Saturday, July 25, 2020

ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ؟

ایک خدائی حکمت
ﺳﻮﺭﺝ ﻃﻠﻮﻉ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ. ﮨﻢ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ. ﺧﻨﮏ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺗﮯ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﺎﺣﺴﯿﻦ ﻣﻨﻈﺮﺧﺎﺻﺎ ﺩﻟﮑﺶ ﺗﮭﺎ. ﺗﺎﺣﺪ ﻧﮕﺎﮦ ﭘﮭﯿﻼ ﺳﻤﻨﺪﺭﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﺎﻣﺤﻮﺭﺑﻦ ﮔﯿﺎ،
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮭﺎﺭﺍ ﯾﺎ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ. ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﻣﺪﻭﺟﺰﺭ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮﮐﯿﺎ ﺣﮑﻤﺖ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﮨﮯ ؟
ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻢ ﻋﺎﻡ ﺳﺎﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ. ﺑﺎﺭﺵ ﺍﻭﺭﺑﺮﻑ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﺟﺐ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ. ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻌﺪﻧﯿﺎﺕ ﮐﯿﻤﯿﺎﺕ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﺩﺭﯾﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﻃﮯ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮔﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﺪﻭﺟﺰﺭ ﮐﮯﺗﺴﻠﺴﻞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮﺍﻣﯿﮟ ﺍﮌﺟﺎﺗﺎﮨﮯ . ﺟﺒﮑﮧ ﻧﻤﮑﯿﺎﺕ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ. ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ. ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺑﺤﯿﺮﮦ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﺮﯾﭧ ﺳﺎﻟﭧ ﻟﯿﮏ ﻧﺎﻣﯽ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﺎﻧﻤﺒﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﻥ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻋﺎﻡ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮨﮯ.
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺳﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﯿﺎﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﮨﯿﮟ،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺩﻭ ﭨﺐ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮯ . ﺍﯾﮏ ﭨﺐ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮐﻠﻮ ﻧﻤﮏ ﮈﺍﻻ . ﺩﻭﺳﺮﮮﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮﭼﯿﻨﯽ ﮈﺍﻟﯽ. ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺒﺰﯼ ﻣﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭﻣﭽﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﻣﺎﺟﮕﺎﮦ ﺑﻦ ﭼﮑﺎﺗﮭﺎ. ﺟﺒﮑﮧ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﻗﺪﺭﮮﺑﮩﺘﺮﺗﮭﺎ . ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ . ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ. ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﭩﮭﺎﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﭼﮑﺎﺗﮭﺎ . ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﻓﻠﭩﺮﮐﺮﮐﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻟﯿﺎﮔﯿﺎ. ﺍﺱ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﮔﺌﯽ،
ﺍﮔﺮﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎﺟﺎئے، ﻣﺪﻭﺟﺰر ﮐﺎﺳﻠﺴﻠﮧ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎئے ﺗﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﮐﺮﺗﻌﻔﻦ ﺯﺩﮦ ﻓﻀﺎ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﻣﮩﻠﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﻧﻈﺎﻡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﻌﻄﻞ ﮨﻮﺟﺎﮰ ﮔﯽ. ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎﻻﺯﻣﯽ ﺟﺰﻭ ﮨﮯ . ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﻧﺎﯾﺎﺏ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺫﺧﺎﺋﺮ ﻧﻤﮑﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﻮﺩﺍ "ﻣﺮﺟﺎﻥ" ﻧﻤﮑﯿﺎﺗﯽ ﺟﺰﺋﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ. ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺡ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ،
ﺭﺏ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﺎﻟﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﭼﺎﺭ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ
1 ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺨﺎﺭﺍﺕ ﺑﻨﺎﮐﺮﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﯿﺰ ﻭﮨﺎﮞ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﻠﻨﺲ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺍﺑﺮﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،
2 ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﭽﻠﯽ ﺳﻄﺢ ﮐﻮ ﺍﻭﭘﺮﻻﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺟﺲ ﺳﮯ ﺧﻼﺋﯽ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺟﺴﮯ ﭘﺮﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﺍﻭﭘﺮﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ.
3 ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮨﯿﮟ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺎﮐﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﺮﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮩﺘﮧ ﮨﻮﺍ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺑﺤﺮﯼ "ﺭﻭ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
4 ﮐﺸﺶ ﺛﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺶ ﻗﻤﺮﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮﻣﺴﻠﺴﻞ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺟﺲ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﺎﺯﮔﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ.
ﺑﮯﺷﮏ ﺍلله ﺑﮩﺘﺮﺣﮑﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ.

Friday, July 24, 2020

كسى كو بے عزت كرنے اور امر بالمعروف كرنے ميں فرق

*حسنين عليہما السلام* نے اپنے بچپن كے زمانے ميں ايک بوڑھے شخص كو وضو كرتے ديكھا اور سمجھ گئے كہ اس كا وضو درست نہيں۔ 
ان دونوں آقا زادوں نے جو احكامات اسلام اور نفسيات كے اصولوں سے واقف تھے فوراً يہ سوچا كہ ايک جانب تو اس بوڑھے شخص كو بتانا ضرورى ہے كہ اس كا وضو باطل ہے اور دوسرى جانب اگر اسے براہ راست كہا جاۓ  كہ جناب آپ كا وضو باطل ہے تو اس كى شخصيت مجروح ہوگى اور اسے برا لگے گا!!۔ 
اس صورت ميں اس كى جانب سے پہلا رد عمل يہ ہوگا كہ وہ كہے گا كہ نہيں جناب ميرا وضو ٹھيک ہے!!پھر اسے جتنا بھى سمجھا جاۓ گا وہ ايک نہيں سنے گا!!  

لہذہ انہوں نے آگے بڑھ كر كہا!! ہم دونوں چاہتے ہيں كہ آپ كے سامنے وضو كريں اور آپ ہميں ديكھيں كہ ہم ميں سے كون بہتر وضو كرتا ہے!! چنانچہ بوڑھے شخص نے كہا!!  آپ وضو كريں تاكہ ميں اس بارے ميں فيصلہ كرسكوں؛؛ 

امام حسنؓ نے اس كے سامنے مكمل وضو كيا اور بعد ميں امام حسينؓ نے بھى ايسا ہى كيا!! اب بوڑھا سمجھ گيا كہ اس كا اپنا وضو صحيح نہيں تھا لہذہ اس نے كہا!! آپ دونوں كا وضو صحيح ہے!! ميرا وضو درست نہيں تھا!! يوں انہوں نے اس شخص سے اس كى غلطى كا اعتراف كرواليا!! 

اب اگر اس موقع پر وہ فوراً اسے كہہ ديتے!! بڑے مياں! تمہيں شرم نہيں آتى!!  اس سفيد داڑھى كے  باوجود تمہيں ابھى تک وضو كرنا بھى نہيں آتا؟ تو وہ نماز پڑھنے سے بھى بيزار ہوجاتا۔


حوالہ: _"اسلامى داستانيں، شہيد مرتضى مطہرىؒ، ص، ۲۴۹"_

Practice makes the man perfect

انگریزی کا ایک مقبول مقولہ ہے کہ '_پریکٹس میکس دا مین پرفیکٹ_'. 
یعنی کسی کام کا بار بار کرنا یا دہرانا آپ کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے.

اسی طرح کنگ فو کی فیلڈ میں ایک چینی کہاوت ہے کہ 'مجھے ان ایک لاکھ داؤ سے خطرہ نہیں ہے جو تم نے ایک بار پریکٹس کئے ہیں. مجھے تو اس ایک داؤ سے خوف ہے جو تم نے ایک لاکھ بار پریکٹس کیا ہے۔'

ایک اور مشہور مقولہ یہ بھی ہے کہ 'ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر وہ عادات ہمیں بناتی ہیں' -
گویا پہلے ہم کسی کام کو بار بار کر کے اس کی عادت ڈال لیتے ہیں، مگر پھر وہی عادت ہماری مستقل صفت بن کر ہماری شخصیت کا تعارف بن جاتی ہے.

یہ تمام اور اس جیسے اور بہت سے اقوال و کہاوتیں دراصل ایک ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی بھی کام کی بار بار پریکٹس آپ کو اس خاص کام کا ماہر بنا دیتی ہے۔ اب سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آج تک کیا پریکٹس کرتے رہے ہیں؟

اگر آپ شکایت پریکٹس کرتے آئے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں آپ اس میں ایسے ایکسپرٹ ہو جائیں گے کہ جلد ہی لوگوں سے، معاشرے سے، رشتوں سے اور خدا سے آپ کو طرح طرح کی شکایات ہونے لگیں گی۔

بلھا کی جانڑاں میں کون.....

یہ ایک سچی کہانی ہے جو مجھے ایک دوست نے سنائی تھی 

(بلھا کی جانڑاں میں کون)

اسٹیج پر فقیر محمد کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف چل دیا فقیر محمد شکل سے بھی فقیر ہی لگتا تھا غربت اس کے چہرے پہ گویا چسپاں تھی ایک مل میں کام کرتا تھا اور تنخواہ کی چرس پی جاتا یا تھوڑا بہت گھر دے دیتا تنخواہ میں گزاراہ کہاں ہوتا بھلا تو  کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا تھا
اب تو لوگ ادھار بھی نہیں دیتے تھے اسے 
دو بچے اور بیوی تھی
بیوی صابر تھی جو بھی دے دیتا اسی میں گزارہ کر لیتی
  وہ سٹیج کی طرف چلا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ یہ اس بار بھی انکار کردیگا یہ مل مالکان کی طرف سے ہر سال کسی ایک خوش نصیب ورکر کو حج پہ بھیجنے کی تقریب تھی جس میں پچھلے  دو سال کی طرح اس سال بھی فقیر محمد کا نام ہی آیا تھا پچھلے دو سال حج پہ جانے کی بجاۓ فقیر محمد نے حج کے خرچ کے پیسے لے لیے تھے اور اس سال پھر اسی کا نام نکل آیا تھا
اس چرسی کے نصیب میں بھلا اللہﷻ کے گھر کی زیارت کہاں؟
یہ حاجی وحید حسن تھا  جو اپنے کولیگز کو کہ رہا تھا
حاجی وحید چھ ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تھا اور اب اپنے نام کے ساتھ حاجی بھی لکھتا تھا۔
حالانکہ حاجی صاحب وہاں جاکر آنے کو دل ہی نہیں کرتا کسی کا بھی اور یہ بدقسمت جانے کی بجاۓ پیسے لےلیتا ہے 
یہ شیخ ایوب تھا جو حاجی وحید سے مخاطب تھا یہ بھی عمرہ کر چکا تھا 
اور شاید جتانا چاہ رہا تھا کہ میں بھی "حاجی" ہوں 
فقیر محمد اسٹیج پہ پہنچ چکا تھا
مل مالک شیخ عمر نے اسے مبارک باد دی اور کہا بھئ فقیر محمد تیاری کر لو
فقیر محمد نے ایک نظر اپنے کولیگز پر ڈالی اور
آہستہ سے بولا 
میں حج پر نہیں جاؤنگا 
مجھے پیسے دے دیں
وہاں موجود تمام لوگوں کو شاید اسی جواب کی توقع تھی
کسی کے چہرے پر بھی حیرانگی نہیں تھی
شیخ عمر زرا سا مسکراۓ اور بولے
اس دفعہ تو ہر صورت تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا فقیر  محمد 
جناب میں کیا کرونگا حج پہ جا کے؟
آپ مجھے پیسے دے دیں
فقیر محمد نے دھیمی سی آواز میں کہا
نہیں فقیر محمد اس بار تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا شیخ عمر بھی گویا اسے بھیجنے کا تہیہ کرچکے تھے 
مگر فقیر محمد کا ایک ہی جواب تھا 
جناب میں کیا کرونگا جاکر
میں گنہگار آدمی ہوں چرسی ہوں میرا کیا کام وہاں؟
اور ویسے بھی صاحب جی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے 
ٹھیک اگر تم حج پر جاؤ تو پورے سال کی تنخواہ بونس کے طور پہ دونگا 
شیخ عمر نے آفر کی تو فقیر محمد کی آنکھوں میں چمک سی آگئی
کہنے لگا ٹھیک ہے صاحب میں راضی ہوں
شیخ عمر بولے دیکھو تین سال سے مسلسل تمہارا ہی نام نکل رہا ہے اور جانہیں رہے اللہﷻ پاک ہر صورت تمہیں بلانا چارہا ہے
روانگی کا دن آگیا سال کی تنخواہ فقیر  محمد لے چکا تھا 
گھر والوں اور جو ایک دو جاننے والے تھے ان سے مل کر فقیر محمد حج پہ روانہ ہوگیا
حج کیا روضہ رسولﷺ پہ حاضری دی حج مکمل کر کےدو دن بعد فقیر محمد کی واپسی تھی مگر آنے سےایک دن پہلے ہی مکہ مکرمہ میں  اس کا انتقال ہوگیا
اس کے گھر اطلاع دی گئی اور اس کی بیوی سے اجازت لیکر اس کو دنیا کے دوسرے بہترین قبرستان جنت المعلی مکہ  میں دفن کردیا گیا
جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب 
مگر کیسے؟ ایسا کیا عمل تھا اس کا؟
کچھ دن بعد مل مالک شیخ عمر فقیر محمد کی بیوی کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو اس کی بیوی سے پوچھا بہن ایس کونسا عمل تھا اس کا کہ 
تین سال مسلسل اسی کا نام نکلا گیا تو دفن بھی وہیں ہوا
اس کی بیوی نے کہا صاحب جی
میں اور تو کچھ نہیں جانتی مگر ایک عمل اس کا جانتی ہوں شاید اسی کے سبب یہ رتبہ ملا ہو اسے
کہنے لگی ہمارے محلے میں ایک جوان بیوہ ہے اس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ بےچاری لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی وہ عزت دار عورت ہے اور یہ بھیڑیوں کا معاشرہ
 ہر جگہ اسے لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا اس نے بھوک قبول کرلی مگر عزت کا سودا نہیں کیا 
میرے خاوند کو پتہ چلا تو اس نے اس بیوہ عورت کو اپنی بہن بنا لیا اور اس کے گھر کا سارا خرچ دینے لگا   میرے شوہر کی تنخواہ میں دو گھروں کا گزارہ مشکل تھا اور وہ نشہ بھی کرتا تھا تووہ ادھار لیکر جیسے بھی کسی سے لوٹ کھسوٹ کر اس کو خرچہ ضرور دیتا تھا
دو بار حج پہ نہ جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیچھے اس بیوہ عورت اور اس کی بچیوں کا خیال کون رکھتا اس نے دو بارحج کے پیسے لیکر بھی ان کو ہی دیے اور کچھ مجھے 
وہ اس بار نہیں جاتا اگر آپ اسے پورے سال کی تنخواہ نہ دیتے 
اس نے پیسے لیکر کچھ گھر کا سامان لیا اور کچھ اس عورت کو لیکر دیا تب وہ حج پہ گیا 
شیخ عمر کا دل چاہ رہا تھا کہ فقیر محمد اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے ہاتھ چومتا
وہاں سے وہ اس بیوہ عورت کے گھر گئے 
اس نے بتایا کہ لوگوں کی نظروں میں چرسی شرابی میرے اور میری بچیوں کے لیے فرشتہ تھا
کہنے لگی وہ کہتا تھا  بہن میرے لیے دعا کردیا کرو بس
اور میں اس کے لیے ایک ہی دعا کرتی تھی
یا اللہﷻ  میرے اس بھائی کو ایمان پہ موت دینا
یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے سے جتنے بال ہاتھ نیچے آتے ہیں اتنے گناہ معاف ہوتے اتنی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اتنے ہی درجات بلند ہوتے ہیں۔
کسی کی ظاہری حالت سے اس کے اعمال کو مت جانچو

فنگر پرنٹس

انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے 
یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں 
ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی۔۔این۔۔اے دیتا ہے 

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں 
گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے
 یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔

کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟

کوئی ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟

کوئی ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟

کوئی ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟

کوئی ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟

حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔
پس ہم پر کھلتا ہے ہے۔پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی۔

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے وہ ہی خدا ہے


منقول

اپنے آپ سے سچ بولیں...!

*آئیے آج اپنے آپ سے "سچ" بولیں...!*

*اپنی غلطیوں کو مان لینا آپکو مزید غلطیوں سے بچا لیتا ہے...!*

*آج اکیلے بیٹھیں، اپنے ہر عمل پر نظر ڈالیں، جو جو غلط کیا وہ تسلیم کرتے جائیں...!*

 *خُود سے کہیں "ہاں یہ مُجھ سے غلط ہُوا ہے" کوئی بہانہ نہیں، کسی پر الزام نہیں، خُود سے سچ بولنا ہے...!*

*اللّٰہ سے معافی مانگیں، جہاں غلطی ٹھیک کرنے کی گنجائش ہے، آگے بڑھیں اور ٹھیک کریں...!*

*آپ پُر سکون ہو جائیں گے...!*

*جبکہ اپنے آپ سے جُھوٹ بول کر آپ کبھی سکون حاصل نہیں کر پائیں گے...!*

*تو آئیے آج اپنے آپ سے "سچ" بولیں...!*

بـــــــس ہـــــــوسٹـــــــس

ماں نے ڈرتے ڈرتے عالیہ کی طرف دیکھا اور بولی
عالیہ یہ اتنا سارا پھل تو کہاں سے لائی ہے؟ ابھی تو تنخواہ ملنے میں بہت دن باقی ہیں !!
ماں کی آنکھوں میں کرب تھا دماغ میں جو ممکنہ سچ گھوم رہا ہے اسے سننے سے ڈر رہی تھی، حالانکہ اسے پتہ تھا عالیہ اس سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گی اسی لئے یہ سوال پوچھ کر وہ پچھتا رہی تھی۔
عالیہ بولی امی جی آپ پریشان نہ ہوں آپکو پتہ ہے میں نہ آپ کو رسوا کروں گی نہ شرمسار ہونے دونگی، 
آج جب ہم ٹرمینل پر واپس پہنچے اور میں مسافروں کو رخصت کر رہی تھی تو ایک صاحب نے بس سے اترتے ہوئے میرے ہاتھ میں ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا اور بولے ... بیٹا  !!! یہ تمہاری عیدی ہے۔
امی جی میری آنکھیں بھیگ گئیں مجھے ابو بہت یاد آئے، مجھے یاد ہے ابو ہمارے لئے موسم کے پھل لایا کرتے تھے میں نے بھی فیصلہ کیا آج گھر پھل لے کر جاوں گی۔ 
امی پتہ ہے پھل خریدتے ہوئے میں کیا سوچ رہی تھی !! روزانہ کئی لوگ مجھے غلیظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اور شیطانی مسکراہٹ کیساتھ فون نمبر کی پرچیاں اور وزٹنگ کارڈز دے کر جاتے ہیں، لیکن حیوانوں کے اس جنگل میں آج مجھے ایک انسان بھی مل ہی گیا ، امی مجھے گمان بھی نہ تھا کہ مجھے کوئی بیٹی سمجھ کر بھی مخاطب کرے گا۔

خیالات بدلیں معاشرہ بدلیں

Wednesday, July 22, 2020

اصلاح نفس کے چار طریقے

 1 ۔ مُشَارَطَه :
اپنے نفس کے ساتھ شرط لگانا کہ " گناہ " نہیں کروں گا " ہر صبح نفس کے ساتھ شرط لگائی جائے کہ آج دن بھر گناہ نہیں کروں گا "،

 *2 ۔ مُرَاقَبَه :
کہ آیا گناہ تو نہیں کیا؟ " دن بھر اپنی نگرانی کرتے رہیئے کہ گناہ نہ ہو جائے "،

 *3 ۔ مُحَاسَبَه :* کہ اپنا حساب کرے کہ کتنے گناہ کیئے اور کتنی نیکیاں کیں!

 رات سونے سے پہلے تنہائی میں دن بھر کا جائزہ لیا جائے کہ کیا کیا غلط ہوا اور کیا اچھا ہوا۔

 4 ۔ مُوَاخَذَه :  
کہ نفس نے دن میں جو نافرمانیاں کی ہیں اس کو سزا دینا اور وہ سزا یہ ہے کہ اس پر عبادت کا بوجھ ڈالے جو غلط ہوا اس پر شرمندگی کے ساتھ استغفار کر لے اور جو اچھا کیا اس پر خوب اللّٰه رب عزت کا شکر ادا کرے۔

وقت

جوا حرام ہے. کیونکہ یہ انسانی عقل کو کسی ایک بازی کے کسی ایک لمحے میں ایسا قید کر دیتا ہے کہ ہم باقی کچھ سوچنا نہیں چاہتے. ہمیں لگتا ہے یہ ایک بازی ہماری زندگی کا فیصلہ کرے گی. اور ہم سب کچھ داو پر لگا دیتے ہیں.

اس کے حرام ہونے کی سیکڑوں اور وجوہات بھی ہوں گی لیکن حرام چیزوں میں ہر چیز کی وجوہات میں ایک چیز کامن ہوتی ہے. یہ اشرف المخلوقات انسان کے شعور پر شیطانی پردہ ڈال دیتی ہے. ہم کسی ایک جگہ ٹریپ ہو جاتے ہیں. ہم اُمید چھوڑ دیتے ہیں.

پچھلے سال اس دن اس وقت کے اس لمحے میں آپ کس پریشانی میں ٹریپ تھے. یہ آج آپ کو یاد ہی نہیں ہوگا. لیکن اُس دن اُس وقت اٗس لمحہ آپ اسی پریشانی کو پہاڑ سمجھ رہے تھے. آج کی پریشانی بھی آپ کو اگلے سال اس دن بشرط زندگی یاد نہ ہوگی. 

اپنے کل کیلئے ہم آج کی پریشانیاں اور فکریں نہیں لے جاسکتے. لیکن آج کی تعمیر ضرور لے جا سکتے ہیں. چاہے وہ اسباب کی ہو خیالات کی ہو یا عادات کی. ہمیں زمانہ حال میں اسی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے. کل ہماری پریشانی خیالات اسی سے کم ہوگی.

وقت جو ہاتھ میں ہے یہ انسانی سرمایہ ہے. اسے کسی لمحے کی پریشانی میں زندگی کی آخری بازی نہ بنائیں.

احساس کی انتہا

ایک ریڑھی والے سے دال چاول کھانے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔"بھائی !! خوشاب کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟"
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "سامنے اس ہوٹل کے پاس ۔"
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی ۔چائے واقعی بڑی مزیدار تھی ۔جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ چاول والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں ۔واپس دوڑتے ہوئے چاول والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں ،میں نے آپ سے چاول تو کھائے ہیں لیکن پیسے نہیں دیے؟"
تو چاول والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔"بھائی جس کے بچوں کی روزی انہی چاولوں پہ لگی ہے ،وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟"
"تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟"
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
تو کہنے لگے"بھائی یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں،اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمساری نہ اٹھانا پڑے ""