مدینہ کا محافظ از فخرالدین پاشا
یقینا آپ اس نام کو پہلی بار سن رہے ہیں. یہ خلافت عثمانیہ کا وہ بہادر جرنیل تھا جو اکیلا تن تنہا عرب باغیوں اور برطانیہ اور اسکے اتحادی افواج سے 72 دن تک لڑتا رہا .اور بعد میں برطانیہ نے اسکے بہادری اور دلیری سے متاثر ہوکر انکو "صحرائی چیتا" یا"ٹائگر آف دے ڈیزرٹ" کا خطاب دیا تھا. تاریخ اسے مدینہ کا محافظ کے نام سے یاد کرتے ہے .وہ خلافت عثمانیہ کا ایک بہادر جرنیل تھا لیکن جس چیز نے اسکی شخصیت اجاگر کی وہ تھا اسکا حضورﷺ سے تعلق اور عشق. پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ تقریبا ہر جگہ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں شکست پے شکست کھاتا جا رہاتھا تو اس نے ایک چال سوجھی. اس نے شریف مکہ حسین بن علی جو کہ حجاز کا گورنر تھا اپنے ساتھ اس لالچ پے ملا لیا کہ جنگ کے اِختتام پر اسے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے گا. شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی اور مکہ اور جدہ پر قبضہ کر لیا. اسکے بعد وہ مدینہ کے طرف بڑھا . اسکے ساتھ انگریز اور فرانسیسی فوجیں بھی تھے اور لارنس آف عریبیہ نامی بدنام زمانہ جاسوس بھی تھا. انہوں نے 1916 کو مدینہ کا محاصرہ کر لیا. یہ محاصرہ 1919 تک جاری رہا کیونکہ انکو یہاں کے عثمانی مجاہدوں کی طرف سے سخت مزاہمت کا سامنا پڑ رہا تھا. اس وقت مدینہ شہر کا دفاع ایک عثمانی سپہ سالار فخری پاشا یا عمر فخرالدین پاشا کے زیر نگرانی تھا. یہ شخص انتہائی دلیر اور صاحب ایمان تھا. مدینہ منورہ کے باسی اسکی بہادری اور حسن انتظام پر اسے بہت پسند کرتے تھے. عربوں کی غداری کی وجہ سے عثمانیہ کو شدید دھچکا لگا اور برطانیہ اور اسکی اتحادی بڑی تیزی سے عثمانیہ کے علاقوں کو اپنی قبضے میں لیتے جا رہے تھے. عثمانیہ کے اتحادی بلغاریہ کے ہتھیار ڈالنے پر جرمنی نے بھی ہتھیار ڈالے اور اسی وجہ سے بالاخر سلطنت عثمانیہ کو بھی برطانیہ اور اتحادی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے. اس وقت شریف مکہ اور ان کے بیٹے علی,فیصل اور عبداللہ اس خیال میں تھے کہ اب فخرالدین بھی ہتھیار ڈال دیگا اور مدینہ اسکے ہاتھ آجائے گا لیکن فخرالدین نے ہتھیار نہیں ڈالے اور برابر لڑتا رہا.. مدینہ شہر کو سامان رسد پہنچانے والے ٹرین کو انگریز ناکارہ کر چکے تھے اور اسی طرح فخرالدین کو باہر سے کوئی امداد نہیں پہنچ رہی تھی. محاصری کے دوران مدینہ پر 130 بار حملہ کیا گیا اور 30 اپریل 1918 کو مدینہ کی مقدس سر زمین پر 300 بم برسائے گئے.کھانے پینے کے چیزیں ختم ہو چکی تھی اور فخرالدین اور اسکی فوج ٹڈے کھاتے رہے. لیکن ہتھیار نہیں ڈال رہے تھے اسلئے کہ اسکو خواب میں حضورﷺ نے حکم دیا تھا کہ ہتھیار نہیں ڈالنا. ایک ترک مصنف لکھتا ہے:"ایک مرتبہ 1918 میں جمعہ کے دن فخرالدین پاشا مسجد نبوی میں نماز کے دوران خطبہ دینے منبر کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو آدھے ہی راستے میں رک گیا اور اپنا چہرہ حضورﷺ کے روزے مبارک کی طرف کرتے ہوئے کہنے لگا"اے اللّٰه کے رسولﷺ!میں آپﷺ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا". اس کے بعد اس نے نمازیوں اور مجاھدین سے ولولہ انگیز خطاب کیا."مسلمانو! میں تم سے حضورﷺ کا نام لے کر جہاد کی اپیل کرتا ہوں جو اس وقت میرے گواہ بھی ہے. میں تمہیں یہ حکم دیتا ہو کہ دشمن کی طاقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان(حضورﷺ) کا اور ان حضورﷺ کے شہر کاآخری گولی تک دفاع کرو. اللّٰه ہمارا حامی وناصر ہو اور حضورﷺ کی برکت ہمارے ساتھ ہو. ترک افواج کے بہادرآفسروں!اے چھوٹے محمدیوں! آگے بڑھو اور میرے ساتھ مل کر اللّٰه اور اسکے رسولﷺ کے سامنے وعدہ کرو کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت اپنی زندگیاں لٹا کر کریں گے". اس کے بعد فخری پاشا نے کہا کہ اسے خواب میں حضورﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ ابھی ہتھیار نہ ڈالے. آگست1918 میں جب اسے شریف مکہ کی طرف سے پیغام ایا کہ ہتھیار ڈال دو تو اس نے ان الفاظ میں جواب دیا"فخری پاشا کی طرف سے جو عثمانی افواج کا سپہ سالار اور سب سے مقدس شہر مدینہ کا محافظ اور حضورﷺ کا ادنی غلام ہے. اس اللّٰه کے نام سے جو ہر جگہ موجود ہے. کیا میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالوں جس نے اسلام کی طاقت کو توڑا, مسلمانوں کے درمیان خونریزی کی اور امیرالمومنین کی خلافت پر خطرے کا سوالیہ نشان ڈالا اور خود کو انگریز کے ماتحت کیا.جمعرات کے رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تھکا ہوا پیدل چل رہا تھا اس خیال میں کہ کس طرح مدینہ کا دفاع کیا جائے اچانک میں نے ایک جگہ پر خود کو نامعلوم آفراد کے درمیان پایا جو کہ کام کررہے تھے. پھر ان میں سے میں ایک بزرگ شخصیت کو دیکھا وہ حضورﷺ تھے. ان پر اللّٰه کی رحمت ہو. انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ میری پیٹھ پر رکھا اور مجھ سےتحفظ کا احساس دلانے والے انداز میں کہا"میرے ساتھ چلو" میں ان کے ساتھ تین چار قدموں تک چلا اور پھر بیدار ہو گیا. میں فورا مسجد نبوی گیا اور (انکے روضے کے قریب) اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑا اور اللّٰه کا شکر ادا کیا. اب میں حضورﷺ کی پناہ میں ہوں جو میرے سپہ سالار اعلی ہیں. میں مدینہ کی عمارتوں سڑکوں اور اس کی حدود کے دفاع میں دل و جان سے مصروف ہوں. اب مجھے ان بے کار پیش کشوں سے تنگ نہ کرو". 30اکتوبر 1918 کو سلطنت عثمانیہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور وزیر جنگ نے فخری پاشا کو پیغام بھیجا کہ ہم نے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دیئے ہے اب تم بھی ہتھیار ڈال دو لیکن فخری پاشا نہ مانے اور اپنی تلوار حوالہ کرنے سے انکار کیا. اس پر عثمانیہ نے اسے عہدے سے برطرف کردیا لیکن اسکے باوجود بھی وہ ڈٹے رہے اوراسی طرح لڑتے رہے. اسی طرح جنگ ختم ہونے کے باوجود یہ صحرائی چیتا یہ عاشق رسولﷺ 72 دن تک اکیلے عرب باغیوں اور برطانیہ اور اسکے اتحادیوں سے لڑتے رہے اور اپنے چھوٹے سے دستے سے مدینہ کی حفاظت کرتے رہے.آخر کار اسکے اپنے ہی ساتھیوں نے تنگ آکر خود اسکو پکڑ کر دشمنوں کے حوالے کر دیا. یوں 2 فروری 1919 کو شریف مکہ کے بیٹے علی اور عبداللہ شہر مدینہ میں داخل ہوئے اور 12 دن تک شہر نبیﷺ میں لوٹ مار کرتےرہے. 4850 گھروں کو جن کو فخرالدین نے تالے لگوائے تھے انھے توڑ کر لوٹ لیا گیا. فخرالدیں نے 2 سال مالٹا میں قید میں گزارے. 1921 کو رہائی ملنے کے بعد دوبارہ ترکی افواج میں شامل ہوئے اور یونان اور فرانسیسیوں کے خلاف جنگیں لڑی. اسکے بعد وہ افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے. 22 نومبر1948 کو دل کا دورہ پڑا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. اسکے خواہش کے مطابق اسے استنبول میں دفن کیاگیا. اللّٰه آپ کی قبر کو نور سے بھر دیں.افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نسل سرے سے ان کے نام سے واقف نہیں. ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت ہمیں سوشل میڈیا اور فضول ڈراموں میں مشغول کیا گیا ہے تاکہ ہم اپنے اباو اجداد کے ان ایمان افروز کارناموں سے بالکل بے خبر رہے اور ہماری اندر وہی عقابی روح پیدا نہ ہو. اس جرنیل کی داستاں پڑھنے کے بعد شاید ہر کوئی خواہش کرے گا کہ کاش اسکی جگہ وہ خود ہوتا اور اسے حضورﷺ کی طرف سے اسی طرح حکم مل پاتا. اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ اپنے ان اسلاف کو زندہ کریں جو اللّٰه اور رسول حضورﷺ کے نام پر مر مٹے .اپنے بچوں کو اس قسم کے واقعات سے انکی تربیت کریں تاکہ دشمنان اسلام کو ایک بار پھر فخرالدین پاشا کا سامنا کرنا پڑے.