Friday, October 9, 2020

اخلاق کا بلند ترین درجہ

ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  میں، انگوروں سے بھری ایک رکابی کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  نے رکابی لی، اور انگور کھانے شروع کیئے۔
پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے۔
اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے۔
اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔
صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔
رسول علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی۔۔
اور آج صحابہ سارے متعجب!
غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی۔۔۔۔ 
خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی رکابی لیئے واپس چلا گیا۔ 
صحابہ نہ رہ سکے۔۔۔۔ ایک نے پوچھ ہی لیا، 
یا رسول اللہ؛ آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں کیا؟
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  مسکرائے اور فرمایا؛  
تم  لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟
 میں نے جب انگور چکھے ۔۔۔۔ تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ 
مجھے لگا کہ اگر تمہارے ساتھ یہ تقسیم کرتا ہوں تو ہو سکتا ہے تم میں سے کسی سے  کچھ ایسی بات  یا علامت ظاہر ہو جائے، جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے۔ 
(اور  بیشک آپ اخلاق کے  بلند ترین درجہ پر ہیں)❤️

Wednesday, September 30, 2020

خدمت گزاری

ایک اونٹ جنگل سے گزر رہا تھا اور اسکی مہار زمین پر گِھسٹ رہی تھی۔ ایک چوہے نے اسے دیکھا تو دل میں کہا کہ اسکو یوں کھلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکی مہار تھام لینی چاہیے تاکہ یہ شِتر بے مہار نہ کہلاۓ۔ پھر اس نے دوڑ کر اسکی مہار منہ میں لے لی اور آگے آگے روانہ ہو پڑا۔ اونٹ نے بھی اس سے مذاق کیا اور بے تکلف ہو کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ دور چل کر اونٹ نے پوچھا ، اےے میرے رہبر! تو اس قدر ڈر کیوں رہا ہے؟ چوہے نے شرمندگی سے کہا، بھائی یہ پانی دیکھ کر میرا دِل ڈر گیا ہے۔ اونٹ نے کہا تو نہ ڈر میں ابھی دیکھ کر بتاتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اور پھر بولا کہ آجا پانی تھوڑا ہے، دیکھ لے میرے زانوں تک نہیں ڈوبے تو کیسے ڈوب سکتا ہے۔ چوہے نے کہا واہ بھئ واہ، یعنی تم مجھے غرق کرنا چاہتے ہو، جو پانی تمہارے زانو تک گہرا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہو گا۔
یہ سن کر اونٹ نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولا کہ کیا تم اسی برتے پر میرے پیشوا بنے تھے؟ آئندہ دعویٰ ہمسری ٖصرف چوہوں کے ساتھ ہی کرنا کسی اونٹ کے منہ مت لگنا۔ چوہا بھی سٹپٹا گیا اور بولا میری توبہ آئندہ ایسی جرات نہیں کرونگا۔ اب خدا کے لئے مجھے پار اتار دے۔ اونٹ کو رحم آ گیا اور بولا کہ آ میری پیٹھ پر بیٹھ جا تیرے جیسے لاکھوں چوہوں کو پار اتار سکتا ہوں۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی اس حکایت کا مطلب صاف ہے کہ جب تم میں بادشاہ یا رہنما یا مُرشد بننے کی صلاحیت نہ ہو تو رعیت بن کر گزارا کرو اور خدمت گزاری سے عزت حاصل کرو۔

Tuesday, September 29, 2020

واصف خیال

واصف علی واصف رح فرماتے ہیں
"اسلام غریبی سے نہیں ڈرتا ہے، بلکہ امیری سے ڈرتا ہے، یہ تمہاری بے ایمانیاں ہیں جو غریبی سے ڈرتی ہیں، اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے تمہارے گمراہ ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو تمہیں سونے اور چاندی کے مکانات دے دیتا، لیکن تم گمراہ ہو جاو گے حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میری امت جو ہے یہ شرک تو نہیں کرے گی لیکن یہ دولت کے اندر اتنی گم ہو جاے گی کہ اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، اونٹوں کی مہار لے کر چلنے والے، اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے ۔۔۔۔ تو پھر مشکل وقت آ جائے گا ۔۔۔۔". 
(ذکر حبیب۔ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ 190 )

مرنے کے پانچ بڑے پَچھتاوے

" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے' اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ 
برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک" بلاگ (Blog) " کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔

اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔

یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام 
" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے"

The top five regrets of Dying 
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!

دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ 
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔

اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!

پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا 
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ 
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔

پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔

مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔

بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔ 
اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

مگر . . .

شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟

خوشی کے بوسے کی تلاش


ہم میں سے ہر ایک ہر قیمت پر خوش رہنا چاہتا ہے. ہم جیسی بھی آزمائشوں سے گزریں اور کسی بھی طرح کے امتحانوں سے پالا پڑے، ہمارا خواب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ارادوں کو پورا کرنے میں کامران رہیں. اب ایک ملین ڈالرز کا سوال یہ آن پڑتا ہے کہ خوش رہنے کا نسخہ کیا ہے؟ یہ گدڑ سنگھی کہاں سے ملتی ہے؟

ایک مشہور موٹیویشنل سپیکر نے مسرت کی تلاش پر ایک سیمینار منعقدہ کرایا. وہ کئی کتابوں کا مصنف تھا اور اس کے گیانی پن کی دھوم ہر طرف مچ چکی تھی، چنانچہ اس کے سیمینار میں شریک ہونے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے. شرکاء میں ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، تجارتکار، صنعت کار، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے. سب خوشی کے جادوئی فارمولے کی تلاش میں تھے. 

سیمینار شروع ہوا اور مقرر نے خوشی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت شروع کردی. اس کے پاٹ دار اور پراعتماد لہجے نے حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا. پھر وہ بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے رکا. 

"ہم ایک چھوٹی سی مشق کریں گے. آپ میں سے ہر ایک کو ایک غبارہ دیا جائے گا. یہاں مارکر موجود ہیں. آپ اپنے غبارے پر اپنا نام لکھ کر اسے پھلائیں گے، ہوا بھریں گے، اور پھر میرے معاونین کے حوالے کردیں گے". 

یہی ہوا، رنگ برنگے غبارے لائے گئے، وہاں موجود ہر شخص نے اپنے اپنے غبارے پر اپنا نام لکھا، اس میں ہوا بھری اور پھر غبارے جمع کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا. 

اب مقرر سب حاضرین کو اکٹھا کر کے ایک بڑے ہال کے دروازے پر پہنچا اور بولا." خواتین وحضرات، اس ہال میں آپ کے پھلائے ہوئے سیکڑوں غبارے موجود ہیں. میں جیسے ہی سیٹی بجاؤں گا، آپ نے اندر داخل ہو کر ان سینکڑوں غباروں میں سے اپنا غبارہ ڈھونڈنا ہے. پہلے پانچ لوگ جو پانچ منٹ میں اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لیں گے، ان کو خصوصی انعام سے نوازا جائے گا" 

سب لوگ ایک دم چوکنے اور پرجوش ہوگئے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا، اور سیٹی بجنے کا انتظار کرنے لگے. 

دروازہ کھلا، سیٹی بھی اور ہر طرف ہڑبونگ مچ گئی. سب لوگ دیوانہ وار بھاگ بھاگ کر اپنا غبارہ ڈھونڈنے لگ گئے. کسی کو کہنی لگی، کسی کو ٹکر، سب بھاگ بھاگ کر نڈھال ہوگئے. سیکڑوں غبارے موجود تھے، لوگ انہیں ہاتھوں میں پکڑتے، اپنا نام نہ دیکھ کر انہیں زوردار دھپ لگا کر اڑا دیتے اور اگلے غبارے کی طرف دوڑ پڑتے. کچھ لوگوں نے تو اپنا غبارہ نہ دیکھ کر غبارے پھاڑنے شروع کردیئے. خوب نفسا نفسی کا عالم تھا. صحیح معنوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. 

اسی ہڑبونگ میں پانچ منٹ گزر گئے، لوگ افراتفری میں اپنے غبارے کی تلاش میں دوڑتے رہے مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی. سب منہ لٹکائے واپس پرانے ہال میں جمع ہوگئے. 

مقرر نے متجسس نظروں سے سب کی طرف دیکھا اور کہا "ابھی ہم نے جو مشق کی، وہ زندگی سے ملتی جلتی ہے. زندگی میں وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے. آج کا عنوان مسرت کے حصول کا ہے. فرض کرلیں کہ غبارہ آپ کی خوشی کا اشارہ یا علامت ہے، جس کا مل جانا آپ کے لیے نیا شگون ہے. لیکن غبارے یعنی خوشی کے متلاشی تو اور بھی بہت لوگ ہیں. پھر اب کیا بنے گا؟ "

" آپ سب اپنے نام کا غبارہ یا خوشی ڈھونڈتے رہے /رہیں. اپنے نام کا غبارہ نہ پا کر آپ اپنے ہاتھ کے غبارے کو ایک طرف پھینک کر اگلے غبارے کی تلاش میں نکل پڑیں. نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو بھی اپنے نام کا غبارہ نہ مل سکا اور یہاں انعام لینے والا کوئی بھی نہیں ".

"لیکن یہ ناممکن ہے. سینکڑوں غباروں میں سے اپنے نام والا غبارہ کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ ". کسی نے چیخ کر کہا.

مقرر کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ دوڑ گئی." ہاں ایک طریقہ تھا. یہی طریقہ اس وقت بھی قائم آئے گا جب آپ اپنی زندگی میں خوشیاں تلاش کررہے ہوں گے. وہ طریقہ بہت سادہ سا تھا. سوچیں کہ آیا کیا، کیا جاسکتا تھا کہ تقریباً ہر ایک کو اس کے نام کا غبارہ مل جاتا".

سب لوگ پوری توجہ سے مقرر کی بات سننے لگے. ہال میں سب دم سادھے ہوئے تھے. 

"صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ آپ میں سے تقریباً سب کو اپنا گوہر مقصود ہاتھ آجاتا. وہ ایسے کہ پہلا غبارہ ملتے ہی، آپ اسے پرے پھینکنے کی بجائے، چیخ کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیتے. اب دو چیزیں ہوجاتیں. ایک تو اب دو لوگ ہوجاتے کہ ایک کو اپنا غبارہ یا منزل مل چکی ہے، اب دو لوگ مل کر آپ کا غبارہ تلاش کرتے، نہ ملتا تو جو مل گیا اسے اس کے مالک تک پہنچاتے اور آگے چلتے. زیادہ سے زیادہ تین، چار منٹ میں سب غبارے اپنے مالکوں کے پاس پہنچ چکے ہوتے ".

مقرر ایک لمحے کے لیے رکا تو سب نے شرمندہ سی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا. یہ واضح ہو چکا تھا کہ سب نے خود غرضی کا ثبوت دیا تھا اور سب ہی اس آزمائش میں ناکام ہو چکے تھے. 

" یہی زندگی کا معاملہ بھی ہے. ہم سب اپنے اپنے غباروں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خوشی اس وقت ملے گی، جب اپنا غبارہ پکڑ لیں گے. حالانکہ خوشی اپنا غبارہ پکڑنے سے نہیں ملے گی، دوسروں کو خوشی کے غبارے تقسیم کرنے سے ملے گی. کچھ نے تو الٹا غبارے پھاڑنے شروع کردیئے تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ آسکیں. جب آپ کسی کو اس کے مقصد یا غبارے تک پہنچا دیں گے تو آپ کا دل خوشی سے بھر جائے گا. زندگی میں مسرت کی جلد سے جلد تلاش اور تقسیم کا یہی قائدہ ہے ". مقرر نے اپنی بات ختم کی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا. حاضرین کو معلوم چکا تھا کہ مسرت کی تلاش کا بہترین طریقہ خوشیوں کو پکڑنے کی بجائے، خوشیوں کی تقسیم کا ہے. سچ تو یہ ہے کہ خوشی ایک بوسے کی طرح ہے، وہ ایک ہی صورت میں مکمل ہوسکتی ہے، اگر وہ کسی اور تک پہنچ سکے، ورنہ بوسہ اپنی جیب میں پڑا باسی ہوجائے گا- 

عارف انیس 
( ماخوذ - مصنف کی زیر تعمیر کتاب" صبح بخیر زندگی "سے اقتباس )

Monday, September 28, 2020

درمیانی پُل یا اختلاف

ایک دلچسپ مشورہ

وہ دونوں بھائی چالیس سال سے آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں سات سات گھر تھے۔
دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی بہت پیار اور محبت تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔
چھوٹے بھائی نے غصے میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔


اگلے روزبڑے بھائی نے ایک مستری کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔


مستری نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سےضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .

موقع دیکھنے کے بعد مستری بڑے بھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔


مستری نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔


غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔
مستری کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتےرہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے باپ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔


دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ، آنکھوں میں آنسو لئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔


بڑے بھائی نے مستری کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس
پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔


مستری نے کہا
اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

"جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"

یہ کہہ کر مستری نے اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔

اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس مستری کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں۔۔۔ برائے مہربانی دیواریں نہ بنائیں ۔"

Saturday, September 26, 2020

قربانی

.             👈 *قربانی* 👉
(کتاب:سوچ کا ہمالیہ ،مصنف:قاسم علی شاہ)

جب آپ اپنی محنت میں فوکس شامل کرلیں تو اس کے بعد اگلا کام قربانی ہے، کیونکہ فوکس قربانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی موجود چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ فوکس آدمی کو ایک غیر معمولی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میںاسے تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ''خدا کرے زخم دور ہی نہ ہو کبھی۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے میں''۔ آدمی کو جو آنسو اور اضطراب چاہیے، وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوسکتا۔ 
 فوکس کی وجہ سے جو رویہ پیدا ہوتا ہے، اس کے تحت آدمی سب کچھ لگا دیتا ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ملیں گے، وہ تھوڑے سے ابنارمل نظر آئیں گے۔ بڑے لوگوں سے  مراد وہ لوگ ہیں جو ایک پروسیس سے گزر کر بڑے بنے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
 حقیقی فوکس نفع اورنقصان کے تصور کو بدلتا ہے۔ اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے  تو پھرفوکس نہیں ہے۔ فوکس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے، اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں۔ پہلے حاصل کا نام کمائی تھی، اب دینے کا نام کمائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے ہیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے۔ اس دن بکری ذبح ہوئی تھی جس کے چند ٹکڑے بچ گئے تھے، باقی بانٹ دیے گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آج یہی بچاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جو بانٹ دیا وہی بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علیؒ فرماتے ہیں، ''مال رکھنے کیلئے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ غریب کی جیب ہے۔'' آپ رکھ کر دیکھیں، دس گنا واپس آئے گا۔ ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں جہاں اس کی چوری کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
 نفع اور نقصان کا تصور بدلنے کے بعد بسا اوقات ایک چیز کی نمو بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے باقی تمام چیزیں دب جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پروفیشنل باڈی بلڈر چونکہ اپنے مسلز بنانے پر بہت زیادہ فوکس کرتا ہے تو اس کا جسم تو بہت اچھا بن جاتا ہے، مگر اس  کا آئی کیو اچھا نہیں ہوتا۔ اس کا سار ا فوکس اپنے جسم بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ذہن کو بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن کی ورزش نیا سوچنا اور غور وفکر کرنا ہے۔ مائیکل انجیلو جب مجسمہ بناتا تو اس کووقت کااحساس ہی نہیں رہتا تھا۔ جب مجسمہ بن جاتا تو پتا چلتا کہ پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس کے ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی۔ یہ فوکس کی انتہاتھی۔ 
 بعض اوقات انسان کسی چیز کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے اور جب وہ  چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی خوبصورت چیز بن جائے گی۔

ھم تو اس جینے کے ھاتھوں مر چلے !!



اس نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا - میں نے کہا کہ بھائی دیکھ بھال کر دینا چاھئے یہ فراڈ لوگ ھوتے ھیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ھیں ! فرمانے لگے آپ نے بجا فرمایا میں پہلے ایسا ھی کیا کرتا تھا ،پھر ایک واقعے نے میری دنیا بدل کر رکھ دی - 

میں دھرم پورہ لاھور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں ،میں اسٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکدار آج کل پر ٹرخا رھا تھا، میں سائیکل پہ جا رھا تھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے اسپتال پہنچانے کے لئے ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رھا تھا۔

وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ھاتھ جوڑ دیتا میرا بچہ بچا لیں ،مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ھاتھ دے کر روکتا ، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو اسپتال پہنچا دے ،کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا ،، جو رُکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ ،،، سوچ کر اسے ڈانٹتا ، کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا ۔

میں جو سائیکل سائڈ پہ روکے ایک پاؤں زمیں پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رھا تھا ، اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ لیا ، بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخار ھے ۔ آپ نیچے اتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا ، آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے ۔

مگر میں بھی آپ کی طرح سوچ رھا تھا ،پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ھینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر میں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا ،، میں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں سنی ھوئی حدیث اس کو بھی سنا دی کہ ،الکاسب حبیب اللہ : کما کر کھانے والا اللہ کا دوست ھوتا ھے ، اور اپنا ھینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ھوا آگے چل پڑا " حرامخور ھمیں بے وقوف سمجھتے ھیں !!

دو تین گھنٹے کے بعد جب میں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رھا تھا ،بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا ، اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اٹھا رکھا تھا ،، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رھا تھا ۔ اب وہ بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رھا تھا۔

میں نے سائیکل کو روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا ،،، پھول کی طرح معصوم بچہ ،،، زندگی کی بازی ھار گیا تھا ، میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے ،میں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال کر باھر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ھو ،سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاھور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ھوئی ھیں۔ 

میں گھر پہنچا تو میرا برا حال تھا ، تھڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا ،، بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناھوں کا کفارہ اسی بخار سے ھونا تھا۔ گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلتے اور میں چارپائی سے چھلانگ لگا دیتا ،مجھے اسپتال نہیں جانا تھا ، میں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاھتا تھا۔ 

دو تین دن کے بعد بخار کو تو آرام آ گیا مگر میں ذھنی مریض بن گیا ،مجھے لگتا گویا میرا اپنا اکلوتا بیٹا جو تیسری کلاس میں پڑھتا تھا وہ اس بچے کے کفارے میں مر جائے گا۔ میں نے بچے کا اسکول جانا بند کر دیا ، بیوی کے بار بار اصرار کے باوجود میں بچے کو اسکول تو کیا دروازہ کھولنے بھی نہیں جانے دیتا تھا -

40 دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام اسکول سے کٹ گیا تھا ، وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئ ایک کمپنی میں کیشئر تھا اس نے مجھے باھر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا ،مگر ایک تو میں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا ،دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باھر نہیں جانا چاھتا تھا - وہ چالیس دن قیامت کے چالیس دن تھے ۔

چالیسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ھمارے گھر کا دروازہ بجا ،، دروازہ میں نے خود ھی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے ۔ مجھے لگا جیسے ھم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رھے ھیں ، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا ۔ میری کیفیت سے بےخبر اس باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ھاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا ، جبکہ میں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا ،، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ھے اور پانی اس کے منہ اور ناک سے بہہ نکلتا ھے ۔

میں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رھا تھا گویا اس کا نہیں بلکہ میرا بچہ مر گیا ھے ،ھمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ھو گیا تھا ۔ آئستہ آئستہ 40 دنوں کا غبار نکلا ،، اس کو میں گھر میں لے کر آیا محلے والے بھی آگئے تھے جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسوس کیا۔

کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا ،پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے ۔شاید یہ آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ھو گئے سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے ان میں کچھ پیسے میں نے ادھار لے کر ڈالے ھیں ۔ یہ آپ قبول کر لیجئے ،باقی میں بہت جلد آپ کو واپس کر دونگا۔

میں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا ،، اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد میں یہاں بطور اسٹیل فکسر آ گیا ، میں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا - تین سال بعد میں نے سالے کی مدد سے اپنی کمپنی بنا لی اور اس بچے کے والد کو بھی اپنی کمپنی میں بلا لیا ، آج وہ میری کمپنی میں فورمین ھے ، اس بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے !! میں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا ، وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا ! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ھے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا !!

قاری صاحب اس دن کے بعد میں کسی کا ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،، تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ھوتا ھے اور نہ میں غریب ھوتا ھوں ،، بس دل کو تسلی ھوتی ھے کہ میں اس بچے کا خون بہا ادا کر رھا ھوں۔

رہ گئ لُوٹنے کی بات تو قاری صاحب ھمیں کون نہیں لُوٹتا ؟ جوتے والا ھمیں لوٹتا ھے ،کپڑے والا ھمیں لوٹتا ھے ، سبزی اور گوشت والا ھم کو لوٹتا ھے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ھمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شاید حشر میں ھماری نجات کا سامان ھو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر، میرے نام پہ لُٹتا رھا ھے !!

زندگی تو مارے گی

یہ طے ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی، تھکن ہوگی ، جسم ٹوٹ جائے گا، نیند روٹھ جائے گی، دل پر دل بروں کے ہاتھوں خراشیں پڑیں گی، انگ انگ فریاد کرے گا اور درد چار چپھیرے رقص کرے گا. خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پاٹوں میں وقفہ بن کر. مگر جس حال میں جینا مشکل ہو، اسی حال میں جینا لازم ہے.

قدیم رومی سلطنت میں ایک قاعدہ تھا. رومی کمال کے لوگ تھے. ہزار سال کی شہنشاہیت چلا گئے، کچھ ڈھنگ کا کرتے ہی ہوں گے. ان کا دستور تھا کہ جب ان کا کوئی جرنیل بڑی فتح حاصل کر کے واپس آتا توا ایک عظیم الشان جلوس نکالا جاتا. جرنیل سنہری چوغہ اور سر پر تاج پہنتا. چار وحشی گھوڑوں کا رتھ روم کی گلیوں میں دوڑتا اور ارد گرد مداحوں کے ٹھٹھ لگے ہوتے جو فاتح کے نام کے نعرے بلند کرتے. جرنیل کے بالکل پیچھے ایک تنو مند حبشی غلام آراستہ ہوتا. جیسے ہی نعرے بلند ہوتے وہ جرنیل کے کان میں چبھتی ہوئی سرگوشی کرتا. "میمنتو موری، میمنتو موری"..... مطلب بڑا واضح تھا "یاد رکھو تم فانی ہو. یاد رکھو تم مر جاؤ گے. یاد رکھو تم مٹی ہوجاؤ گے". فتح کے ان لمحات میں شاید اس جرنیل اور ہم سب کے لیے ان سے اہم کلمات اور کوئی نہیں ہیں. 

ہم سب کے خواب ہیں، سراب ہیں، نیتیں ہیں، ارادے ہیں، عزائم ہیں، کچھ پوری ہوں گی، کچھ ادھوری رہیں گی. کچھ پوری ہوکر ادھوری ہوجائیں گی. ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے. 

نفسیات کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا. نفسیاتی توڑ پھوڑ کے حوالے سے ایک چیز یہ سیکھی کہ ہم میں سے اکثر جزباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں. اب زندگی جب دھوبی پٹڑا مارتی ہے تو ہم چور چور ہوجاتے ہیں. اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا. ہم جتنے "فریجائل" ہوتے ہیں، اتنا ہی گھائل ہوتے ہیں. 

ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی. اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے، تبھی میں ان رومی فلاسفروں کی بات دوہراتے ہوئے کہتا ہوں کہ مشکل راستہ نہیں، مشکل ہی راستہ ہے. راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے. 

اگر تم زندگی کی جنگ میں سورما ہو تو پھر تم ہر منفی کو مثبت بنانا سیکھ جاؤ گے /گی. جتنی اینٹیں پھینکی جائیں گی، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا. ہم حالات پر نہیں، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں. جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں. صبر راستہ ہے، ہمت راستہ ہے، عاجزی راستہ ہے، رکاوٹ راستہ ہے. اپنی زندگی پر غور کریں، اس میں جتنا بھی رنگ ہے، اس میں اس وقت نکھار آیا جب زندگی کے گرم پانی نے پتی کو کھولاؤ میں ڈالا. 

شکوہ کرنا چھوڑدو، اپنی ذمہ داری پر اور اپنی شرطوں پر جینا شروع کرو. زندگی اور لوگوں کو اپنے آپ کو روندنے کا حق خود دیا ہے، وہ ان سے واپس لے لو. کانچ مت بنو، لوہے کے چنے بن جاؤ. زندگی کے چکر سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا. بس آدمی کو مرتے دم تک ضرور زندہ رہنا چاہیے! 

عارف انیس 

( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )

محبت کا اصل وقت


محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے ۔محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہوجاتے ہیں۔کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے۔
(کتاب :آئی ایم پاسیبل مصنف:عارف انیس)
بعض والدین گھر آکر بھی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتےیہ سوچ کہ یہ سب کچھ میں اولاد ہی کے لیے کررہا ہوں،جبکہ درحقیقت بچے آپ کے پیار کے خواہش مندآج ہی ہیں اور یہی محبت کا اصل وقت ہے ۔آج کی محبت اور توجہ کو وہ عمر بھر یاد رکھیں گے ۔