قُرآن سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کائنات کے پروردگار کا ذاتی نام اللہ ہے۔ جبکہ باقی ساری اُسکی صفات ہیں، جنکو اسماء حسنیٰ بھی کہا جاتا ہے اور انکی معرُوف تعداد ۹۹ بتائی جاتی ہے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ رام بھی وہی اور رحیم بھی وہی، یہ حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اور فریب تخیل یا دانستہ ترویج ہے۔ یہُودیوں کا یہُوواہ ہو، عیسائوں کا فادر، ہندُوں کا اِیشْوَر یا انکے ویدان کا پرماتما، مجُوسیوں کا یزداں یا انام ایکدُوسرے سے یکسر مُختلف ہیں۔ اور قُرآن کا اللہ ان سب سے الگ ہے۔ یہ اسلئے کہ ان مذاہب کے بانیوں نے جنہیں ہم زُمرہ انبیاء(ع) میں شُمار کرسکتے ہیں، اگرچہ انبیاء(ع) کو دین کے بانی نہیں بلکہ دین کو پُہنچانے والے کہا جائیگا۔ اُنھوں نے تو اللہ کی وہی صفات بیان کی ہونگی جو قُرآن میں بیان ہوئی ہیں، پھر اُن میں انسانی خیالات اور تَصَوَّرُات کی آمیزش ہوگئی تو اس سے نہ صرف مُختلف مذاہب کے خُدا الگ ہوگئے بلکہ خُدا کے حقیقی اور منزہ تَصَوَّرُ سے بھی جُداگانہ تَصَوَّرُ کے پیکر بن گئے۔ اسی لئے قُرآن نے کہا ہے؛
"وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اُسکی اولاد کہاں سے آئی جبکہ اُسکی کوئی بیوی نہیں؟ اور اُس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے!" ۔ (الأنعام/۱۰۱)
یہ لوگ اللہ کے مُتعلق جو تَصَوَّرُ پیش کرتے ہیں وہ اُس سے بہت بُلند و بالا ہے۔ اسکا تَصَوَّرُ وہی صحیح ہوسکتا ہے جسکو اُس نے خُود پیش کیا ہے اور جو قُرآن کے اندر محفُوظ ہے۔
جب تک اللہ کا صحیح تَصَوَّرُ اور مفہُوم ہمارے سامنے نہیں آتا، دین کی بُنیاد ہی استوار نہیں ہوسکتی۔ لحاظہ یہ نہایت ضرُوری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جاۓ کہ لفظ اللہ کا مفہُوم کیا ہے۔
عربی زُبان کا قاعدہ ہے کہ جب کسی لفظ کے آگے ا ل لگا دیا جاۓ، تو اسکے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہر قسم کی صفت اس میں پائی جاتی ہے، دُوسرے یہ ہوتا ہے کہ وہ صفت انتہائی اور بُلند ترین درجہ کی اُس میں پائی جاتی ہے، یعنی اُس میں بھی توحید ہوئی کہ اس قسم کی صفت اسی انداز میں اور کسی میں نہیں پائی جاتی ۔ اسلئے جب ہم اللہ کہتے ہیں تو یہ ہے ال الہ، اسکے معنی یہ ہونگے کہ الہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ الہ صرف اللہ ہوسکتا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ؛
لآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
تو دیکھیے کہ پھر وہی بات ہوگئی کہ کوئی الہ نہیں ہوسکتا سواۓ اللہ کہ۔
اب دیکھتے ہیں کہ الہ کے بُنیادی معنی کیا ہیں۔ الہ کا مادہ ہے ا ل ة۔ اس میں بُنیادی طور پر ذیل کے معنی پاۓ جاتے ہیں؛
۱- گھبرا کر کوئی پناہ ڈُھونڈنا یا پناہ دینا۔
۲- مُتَحَیَّر ہونا۔
۳- بُلند مرتبہ اور نگاہوں سے پوشیدہ ہونا۔
۴- کسی کی غُلامی، محکُُومیت، اقتدار اور اختیارتسلیم کرنا۔
تو جب ہم کہیںُگے لآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ تو اسکا مطلب یہی ہوگا کہ کائنات میں کوئی صاحب اقتدار نہیں سواۓ اللہ کے۔ تو آپ دیکھ لیجئے کہ اس میں کس قدر توحید کا گہرا مقصد سامنے آگیا۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ہمارا اور کائنات کے پروردگار کا آپس میں تعلُق کیا ہے۔
اللہ کی ذات کے بارے میں تو ہمارے تَصَوَّرُات اور خیالات میں کُچھ اس سے زیادہ نہیں آسکتا جتنا کہ اُس نے خُود ہمیں قُرآن میں بتایا ہے؛
"کہہ دو: اللہ سب سے الگ ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز اور سب اُسکے مُحتاج ہیں۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا۔ اور نہ ہی اُسکا کوئی ہمسر ہے!" - (الإخلاص/۱-۴)
جزاک اللہ خیر!.........