Monday, July 27, 2020

35 منٹ کی فلائیٹ

میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا اور میرا دوست پہلی نشست پر تھا' درمیان کی سیٹ خالی تھی' میں نے ائیر ہوسٹس سے پوچھا ''کیا ہم دونوں اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں'' فضائی میزبان نے مسکرا کر جواب دیا ''سر یہ سیٹ بک ہے' آپ ٹیک آف کے بعد مسافر سے سیٹ ایڈجسٹ کر لیجیے گا'' ہم مسافر کا انتظار کرنے لگے' جہاز کے دروازے بند ہونے سے چند لمحے قبل وہ مسافر آگیا۔

وہ ایک لحیم شحیم بزرگ تھا' وہ شکل سے بیمار بھی دکھائی دے رہا تھا' میں نے اسے پیشکش کی آپ کھڑکی والی سیٹ لے لیں' ہم دوست اکٹھے بیٹھنا چاہتے ہیں مگر اس نے سر ہلا کر میری پیشکش مسترد کر دی اور وہ دھپ کر کے درمیان میں بیٹھ گیا' وہ دونوں سائیڈز سے باہر نکل رہا تھا' میں اس کی وجہ سے جہاز کی دیوار کے ساتھ پریس ہو گیاجب کہ میرا دوست سیٹ سے آدھا باہر لٹک گیا' موٹے آدمی کے جسم سے ناگوار بو بھی آ رہی تھی' وہ پورا منہ کھول کر سانس لے رہا تھا اور سانس کی آمدورفت سے ماحول میں بو پھیل رہی تھی' ہماری گفتگو بند ہو گئی۔

میں نے جیب سے تسبیح نکالی اور ورد کرنے لگا جب کہ میرا دوست موبائل فون کھول کر بیٹھ گیا' وہ میری زندگی کی مشکل ترین فلائیٹ تھی' میں نے وہ سفراذیت میں گزارا' ہم جب لاہور اترے تو میں نے اپنی ہڈیاں پسلیاں گنیں اور اطمینان کا سانس لیا' ہم ائیر پورٹ سے باہر آ گئے' میں نے اپنے دوست سے پوچھا ''سفر کیسا تھا'' وہ ہنس کر بولا ''زبردست' میں نے موبائل فون پر کتابیں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہیں' میں سفر کے دوران کتاب پڑھتا رہا'' میں نے پوچھا'' کیا تم موٹے آدمی کی وجہ سے ڈسٹرب نہیں ہوئے'' وہ ہنس کر بولا ''شروع کے دو منٹ ہوا تھا لیکن پھر میں نے ایڈجسٹ کر لیا۔

میں نے اپنی کہنی اور پسلیاں اس کے پیٹ میں پھنسائیں اور چپ چاپ کتاب پڑھتا رہا'' میں نے پوچھا ''اور کیا تم اس کی بدبو سے بھی بیزار نہیں ہوئے'' وہ ہنس کر بولا ''شروع میں ہوا تھا لیکن میں جب کتاب میں گم ہو گیا تو بوآنا بند ہو گئی'' میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کہا ''لیکن میں پورے سفر کے دوران تنگ ہوتا رہا' میری سانس تک الجھتی رہی' میں اللہ سے دعا کرتا رہا یا اللہ یہ سفر کب ختم ہوگا'' وہ ہنسا اور بولا ''میں بھی ایسی صورتحال میں پریشان ہوا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی پریشانی کا حل تلاش کر لیا' میں اب ایڈجسٹ کر لیتا ہوں'' میں رک گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔

وہ بولا ''ہم اس موٹے کے صرف 35 منٹ کے ساتھی تھے' وہ آیا' بیٹھا' جہاز اڑا' جہاز اترا اور ہم الگ الگ ہو گئے' وہ کون تھا' وہ کہاں سے آیا تھا اور وہ کہاں چلا گیا' ہم نہیں جانتے' تم اگر ان 35 منٹوں کو ایڈجسٹ کر لیتے تو تم تکلیف میں نہ آتے'' وہ رکا' لمبی سانس لی اور بولا ''ہماری ہر تکلیف کا ایک ایکسپائری ٹائم ہوتا ہے۔

ہم اگر اس ٹائم کا اندازہ کر لیں تو پھر ہماری تکلیف کم ہو جاتی ہے مثلاً وہ موٹا جب ہمارے درمیان بیٹھا تو میں نے فوراً ٹائم کیلکولیٹ کیا 'مجھے اندازہ ہوا یہ صرف 35 منٹ کی تکلیف ہے چنانچہ میں نے موٹے کے موٹاپے پر توجہ کے بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دی' میری تکلیف چند منٹوں میں ختم ہو گئی' تم بھی تکلیف کے دورانئے کا اندازہ کر لیا کرو' تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائے گی''۔

میں نے اس سے پوچھا ''تم نے یہ آرٹ کس سے سیکھا تھا'' وہ ہنس کر بولا ''میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا تھا' میرے بچپن میں ہمارے ہمسائے میں ایک پھڈے باز شخص آ گیاتھا' ہم لوگ گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ ہماری وکٹیں اکھاڑ دیتا تھا' ہمارے گیند چھین لیتا تھا' وہ گلی میں نکل کر ہمارا کھیل بھی بند کرا دیتا تھا' میں بہت دل گرفتہ ہوتا تھا' میں نے ایک دن اپنے والد سے اس کی شکایت کی' میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا' بیٹا یہ شخص کرائے دار ہے' یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا۔

ہمیں اس سے لڑنے اور الجھنے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے' میں نے والد سے پوچھا' کیا میں احتجاج بھی نہ کروں' وہ بولے ہاں تم ضرور کرو لیکن اس کا تمہیں نقصان ہوگا'یہ شخص تو اپنے وقت پر جائے گالیکن تم احتجاج کی وجہ سے بدمزاج ہو چکے ہو گے' تم اس کے بعد لائف کو انجوائے نہیں کر سکو گے چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی لائف پر فوکس کرو' تم اپنی خوشیوں پر دھیان دو' یہ اور اس جیسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے' یہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے' تمہیں اپنا مزاج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بچہ تھا میں نے اپنے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمارا ہمسایہ واقعی دو ماہ بعد چلا گیا اور یوں ہم پرانی اسپرٹ کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگے۔

ہم دو ہفتوں میں اس چڑچڑے کھوسٹ کو بھول بھی گئے۔ میرے والد مجھے بچپن میں اپنے چچا کی بات بھی سنایا کرتے تھے' ہمارے دادا فوت ہوئے تو میرے والد کو وراثت میں ایک مکان ملا' مکان پر میرے والد کے چچا نے قبضہ کر لیا' میرے والد نے چچا کے ساتھ لڑنے کے بجائے ملکیت کا مقدمہ کیا اور وہ آہستہ آہستہ مقدمہ لڑتے رہے' پانچ سال بعد میرے والد کے حق میں فیصلہ ہو گیا لیکن چچا نے مکان خالی نہ کیا' میرے والد نے قبضے کے حصول کے لیے درخواست دی اور وہ آہستہ آہستہ اس درخواست کا پیچھا کرتے رہے۔

اگلے دو برسوں میں والد کے چچا کا انتقال ہو گیا' والد کو مکان مل گیا' میرے والد کا کہنا تھا' چچا نے جب ہمارے مکان پر قبضہ کیا تو مجھے بہت غصہ آیا لیکن پھر میں نے سوچا' میں اگر ان کے ساتھ لڑتا ہوں تو میں زخمی ہو جاؤں گااور یوں یہ مکان پیچھے چلا جائے گا اور دشمنی آگے آ جائے گی' ہم تھانوں اور کچہریوں میں بھی جائیں گے' ہمارا وقت اور پیسہ بھی برباد ہو گا اور ہمیں مکان بھی نہیں ملے گا' چچا بوڑھے شخص ہیں۔

یہ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میں نے مقدمہ کیا اور آہستہ آہستہ مقدمہ چلاتا رہا یہاں تک کہ چچا طبعی زندگی گزار کرفوت ہو گئے' مجھے اپنا مکان بھی مل گیا اور میرے صبر کا صلہ بھی۔ میرے چچا نے جب مکان پر قبضہ کیا تھا تو وہ فقط ایک مکان تھا' آٹھ برسوں میں ہماری گلی کمرشلائزڈ ہو گئی' مکان کی قیمت میں بیس گنا اضافہ ہو گیا یوں مجھے مکان بھی مل گیا اور مالیت میں بھی بیس گنا اضافہ ہو گیا۔

میں اس دوران اطمینان سے اپنے دفتر بھی جاتا رہا' میں نے اپنے بچے بھی پال لیے اور میں زندگی کی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا' میرے والد مجھے یہ واقعہ سنانے کے بعد اکثر کہا کرتے تھے آپ جب بھی تکلیف میں آئیں آپ اس تکلیف کا دورانیہ کیلکولیٹ کریں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر لگا دیں' آپ کو وہ تکلیف تکلیف نہیں لگے گی' میں نے اپنے والد کی بات پلے باندھ لی چنانچہ میں تکلیف کا دورانیہ نکالتا ہوں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر مبذول کر لیتا ہوں'' وہ خاموش ہو گیا۔

یہ نکتہ میرے لیے نیا بھی تھا اور انوکھا بھی' میں نے اس سے پوچھا ''کیا یہ تمہاری روٹین ہے'' وہ قہقہہ لگا کر بولا ''ہاں مجھے جب بھی کوئی تکلیف دیتا ہے میں دل ہی دل میں کہتا ہوں یہ آج کا ایشو ہے' یہ کل نہیں ہوگا' میں اس کی وجہ سے اپنا آج اور کل کیوں برباد کروں اور میری تکلیف ختم ہو جاتی ہے'' میں نے پوچھا ''مثلاً'' وہ بولا ''مثلاً وہ موٹا شخص صرف 35 منٹ کی تکلیف تھا۔

ہم نے صرف 35 منٹ گزارنے تھے اور اس تکلیف نے ہماری زندگی سے نکل جانا تھا' مثلاً کوئی شخص میرے ساتھ دھوکہ کرتا ہے' میں اس شخص اور دھوکے دونوں پر قہقہہ لگاتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں' یقین کرو وہ دھوکہ اور وہ شخص دونوں چند دن بعد میرے لیے بھولی ہوئی داستان بن چکے ہوتے ہیں' مجھے کیریئر میں بے شمار مشکل باس اور خوفناک کولیگز ملے' میں ہر مشکل باس کو دیکھ کر کہتا تھا' یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا' مجھے اپنی زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

میں خوفناک کولیگ پر بھی ہمیشہ سوچتا رہا' یہ مختصر سفر کا مختصر ترین مسافر ہے' یہ اپنی منزل پر اترجائے گا یا پھر میں اپنے اسٹاپ پرچلا جاؤں گا'مجھے اس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے' آپ یقین کرو میرے مشکل باس بھی چلے گئے اور خوفناک کولیگز بھی اور یوں میرا سفر جاری رہا' میری زندگی مزے سے گزری اور مزے سے گزر رہی ہے'' وہ رکا' ہنسا اور بولا ''آپ بھی یہ حقیقت پلے باندھ لو' زندگی 35 منٹ کی فلائیٹ ہے' آپ ساتھی مسافر کی وجہ سے اپنا سفر خراب نہ کرو' آپ تکلیف کا دورانیہ دیکھو اور اپنی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کر لو' آپ کی زندگی بھی اچھی گزرے گی''۔

میں نے ہاں میں سر ہلایا' وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور میں اپنے دفتر چلا گیا لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں جب بھی کسی مسئلے' کسی تکلیف کا شکار ہوتا ہوں' میں دل ہی دل میں دوہراتا ہوں یہ 35 منٹ کی فلائیٹ ہے' یہ ختم ہو جائے گی اور میں جلد اس تکلیف کو بھول جاؤں گا 'مجھے کل یہ یاد بھی نہیں رہے گامیں کبھی ایک ایسے مسافر کے ساتھ بیٹھا تھا جس کی وجہ سے میرا سانس بند ہو گیا تھا اور جس نے مجھے پوسٹر کی طرح دیوار کے ساتھ چپکا دیا تھا۔

زندگی کا سفر انتہائی مختصر ہے' ہم اگر اس مختصر سفر کو شکایت دفتر بنالیں گے تو یہ مختصر سفر مشکل ہو جائے گا' ہم اپنی منزل سے ہزاروں میل پیچھے اترجائیں گے چنانچہ جانے دیں' تکلیف دینے والوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی' صرف سفر پر توجہ دیں اور یقین کریں ہماری مشکل' ہماری تکلیف ختم ہو جائے گی۔

Sunday, July 26, 2020

وقت

جوا حرام ہے. کیونکہ یہ انسانی عقل کو کسی ایک بازی کے کسی ایک لمحے میں ایسا قید کر دیتا ہے کہ ہم باقی کچھ سوچنا نہیں چاہتے. ہمیں لگتا ہے یہ ایک بازی ہماری زندگی کا فیصلہ کرے گی. اور ہم سب کچھ داو پر لگا دیتے ہیں.

اس کے حرام ہونے کی سیکڑوں اور وجوہات بھی ہوں گی لیکن حرام چیزوں میں ہر چیز کی وجوہات میں ایک چیز کامن ہوتی ہے. یہ اشرف المخلوقات انسان کے شعور پر شیطانی پردہ ڈال دیتی ہے. ہم کسی ایک جگہ ٹریپ ہو جاتے ہیں. ہم اُمید چھوڑ دیتے ہیں.

پچھلے سال اس دن اس وقت کے اس لمحے میں آپ کس پریشانی میں ٹریپ تھے. یہ آج آپ کو یاد ہی نہیں ہوگا. لیکن اُس دن اُس وقت اٗس لمحہ آپ اسی پریشانی کو پہاڑ سمجھ رہے تھے. آج کی پریشانی بھی آپ کو اگلے سال اس دن بشرط زندگی یاد نہ ہوگی. 

اپنے کل کیلئے ہم آج کی پریشانیاں اور فکریں نہیں لے جاسکتے. لیکن آج کی تعمیر ضرور لے جا سکتے ہیں. چاہے وہ اسباب کی ہو خیالات کی ہو یا عادات کی. ہمیں زمانہ حال میں اسی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے. کل ہماری پریشانی خیالات اسی سے کم ہوگی.

وقت جو ہاتھ میں ہے یہ انسانی سرمایہ ہے. اسے کسی لمحے کی پریشانی میں زندگی کی آخری بازی نہ بنائیں.

Saturday, July 25, 2020

صحت ایک نعمت

یہ واقعہ حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے' 
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا 
'' یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟'' 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
'' صحت''۔ 
میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا۔
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت 
اور 
منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی-
' ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے
' ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں' مگر ہماری قوت مدافعت' ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں'
 مثلا
ً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں 
مگر 
ہم جب تیز چلتے ہیں' 
جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے'
 ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں'
 یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور
 یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے'
 مثلاً
 دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر
 قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں' کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی' یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا'
 مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے' 
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔
یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں' یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں' نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں
' سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے' 
مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے
' ہماری انگلی کٹ جائے' بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے
' سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے'
 اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے' 
آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں
' یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں' 
ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے' انسان کی اونگھ' نیند' گہری نیند' بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں' 
ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے' ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا' 
صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی
 مگر
 جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے' 
ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی' 
ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے
' ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔
یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں' اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا
' دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں
' دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں' 
ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے' یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے' ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں
' یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے' 
ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ' 
دنیا کے سیکڑوں' ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں'
 لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں' 
آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے'
 دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے'
 آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں' 
دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔
گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے'
 انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے
' قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے' 
دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے'
 آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے'
 شوگر'
 کولیسٹرول
 اور
 بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں
 اور
 آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی' 
منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں'
 ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر 
ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں' 
ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے'
 ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں
' ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے'
 ہم سیدھا چل سکتے ہیں'
 دوڑ لگا سکتے ہیں' 
جھک سکتے ہیں
 اور
 ہمارا دل' دماغ' جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں
' ہم آنکھوں سے دیکھ' 
کانوں سے سن' 
ہاتھوں سے چھو' 
ناک سے سونگھ
 اور منہ سے چکھ سکتے ہیں
 تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل'
 اس کے کرم کے قرض دار ہیں
 اور 
ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے
 کیونکہ 
صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے' 
ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ —
اگر آپ نے شکر ادا نہیں کیا تو جلدی شکر ادا کرلیں۔

بے ایمان نہیں ہوسکتا

مرحوم اشفاق احمد فرماتے ہیں 

۔ ۔  میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے ۔ ۔ اس نے گھر میں پرندوں کے دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں آٹومیٹک دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں ۔ ۔ اور پرندے شوق سے آکر کھاتے رہتے ہیں ۔ ۔ جب ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو ، اس نے ایک دوکان دیکھی ، جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے ہوئے تھے ۔ ۔ جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے ۔ ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانا ہے ۔ ۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو ، اس دکاندار نے پوچھا ، کہ آپ کو یہ دانے کس مقصد کیلئے چاہیے ? تو میرے بیٹے نے اسے بتایا ، کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے  اس پر اس دکاندار نے کہا کہ آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے ۔ ۔ کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسی بھی ہوتے ہیں جو باجرہ نہیں کھا سکتے ۔ ۔ بلکہ کنگنی کھاتے ہیں ۔ ۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے ۔ ۔ اس نے کہا کہ بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں ۔ ۔  اور اس رہنمائی کا میں آپ کا عمر بھر شکر گزار رہوں گا ۔ ۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو نہ ملا جیبوں ، گاڑی ، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ ۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے واپس اُٹھا کر دکاندار کے پاس گیا اور کہا ، کہ میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول گیا ہوں ۔ ۔ اس دکاندار نے کہا صاحب آپ کمال کرتے ہیں ۔ ۔ یہ لے جائے پیسے آجائیں گے ۔ ۔ میرے بیٹے نے کہا کہ آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں ہیں ?  وہ دکاندار بولا کہ میں آپ کو جانتا ہوں ۔ ۔  وہ کیسے میرے بیٹے نے کہا ۔ ۔ دوکاندار گویا ہوا ، صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا ۔ ۔  میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بک نکالی ، اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا ۔ ۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں ۔ ۔
 اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے ۔ ۔

 زاویہ ۲ ۔

یہ زندگی

ہے یہ زندگی بھی کتنی عجیب بھلا؟؟
کبھی ہنستی ہے، کبھی ہنساتی ہے،
کبھی روتی ہے، کبھی رلاتی ہے،
کبھی عروج پر لے جاتی ہے،
کبھی زوال پر لا گراتی ہے،
 کبھی چور چور کر دیتی ہے،
کبھی مرہم بھی رکھ دیتی ہے،
کبھی غم کے بادل دکھاتی ہے،
کبھی جینے کا فن سکھاتی ہے،
کبھی غیروں میں اپنے ملواتی ہے،
کبھی اپنوں میں غیر دکھاتی ہے،
کبھی خواہشوں کو روند دیتی ہے،
کبھی نئے خواب بنواتی ہے،
کبھی حسرتوں کے دیپ جلواتی ہے،
پھر خود ہی انہیں بجھاتی ہے،
کبھی مستقبل کی سوچوں میں،
دور کہیں لے جاتی ہے،
کبھی ماضی کی ان یادوں میں،
ہمیں دور کہیں پھینک آتی ہے،
کبھی آزماتی ہے،
کبھی دھتکارتی ہے،
کبھی پیار سے پچکارتی ہے،
اور سبق بھی یہ دے جاتی ہے..

مدینہ کا محافظ

مدینہ کا محافظ از فخرالدین پاشا

یقینا آپ اس نام کو پہلی بار سن رہے ہیں. یہ خلافت عثمانیہ کا وہ بہادر جرنیل تھا جو اکیلا تن تنہا عرب باغیوں اور برطانیہ اور اسکے اتحادی افواج سے 72 دن تک لڑتا رہا .اور بعد میں برطانیہ نے اسکے بہادری اور دلیری سے متاثر ہوکر انکو "صحرائی چیتا" یا"ٹائگر آف دے ڈیزرٹ" کا خطاب دیا تھا. تاریخ اسے مدینہ کا محافظ کے نام سے یاد کرتے ہے .وہ  خلافت عثمانیہ کا ایک بہادر جرنیل تھا لیکن جس چیز نے اسکی شخصیت اجاگر کی وہ تھا اسکا حضورﷺ سے تعلق اور عشق. پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ تقریبا ہر جگہ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں شکست پے شکست کھاتا جا رہاتھا تو اس نے ایک چال سوجھی. اس نے شریف مکہ حسین بن علی جو کہ حجاز کا گورنر تھا اپنے ساتھ اس لالچ پے ملا لیا کہ جنگ کے اِختتام پر اسے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے گا. شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی اور مکہ اور جدہ پر قبضہ کر لیا. اسکے بعد وہ مدینہ کے طرف بڑھا . اسکے ساتھ انگریز اور فرانسیسی فوجیں بھی تھے اور لارنس آف عریبیہ نامی بدنام زمانہ جاسوس بھی تھا. انہوں نے 1916 کو مدینہ کا محاصرہ کر لیا. یہ محاصرہ 1919 تک جاری رہا کیونکہ انکو یہاں کے عثمانی مجاہدوں کی طرف سے سخت مزاہمت کا سامنا پڑ رہا تھا. اس وقت مدینہ شہر کا دفاع ایک عثمانی سپہ سالار فخری پاشا یا عمر فخرالدین پاشا کے زیر نگرانی تھا. یہ شخص انتہائی دلیر اور صاحب ایمان تھا. مدینہ منورہ کے باسی اسکی بہادری اور حسن انتظام پر اسے بہت پسند کرتے تھے. عربوں کی غداری کی وجہ سے عثمانیہ کو شدید دھچکا لگا اور برطانیہ اور اسکی اتحادی بڑی تیزی سے عثمانیہ کے علاقوں کو اپنی قبضے میں لیتے جا رہے تھے. عثمانیہ کے اتحادی بلغاریہ کے ہتھیار ڈالنے پر جرمنی نے بھی ہتھیار ڈالے اور اسی وجہ سے بالاخر سلطنت عثمانیہ کو بھی برطانیہ اور اتحادی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے. اس وقت شریف مکہ اور ان کے بیٹے علی,فیصل اور عبداللہ اس خیال میں تھے کہ اب فخرالدین بھی ہتھیار ڈال دیگا اور مدینہ اسکے ہاتھ آجائے گا لیکن فخرالدین نے ہتھیار نہیں ڈالے اور برابر لڑتا رہا.. مدینہ شہر کو سامان رسد پہنچانے والے ٹرین کو انگریز ناکارہ کر چکے تھے اور اسی طرح فخرالدین کو باہر سے کوئی امداد نہیں پہنچ رہی تھی. محاصری کے دوران مدینہ پر 130 بار حملہ کیا گیا اور 30 اپریل 1918 کو مدینہ کی مقدس سر زمین پر 300 بم برسائے گئے.کھانے پینے کے چیزیں ختم ہو چکی تھی اور فخرالدین اور اسکی فوج ٹڈے کھاتے رہے. لیکن ہتھیار نہیں ڈال رہے تھے اسلئے کہ اسکو خواب میں حضورﷺ نے حکم دیا تھا کہ ہتھیار نہیں ڈالنا. ایک ترک مصنف لکھتا ہے:"ایک مرتبہ 1918 میں جمعہ کے دن فخرالدین پاشا مسجد نبوی میں نماز کے دوران خطبہ دینے منبر کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو آدھے ہی راستے میں رک گیا اور اپنا چہرہ حضورﷺ کے روزے مبارک کی طرف کرتے ہوئے کہنے لگا"اے اللّٰه کے رسولﷺ!میں آپﷺ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا". اس کے بعد اس نے نمازیوں اور مجاھدین سے ولولہ انگیز خطاب کیا."مسلمانو! میں تم سے حضورﷺ کا نام لے کر جہاد کی اپیل کرتا ہوں جو اس وقت میرے گواہ بھی ہے. میں تمہیں یہ حکم دیتا ہو کہ دشمن کی طاقت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان(حضورﷺ) کا اور ان حضورﷺ کے شہر کاآخری گولی تک دفاع کرو. اللّٰه ہمارا حامی وناصر ہو اور حضورﷺ کی برکت ہمارے ساتھ ہو. ترک افواج کے بہادرآفسروں!اے چھوٹے محمدیوں! آگے بڑھو اور میرے ساتھ مل کر اللّٰه اور اسکے رسولﷺ کے سامنے وعدہ کرو کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت اپنی زندگیاں لٹا کر کریں گے". اس کے بعد فخری پاشا نے کہا کہ اسے خواب میں حضورﷺ  نے حکم دیا تھا کہ وہ ابھی ہتھیار نہ ڈالے. آگست1918 میں جب اسے شریف مکہ کی طرف سے پیغام ایا کہ ہتھیار ڈال دو تو اس نے ان الفاظ میں جواب دیا"فخری پاشا کی طرف سے جو عثمانی افواج کا سپہ سالار اور سب سے مقدس شہر مدینہ کا محافظ اور حضورﷺ کا ادنی غلام ہے. اس اللّٰه کے نام سے جو ہر جگہ موجود ہے. کیا میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالوں جس نے اسلام کی طاقت کو توڑا, مسلمانوں کے درمیان خونریزی کی اور امیرالمومنین کی خلافت پر خطرے کا سوالیہ نشان ڈالا اور خود کو انگریز کے ماتحت کیا.جمعرات کے رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تھکا ہوا پیدل چل رہا تھا اس خیال میں کہ کس طرح مدینہ کا دفاع کیا جائے اچانک میں نے ایک جگہ پر خود کو نامعلوم آفراد کے درمیان پایا جو کہ کام کررہے تھے. پھر ان میں سے میں ایک بزرگ شخصیت کو دیکھا وہ حضورﷺ تھے. ان پر اللّٰه کی رحمت ہو. انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ میری پیٹھ پر رکھا اور مجھ سےتحفظ کا احساس دلانے والے انداز میں کہا"میرے ساتھ چلو" میں ان کے ساتھ تین چار قدموں تک چلا اور پھر بیدار ہو گیا. میں فورا مسجد نبوی گیا اور (انکے روضے کے قریب) اپنے رب کے حضور سجدے میں گر پڑا اور اللّٰه کا شکر ادا کیا. اب میں حضورﷺ کی پناہ میں ہوں جو میرے سپہ سالار اعلی ہیں. میں مدینہ کی عمارتوں سڑکوں اور اس کی حدود کے دفاع میں دل و جان سے مصروف ہوں. اب مجھے ان بے کار پیش کشوں سے تنگ نہ کرو".  30اکتوبر 1918 کو سلطنت عثمانیہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور وزیر جنگ نے فخری پاشا کو پیغام بھیجا کہ ہم نے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دیئے ہے اب تم بھی ہتھیار ڈال دو لیکن فخری پاشا نہ مانے اور اپنی تلوار حوالہ کرنے سے انکار کیا. اس پر عثمانیہ نے اسے عہدے سے برطرف کردیا لیکن اسکے باوجود بھی وہ ڈٹے رہے اوراسی طرح لڑتے رہے. اسی طرح جنگ ختم ہونے کے باوجود یہ صحرائی چیتا یہ عاشق رسولﷺ 72 دن تک اکیلے عرب باغیوں اور برطانیہ اور اسکے اتحادیوں سے لڑتے رہے اور اپنے چھوٹے سے دستے سے مدینہ کی حفاظت کرتے رہے.آخر کار اسکے اپنے ہی ساتھیوں نے  تنگ آکر خود اسکو پکڑ کر دشمنوں کے حوالے کر دیا. یوں 2 فروری 1919 کو شریف مکہ کے بیٹے علی اور عبداللہ شہر مدینہ میں داخل ہوئے اور 12 دن تک شہر نبیﷺ میں لوٹ مار کرتےرہے. 4850 گھروں کو جن کو فخرالدین نے تالے لگوائے تھے انھے توڑ کر لوٹ لیا گیا. فخرالدیں نے 2 سال مالٹا میں قید میں گزارے. 1921 کو رہائی ملنے کے بعد دوبارہ ترکی افواج میں شامل ہوئے اور یونان اور فرانسیسیوں کے خلاف جنگیں لڑی. اسکے بعد وہ افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے. 22 نومبر1948 کو دل کا دورہ پڑا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے. اسکے خواہش کے مطابق اسے استنبول میں دفن کیاگیا. اللّٰه آپ کی قبر کو نور سے بھر دیں.افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نسل سرے سے ان کے نام سے واقف نہیں. ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت ہمیں سوشل میڈیا اور فضول ڈراموں میں مشغول کیا گیا ہے تاکہ ہم اپنے اباو اجداد کے ان ایمان افروز کارناموں سے بالکل بے خبر رہے اور ہماری اندر وہی عقابی روح پیدا نہ ہو. اس جرنیل کی داستاں پڑھنے کے بعد شاید ہر کوئی خواہش کرے گا کہ کاش اسکی جگہ وہ خود ہوتا اور اسے حضورﷺ کی طرف سے اسی طرح حکم مل پاتا. اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ اپنے ان اسلاف کو زندہ کریں جو اللّٰه اور رسول حضورﷺ کے نام پر مر مٹے .اپنے بچوں کو اس قسم کے واقعات سے انکی تربیت کریں تاکہ دشمنان اسلام کو ایک بار پھر فخرالدین پاشا کا سامنا کرنا پڑے.

گہرے الفاظ

چلتے رہنا اچھا ہوتا ہے....!!!!!!

 رک  جانا  تو  موت ہے....!!!!!

وہ دل  ہو  یا  زندگی---!!!!

ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ؟

ایک خدائی حکمت
ﺳﻮﺭﺝ ﻃﻠﻮﻉ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ. ﮨﻢ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ. ﺧﻨﮏ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺗﮯ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﺎﺣﺴﯿﻦ ﻣﻨﻈﺮﺧﺎﺻﺎ ﺩﻟﮑﺶ ﺗﮭﺎ. ﺗﺎﺣﺪ ﻧﮕﺎﮦ ﭘﮭﯿﻼ ﺳﻤﻨﺪﺭﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﺎﻣﺤﻮﺭﺑﻦ ﮔﯿﺎ،
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮭﺎﺭﺍ ﯾﺎ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ. ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﻣﺪﻭﺟﺰﺭ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮﮐﯿﺎ ﺣﮑﻤﺖ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﮨﮯ ؟
ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻢ ﻋﺎﻡ ﺳﺎﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ. ﺑﺎﺭﺵ ﺍﻭﺭﺑﺮﻑ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﺟﺐ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ. ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻌﺪﻧﯿﺎﺕ ﮐﯿﻤﯿﺎﺕ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﺩﺭﯾﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﻃﮯ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮔﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﺪﻭﺟﺰﺭ ﮐﮯﺗﺴﻠﺴﻞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮﺍﻣﯿﮟ ﺍﮌﺟﺎﺗﺎﮨﮯ . ﺟﺒﮑﮧ ﻧﻤﮑﯿﺎﺕ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ. ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ. ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺑﺤﯿﺮﮦ ﻣﺮﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﺮﯾﭧ ﺳﺎﻟﭧ ﻟﯿﮏ ﻧﺎﻣﯽ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﺎﻧﻤﺒﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﻥ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻋﺎﻡ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮨﮯ.
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺳﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﯿﺎﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﮨﯿﮟ،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺩﻭ ﭨﺐ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮯ . ﺍﯾﮏ ﭨﺐ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮐﻠﻮ ﻧﻤﮏ ﮈﺍﻻ . ﺩﻭﺳﺮﮮﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮﭼﯿﻨﯽ ﮈﺍﻟﯽ. ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺒﺰﯼ ﻣﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭﻣﭽﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﻣﺎﺟﮕﺎﮦ ﺑﻦ ﭼﮑﺎﺗﮭﺎ. ﺟﺒﮑﮧ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﻗﺪﺭﮮﺑﮩﺘﺮﺗﮭﺎ . ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ . ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ. ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﭩﮭﺎﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﭼﮑﺎﺗﮭﺎ . ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﻓﻠﭩﺮﮐﺮﮐﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻟﯿﺎﮔﯿﺎ. ﺍﺱ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﮔﺌﯽ،
ﺍﮔﺮﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎﺟﺎئے، ﻣﺪﻭﺟﺰر ﮐﺎﺳﻠﺴﻠﮧ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎئے ﺗﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﮐﺮﺗﻌﻔﻦ ﺯﺩﮦ ﻓﻀﺎ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﻣﮩﻠﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﻧﻈﺎﻡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﻌﻄﻞ ﮨﻮﺟﺎﮰ ﮔﯽ. ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎﻻﺯﻣﯽ ﺟﺰﻭ ﮨﮯ . ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﻧﺎﯾﺎﺏ ﺟﮍﯼ ﺑﻮﭨﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺫﺧﺎﺋﺮ ﻧﻤﮑﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﭘﻮﺩﺍ "ﻣﺮﺟﺎﻥ" ﻧﻤﮑﯿﺎﺗﯽ ﺟﺰﺋﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ. ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺡ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ،
ﺭﺏ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﺎﻟﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﭼﺎﺭ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ
1 ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺨﺎﺭﺍﺕ ﺑﻨﺎﮐﺮﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﯿﺰ ﻭﮨﺎﮞ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﯿﻠﻨﺲ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺍﺑﺮﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،
2 ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﭽﻠﯽ ﺳﻄﺢ ﮐﻮ ﺍﻭﭘﺮﻻﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺟﺲ ﺳﮯ ﺧﻼﺋﯽ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺟﺴﮯ ﭘﺮﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﺍﻭﭘﺮﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ.
3 ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮨﯿﮟ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺎﮐﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﺮﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮩﺘﮧ ﮨﻮﺍ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺑﺤﺮﯼ "ﺭﻭ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
4 ﮐﺸﺶ ﺛﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﮐﺸﺶ ﻗﻤﺮﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮﻣﺴﻠﺴﻞ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ. ﺟﺲ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﺎﺯﮔﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ.
ﺑﮯﺷﮏ ﺍلله ﺑﮩﺘﺮﺣﮑﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ.

Friday, July 24, 2020

كسى كو بے عزت كرنے اور امر بالمعروف كرنے ميں فرق

*حسنين عليہما السلام* نے اپنے بچپن كے زمانے ميں ايک بوڑھے شخص كو وضو كرتے ديكھا اور سمجھ گئے كہ اس كا وضو درست نہيں۔ 
ان دونوں آقا زادوں نے جو احكامات اسلام اور نفسيات كے اصولوں سے واقف تھے فوراً يہ سوچا كہ ايک جانب تو اس بوڑھے شخص كو بتانا ضرورى ہے كہ اس كا وضو باطل ہے اور دوسرى جانب اگر اسے براہ راست كہا جاۓ  كہ جناب آپ كا وضو باطل ہے تو اس كى شخصيت مجروح ہوگى اور اسے برا لگے گا!!۔ 
اس صورت ميں اس كى جانب سے پہلا رد عمل يہ ہوگا كہ وہ كہے گا كہ نہيں جناب ميرا وضو ٹھيک ہے!!پھر اسے جتنا بھى سمجھا جاۓ گا وہ ايک نہيں سنے گا!!  

لہذہ انہوں نے آگے بڑھ كر كہا!! ہم دونوں چاہتے ہيں كہ آپ كے سامنے وضو كريں اور آپ ہميں ديكھيں كہ ہم ميں سے كون بہتر وضو كرتا ہے!! چنانچہ بوڑھے شخص نے كہا!!  آپ وضو كريں تاكہ ميں اس بارے ميں فيصلہ كرسكوں؛؛ 

امام حسنؓ نے اس كے سامنے مكمل وضو كيا اور بعد ميں امام حسينؓ نے بھى ايسا ہى كيا!! اب بوڑھا سمجھ گيا كہ اس كا اپنا وضو صحيح نہيں تھا لہذہ اس نے كہا!! آپ دونوں كا وضو صحيح ہے!! ميرا وضو درست نہيں تھا!! يوں انہوں نے اس شخص سے اس كى غلطى كا اعتراف كرواليا!! 

اب اگر اس موقع پر وہ فوراً اسے كہہ ديتے!! بڑے مياں! تمہيں شرم نہيں آتى!!  اس سفيد داڑھى كے  باوجود تمہيں ابھى تک وضو كرنا بھى نہيں آتا؟ تو وہ نماز پڑھنے سے بھى بيزار ہوجاتا۔


حوالہ: _"اسلامى داستانيں، شہيد مرتضى مطہرىؒ، ص، ۲۴۹"_

Practice makes the man perfect

انگریزی کا ایک مقبول مقولہ ہے کہ '_پریکٹس میکس دا مین پرفیکٹ_'. 
یعنی کسی کام کا بار بار کرنا یا دہرانا آپ کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے.

اسی طرح کنگ فو کی فیلڈ میں ایک چینی کہاوت ہے کہ 'مجھے ان ایک لاکھ داؤ سے خطرہ نہیں ہے جو تم نے ایک بار پریکٹس کئے ہیں. مجھے تو اس ایک داؤ سے خوف ہے جو تم نے ایک لاکھ بار پریکٹس کیا ہے۔'

ایک اور مشہور مقولہ یہ بھی ہے کہ 'ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر وہ عادات ہمیں بناتی ہیں' -
گویا پہلے ہم کسی کام کو بار بار کر کے اس کی عادت ڈال لیتے ہیں، مگر پھر وہی عادت ہماری مستقل صفت بن کر ہماری شخصیت کا تعارف بن جاتی ہے.

یہ تمام اور اس جیسے اور بہت سے اقوال و کہاوتیں دراصل ایک ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی بھی کام کی بار بار پریکٹس آپ کو اس خاص کام کا ماہر بنا دیتی ہے۔ اب سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آج تک کیا پریکٹس کرتے رہے ہیں؟

اگر آپ شکایت پریکٹس کرتے آئے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں آپ اس میں ایسے ایکسپرٹ ہو جائیں گے کہ جلد ہی لوگوں سے، معاشرے سے، رشتوں سے اور خدا سے آپ کو طرح طرح کی شکایات ہونے لگیں گی۔