Tuesday, September 29, 2020

خوشی کے بوسے کی تلاش


ہم میں سے ہر ایک ہر قیمت پر خوش رہنا چاہتا ہے. ہم جیسی بھی آزمائشوں سے گزریں اور کسی بھی طرح کے امتحانوں سے پالا پڑے، ہمارا خواب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ارادوں کو پورا کرنے میں کامران رہیں. اب ایک ملین ڈالرز کا سوال یہ آن پڑتا ہے کہ خوش رہنے کا نسخہ کیا ہے؟ یہ گدڑ سنگھی کہاں سے ملتی ہے؟

ایک مشہور موٹیویشنل سپیکر نے مسرت کی تلاش پر ایک سیمینار منعقدہ کرایا. وہ کئی کتابوں کا مصنف تھا اور اس کے گیانی پن کی دھوم ہر طرف مچ چکی تھی، چنانچہ اس کے سیمینار میں شریک ہونے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے. شرکاء میں ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، تجارتکار، صنعت کار، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے. سب خوشی کے جادوئی فارمولے کی تلاش میں تھے. 

سیمینار شروع ہوا اور مقرر نے خوشی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت شروع کردی. اس کے پاٹ دار اور پراعتماد لہجے نے حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا. پھر وہ بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے رکا. 

"ہم ایک چھوٹی سی مشق کریں گے. آپ میں سے ہر ایک کو ایک غبارہ دیا جائے گا. یہاں مارکر موجود ہیں. آپ اپنے غبارے پر اپنا نام لکھ کر اسے پھلائیں گے، ہوا بھریں گے، اور پھر میرے معاونین کے حوالے کردیں گے". 

یہی ہوا، رنگ برنگے غبارے لائے گئے، وہاں موجود ہر شخص نے اپنے اپنے غبارے پر اپنا نام لکھا، اس میں ہوا بھری اور پھر غبارے جمع کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا. 

اب مقرر سب حاضرین کو اکٹھا کر کے ایک بڑے ہال کے دروازے پر پہنچا اور بولا." خواتین وحضرات، اس ہال میں آپ کے پھلائے ہوئے سیکڑوں غبارے موجود ہیں. میں جیسے ہی سیٹی بجاؤں گا، آپ نے اندر داخل ہو کر ان سینکڑوں غباروں میں سے اپنا غبارہ ڈھونڈنا ہے. پہلے پانچ لوگ جو پانچ منٹ میں اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لیں گے، ان کو خصوصی انعام سے نوازا جائے گا" 

سب لوگ ایک دم چوکنے اور پرجوش ہوگئے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا، اور سیٹی بجنے کا انتظار کرنے لگے. 

دروازہ کھلا، سیٹی بھی اور ہر طرف ہڑبونگ مچ گئی. سب لوگ دیوانہ وار بھاگ بھاگ کر اپنا غبارہ ڈھونڈنے لگ گئے. کسی کو کہنی لگی، کسی کو ٹکر، سب بھاگ بھاگ کر نڈھال ہوگئے. سیکڑوں غبارے موجود تھے، لوگ انہیں ہاتھوں میں پکڑتے، اپنا نام نہ دیکھ کر انہیں زوردار دھپ لگا کر اڑا دیتے اور اگلے غبارے کی طرف دوڑ پڑتے. کچھ لوگوں نے تو اپنا غبارہ نہ دیکھ کر غبارے پھاڑنے شروع کردیئے. خوب نفسا نفسی کا عالم تھا. صحیح معنوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. 

اسی ہڑبونگ میں پانچ منٹ گزر گئے، لوگ افراتفری میں اپنے غبارے کی تلاش میں دوڑتے رہے مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی. سب منہ لٹکائے واپس پرانے ہال میں جمع ہوگئے. 

مقرر نے متجسس نظروں سے سب کی طرف دیکھا اور کہا "ابھی ہم نے جو مشق کی، وہ زندگی سے ملتی جلتی ہے. زندگی میں وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے. آج کا عنوان مسرت کے حصول کا ہے. فرض کرلیں کہ غبارہ آپ کی خوشی کا اشارہ یا علامت ہے، جس کا مل جانا آپ کے لیے نیا شگون ہے. لیکن غبارے یعنی خوشی کے متلاشی تو اور بھی بہت لوگ ہیں. پھر اب کیا بنے گا؟ "

" آپ سب اپنے نام کا غبارہ یا خوشی ڈھونڈتے رہے /رہیں. اپنے نام کا غبارہ نہ پا کر آپ اپنے ہاتھ کے غبارے کو ایک طرف پھینک کر اگلے غبارے کی تلاش میں نکل پڑیں. نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو بھی اپنے نام کا غبارہ نہ مل سکا اور یہاں انعام لینے والا کوئی بھی نہیں ".

"لیکن یہ ناممکن ہے. سینکڑوں غباروں میں سے اپنے نام والا غبارہ کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ ". کسی نے چیخ کر کہا.

مقرر کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ دوڑ گئی." ہاں ایک طریقہ تھا. یہی طریقہ اس وقت بھی قائم آئے گا جب آپ اپنی زندگی میں خوشیاں تلاش کررہے ہوں گے. وہ طریقہ بہت سادہ سا تھا. سوچیں کہ آیا کیا، کیا جاسکتا تھا کہ تقریباً ہر ایک کو اس کے نام کا غبارہ مل جاتا".

سب لوگ پوری توجہ سے مقرر کی بات سننے لگے. ہال میں سب دم سادھے ہوئے تھے. 

"صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ آپ میں سے تقریباً سب کو اپنا گوہر مقصود ہاتھ آجاتا. وہ ایسے کہ پہلا غبارہ ملتے ہی، آپ اسے پرے پھینکنے کی بجائے، چیخ کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیتے. اب دو چیزیں ہوجاتیں. ایک تو اب دو لوگ ہوجاتے کہ ایک کو اپنا غبارہ یا منزل مل چکی ہے، اب دو لوگ مل کر آپ کا غبارہ تلاش کرتے، نہ ملتا تو جو مل گیا اسے اس کے مالک تک پہنچاتے اور آگے چلتے. زیادہ سے زیادہ تین، چار منٹ میں سب غبارے اپنے مالکوں کے پاس پہنچ چکے ہوتے ".

مقرر ایک لمحے کے لیے رکا تو سب نے شرمندہ سی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا. یہ واضح ہو چکا تھا کہ سب نے خود غرضی کا ثبوت دیا تھا اور سب ہی اس آزمائش میں ناکام ہو چکے تھے. 

" یہی زندگی کا معاملہ بھی ہے. ہم سب اپنے اپنے غباروں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خوشی اس وقت ملے گی، جب اپنا غبارہ پکڑ لیں گے. حالانکہ خوشی اپنا غبارہ پکڑنے سے نہیں ملے گی، دوسروں کو خوشی کے غبارے تقسیم کرنے سے ملے گی. کچھ نے تو الٹا غبارے پھاڑنے شروع کردیئے تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ آسکیں. جب آپ کسی کو اس کے مقصد یا غبارے تک پہنچا دیں گے تو آپ کا دل خوشی سے بھر جائے گا. زندگی میں مسرت کی جلد سے جلد تلاش اور تقسیم کا یہی قائدہ ہے ". مقرر نے اپنی بات ختم کی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا. حاضرین کو معلوم چکا تھا کہ مسرت کی تلاش کا بہترین طریقہ خوشیوں کو پکڑنے کی بجائے، خوشیوں کی تقسیم کا ہے. سچ تو یہ ہے کہ خوشی ایک بوسے کی طرح ہے، وہ ایک ہی صورت میں مکمل ہوسکتی ہے، اگر وہ کسی اور تک پہنچ سکے، ورنہ بوسہ اپنی جیب میں پڑا باسی ہوجائے گا- 

عارف انیس 
( ماخوذ - مصنف کی زیر تعمیر کتاب" صبح بخیر زندگی "سے اقتباس )

Monday, September 28, 2020

درمیانی پُل یا اختلاف

ایک دلچسپ مشورہ

وہ دونوں بھائی چالیس سال سے آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں سات سات گھر تھے۔
دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی بہت پیار اور محبت تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔
چھوٹے بھائی نے غصے میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔


اگلے روزبڑے بھائی نے ایک مستری کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔


مستری نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سےضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .

موقع دیکھنے کے بعد مستری بڑے بھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔


مستری نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔


غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔
مستری کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتےرہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے باپ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔


دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ، آنکھوں میں آنسو لئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔


بڑے بھائی نے مستری کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس
پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔


مستری نے کہا
اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

"جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"

یہ کہہ کر مستری نے اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔

اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس مستری کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں۔۔۔ برائے مہربانی دیواریں نہ بنائیں ۔"

Saturday, September 26, 2020

قربانی

.             👈 *قربانی* 👉
(کتاب:سوچ کا ہمالیہ ،مصنف:قاسم علی شاہ)

جب آپ اپنی محنت میں فوکس شامل کرلیں تو اس کے بعد اگلا کام قربانی ہے، کیونکہ فوکس قربانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی موجود چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ فوکس آدمی کو ایک غیر معمولی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میںاسے تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ''خدا کرے زخم دور ہی نہ ہو کبھی۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے میں''۔ آدمی کو جو آنسو اور اضطراب چاہیے، وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوسکتا۔ 
 فوکس کی وجہ سے جو رویہ پیدا ہوتا ہے، اس کے تحت آدمی سب کچھ لگا دیتا ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ملیں گے، وہ تھوڑے سے ابنارمل نظر آئیں گے۔ بڑے لوگوں سے  مراد وہ لوگ ہیں جو ایک پروسیس سے گزر کر بڑے بنے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
 حقیقی فوکس نفع اورنقصان کے تصور کو بدلتا ہے۔ اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے  تو پھرفوکس نہیں ہے۔ فوکس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے، اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں۔ پہلے حاصل کا نام کمائی تھی، اب دینے کا نام کمائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے ہیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے۔ اس دن بکری ذبح ہوئی تھی جس کے چند ٹکڑے بچ گئے تھے، باقی بانٹ دیے گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آج یہی بچاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جو بانٹ دیا وہی بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علیؒ فرماتے ہیں، ''مال رکھنے کیلئے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ غریب کی جیب ہے۔'' آپ رکھ کر دیکھیں، دس گنا واپس آئے گا۔ ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں جہاں اس کی چوری کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
 نفع اور نقصان کا تصور بدلنے کے بعد بسا اوقات ایک چیز کی نمو بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے باقی تمام چیزیں دب جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پروفیشنل باڈی بلڈر چونکہ اپنے مسلز بنانے پر بہت زیادہ فوکس کرتا ہے تو اس کا جسم تو بہت اچھا بن جاتا ہے، مگر اس  کا آئی کیو اچھا نہیں ہوتا۔ اس کا سار ا فوکس اپنے جسم بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ذہن کو بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن کی ورزش نیا سوچنا اور غور وفکر کرنا ہے۔ مائیکل انجیلو جب مجسمہ بناتا تو اس کووقت کااحساس ہی نہیں رہتا تھا۔ جب مجسمہ بن جاتا تو پتا چلتا کہ پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس کے ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی۔ یہ فوکس کی انتہاتھی۔ 
 بعض اوقات انسان کسی چیز کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے اور جب وہ  چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی خوبصورت چیز بن جائے گی۔

ھم تو اس جینے کے ھاتھوں مر چلے !!



اس نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا - میں نے کہا کہ بھائی دیکھ بھال کر دینا چاھئے یہ فراڈ لوگ ھوتے ھیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ھیں ! فرمانے لگے آپ نے بجا فرمایا میں پہلے ایسا ھی کیا کرتا تھا ،پھر ایک واقعے نے میری دنیا بدل کر رکھ دی - 

میں دھرم پورہ لاھور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں ،میں اسٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکدار آج کل پر ٹرخا رھا تھا، میں سائیکل پہ جا رھا تھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے اسپتال پہنچانے کے لئے ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رھا تھا۔

وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ھاتھ جوڑ دیتا میرا بچہ بچا لیں ،مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ھاتھ دے کر روکتا ، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو اسپتال پہنچا دے ،کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا ،، جو رُکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ ،،، سوچ کر اسے ڈانٹتا ، کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا ۔

میں جو سائیکل سائڈ پہ روکے ایک پاؤں زمیں پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رھا تھا ، اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ لیا ، بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخار ھے ۔ آپ نیچے اتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا ، آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے ۔

مگر میں بھی آپ کی طرح سوچ رھا تھا ،پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر میں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا ،، میں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں سنی ھوئی حدیث اس کو بھی سنا دی کہ ،الکاسب حبیب اللہ : کما کر کھانے والا اللہ کا دوست ھوتا ھے ، اور اپنا ھینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ھوا آگے چل پڑا " حرامخور ھمیں بے وقوف سمجھتے ھیں !!

دو تین گھنٹے کے بعد جب میں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رھا تھا ،بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا ، اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اٹھا رکھا تھا ،، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رھا تھا ۔ اب وہ بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رھا تھا۔

میں نے سائیکل کو روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا ،،، پھول کی طرح معصوم بچہ ،،، زندگی کی بازی ھار گیا تھا ، میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے ،میں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال کر باھر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ھو ،سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاھور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ھوئی ھیں۔ 

میں گھر پہنچا تو میرا برا حال تھا ، تھڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا ،، بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناھوں کا کفارہ اسی بخار سے ھونا تھا۔ گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلتے اور میں چارپائی سے چھلانگ لگا دیتا ،مجھے اسپتال نہیں جانا تھا ، میں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاھتا تھا۔ 

دو تین دن کے بعد بخار کو تو آرام آ گیا مگر میں ذھنی مریض بن گیا ،مجھے لگتا گویا میرا اپنا اکلوتا بیٹا جو تیسری کلاس میں پڑھتا تھا وہ اس بچے کے کفارے میں مر جائے گا۔ میں نے بچے کا اسکول جانا بند کر دیا ، بیوی کے بار بار اصرار کے باوجود میں بچے کو اسکول تو کیا دروازہ کھولنے بھی نہیں جانے دیتا تھا -

40 دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام اسکول سے کٹ گیا تھا ، وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئ ایک کمپنی میں کیشئر تھا اس نے مجھے باھر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا ،مگر ایک تو میں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا ،دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باھر نہیں جانا چاھتا تھا - وہ چالیس دن قیامت کے چالیس دن تھے ۔

چالیسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ھمارے گھر کا دروازہ بجا ،، دروازہ میں نے خود ھی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے ۔ مجھے لگا جیسے ھم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رھے ھیں ، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا ۔ میری کیفیت سے بےخبر اس باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ھاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا ، جبکہ میں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا ،، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ھے اور پانی اس کے منہ اور ناک سے بہہ نکلتا ھے ۔

میں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رھا تھا گویا اس کا نہیں بلکہ میرا بچہ مر گیا ھے ،ھمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ھو گیا تھا ۔ آئستہ آئستہ 40 دنوں کا غبار نکلا ،، اس کو میں گھر میں لے کر آیا محلے والے بھی آگئے تھے جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسوس کیا۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا ،پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے ۔شاید یہ آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ھو گئے سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے ان میں کچھ پیسے میں نے ادھار لے کر ڈالے ھیں ۔ یہ آپ قبول کر لیجئے ،باقی میں بہت جلد آپ کو واپس کر دونگا۔

میں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا ،، اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد میں یہاں بطور اسٹیل فکسر آ گیا ، میں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا - تین سال بعد میں نے سالے کی مدد سے اپنی کمپنی بنا لی اور اس بچے کے والد کو بھی اپنی کمپنی میں بلا لیا ، آج وہ میری کمپنی میں فورمین ھے ، اس بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے !! میں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا ، وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا ! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ھے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا !!

قاری صاحب اس دن کے بعد میں کسی کا ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،، تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ھوتا ھے اور نہ میں غریب ھوتا ھوں ،، بس دل کو تسلی ھوتی ھے کہ میں اس بچے کا خون بہا ادا کر رھا ھوں۔

رہ گئ لُوٹنے کی بات تو قاری صاحب ھمیں کون نہیں لُوٹتا ؟ جوتے والا ھمیں لوٹتا ھے ،کپڑے والا ھمیں لوٹتا ھے ، سبزی اور گوشت والا ھم کو لوٹتا ھے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ھمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شاید حشر میں ھماری نجات کا سامان ھو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر، میرے نام پہ لُٹتا رھا ھے !!

زندگی تو مارے گی

یہ طے ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی، تھکن ہوگی ، جسم ٹوٹ جائے گا، نیند روٹھ جائے گی، دل پر دل بروں کے ہاتھوں خراشیں پڑیں گی، انگ انگ فریاد کرے گا اور درد چار چپھیرے رقص کرے گا. خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پاٹوں میں وقفہ بن کر. مگر جس حال میں جینا مشکل ہو، اسی حال میں جینا لازم ہے.

قدیم رومی سلطنت میں ایک قاعدہ تھا. رومی کمال کے لوگ تھے. ہزار سال کی شہنشاہیت چلا گئے، کچھ ڈھنگ کا کرتے ہی ہوں گے. ان کا دستور تھا کہ جب ان کا کوئی جرنیل بڑی فتح حاصل کر کے واپس آتا توا ایک عظیم الشان جلوس نکالا جاتا. جرنیل سنہری چوغہ اور سر پر تاج پہنتا. چار وحشی گھوڑوں کا رتھ روم کی گلیوں میں دوڑتا اور ارد گرد مداحوں کے ٹھٹھ لگے ہوتے جو فاتح کے نام کے نعرے بلند کرتے. جرنیل کے بالکل پیچھے ایک تنو مند حبشی غلام آراستہ ہوتا. جیسے ہی نعرے بلند ہوتے وہ جرنیل کے کان میں چبھتی ہوئی سرگوشی کرتا. "میمنتو موری، میمنتو موری"..... مطلب بڑا واضح تھا "یاد رکھو تم فانی ہو. یاد رکھو تم مر جاؤ گے. یاد رکھو تم مٹی ہوجاؤ گے". فتح کے ان لمحات میں شاید اس جرنیل اور ہم سب کے لیے ان سے اہم کلمات اور کوئی نہیں ہیں. 

ہم سب کے خواب ہیں، سراب ہیں، نیتیں ہیں، ارادے ہیں، عزائم ہیں، کچھ پوری ہوں گی، کچھ ادھوری رہیں گی. کچھ پوری ہوکر ادھوری ہوجائیں گی. ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے. 

نفسیات کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا. نفسیاتی توڑ پھوڑ کے حوالے سے ایک چیز یہ سیکھی کہ ہم میں سے اکثر جزباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں. اب زندگی جب دھوبی پٹڑا مارتی ہے تو ہم چور چور ہوجاتے ہیں. اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا. ہم جتنے "فریجائل" ہوتے ہیں، اتنا ہی گھائل ہوتے ہیں. 

ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی. اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے، تبھی میں ان رومی فلاسفروں کی بات دوہراتے ہوئے کہتا ہوں کہ مشکل راستہ نہیں، مشکل ہی راستہ ہے. راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے. 

اگر تم زندگی کی جنگ میں سورما ہو تو پھر تم ہر منفی کو مثبت بنانا سیکھ جاؤ گے /گی. جتنی اینٹیں پھینکی جائیں گی، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا. ہم حالات پر نہیں، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں. جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں. صبر راستہ ہے، ہمت راستہ ہے، عاجزی راستہ ہے، رکاوٹ راستہ ہے. اپنی زندگی پر غور کریں، اس میں جتنا بھی رنگ ہے، اس میں اس وقت نکھار آیا جب زندگی کے گرم پانی نے پتی کو کھولاؤ میں ڈالا. 

شکوہ کرنا چھوڑدو، اپنی ذمہ داری پر اور اپنی شرطوں پر جینا شروع کرو. زندگی اور لوگوں کو اپنے آپ کو روندنے کا حق خود دیا ہے، وہ ان سے واپس لے لو. کانچ مت بنو، لوہے کے چنے بن جاؤ. زندگی کے چکر سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا. بس آدمی کو مرتے دم تک ضرور زندہ رہنا چاہیے! 

عارف انیس 

( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )

محبت کا اصل وقت


محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے ۔محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہوجاتے ہیں۔کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے۔
(کتاب :آئی ایم پاسیبل مصنف:عارف انیس)
بعض والدین گھر آکر بھی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتےیہ سوچ کہ یہ سب کچھ میں اولاد ہی کے لیے کررہا ہوں،جبکہ درحقیقت بچے آپ کے پیار کے خواہش مندآج ہی ہیں اور یہی محبت کا اصل وقت ہے ۔آج کی محبت اور توجہ کو وہ عمر بھر یاد رکھیں گے ۔

ایک کپ کافی

.              👈 *اشفاق احمد کہتے ہیں* 👉

کہ ہم اٹلی کے شہر
وینس کے ایک نواحی قصبے کے مشہور کافی شاپ 
پر بیٹھے ہوئے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے 
کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا
جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر بیٹھ گیا۔ 
اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دی
اور اپنا آرڈر اس طرح دیا ''
دو کپ کافی لاؤ اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر''۔
ہم نے اس شخص کے اس انوکھے آرڈر کو دلچسپی سے سنا۔ 
بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دی۔
اُس نے کافی کا وہ کپ پیا ...........
مگر پیسے دو کے ادا کیے۔ 
ا س گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورق چسپاں کر دیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔ 
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو گاہک اور آئے 
جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا،
دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر،
انہوں نے دو ہی کپ پیئے مگر تین کپ کی ادائیگی کی اور چلتے بنے۔
ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے وہی کیا، 
دیوار پر ایک اور ورق چسپاں کردیا 
جس پر لکھا تھا ایک کپ کافی۔
ایسا لگتا تھا 
یہاں ایسا ہونا معمول ہے
مگر ہمارے لیے یہ سب کچھ انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ 
کچھ دیر بعد ایک شخص اندر داخل ہوا 
جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت 
اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ 
غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ 
اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا 
............اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ 
''ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ''۔ 
بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی......
جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیے چلتا بنا۔ ....
ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے ...
کہ بیرے نے دیوار پر لگے......
پرچوں میں سے ایک پرچہ اتار کر کونٹرکے اندر رکھ دیا. .....
۔ اب ہمارے لیے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، 
ہمیں سارے معاملے کا پتا چل گیا تھا۔
اس قصبے کے باسیوں کی 
اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے تر کر دیا تھا۔
اور ہم سوچنے لگے کہ کیا ہمارے پیارے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟

میری ماں

۔          👈 *ﻭﮦ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ .... ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ !* 👉

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﮨﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﻓﺲ ﮐﯿﻨﭩﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺑﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺝ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ '' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ :
'' ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺿﺪ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺨﺮﮮ، ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺎ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ، ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﮞ۔
ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﻼ۔ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ، ﻣﮉﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﺗﮏ ﯾﮩﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮐﺎﭘﯿﺎﮞ، ﺑﺴﺘﮧ ﻏﺮﺽ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺻﺒﺢ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺴﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﻧﻔﺎﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﻮﻟﺐ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮫ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﻤﺒﻞ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﮨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﭼﮍ ﺭﮨﯽ۔۔۔ ﺍﯾﮏ 11 ﺳﮯ 13 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﺳﮯﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﮐﺜﺮ ﮔﮭﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﮌﺍ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍ ﺗﮭﯽ۔
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﺋﯽ ﻣﺸﯿﻦ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ 16 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ 1500 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺳﯽ ﺭﺍﺕ 2 ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﻮﺗﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔
ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺁﻣﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﭨﮯ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﭼﺸﻤﮧ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺸﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﮔﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ؟؟؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔۔۔ ﻭﮦ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺛﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺩﻭ ﺳﻮﭦ ﺳﻼﺋﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺳﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﻝ ﺭﮨﺎ۔۔۔
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ۔ ﺍُﺩﮬﺮ ﺍﯾﻒ۔ﺍﮮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﮑﺮ ﭘﺎﺭﮮ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﮨﯽ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﻼﻑ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺁﺝ ﻧﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ : '' ﻣﺎﮞ، ﻣﺎﮞ ، ﻣﺎﮞ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﮞ ﮞ ﮞ ﮞ '' ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ، ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﺍﻭ ﺭ ﺗﺮﻟﮯ ﮐﯿﮯ ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺎﮞ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﺎﺭِ ﻏﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺳﮑﻮﮞ ﺩﯾﺎ '' ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﻧﻮﮐﺮﺍﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ '' ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﺍﮨﺪ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﮯ۔
میرے اور
ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺒﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ مغفرت فرمائے، آمین

سرگوشی سنو یا اینٹ سے بات کرو!



ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے. 

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر پھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟".

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے. 

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا.

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے ہھندہ سا لگ گیا. اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا. 

پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے. پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر اپنے باپ کو چیئر پر بٹھا کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا. 

نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں بنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا. 

وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے". سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا. 

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے آپ، ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آسکے. آمین

عارف انیس

(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

سخاوت کی بہترین مثال


بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔
افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔
ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔
غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔
یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔
وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔
اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔
غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے ۔ یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے..!!
رضی اللہ تعالیٰ عنہ