل کی طرف بھاگے ۔ بوڑھے نے فورا اس نوجوان کی زنجریں کھولیں اس کو بھگا کر خود وہاں بیٹھ گیا۔ سپاہی محل میں پہنچے تو بادشاہ وہیں موجود تھا، کھسیانے سے ہو کر وہ وہاں سے کھسک لئے، قتل گاہ میں آئے تو دیکھا سامنے بوڑھا بیٹھا ہے، جب کہ نوجوان نو دو گیارہ ہو گیا تھا ۔

سپاہی ساری صورتحال سمجھ گئے بوڑھے کو گرفتار کر کے بادشاہ کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا سنا دیا، بادشاہ نے جو اپنے مرنے کی جھوٹی حبر سنی تو غضبناک ہو کر تحت سے اٹھ کھڑا ہوا اور گرج کر بولا؛
" اے بوڑھے تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو نے میری موت کی جھوٹی خبر لوگوں میں پہنچا دی، آخر میں نے تیرا بگاڑا ہی کیا تھا۔ 
بوڑھے نے نرم لہجے میں کہاعالیجاہ ! میرے ایک جھوٹ بولنے پہ آپ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ لیکن میرے محسن نوجوان کی جان بچ گئی، جس کو بے گناہ قتل کیا جا رہا تھا۔ جس وقت میں بھوکوں مر رہا تھا، تب اسی نوجوان کے دیئے ہوئے صدقے سے میں نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے غذا کا بندوبست کیا تھا ۔ آج اس کو بے گناہ مصیبت میں دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا، مجھ میں موجود انسانیت اور جوان مردی نے سر اٹھایا کہ میں اس کی جان بچاؤں، اسی مدد کی خاطر میں نے یہ حیلہ اپنایا"

بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے اس نوجوان کی تعریف کی اور اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا ۔ خوش ہو کر اس بوڑھے فقیر کو انعام و اکرام دیا۔ اس نوجوان سے جب کوئی پوچھتا کہ تیری جان کیسے بچی؟وہ جواب دیتا۔
"ایک حقیر سی رقم میرے کام آئی جو اس سائل کو ضرورت کے وقت میں نے دی تھی

آغوش تھراپی

اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
     
 
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.
 
   ‍ 
اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.
         
  
پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.
     
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

    
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 
میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……

   ........ اوہ میرے خدایا…
     
     
اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے

Monday, March 22, 2021

روز نیا کنواں نہ کھودیں

آج سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک نئے مکان میں شفٹ ہوا۔ شفٹ ہونے کے بعد میں نے اس گھر میں اپنا گیزر لگانا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے اور گرم پانی کے بغیر گذارہ ممکن نہیں تھا۔ میں نے ایک پلمبر کو بلایا ۔ اس نے کام دیکھا اور پھر مجھے کہا کہ آپ کا یہ کام پندرہ سور روپے میں ہو گا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آپ ایک ہزار میں کام کر دیں۔ لیکن اس نے کہا کہ اس کا باٹا ریٹ ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ بارگین نہیں کرتا۔

خیر میری مجبوری تھی ۔ میں چپ رہا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ گیزر لگا دیں۔ مجھے اس کا رویہ اچھا نہیں لگا ۔ کیونکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ جان بوجھ کر ڈیل خراب کرنا چاہتا ہے۔ اسے میری مجبوری کا علم تھا اس لئے وہ اپنی بات پر قائم رہا۔

اس نے آدھے گھنٹے کے اندر گیزر لگا دیا۔ اس کے بعد پندرہ سو لئے اور چل دیا۔ گیزر بھی اس نے جس طرح لگایا وہ مجھے پتہ ہے، ایک ایک چیز میں اس کو پکڑا رہا تھا۔ سارے معاملے میں اس کی مدد کرتا رہا۔ خیر اس نے اپنے پیسے لئے اور چلا گیا۔ مجھے بھی بات بھول بھال گئی۔
کچھ عرصہ بعد میں دو چار گلی چھوڑ کر ایک کشادہ مکان میں شفٹ ہو گیا۔ لیکن یہاں بھی گیزر لگانے کا مسئلہ درپیش تھا۔ پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ اسی پلمبر کو بلاؤں جس نے پہلے فٹ کیا تھا۔ لیکن اس کا رویہ یاد آیا تو میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور کسی اور بندے کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ خیر تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ایک پلمبر مل گیا۔ وہ میرے ساتھ آیا ۔ کام کا جائزہ لیا اور کہا میں آپ سے اس کام کے ایک ہزار لوں گا۔
میں نے کہا کہ میں تنخواہ دار آدمی ہوں کوئی مہربانی کریں۔ جس پر اس نے مسکرا کر کہا کہ بھائی جان کوئی بات نہیں آپ مجھے آٹھ سو روپے دے دینا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کام شروع کریں۔ وہ آیا اور اپنے ساتھ ایک اور لڑکا بھی لایا۔ ان دونوں نے آدھے گھنٹے میں گیزر لگایا۔ چائے پینے کے بعد میں نے آٹھ سو اس بندے کو دیئے ۔ اس نے پیسے لئے۔ شکر الحمداللہ کہا۔ تین سو ساتھ لائے لڑکے کو دیئے ، پانچ سو اپنی جیب میں ڈالے، میرا شکریہ ادا کیا اور جاتے جاتے فیڈ بیک بھی لیا کہ بھائی آپ کام سے تو مطمئن ہیں ۔ جس پر میں نے اس کے کام کی تعریف کی اور اس کا نمبر بھی لے لیا۔

دو چار دن بعد ایک دوست کی کال آئی کہ یار آپ نے گیزر جس بندے سے لگوایا ہے اس کا نمبر تو دے دیں۔ کیونکہ میں نے نیا گیزر لیا ہے۔ میں نے فوراً سے اس بندے کا نمبر ڈائل کیا اور اسے اپنے دوست کے گھر پہنچنے کا کہا۔ اس نے آٹھ سو میں اس کا بھی کام کر دیا۔ اس کے بعد اس پلمبر کو میں نے اپنے ریفرنس سے کوئی دس جگہ نلوں، پائپوں اور گیزر کے کام کے لئے بھیجا۔ ہر جگہ اس نے اپنا تعلق بنایا، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور نئے ریفرنس بھی ڈھونڈے۔

آج اس بندے کی مارکیٹ میں سینٹری کی سب سے بڑی دکان ہے۔ اس کے پاس دس کے قریب اسٹاف ہے جس میں پلمبر، الیکٹریشن اور پینٹرز موجود ہیں۔ آج بھی اس کا رویہ یہی ہے۔ خوش اخلاقی ، فیڈ بیک، جس کے ساتھ ایک بار کام کرتا ہے وہ بندہ اسے یاد رکھتا ہے۔ اس کے پاس آتا ہے، اس سے مشورہ لیتا ہے۔
اس کی کامیابی کے پیچھے ایک ہی راز ہے کہ یہ جو کنواں کھودتا ہے اسے دوبارہ اپنے غلط اور لالچی رویے سے بند نہیں کرتا۔ یہ ہر نئے کنویں سے تھوڑا سا پانی لیتا ہے اور آئندہ کے لئے دوبارہ پانی لینے کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ہی بار میں پیسہ نہیں کمانا چاہتا ۔ یہ اپنے کسٹمرز کے دل میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان کے تعلقات کی وجہ سے مزید آگے جاتا ہے اور مزید اچھا کام کر کے اپنا سرکل بڑا کرتا جا رہا ہے۔
مجھے وہ پہلا بندہ بھی یاد ہے۔ میں نےاسے کچھ عرصہ پہلے دیکھا ہے۔ وہ آج بھی انہی حالوں میں ہے۔ اس کی آج بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی کنواں وہ کھودے اسے فوراً بند بھی کر دے۔ لیکن اس کے اس رویے کی وجہ سے اس کا اپنا بخت بند ہو چکا ہے۔ یہ ایک بندے سے ایک ہی بار میں جو لے سکتا ہے لے لیتا ہے اور پھر نئے بندے کی تلاش میں نکل جاتا ہے ۔ زندگی اس کی بھی چل رہی ہے لیکن اس میں ترقی نہیں، عزت نہیں ، ریفرنس نہیں، فیڈ بیک نہیں، مہربانی نہیں اور آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ بندہ جب اکیلا ہو گا تو یہی سوچتا ہو گا کہ میری قسمت ہی خراب ہے یا یہ لوگ ہی خراب ہیں۔

یاد رکھیں اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو محنت سے کھودے کنویں کو فوراً اپنے لالچ اور غلط رویے کی وجہ سے بند نہ کریں۔ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اپنے کسمٹرز کو اچھا کام دیں۔ ان کا اعتماد جیتیں۔ ان سے عزت لیں۔ ان کو عزت دیں۔ اگر پیسے کم بھی بچ رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن تعلق بچنا چاہیئے ، آگے کے رابطے کی وجہ رہنی چاہیئے۔ اس زمین پر لوگ بستے ہیں اور لوگ ہی لوگوں کے کام آتے ہیں۔

(نقل وچسپاں)

ظلم کے خلاف آواز

قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالب کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصِّر رہا۔ طالبعلم شکستہ دلی سے اورغمزدہ باہر  تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلباء پر تھی جو سر جُھکائے اور خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلباء سے پوچھا: قانون کیوں وضع کیئے جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا: لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے۔
دوسرے طالب علم نے کہا: معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے۔
تیسرے نے کہا؛ تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے۔
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا: یہ سب جواباتُ ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔ 
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔
استاد نے کہا: جی، بالکل یہی جواب ہے جو میں سننا چاہتا تھا۔ تاکہ عدل کو غالب کیا جا سکے۔
استاد نے پھر پوچھا: لیکن عدل اور انصاف کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا: تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا: اچھا، مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو، کیا میں نے تمہارے ساتھی طالبعلم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟
سارے طلباء نے بیک زبان جواب دیا؛ جی ہاں سر، آپ نے زیادتی کی ہے۔
اس بار استاد نے غصے سے اونچا بولتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے۔ پھر تم سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فائدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کیلئے کسی کے اندر ھمت اور جراءت ہی نہ ہو؟ 
جب تمہارے ساتھی طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے، اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ اور یاد رکھو جب انسانیت گرتی ہے تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔
اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے
 طالب علم کو واپس اندر بلایا، سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی، اور باقی طلباء کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے کہا: یہی تمہارا آج کا سبق ہے۔ اور جاؤ، جا کر معاشرے میں ایسی نا انصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کیلئے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔۔۔

کہانی کے دو رخ

انیس سو چھپن میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا' یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹا۔ سمندر میں موجود ایک چٹان سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔ حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی۔ کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر کھڑا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔ یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو' آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قراردے دیا۔ کپتان کو پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا' یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔ یہ اس کہانی کا ایک پہلو تھا اور اس پہلو کو دیکھنے' سننے اور پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا کہیں گے ۔ اب آپ اس کہانی کا دوسرا اینگل ملاحظہ کیجئے اور اس اینگل کے آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔اس واقعے کے پچیس سال بعد ائر فورس کے ایک ریٹائر افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی' اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا' 1956ءمیں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
اس نے ایک جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندها، وہ اس ٹینک کو جھیل میں ڈبو کر بھرتا جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پر گرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ جھیل پر چلا جاتا وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندر اچھل کود محسوس ہوئی اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگر اس نے ٹینک پیچھے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا جہاز گر جائے گا اس نے فورا ٹینک کھول دیا، ٹینک سے پانی کی آبشار سی نیچے گری اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی پیچھے کی طرف گر گئی یہ پانی اور بھینس نیچے بحری جہاز کے ڈیک پر گر گئی۔ آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے آپ کو سارا سینیاریو تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔

لہذا یاد رکھیے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی، کسی شخص کی دلیل پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا موقف سامنے نہیں آتا صورتحال واضح نہیں ہوتی۔ حقائق کیا ہوتے ہیں، حقائق کہانی کی طرح ہوتے ہیں اور آپ جب تک کہانی کا دوسرا پہلو یا اس کا دوسرا اینگل نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک اسٹوری مکمل نہیں ہوتی، اس وقت تک حقیقت آپ کے سامنے نہیں آتی لہذا زندگی میں جب بھی آپ ایسی صورتحال کا شکار ہوں آپ ہمیشہ دونوں فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ کریں۔

Sunday, March 21, 2021

معاشرے کیلئے رول ماڈل

شادی کی پہلی رات خاوند کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے بیوی کے قریب آ کر بیٹھ گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنی بیوی کو سلام کیا اس کے بعد پانچ ہزار حق مہر دینے لگا ۔ بیوی نے کہا " میں نے حق مہر نہیں لینی میں آپ کو معاف کرتی ہوں " خاوند نے دوسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے یہ ہی جواب دیا ، پھر خاوند نے تیسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے پھر وہ ہی جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
خاوند نے وہ پیسے اپنے بٹوے میں رکھ دیۓ اور چند منٹوں کے لیے سوچوں میں گم ہو گیا کہ کتنی توکل والی اور وفا والی بیوی ہے جو پیسوں سے زیادہ مجھے ترجیح دے رہی ہے ۔۔۔۔
اس کے بعد خاوند نے منہ دیکھاٸی کے لیے بیوی کو پانچ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ پھر خاوند نے دس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ، پھر خاوند نے پندرہ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ، پھرخاوند نے بیس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔پھر پچیس ، تیس ، چالیس حتی کہ خاوند نے پچاس ہزار دیا بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ خاوند نے تنگ آ کر پورا بٹوہ بیوی کے حوالے کر دیا جس کے اندر ایک لاکھ روپے تھے پھر بھی بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔۔۔۔خاوند نے بیوی سے کہا ۔۔
" آپ کو اور کیا چاہیے " بیوی نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ 
خاوند نے کہا "کون سا وعدہ" 
"بیوی نے کہا مجھ سے ایک وعدہ کرو مجھے کھبی چھوڑوں کے تو نہیں "
خاوند نے شادی کی پہلی رات بیوی کو نہ چھوڑنے کا وعدہ کر لیا ۔ یہ لڑکی کوٸی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ اس نے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور اس کے والدین نے داماد سے ضمانت کی طور پر پانچ لاکھ ۔ یا دس لاکھ بھی نہیں لکھوایا تھا ۔ ایسی عورتیں نصیب والے مردوں کو ملتی ہیں جو صرف خاوند سے پیار کرتی ہیں ان کی نظر میں پیسوں کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی ۔ایسی بیویاں معاشرے کے لیے رول ماڈل ہیں ۔جن کی وجہ سے ہمارہ معاشرہ چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
چاہت خلوص کی کچھ کم نہ تھی 
کم شناس لوگ دولت پر مر گۓ۔

رب تعالی عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین۔