Sunday, March 28, 2021

حکمت الٰہی

ﺩﻭﺩﮪ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﯿﺘﻠﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭼﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﺮﯼ، ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻭﺩﮪ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ -
ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑھ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ کے ﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ -

نیکی پھیلائیں

مزیدار کھانا کھانے کے بعد اس نے بل منگوایا، پیسے نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا، بٹوا نہ پا کر نادیدہ خوف سے اس کی حالت ہی خراب ہو گئی۔ ہسٹیرائی انداز میں اوپر نیچے جیبوں کو ٹٹولا مگر بٹوہ کہاں سے ملتا، وہ تو دفتر سے نکلتے ہوئے میز پر ہی رہ گیا تھا۔ سر جھکائے آنے والی ممکنہ پریشانیوں اور انکے حل پر غور کرتا رہا۔

خوش حال اور کامیاب زندگی کا راز

جب کبھی خون کے رشتے دل دکھائیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر لینا جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں پھینک دیا تھا۔

جب کبھی لگے کہ تمہارا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے سے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوب علیہ السلام کو یاد کرنا جو تم سے زیادہ بیمار تھے.

جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام کو ضرور  یاد کرنا جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی ۔

اگر کبھی جھوٹا الزام لگ جائے یا بهتان لگ  جائے  تو ایک بار اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ضرور یاد کرنا۔

اگر کبھی لگے کہ اکیلے رہ گئے ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم علیہ السلام کو یاد کرنا جن کو اللّٰہ پاک نےاکیلا پیدا کیا تھا اور پھر ان کو ساتھی عطا کیا۔ تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا۔

اور اگر کبھی تمھارے اپنے ہی رشتے دار ہی تمہارا مذاق اڑائیں تو نبیوں کے سردار حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  کو یاد کر لینا۔

تمام نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے آزمائش میں ڈالا کہ ہم ان کی زندگیوں سے صبر و استقامت، ہمت وتقوٰی اور ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کریں۔

اپنے نبیوں کی زندگیوں کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انھیں اپنا آئیڈیل بنائیں اور ایک خوش حال اور کامیاب زندگی گزاریں۔

بہترین دوست

چھوٹی سدرہ :باجی کیا ہمیں کوئی ایسا دوست مل سکتا ہے جس سے ہم اپنے دل کی ہر بات شیئر کرسکیں ----- اپنا ہر راز اسی کو بتائیں اس خوف کے بغیر کہ وہ اسے فاش نہیں کرے گا------- مصیبت کی ہر گھڑی میں وہ ہماری مدد کریگا ----اور -----جب کبھی وہ ناراض ہوجاۓ تو ہمیں ہماری کمی اور کوتاہیوں کا طعنہ نہیں دیگا -----اسکی محبت بالکل ماں کے ممتا جیسی ہو ------ اور اس کا ساتھ ہمیشہ اور ہر جگہ کا ہو....!! ؟؟
میں :ہان میری پیاری اور ذہین گڑیا ہمیں ایسا دوست ضرور  مل سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ---------!!
تمہاری سوچ اور تخیل سے بھی بلند تر ہیں اسکی صفات ....!
کون ہے وہ جلدی بتائیں نا..... میں انکو پانا چاہتی ہوں..... اپنا بنانا چاہتی ہوں.... چھوٹی سدرہ فوراً آگے بڑھ کر میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر بیقراری سے بولی... 

"وہ بہترین دوست اللہ تعالی ہیں میری جان"

میں نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر جواب دیا... تو اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں...!!

Thursday, March 25, 2021

حق اور توکل

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل جناب۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔
ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔
ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا_

پہلے سوچ لین....

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا:

کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔

کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔ چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔

جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اُس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔

دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اُس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔

لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اُس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔

خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اُس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔

گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔
         
حاصل کلام:
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اسلئے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔

اچھا اخلاق

پانچ چھ بچے گلی میں کھیل رہے تھے. جب میں ان بچوں کے پاس سے گزرا تو میں نے رک کر مسکراتے ہوئے کہا: "پیارے بچو! السلام علیکم"
بچے اپنا کھیل چھوڑ کر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے لیکن سلام کا جواب نہیں دیا.
میں نے دوبارہ کہا:" السلام علیکم "
ایک دو بچے بولے:" وعلیکم السلام "

میں اگلے دن وہاں سے گزرا تو بچے حسب معمول کھیل رہے تھے. آج میں نے بغیر رکے سلام کیا. بچوں نے آج کم حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا. آج جواب دینے والے بچے بھی دو سے زیادہ تھے. 

اسی طرح کرتے کرتے کئی دن گزر گئے. اب میں انہیں سلام کرتا تو سب یک زبان ہو کر میرے سلام کا جواب دیتے.

ایک دن ان کے ساتھ ایک نیا بچہ تھا. جب میں قریب پہنچا تو ایک بچہ اس نئے بچے سے کہنے لگا: "دیکھنا! یہ آدمی السلام علیکم بولے گا."
جب میں نے سلام کیا تو وہ بچہ ہنس پڑا اور مجھے جواب دے کر اس بچے سے کہنے لگا:" دیکھا ناں! "

میں اللہ کے آگے شکرگزار ہوا کہ ان بچوں نے میری پہچان سلامتی سے وابستہ کر دی. 
کچھ دن بعد عجیب کام ہوا. میرے سلام کرنے سے پہلے ہی ان بچوں نے مجھے دور سے دیکھتے ہی " السلام علیکم! السلام علیکم!" کہنا شروع کر دیا. میں نے اللہ کا خصوصی شکر ادا کیا.

چند دن بعد مزید ایک خلاف معمول واقعہ ہوا. میں ان بچوں کو سلام کر کے گزر گیا تو چند قدم آگے جانے پر مجھے ان بچوں کے السلام علیکم کہنے کی آواز سنائی دی. میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ بچے وہاں سے گزرنے والے ایک اور آدمی کو سلام کر رہے تھے. یہ میرے لیے نیا انکشاف تھا کہ اب وہ بچے ہر آتے جاتے آدمی کو سلام کرتے ہیں.
ان باتوں کو سالوں گزر گئے اور میں ان بچوں کے چہرے تک بھول گیا. 

چند دن پہلے کی بات ہے. میں اپنے گاؤں کی اسی گلی سے گزر رہا تھا. میرے محلے کے دو لڑکے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے. میرے سلام کرنے سے قبل ہی ایک نے مجھے سلام کر دیا. مجھے بڑی خوشی ہوئی. میں نے جواب دے کر کہا:"ماشاءاللہ! آپ کی سلام میں پہل کرنے کی بہت اچھی عادت ہے. "

وہ مسکراتے ہوئے بولا:" بھائی! میں نے سلام کرنا آپ سے ہی سیکھا ہے اور الحمدللہ میں ہر ایک کو سلام میں پہل کرتا ہوں. خصوصاً کھیلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچوں کو." آخری جملہ بولتے ہوئے اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی.

میری آنکھوں کے سامنے سالوں پہلے کے مناظر آ گئے اور میں مسکراتے ہوئے اس لڑکے کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ گیا. اس لمحے میری آنکھیں خوشی اور اللہ کی شکرگزاری کے آنسوؤں سے لبریز تھیں.

Wednesday, March 24, 2021

خود پہ بھروسہ

بہت ساری جنگلی گائیں پانی پینے جاتی ہیں کہ ان پر مگرمچھ حملہ کر دیتا ہے سب بھاگ جاتی ہیں مگر ایک کا پاؤں مگرمچھ پکڑ لیتا ہے اب شروع ہوتا ہے زندگی اور موت کا کھیل۔ ایک زندگی بچانے کی جدوجہد شروع کر دیتا ہے تو دوسرا اپنی بھوک مٹانے کی۔وہ گائے مگرمچھ سے زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہوتی ہے اور باقی اس کی ہم ذات و ہم قبیلہ گائیں دور کھڑی اس کشمکش کو دیکھ رہی ہوتی ہیں مگر اسکی مدد کو کوئی نہیں آتی۔ وہ مگرمچھ کو پانی سے باہر تک کھینچ لاتی ہے لیکن مگرمچھ نے بھی اسے ختم کرنے کا پختہ ارادہ کیا ہوتا ہے اور اس کی ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے۔ اسکی ہمت جواب دینے لگتی ہے وہ حسرت بھری نگاہوں سے اپنے ہم قبیلہ کو دیکھتی ہے اور گردن جھکا دیتی ہے مگرمچھ اسے گھسیٹ کر پھر پانی میں لے جاتا ہے وہ ایک بار پھر دور کھڑی اپنی ان دوستوں، رشتہ داروں کی طرف دیکھتی ہے جن کے ساتھ وہ پانی پینے آئی تھی لیکن وہ حسبِ معمول محو تماشہ ہوتی ہیں وہ پھر زور لگاتی ہے اور پانی سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مگرمچھ نے بہت مضبوطی سے پکڑا ہوتا ہے۔ گائے بھی ارادہ کر چکی ہوتی ہے کہ اس نے خود کو حالات کے رحم وکرم پہ نہیں چھوڑنا لیکن طاقتور مگرمچھ کے آگے وہ ہارنے لگتی ہے۔ وہ مگرمچھ آہستہ آہستہ گہرے پانی میں لے جانے لگا کہ یہاں قدرت اپنا کھیل شروع کرتی ہے اور دو دریائی گھوڑے اس کی مدد کو آ جاتے ہیں جو اسے مگرمچھ سے آزاد کراتے ہیں۔
یہ زندگی آپ کی ہے اور اسے آپ نے ہی گزارنا ھے لوگ صرف تماشائی ہوتے ہیں حالات سے لڑنا انسان نے خود ہوتا ہے۔ زندگی کی جنگ اکیلے لڑنا پڑتی ہے لوگ صرف فاتحہ خوانی کرنے یا مبارکباد دینے آتے ہیں جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مرنے سے پہلے کن حالات سے گزر رہا تھا یا جیتنے سے پہلے وہ زندگی کی کتنی مشکل اور اذیت ناک لڑائی لڑ رہا تھا۔ 
اللہ کریم کے بعد خود پہ بھروسہ کیجئیے

Tuesday, March 23, 2021

ان پڑھ غلام

ایک بزرگ تھے، ملک میں قحط پڑا ہوا تھا، خلقت بھوک سے مر رہی تھی، ایک روز یہ بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رہے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے۔ بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ہنستا کھیلتا لوگوں سے مذاق کر رہا تھا،

بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے، غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔ غلام نے بزرگ سے کہا ''آپ اللہ والے لگتے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتا میں کون ہوں..؟''
بزرگ بولے ''تو کون ہے..؟''
غلام نے جواب دیا ''میں فلاں رئیس کا غلام ہوں جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو غیروں کا اس قحط سالی میں پیٹ بھر رہا ہے وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا؟ جائیں، آپ اپنا کام کریں، آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی''۔

بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے، بولے!
''یا اللہ ! مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا، اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ہے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ہوں یہ مانتے ہوئے کہ تو مالک الملک اور ذولجلال ولااکرام ہے اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ہے میں کتنا کم ظرف ہوں کہ حالات کا اثر لے کر ناامید ہو گیا ہوں۔ بے شک میں گناہ گار ہوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔

استحکام پاکستان

ابابیل اپنا گھونسلہ کنویں میں بناتی ہے۔۔
اس لیے  اس کے پاس اپنے نومولود بچوں کو اڑنے کی تربیت دینے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں ہوتی۔
 بچے اگر گر پڑیں تو اس کا مطلب پانی کی دردناک موت۔۔۔
 اس خطرناک جگہ پر کچی تربیت کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔
  کسی نے کبھی ابابیل کے مرے ہوئے بچوں کو کنویں کے پانی پر تیرتے نہیں دیکھا ہو گا۔۔
کیوں؟؟؟
 اس لیے کہ ابابیل اپنے بچوں کی تربیت انتہائی سخت جانی سے کرتی ہے۔
 اگر انڈے سے بچے نکلنے سے پہلے وہ کنویں سے دن بھر میں معمول کی  25 اڑانیں بھرتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد دو گنا زائد اڑانے بھرنے لگتی ہے۔
 یوں نر اور مادہ روزانہ دن بھر اڑانیں بھر کر اپنے بچوں کو عملی تربیت دیتے ہیں اور ان کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ہیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر ہی جانا ہے۔
بالکل اس طرح اڑان بھرنا ہے جیسے ہم بھرتے ہیں!!!
ننھے بچے جن کی پیدائش کنویں میں ہوئی ہے اپنے والدین کی پر مشقت زندگی سے لمحہ لمحہ پرواز کا درس لیتے ہیں۔
جس دن بچہ پہلی اڑان بھرتا ہے وہ کمان  سے نکلے ہوئے تیر کی طرح گھونسلے سے نکل کر سیدھا منڈیر پہ جا بیٹھتا ہے۔

 ہماری اولاد ہمارے یقین کے سرمائے سے اپنا حصہ پاتی ہے۔
 اگر ہم خود یقین اور عمل کی سخت کوشی سے تہی داماں ہوں گے تو اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔
  بچے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی  باتیں  سن کر نہیں بلکہ والدین کے عمل سے سیکھتے ہیں۔۔
وہ  والدین پر جتنا اعتماد کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پر نہیں۔۔
قابل مبارکباد ہیں وہ والدین  جو اپنی اولاد کے لیے آسائشیں نہیں ڈھونڈتے بلکہ انھیں زندگی گزارنے کا درس اپنی مجاھدانہ زندگی سے دیتے ہیں۔۔