Friday, November 13, 2020

میرے خیال

میرے دماغ میں Tabs کھُلتی ہیں۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے کمپیوٹر پہ جب Error آجاتا تھا اور وہ Hang ہو جایا کرتا تھا۔۔۔ اور پھر ایک کے بعد ایک بغیر رُکے Windows کھلتی جاتی تھیں۔۔۔ اُلجھنیں ہیں،،، گِرہیں ہیں،،، لامحدُود سوچیں ہیں۔۔۔ جو شاید میری موت پہ رکیں گی۔۔۔ اور میری قبر میں میرے ساتھ دفن ہوں گی۔۔۔!!!

ہمارا رویہ اور ہمارے الفاظ

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جس کا نام تبسم تھا اس کی شادی ہوئی وہ سسرال میں اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ رہتی تھی- بہت کم وقت میں ہی تبسم کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی- ان دونوں کی شخصیت بالکل مختلف تھی اور تبسم اپنی ساس کی بہت ساری عادتوں سے پریشان تھی-

Thursday, November 12, 2020

صندل

صندل کے درخت کی خوبی ہے کہ یہ خود کی درویشی کو یوں چھپاتا ہے کہ رفتہ رفتہ ہولے ہولے اپنی خوشبو کو ارد گرد کے 100 درختوں میں منتقل کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صندل کے درخت کو پہچاننا قدرے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنی پہچان چھپائی ہوتی ہے اور یہی اس کی ادا ہے اللہ والے بھی اسی طرح ہوا کرتے ہیں خود کو چھپانے والے اپنی خوشبو ارد گرد والوں میں منتقل کرکے جتاتے نہیں بلکہ کہتے ہیں دیکھو یہ تمہاری اپنی خوشبو پھوٹ رہی ہے اس کی حفاظت کرو یہی وجہ ہے کہ صندل کا اصل درخت اور اللہ والے شاذونادر ہی ملتے ہیں اور اگر مل جائیں تو اپنا  سب کچھ طالب صادق میں انڈیل دیتے ہیں...!!!

بچے کی ذہنی صحت

بچے قدرت کا بہترین عطیہ اور والدین کا سرمایہ حیات ہیں،جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ماں باپ بچے کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں ان کے مختلف ٹسٹ کرواتے ہیں یعنی جسمانی صحت کے لحاظ سے ان کا کافی خیال تو رکھتے ہیں لیکن ان کی ذہنی صحت کے بارے میں بعض اوقات لاپرواہی برتتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل شکار ہوجاتے ہیں۔تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں بہترین ہوں۔

ضرورت

گاؤں کے مشترکہ ڈیرے پر شام کو مل بیٹھنا اور خوش گپیاں لگانا ہمارا روز کا معمول تھا. آج بھی روز کی طرح کافی لوگ موجود تھے کہ...
اچانک میں نے موضوع بدلا، ہاتھ میں موجود میگزین کھولا اور بولا کہ اس میں ایک جدول ھے اور جو بھی اس جدول کے سوال کا صحیح جواب دے گا میری طرف سے ایک کلو مونگ پھلی اور ساتھ میں گڑ انعام ملے گا.

ہم اپنی اپنی جنگ میں ہیں

دنیا میں سات ارب سے زائد لوگ بستے ہیں. دیکھنے کو درجنوں رنگ، ترنگ، ادائیں، رویے، سٹائل ہیں. دیکھنے میں لگتا ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک الگ کائنات آباد ہے. بھانت بھانت کے روپ، بہروپ ہیں. کوئی عاجز تو کوئی میر شہر، کوئی سوالی تو کوئی موالی، لیکن بہت اندر سے ہم ایک ہی ہیں. پیار کے متلاشی، یہی کہ کندھے پر کوئی تھپکی دے دے، جب گرنے لگیں تو کوئی تھام لے.

ایک بیٹے کو والد صاحب کی نصیحت

1- سگریٹ نوشی سے بچو۔
2- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے۔
3- بہت سستی چیزیں مت خریدو۔

بس انشورنس کام آجائے

کورونا سے پہلے کے دنوں میں، دبئی میں ایک شاپنگ مال کے ایک بڑے سٹور میں گھومتے ہوئے میں نے ایک دوکان سے چھناک کے ساتھ کچھ ٹوٹنے کی آواز سنی اور ساتھ ہی کچھ شور شرابا اٹھا. وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک مجمع لگا ہوا ہے اور ایک جما ہوا دوپٹہ پہنے بزرگ خاتون بدحواسی میں فرش سے کانچ اٹھا رہی ہے. نظر آرہا ہے کہ وہ غلطی سے برتنوں کے ریک سے جا ٹکرائی تھی اور درجنوں گلاس، پلیٹیں زمین پر گر کے چکنا چور ہوچکی تھیں. 

Tuesday, November 10, 2020

اودھو داس اور ہم

قیام پاکستان سے قبل اودھو داس سندھ کے امیر کبیر لوگوں میں شامل تھا۔اس کی ماں بیمار ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سندھ میں موجود اسپتالوں میں اس بیماری کے علاج کی سہولت میسر نہیں ، اس کا علاج بمبئی کے اسپتال میں ہی ہوسکتا ھے ۔
 اودھو داس والدہ کو بمبئی لے گیا اور علاج کرایا،ماں کی حالت بہتر ہونے پر گھر واپس لے آیا اور چند روز بعد ماں سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت کیسی ھے جس پر اس کی ماں نے جواب دیا کہ:
 میں تو اودھو داس کی ماں ہوں،یہاں علاج ممکن نہیں تھا تو بمبئی کے اسپتال میں علاج ہوگیا مگر سندھ میں بسنے والی ان ماؤں کا کیا ہوگا جن کے بیٹے اودھو داس کی طرح دولت مند نہیں۔

نصیحت کا انداز

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﺮﺽ ﻋﻼﺝ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﭘﺮ ﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ، ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺷﺮﻑ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻭ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً "ﺷﺎﺭﭦ ﺳﮑﺮﭦ" ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ