Friday, October 9, 2020

سچ اور جھٹ

خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں  جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے  کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا:  "اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای۔؟ 
میں نے کہا: "سوایا ہے چاچی" لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔ 
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے: "خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے "
مَیں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: "بھاٸی جان لنڈے چوں لیا اے" لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجاٸے ہسنے لگ گیا تھا۔۔۔

سچ ہے یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔Big Message 👉

زندگی کا اصل مقصد؟


✍🏻 دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو  1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تھا۔
پھر جب موبائلز میں sms یعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3G یعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
اور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور مویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4G یعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیا۔۔۔
اور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5G کی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔  آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا  جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔ آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں ۔۔۔ الغرض موبائل پر ایک وقت میں مثلا 10 کام بھی کر رہے ہوں۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی کوئی کال آئے گی موبائل فوراً سے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں۔ اور وہ اپنے اصل اور  بنیادی کام کی خاطر باقی سارے کام ایکدم روک لیتا ہے۔
اور ایک انسان جسے اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور ساری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے سجا دیا، وہ اللہ کی کال پر دن میں کتنی بار اپنے کام روک کر مسجد جاتا ہے؟مسجد جانا تو درکنار اب اللہ کی کال یعنی اذان پر ہم اپنی گفتگو بھی روکنا مناسب نہیں سمجھتے۔ عبادت ہر انسان اور نماز ہر مسلمان کی زندگی کا بنیادی جز ہے جس کی موت تک کسی صورت میں بھی معافی نہیں۔ کاش ہم  موبائل سے اتنا سا ہی سبق سیکھ لیں جسے ہم نے خود ایجاد کیا اور ایک لمحہ بھی خود سے جدا نہیں کرتے کہ دنیا کے سب ہی کام کرو مگر اپنی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت کبھی نہ بھولو۔ اذان ہوتے ہی سب کچھ روک کر مسجد چلو اور اللہ کی کال پر لبیک کہو۔"

اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے....!!!!

لوڈو اور نصیحت


کبھی لوڈو دیکھی ہے غور کرنا اس پر کیا نصحیت ہے۔
اس میں جب تک گوٹی گھر میں رہتی ہے تب تک محفوظ رہتی ہے ۔۔
گھر سے باہر نکلتے ہی اُس گوٹی کا ہر گلی ہر چوراہے پر کھلاڑیوں اور شکاریوں سے سامنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
شاطرانہ چالوں سے واسطہ پڑتا ہے----
 کہاں کہاں سے اور کس کس سے بچنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
جگہ جگہ کمیں گاہیں اور گھات میں دشمن ہوتے ہیں----
کھیل سکو تو کھیل لو --
اور ہاں پھر مخالف سے شکوہ بھی نہیں بنتا کھیل تو پھر کھیل ہوتا ہے ----
                         
گوٹی کی جگہ اگر عورت کو فرض کر کے دیکھیں تو!!!!
عورت کی زندگی بھی گوٹی کی زندگی سے کچھ مختلف نہیں ہوتی----
عورت بھی گھر کی چار دیوری کے باہر غیر محفوظ اور بے سہارا ہوتی ہے----
فرق صرف یہ ہے کہ گوٹی جب شکار بن جائے تو دوبارہ شروعات کر سکتی ہے----
لیکن اگر عورت خدانخواسطہ
شکار بن جائے تو دوبارہ شروع کرنے کے لئے اُس کے پاس کچھ نہیں بچتا---- 
 Note!!!!
سب سے ضروری بات جن کی اپنی گوٹی کسی اسٹاپ سے باہر ہو ان کو دوسروں کی گوٹی پر نظر نہیں رکھے اُمید ہے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہونگے-

A Silent Msg 4 Everyone 💯😊
Plzzzzz Think About it 🙂

اخلاق کا بلند ترین درجہ

ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  میں، انگوروں سے بھری ایک رکابی کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  نے رکابی لی، اور انگور کھانے شروع کیئے۔
پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے۔
اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے۔
اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔
صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔
رسول علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی۔۔
اور آج صحابہ سارے متعجب!
غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی۔۔۔۔ 
خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی رکابی لیئے واپس چلا گیا۔ 
صحابہ نہ رہ سکے۔۔۔۔ ایک نے پوچھ ہی لیا، 
یا رسول اللہ؛ آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں کیا؟
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  مسکرائے اور فرمایا؛  
تم  لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟
 میں نے جب انگور چکھے ۔۔۔۔ تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ 
مجھے لگا کہ اگر تمہارے ساتھ یہ تقسیم کرتا ہوں تو ہو سکتا ہے تم میں سے کسی سے  کچھ ایسی بات  یا علامت ظاہر ہو جائے، جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے۔ 
(اور  بیشک آپ اخلاق کے  بلند ترین درجہ پر ہیں)❤️

Wednesday, September 30, 2020

خدمت گزاری

ایک اونٹ جنگل سے گزر رہا تھا اور اسکی مہار زمین پر گِھسٹ رہی تھی۔ ایک چوہے نے اسے دیکھا تو دل میں کہا کہ اسکو یوں کھلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکی مہار تھام لینی چاہیے تاکہ یہ شِتر بے مہار نہ کہلاۓ۔ پھر اس نے دوڑ کر اسکی مہار منہ میں لے لی اور آگے آگے روانہ ہو پڑا۔ اونٹ نے بھی اس سے مذاق کیا اور بے تکلف ہو کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ دور چل کر اونٹ نے پوچھا ، اےے میرے رہبر! تو اس قدر ڈر کیوں رہا ہے؟ چوہے نے شرمندگی سے کہا، بھائی یہ پانی دیکھ کر میرا دِل ڈر گیا ہے۔ اونٹ نے کہا تو نہ ڈر میں ابھی دیکھ کر بتاتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اور پھر بولا کہ آجا پانی تھوڑا ہے، دیکھ لے میرے زانوں تک نہیں ڈوبے تو کیسے ڈوب سکتا ہے۔ چوہے نے کہا واہ بھئ واہ، یعنی تم مجھے غرق کرنا چاہتے ہو، جو پانی تمہارے زانو تک گہرا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہو گا۔
یہ سن کر اونٹ نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولا کہ کیا تم اسی برتے پر میرے پیشوا بنے تھے؟ آئندہ دعویٰ ہمسری ٖصرف چوہوں کے ساتھ ہی کرنا کسی اونٹ کے منہ مت لگنا۔ چوہا بھی سٹپٹا گیا اور بولا میری توبہ آئندہ ایسی جرات نہیں کرونگا۔ اب خدا کے لئے مجھے پار اتار دے۔ اونٹ کو رحم آ گیا اور بولا کہ آ میری پیٹھ پر بیٹھ جا تیرے جیسے لاکھوں چوہوں کو پار اتار سکتا ہوں۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی اس حکایت کا مطلب صاف ہے کہ جب تم میں بادشاہ یا رہنما یا مُرشد بننے کی صلاحیت نہ ہو تو رعیت بن کر گزارا کرو اور خدمت گزاری سے عزت حاصل کرو۔

Tuesday, September 29, 2020

واصف خیال

واصف علی واصف رح فرماتے ہیں
"اسلام غریبی سے نہیں ڈرتا ہے، بلکہ امیری سے ڈرتا ہے، یہ تمہاری بے ایمانیاں ہیں جو غریبی سے ڈرتی ہیں، اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے تمہارے گمراہ ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو تمہیں سونے اور چاندی کے مکانات دے دیتا، لیکن تم گمراہ ہو جاو گے حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میری امت جو ہے یہ شرک تو نہیں کرے گی لیکن یہ دولت کے اندر اتنی گم ہو جاے گی کہ اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، اونٹوں کی مہار لے کر چلنے والے، اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے ۔۔۔۔ تو پھر مشکل وقت آ جائے گا ۔۔۔۔". 
(ذکر حبیب۔ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ 190 )

مرنے کے پانچ بڑے پَچھتاوے

" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے' اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ 
برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک" بلاگ (Blog) " کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔

اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔

یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام 
" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے"

The top five regrets of Dying 
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!

دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ 
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔

اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!

پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا 
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ 
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔

پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔

مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔

بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔ 
اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

مگر . . .

شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟

خوشی کے بوسے کی تلاش


ہم میں سے ہر ایک ہر قیمت پر خوش رہنا چاہتا ہے. ہم جیسی بھی آزمائشوں سے گزریں اور کسی بھی طرح کے امتحانوں سے پالا پڑے، ہمارا خواب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ارادوں کو پورا کرنے میں کامران رہیں. اب ایک ملین ڈالرز کا سوال یہ آن پڑتا ہے کہ خوش رہنے کا نسخہ کیا ہے؟ یہ گدڑ سنگھی کہاں سے ملتی ہے؟

ایک مشہور موٹیویشنل سپیکر نے مسرت کی تلاش پر ایک سیمینار منعقدہ کرایا. وہ کئی کتابوں کا مصنف تھا اور اس کے گیانی پن کی دھوم ہر طرف مچ چکی تھی، چنانچہ اس کے سیمینار میں شریک ہونے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے. شرکاء میں ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، تجارتکار، صنعت کار، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے. سب خوشی کے جادوئی فارمولے کی تلاش میں تھے. 

سیمینار شروع ہوا اور مقرر نے خوشی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت شروع کردی. اس کے پاٹ دار اور پراعتماد لہجے نے حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا. پھر وہ بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے رکا. 

"ہم ایک چھوٹی سی مشق کریں گے. آپ میں سے ہر ایک کو ایک غبارہ دیا جائے گا. یہاں مارکر موجود ہیں. آپ اپنے غبارے پر اپنا نام لکھ کر اسے پھلائیں گے، ہوا بھریں گے، اور پھر میرے معاونین کے حوالے کردیں گے". 

یہی ہوا، رنگ برنگے غبارے لائے گئے، وہاں موجود ہر شخص نے اپنے اپنے غبارے پر اپنا نام لکھا، اس میں ہوا بھری اور پھر غبارے جمع کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا. 

اب مقرر سب حاضرین کو اکٹھا کر کے ایک بڑے ہال کے دروازے پر پہنچا اور بولا." خواتین وحضرات، اس ہال میں آپ کے پھلائے ہوئے سیکڑوں غبارے موجود ہیں. میں جیسے ہی سیٹی بجاؤں گا، آپ نے اندر داخل ہو کر ان سینکڑوں غباروں میں سے اپنا غبارہ ڈھونڈنا ہے. پہلے پانچ لوگ جو پانچ منٹ میں اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لیں گے، ان کو خصوصی انعام سے نوازا جائے گا" 

سب لوگ ایک دم چوکنے اور پرجوش ہوگئے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا، اور سیٹی بجنے کا انتظار کرنے لگے. 

دروازہ کھلا، سیٹی بھی اور ہر طرف ہڑبونگ مچ گئی. سب لوگ دیوانہ وار بھاگ بھاگ کر اپنا غبارہ ڈھونڈنے لگ گئے. کسی کو کہنی لگی، کسی کو ٹکر، سب بھاگ بھاگ کر نڈھال ہوگئے. سیکڑوں غبارے موجود تھے، لوگ انہیں ہاتھوں میں پکڑتے، اپنا نام نہ دیکھ کر انہیں زوردار دھپ لگا کر اڑا دیتے اور اگلے غبارے کی طرف دوڑ پڑتے. کچھ لوگوں نے تو اپنا غبارہ نہ دیکھ کر غبارے پھاڑنے شروع کردیئے. خوب نفسا نفسی کا عالم تھا. صحیح معنوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. 

اسی ہڑبونگ میں پانچ منٹ گزر گئے، لوگ افراتفری میں اپنے غبارے کی تلاش میں دوڑتے رہے مگر انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی. سب منہ لٹکائے واپس پرانے ہال میں جمع ہوگئے. 

مقرر نے متجسس نظروں سے سب کی طرف دیکھا اور کہا "ابھی ہم نے جو مشق کی، وہ زندگی سے ملتی جلتی ہے. زندگی میں وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے. آج کا عنوان مسرت کے حصول کا ہے. فرض کرلیں کہ غبارہ آپ کی خوشی کا اشارہ یا علامت ہے، جس کا مل جانا آپ کے لیے نیا شگون ہے. لیکن غبارے یعنی خوشی کے متلاشی تو اور بھی بہت لوگ ہیں. پھر اب کیا بنے گا؟ "

" آپ سب اپنے نام کا غبارہ یا خوشی ڈھونڈتے رہے /رہیں. اپنے نام کا غبارہ نہ پا کر آپ اپنے ہاتھ کے غبارے کو ایک طرف پھینک کر اگلے غبارے کی تلاش میں نکل پڑیں. نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو بھی اپنے نام کا غبارہ نہ مل سکا اور یہاں انعام لینے والا کوئی بھی نہیں ".

"لیکن یہ ناممکن ہے. سینکڑوں غباروں میں سے اپنے نام والا غبارہ کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ ". کسی نے چیخ کر کہا.

مقرر کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ دوڑ گئی." ہاں ایک طریقہ تھا. یہی طریقہ اس وقت بھی قائم آئے گا جب آپ اپنی زندگی میں خوشیاں تلاش کررہے ہوں گے. وہ طریقہ بہت سادہ سا تھا. سوچیں کہ آیا کیا، کیا جاسکتا تھا کہ تقریباً ہر ایک کو اس کے نام کا غبارہ مل جاتا".

سب لوگ پوری توجہ سے مقرر کی بات سننے لگے. ہال میں سب دم سادھے ہوئے تھے. 

"صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ آپ میں سے تقریباً سب کو اپنا گوہر مقصود ہاتھ آجاتا. وہ ایسے کہ پہلا غبارہ ملتے ہی، آپ اسے پرے پھینکنے کی بجائے، چیخ کر اسے اس کے مالک کے حوالے کر دیتے. اب دو چیزیں ہوجاتیں. ایک تو اب دو لوگ ہوجاتے کہ ایک کو اپنا غبارہ یا منزل مل چکی ہے، اب دو لوگ مل کر آپ کا غبارہ تلاش کرتے، نہ ملتا تو جو مل گیا اسے اس کے مالک تک پہنچاتے اور آگے چلتے. زیادہ سے زیادہ تین، چار منٹ میں سب غبارے اپنے مالکوں کے پاس پہنچ چکے ہوتے ".

مقرر ایک لمحے کے لیے رکا تو سب نے شرمندہ سی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا. یہ واضح ہو چکا تھا کہ سب نے خود غرضی کا ثبوت دیا تھا اور سب ہی اس آزمائش میں ناکام ہو چکے تھے. 

" یہی زندگی کا معاملہ بھی ہے. ہم سب اپنے اپنے غباروں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خوشی اس وقت ملے گی، جب اپنا غبارہ پکڑ لیں گے. حالانکہ خوشی اپنا غبارہ پکڑنے سے نہیں ملے گی، دوسروں کو خوشی کے غبارے تقسیم کرنے سے ملے گی. کچھ نے تو الٹا غبارے پھاڑنے شروع کردیئے تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ آسکیں. جب آپ کسی کو اس کے مقصد یا غبارے تک پہنچا دیں گے تو آپ کا دل خوشی سے بھر جائے گا. زندگی میں مسرت کی جلد سے جلد تلاش اور تقسیم کا یہی قائدہ ہے ". مقرر نے اپنی بات ختم کی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا. حاضرین کو معلوم چکا تھا کہ مسرت کی تلاش کا بہترین طریقہ خوشیوں کو پکڑنے کی بجائے، خوشیوں کی تقسیم کا ہے. سچ تو یہ ہے کہ خوشی ایک بوسے کی طرح ہے، وہ ایک ہی صورت میں مکمل ہوسکتی ہے، اگر وہ کسی اور تک پہنچ سکے، ورنہ بوسہ اپنی جیب میں پڑا باسی ہوجائے گا- 

عارف انیس 
( ماخوذ - مصنف کی زیر تعمیر کتاب" صبح بخیر زندگی "سے اقتباس )

Monday, September 28, 2020

درمیانی پُل یا اختلاف

ایک دلچسپ مشورہ

وہ دونوں بھائی چالیس سال سے آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں سات سات گھر تھے۔
دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی بہت پیار اور محبت تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔
چھوٹے بھائی نے غصے میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔


اگلے روزبڑے بھائی نے ایک مستری کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔


مستری نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سےضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .

موقع دیکھنے کے بعد مستری بڑے بھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔


مستری نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔


غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔
مستری کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتےرہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے باپ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔


دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ، آنکھوں میں آنسو لئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔


بڑے بھائی نے مستری کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس
پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔


مستری نے کہا
اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

"جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"

یہ کہہ کر مستری نے اللہ حافظ کہا اور چل دیا۔

اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس مستری کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں۔۔۔ برائے مہربانی دیواریں نہ بنائیں ۔"

Saturday, September 26, 2020

قربانی

.             👈 *قربانی* 👉
(کتاب:سوچ کا ہمالیہ ،مصنف:قاسم علی شاہ)

جب آپ اپنی محنت میں فوکس شامل کرلیں تو اس کے بعد اگلا کام قربانی ہے، کیونکہ فوکس قربانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی موجود چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ فوکس آدمی کو ایک غیر معمولی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میںاسے تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ''خدا کرے زخم دور ہی نہ ہو کبھی۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے میں''۔ آدمی کو جو آنسو اور اضطراب چاہیے، وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوسکتا۔ 
 فوکس کی وجہ سے جو رویہ پیدا ہوتا ہے، اس کے تحت آدمی سب کچھ لگا دیتا ہے۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ملیں گے، وہ تھوڑے سے ابنارمل نظر آئیں گے۔ بڑے لوگوں سے  مراد وہ لوگ ہیں جو ایک پروسیس سے گزر کر بڑے بنے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے۔
 حقیقی فوکس نفع اورنقصان کے تصور کو بدلتا ہے۔ اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے  تو پھرفوکس نہیں ہے۔ فوکس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے، اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں۔ پہلے حاصل کا نام کمائی تھی، اب دینے کا نام کمائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے ہیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے۔ اس دن بکری ذبح ہوئی تھی جس کے چند ٹکڑے بچ گئے تھے، باقی بانٹ دیے گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آج یہی بچاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جو بانٹ دیا وہی بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علیؒ فرماتے ہیں، ''مال رکھنے کیلئے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ غریب کی جیب ہے۔'' آپ رکھ کر دیکھیں، دس گنا واپس آئے گا۔ ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں جہاں اس کی چوری کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
 نفع اور نقصان کا تصور بدلنے کے بعد بسا اوقات ایک چیز کی نمو بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے باقی تمام چیزیں دب جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پروفیشنل باڈی بلڈر چونکہ اپنے مسلز بنانے پر بہت زیادہ فوکس کرتا ہے تو اس کا جسم تو بہت اچھا بن جاتا ہے، مگر اس  کا آئی کیو اچھا نہیں ہوتا۔ اس کا سار ا فوکس اپنے جسم بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ذہن کو بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہن کی ورزش نیا سوچنا اور غور وفکر کرنا ہے۔ مائیکل انجیلو جب مجسمہ بناتا تو اس کووقت کااحساس ہی نہیں رہتا تھا۔ جب مجسمہ بن جاتا تو پتا چلتا کہ پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس کے ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی۔ یہ فوکس کی انتہاتھی۔ 
 بعض اوقات انسان کسی چیز کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے اور جب وہ  چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی خوبصورت چیز بن جائے گی۔