Thursday, June 18, 2020

لوگوں کے درمیان پل بنائیں

دوسگے بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے دونوں چالیس سال سے ایک دوسرے سے اتفاق سے رہ رہے تھے اگر کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلا ججھک ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے تھے .
لیکن ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور کسی معمولی سی بات سے پیدا ہونے والا یہ اختلاف ایسا بڑھا کہ ان میں بول چال تک بند ہو گئی اور چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالی گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا
․․․․اگلے ہی دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ہوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے اس نے کل بلڈو زر سے میر ے اور اپنے گھروں درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے.
میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا دو کیونکہ میں اس کا گھر تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔
ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .
موقع دیکھنے کے بعد ترکھان اور بڑا بھائی ساتھ واقع ایک بڑے قصبہ میں گئے اور تین چار متعلقہ مزدوروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں․․․ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔
صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ،وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا جہاں اسکے چھوٹے بھائی نے گہری کھاڑی کھود دی تھی.
جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑا کبھی کھاڑی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے اور دور کھڑا ہوا ترکھان یہ منظر دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا .
بڑے بھائی کی نظر جونہی ترکھان کی طرف اٹھی جو اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہر جائے لیکن ترکھان یہ کہہ کر چل دیا کہ اسے ابھی اور بہت سے"پُل " بنانے ہیں۔
برائے مہربانی کوشش کریں کہ لوگوں کے درمیان پل بنائیں دیواریں نہ بنائیں...

چار موسم

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ چار موسموں *(گرمی سردی، خزاں بہار)*  کا کیا مطلب ہے، 
اور یہ موسم ہمیں کیا پیغام دیتے ہیں؟ 

آئیے اِن کو پَرکھیں! 

*موسمِ گرما* 
ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ، اے اِنسان! اگر دُنیا میں یہ موسم تُم برداشت نہیں کر سکتے تَو، جَہَنَّم کی آگ کیسے برداشت کرو گے؟

*موسمِ سَرما*
گرمی میں اِنسان سوچتا ہے کہ، کاش یہ موسم کُچھ ٹھنڈا ہو، اور موسمِ سرما میں، سردی بھی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے، لہٰذا یاد رکھ اے اِنسان کہ جَہَنَّم کا ایک درجہ اِنتہائی سَرد ہے، وہ کیسے برداشت کرو گے؟

*موسمِ خِزاں*
یہ موسم ہمیں بتا رہا ہے کہ، اے اِنسان! ننگے درختوں کو بغور دیکھ، کہ کیسے اِن پہ کونپلیں پھوٹتی ہیں، اور چند دِنوں میں وہ درخت پتوں سے ڈھک جاتا ہے، لیکن! وہ پتے سدا اُس پہ نہیں رہتے، آخِر جَھڑ جاتے ہیں، کیونکہ دُنیا میں سدا کِسی نے نہیں رہنا۔

*موسمِ بہار*
یہ موسم ہمیں سبق دیتا ہے کہ، دُکھ کے بعد سُکھ بھی ہے، اور اپنا آپ *(اَخلاق)* اتنا اچھا کر لے کہ، لوگ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں۔

Sunday, June 14, 2020

تین کی کسوٹی

*3 کی کسوٹی!*

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا
*"آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا"*
سقراط نے مسکرا کر پوچھا
*"وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟"*
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا
*"آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا...۔۔!"*
اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا
*"تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر رکھو،*
اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں"
*افلاطون نے عرض کیا "یا استاد! تین کی کسوٹی کیا ہے؟"*
1_*سقراط بولا "کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟"*
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا "پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟"
اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔
2_*"مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟"*
افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ "جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!"
سقراط نے مسکرا کر کہا "کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟"
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا
3_*"اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟"*
افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا "یا اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!"
سقراط نے ہنس کر کہا "اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟"
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
*سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے،*

*1۔ "کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟"،*
*2۔ "کیا یہ بات اچھی ہے؟"* اور
*3۔ "کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟"*

آج ہمارے معاشرے کو بھی اِس "3 کی کسوٹی" کی بہت ضرورت ہے۔
*جہاں نقطہ چینی، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ ہے اور ہر فرد دوسرے کے لیے زبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔*

Saturday, June 13, 2020

وقت تو گزر جاتا ہے:-

وقت تو گزر جاتا ہے:-

لیکن آپ وقت کو روک بھی سکتے ہیں، اگر آپ وقت کو اپنی مرضی سے گزاریں تو آپ اُس سے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو چاہتے ہیں، اس طرح وقت آپ کے لئے رک جاتا ہے۔
اگر آپ اپنی مرضی سے وقت گزاریں گے تو وقت آپ کے کام آئے گا وگرنہ وقت اپنی مرضی سے گزرے گا تو وہ آپ کے کام نہیں آئے گا۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ کہ وقت خود نہ گزرے بلکہ اُس کو ہم خود گزاریں۔ اس کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اُن خواہشات کو لکھیں جن کے لئے ہم تڑپتے ہیں اور اللہ کے آگے دُعا گزار ہوتے ہیں۔ وہ خواہشات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، کسی بھی نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ جیسے ، کسی کو پیسے کی ضرورت ہے، کسی کو صحت کی ضرورت ہے، کسی کو اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے، کسی نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے یا پھر کسی نے حج کرنا ہے۔ضرورت یا خواہش کچھ بھی ہو سکتی ہے اور کسی عمر میں بھی ہو سکتی ہے۔
ایک موٹی ویشنل سپیکر ایک سیمینار میں اپنی تقریر میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو کامیابی کے لئے کم از کم پانچ سال کے لئے کوئی گول یعنی مقصد یا ہدف بنانا چاہیے۔ سننے والے لوگوں میں سے ایک شخص نے تقریر کے خاتمے کے بعد اُس سے پوچھا کہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے کامیابی کا؟ پانچ سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں، کوئی جلدی کا طریقہ نہیں ہے آپ کے پاس؟ ۔
اُس سپیکر نے جواب دیا کہ ہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کوئی گول نہ بنائیں۔ زندگی کو اُس کی مرضی سے چلنے دیں۔ سپیکر نے دوسرے لوگوں کو اس سوال کے بعد وضاحت سے بتایا کہ آج اگر آپ تیس سال کے ہیں اور آپ اپنی زندگی کےلیے کوئی گول یا مقصد نہیں بناتے تو جب آپ پینتیس سال کے ہوں گے تو پانچ سال تو گزر چکے ہوں گے مگر آپ اُس طرح ہی زندگی گزار رہے ہوں گے جیسے تیس سال کے ہوتے ہوئے گزار رہے تھے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وقت نے گزر جانا ہوتا ہے۔ ہمیں وقت کو روکنا ہے تو وقت کے ساتھ نہ چلیں بلکہ وقت کو اپنے ساتھ چلائیں۔

Thursday, June 11, 2020

پریشانیوں کی شکایت

‎لوگ ایک بُزرگ کے پاس آتے ہیں ، ہر بار ایک ہی پریشانیوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن اس نے انہیں ایک لطیفہ سنایا اور سب خُوب ہنسے۔

‎ایک دو منٹ کے بعد ، اس نے انہیں وہی لطیفہ سنایا اور ان میں سے صرف چند ہی مسکرائے۔

‎جب اس نے تیسری بار یہی لطیفہ سنایا تو کوئی بھی نہ ہنسا۔

‎بُزرگ نے مسکرا کر کہا:      آپ ایک ہی لطیفے پر بار بار ہنس نہیں سکتے۔ تو آپ ہمیشہ ایک پریشانی کے بارے میں کیوں روتے رہتے ہیں؟

‎کہانی کا اخلاقی سبق
‎پریشانی لینے سے آپ کے مسائل حل نہیں ہوں گے ، یہ صرف آپ کا وقت اور توانائی ضائع کرے گا۔

اگر محمد رسول اللّٰه صَلَّى اللہ علیہ وآلہ وسلم اک دن...

اگر محمد رسول الله صَلَّى اللہ علیہ وآلہ وسلم اک دن تم سے ملنے آجائیں
انگریزی زبان کی یہ نظم جس نے بھی لکھی ہے الله تعالیٰ اسے جزائے خیر دیں، نہایت فکر انگیز اور ایمان سے بھر پور کلام ہے،
 یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔
اگر محمد رسول الله تعالیٰ صَلَّى اللّٰهُ  عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  اک دن تم سے ملنے آ جائیں
 بالکل اچانک تشریف لائیں
میں حیران ہوں کہ تم کیا کرو گے _ کیا کرو گے؟
ہاں میں جانتا ہوں _ تم اپنا سب سے بہترین کمرہ _ اپنے محترم مہمان کو پیش کرو گے.

سب سے عمدہ سب سے اعلیٰ __ طعام (کھانا) کا اہتمام کرو گے۔ اپنی ہر بات سے انہیں احساس دلاؤ گے
کہ ان کی آمد سے تم بہت خوش بہت دلشاد ہو۔ _ ان کی آمد تمہارے لئے اعزاز ہے
اک ناقابل مسرت بیان __ اور مسلمان کا اک حسین خواب ہے۔

لیکن! جب تم انہیں آتا دیکھو گے __ کیا ان سے دوڑ کے دروازے پہ مل پاؤ گے؟
ان کے استقبال میں اپنے بازو وا کر سکو گے؟ 
یا ان کی اندر آمد سے پہلے ہی تمہیں
اپنا لباس تبدیل کرنے دوڑ جانا پڑے گا؟
ان کی نظروں سے چھپا کے تمام رسائل ہٹا کے
قرآنِ مجید پاک سجانا پڑے گا __ پھر کیا تم اپنے ٹی وی پر وہی لباس _ وہی مناظر دیکھ سکو گے؟
یا ان کی نظر پڑنے سے پہلے ہی
دوڑ کر اپنا ٹی وی بند کرو گے؟
کیا اس خواہش پر کہ ان کی سماعت سے
تمہارا ریڈیو، تمہارا ٹی وی، تمہاری سی ڈیز، تمہاری ڈی وی ڈیز دور رہیں؟
ان سب کو کہیں چھپا دو گے؟ 
اور پچھتاؤ گے کہ کاش __ تم نے اس وقت اس اونچی آواز میں _ کبھی بات ہی نہ کی ہوتی
کیا نغمہ و موسیقی کے آلات چھپا کر
ان پر احادیث کی کتابیں ڈھانپ دو گے؟
اور پھر کیا تم انہیں اپنے گھر کے ہر گوشے میں ہر جگہ ہر حصے میں بلا جھجھک لے جاؤ گے؟
یا پھر انہیں اپنا گھر دکھانے سے پہلے ہی
یہ سب چھپانے دوڑ جاؤ گے؟ 

میں حیران ہوں __ اگر
محمدصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  ایک یا دو دن تمہارے ساتھ رہنا چاہیں۔۔
تمہاری ذات تمہارے خاندان کو یہ اکرام دینا چاہیں
کیا تم اپنے معمول کے مطابق کام کر پاؤ گے
وہی الفاظ جو کہتے ہو کہہ پاؤ گے؟
کیا تمہاری زندگی کے روز و شب بر قرار رہ سکیں گے؟ 
کیا تمہارے گھر کی روزمرہ کی گفتگو __ ویسے ہی جاری رہ سکے گی؟ یا تمہارے لیے ان کے ساتھ
کھانا کھاتے ہوئے کھانے کی دعائیں پڑھنا بھی مشکل ہو جائیں گی؟ __
تمہیں نمازیں ٹال کر سو جانا یاد رہے گا؟ 
کیا تمہیں خوشی کے ساتھ رب کے دربار میں بار بار جھکنا یاد رہے گا؟ 
جو گیت اور نغمے اکثر گنگناتے ہو؟ ان کے سامنے وہی گنگنا پاؤ گے؟
وہی کتابیں وہی رسالے جو پڑھتے ہو پڑھ پاؤ گے؟ 
اُنہیں بتا سکو گے کہ تمہاری سوچ
اور تمہارے خیالات اور تمہاری نگاہیں۔کہاں کہاں کس کس کو کہاں کہاں ٹٹولتی ہیں؟ 
اُنہیں بتا پاؤ گے؟ کہ جو سب کچھ __ تمہاری روح تمہارے وجود میں سمایا ہوا ہے؟ کیا ہر اس جگہ جہاں تم جاتے ہو
محمد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کو اپنے ہمراہ لے جا سکو گے؟ 
اپنے ہر ساتھی ہر ملنے والے سے اُنہیں ملوا پاؤ گے؟ 
یا چاہو گے کہ ان کے قیام تک یہ سب تم سے دور ہی رہیں؟ 
اور اگر وہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم ساری عمر تمہارے ساتھ رہنا چاہیں__ تو کیا تم تمام عمر کے لئے
اُنہیں ( صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم ) اپنا مہمان بنا پاؤ گے؟ 

ِیا پھر ایک آزادی اور اطمینان کا سانس لو گے؟ جب آخرکار وہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  اک دن آئے
تمہارے گھر سے وہ واپس لوٹ جائیں کیا یہ تصور یہ خیال خوشگوار نہیں ہو گا؟ 
اگر میں جاننا چاہوں کہ تم اس وقت کیا کرو گے؟ 
جب محمدصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کچھ دن کچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنے کے لئے __اپنی امت کے احوال کی آگہی کے لئے اپنی امت کی خیر خواہی کے لئے __تمہارے گھر مہمان رہیں! 

دوسروں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں

اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں:
میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔ 
میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ 
میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔۔۔ 
تو بابا جی نے کہا: 
" اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے، مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ 
میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بِنا محنت کیے، اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ 
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے۔ اماں نے جیسے ہی مُٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا، اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا، کبھی بائیں۔ کبھی شمال، کبھی جنوب۔
سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اُسکا پیٹ بھی نہیں بھرا۔"

 بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا:
" بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"
 میں نے فٹ سے جواب دیا:
" نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا، نہ ذلیل ہوتا۔"
 بابا بولا :
" بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے، تو اللّہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تُو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔"

 بابا عجیب سی ترنگ میں بولا، *" پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو مُعاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شُکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کرلو، تو امر ہو جاؤ گے۔"*

 یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سرجُھکائے زارو قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شُکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مُجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔ اللہ ہمیں آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔

لوگوں کو معاف کرو

اس نے جیسے ہی کیل کو لکڑی کے اوپر رکھا ساتھ دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑی اُٹھائی تو اپنے کندھے کے پاس سے لاتے ہوئے بہت شدت کے ساتھ کیل پے دے ماری. 

جیسے ہی ہتھوڑی کیل پے لگی تو کیل لکڑی کو چیرتے ہوئے دوسری طرف کو جا نکلا، 

لکڑی نے کیل سے کہا کے تمہیں ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا میرا؟ 

تو اس پر کیل نے جواب دیا کہ اگر تمہیں پتہ چل جائے نہ کے میرے سر پہ کس شدت سے وار ہوا ہے تو تم اپنی تکلیف کو بھول جاؤ گی اور یقیناً مجھے معاف کر دو گی. 

کیا ہی اچھا ہو نہ کے ہم ایک دوسرے کو اسی طرح معاف کر دیں یہ سمجھ کر شاید اگلا ہم سے بھی زیادہ تکلیف میں ہو. 

تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا.. 

بے شک بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنے کا اجر ہے..

Friday, May 29, 2020

ایک کے بعد دوسرا

مسافر اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرین جاچکی ہے۔ اس کی گھڑی صحیح نہ تھی اس لئے وہ دس منٹ لیٹ ہوگیا۔ اتنی دیر میں ٹرین آکر چلی گئی۔ "بابوجی، فکر نہ کیجئے" قلی نے کہا "دو گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آرہی ہے، اس سے آپ چلے جائیں۔ اتنی دیر پلیٹ فارم پر آرام کرلیجئے"۔ مسافر نے قلی کا مشورہ مان لیا اور دو گھنٹے انتظار کے بعد اگلی ٹرین میں سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ 
ہر مسافر جانتا ہے کہ ایک ٹرین چھوٹ جائے تو جلد ہی دوسری ٹرین مل جاتی ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ پلیٹ فارم کا سبق ہے۔ مگر اکثر لوگ اس معلوم سبق کو اس وقت بھول جاتے ہیں جبکہ زندگی کی دوڑ میں ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ پہلی بار ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد وہ مایوس ہوجاتے ہیں یا احتجاج و فریاد کے مشغلہ میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لئے نیا منصوبہ بنائیں، وہ "اگلی ٹرین" سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ 
ایک شخص جس سے آپ کی مخالفت ہوگئی ہو اور ٹکراو٘ کا طریقہ جس کو "درست" کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو، آپ اس کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیجئے۔ اس کو نرمی کے طریقہ سے متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ پرانے طریقے نے جس کو آپ کا دشمن بنا رکھا تھا، نئے طریقہ کے بعد وہ آپ کا ایک کارآمد دوست ثابت ہو۔ آپ کہیں ملازم ہیں اور وہاں آپ کی ملازمت ختم کردی جاتی ہے، آپ اس کے پیچھے نہ پڑئے بلکہ دوسرے کسی میدان میں اپنے لئے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہوسکتا ہے کہ نیا کام آپ کے لئے پہلے سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔ کوئی آپ کا ھق نہیں دیتا۔ اس سے آپ کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں اور آپ اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اس کا خیال چھوڑ دیجیئے اور اپنی محنت پر بھروسہ کیجئے۔ بہت ممکن ہے کہ اپنی محنت کا کام میں لاکر آپ خود وہ چیز حاصل کرلیں جس کو آپ دوسروں سے مانگ کر پانا چاہتے ہیں۔ 

انسان کی شخصیت

ایک برتن میں پانی ہے۔ اس سے ایک قطرہ ٹپکا۔ یہ قطرہ اگر بدبودار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برتن کا سارا پانی بدبودار ہے۔ پانی کا قطرہ پانی کے پورے ذخیرے کا نمائندہ ہے۔ پانی کا ایک قطرہ جیسا ہے، سمجھ لیجئے کہ سارا پانی ویسا ہی ہوگا، یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ ہر انسان گویا پانی کا ایک ذخیرہ ہے اس ذخیرہ سے بار بار اس کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ان ظاہر ہونے والی بوندوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اندر کا انسان کیسا ہوگا۔ کسی آدمی سے آپ بات کریں اور بات چیت کے دوران اس کی زبان سے ایک ہلکی بات نکل جاءے، کسی آدمی سے آپ معاملہ کریں اور معاملہ میں وہ کمزوری دکھائے، کسی ادمی کے ساتھ آپ کا سفر پیش آءے اور سفر میں اس کی طرف سے کوئی برا سلوک ظاہر ہو تو یہ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ وہ آدمی اچھا نہیں۔ 
آدمی ایک مکمل مجموعہ ہے، جیسے برتن کا پانی ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی آدمی سے ایک کمزور ظاہر ہو تو وہ اس کی شخصیت کا انفرادی یا استثنائی واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ اس کی پوری شخصیت کا اظہار ہوگا۔ وہ ایک عکس ہوگا جس میں اس کی پوری شخصیت جھلک رہی ہوگی۔ کوئی آدمی کسی معاملہ میں کمزور ثابت ہوتو سمجھ لیجئیے کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور ہے۔ آدمی ایک معاملہ میں ناقابل اعتماد ثابت ہونے کے بعد ہر معاملے میں اپنے آپ ک ناقابل اعتماد ثابت کردیتا ہے۔ اس کلیہ میں صرف اس ایک استثناء ہے اور وہ اس انسان کا ہے جو اپنے محاسبہ کرتا ہو۔ جس کے اندر احتساب کی صلاھیت زندہ ہو۔ جو بار بار اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہو کہ اس نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اس کی زبان کس موقع پر انصاف کی بات بولی اور کس موقع پر وہ انصاف سے ہٹ گئی۔ 
ایک شخص تجربہ میں غلط ثابت ہو۔ اس کے بعد کو اس اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ آپ سے معافی مانگے تو سمجھ لیجئیے کہ وہ صحیح انسان ہے۔ وہ غلطی کرکے اس کی تصحیح کرنا جانتا ہے۔ مگر جس کا حال یہ ہو کہ اس سے قول یا فعل کی غلطی صادر ہو اس کے بعد اس کا ضمیر اسے نہ تڑپائے۔ اس کے اندر احتساب کی کیفیت نہ جاگے اور اس کی زبان معافی مانگنے کے لیے نہ کھلے تو ایسا انسان بالکل بے قیمت انسان ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس پر کسی معاملہ میں بھروسہ کیا جاسکے۔