Friday, October 16, 2020

Litmus Test

جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرا مقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ نہیں، ذمہ داری معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے، جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  "دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے" (صحیح مسلم)۔  اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے، ازروئے الفاظِ قرآنی:  "بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے" (القیٰمۃ)۔  ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتاً خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبویؐ میں کھینچا گیا ہے: "دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو"  (صحیح بخاری)۔  پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے، جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویہئ نگاہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے، لہٰذا ایک معین مدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں اس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ 
بحوالہ بیان القرآن

Monday, October 12, 2020

قرض

جوانی کا جوش چڑھا تو محبوبہ کا پیٹ بڑھا مگر یہ اُس کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی،

کاریگر بندہ تھا بس میڈیکل سٹور سے مطلوبہ دوائی لی اور محبوبہ تک پہنچا دی، بس دو چار اُلٹیاں ہی تو آنی تھیں اور اس کے بعد مسئلہ حل. اب اتنی سی بات پر بھلا وہ کیوں پریشان ہو، گانے گاتا گھر میں داخل ہوا تو اماں نے کہا بیٹا بہن کو ہسپتال لے جا طبیعت بڑی خراب ہے اُسکی، اس نے ماں سے پوچھا کیا ہوا ہے اسکو
ماں نے صحن میں پڑی آدھ موئی بیٹی کی طرف دیکھا اور بولی،، پتہ نہیں صبح سے بس اُلٹیاں کیے جا رہی ہے ۔۔۔

زنا ایک ادھار ہے جس کی ادئیگی تمہارے گھر سے ہو گی ۔۔۔۔۔

یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی مکر نہیں سکتا!

محبت کرو لیکن اگر کسی کی زندگی آباد نہیں کر سکتے تو برباد بھی مت کرو!  کیونکہ آج جو زندگی تم برباد کر رہے ہو حقیقت میں اپنی بہن بیٹی کی زندگی برباد کر رہے ہو۔۔۔!

اچھا انسان

سوال: اچھا انسان کیسے بن سکتے ہیں ؟
اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے ۔ اگر میں چاند تک پہنچنا چاہتا ہوں تو مجھےسورج تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔شایدمیں سورج تک نہ پہنچ پاوں لیکن چاند تک ضرور پہنچ جاؤں گا۔مجھے اگر اچھا انسان بننا ہے تو مجھے کا ئنات کے عظیم ترین انسان محمد ﷺکی سنت پر عمل کرنا پڑے گااور اگر میں پھر بھی کمزور رہا اور باکمال انسان نہ بن سکاتو کم از کم اچھا انسان تو بن ہی جاؤں گا ۔چھوٹی چھوٹی سنتوں کی پیروی شروع کر دیں تو آپ باقی سنتوں پر بھی عمل شروع کر دیں گے ۔جیسا کہ سچ بولنا اور جھوٹ اور غیبت نہ کرنا۔

Sunday, October 11, 2020

ایک خوبصورت سچ

اللہ کبھی بھی دوسرا دروازہ کھولے بغیر پہلا دروازہ بند نہیں کرتا. زمین والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر تمہارا تعلق آسمان والے سے پختہ ھو جاۓ اور جب سجدے طویل ھو جائیں تو مشکلیں قلیل ھو جاتی ھیں.
                                                                          
* اللہ تو واحد بادشاہ ھے جو مانگنے پر خوش اور نہ مانگنے پر ناراض ھوتا ھے. ھمیں اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر ذہنی، قلبی سکون عطاء فرما اور ھمیں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطاء فرما . اے الله تمام معاملات میں همارا انجام اچھا فرما اور هميں دنيا كى رسوائى اور آخرت كے عذاب سے بچا.آمین یارب العالمین!!! 


سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم

وراثت سے بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ دو

کسی کا ایک لاٹھی برابر مال بھی اس کی رضا مندی کے بغیر کھانا حرام ہے

اللہ تعالی نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ 
النساء :19

 ابوحمید ساعدی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

 لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ وَذَلِكَ لِشِدَّةِ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ

مسند احمد، حدیث نمبر: 22504

 کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔
 
یاد رکھیں کہ آج کل جو بہنیں اپنے بھائیوں کو وراثت میں سے اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں وہ دل کی رضامندی سے نہیں کرتیں حقیقت میں ان کا یہ فیصلہ مجبوری کی بنیاد پر ہوتا ہے  وہ بے چاریاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے باپ کی وراثت میں اپنے بھائیوں سے حصہ لے لیا تو پھر ہم ان سے مل نہیں سکتیں لوگ ہمیں باتیں کریں گے ہم کس منہ سے اپنے بھائی کے گھر آئیں گی ان کی یہ مجبوری ہوتی ہے حصہ نہ لینا

کبھی سوچا کہ چھوٹی عمر میں تو جو کچھ بھائی کو ملتا تھا وہی بہن بھی مانگتی تھی برابر کا جیب خرچ برابر کے کپڑے مگر شادی ہوجانے کے بعد وہ کون سی مجبوری ہے کہ بہن اپنا سارا حصہ بھائی کو چھوڑ دیتی ہے 

آپ نے کبھی ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کو حصہ معاف کر دیا ہو کہ میں نہیں لیتا میری بہن کو دے دو سوچیں ایسا کیوں ہے

احساس

وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا
جو کے اس کے بیوی نے صبح اس کو کھا تھا. 
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,, 
,,کیوں...کیا ھوا ؟؟؟
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی. 
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی؟؟
,,کیوں...کیا ھوا؟؟
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے یہ کلاس ٹیچر تھی
وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کا سر فخر سے بلند تھا 
اسے اپنی منی پر پیار آ رھا تھا 
اتنی سے عمر میں اتنی بڑی سوچ غریب بچوں کے لئی احساس 
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی. 
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا. 
ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے. 
درد دل کا مرض ھے
ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی...

اللہ ہم سب کو بھی احساس کرنے والا دل دے آمین....

جیسا کروگے ویسا بھروگے

سکول کے تین طالب علم لڑکوں نے سکول کے چوکیدار کو کچھ روپے پیسے دیے اور کہا کہ چُھٹی کے وقت کسی ایک لڑکی کو کسی بھی طرح اندر ہی روک لینا 
لالچی چوکیدار نے پیسے لیے اور جونہی چُھٹی ہوئی تو اُس نے ایک لڑکی کو گیٹ کے پاس ہی بٹھا دیا 
باہر جب اس لڑکی کا والد اُسے لینے آیا تو چوکیدار نے کہہ دیا کہ آپ کی بچی تو جا چکی ہے 
جب والد چلا گیا تو چوکیدار نے اُسے کہا کہ آپ کے ابو آجائیں گے تم ٹینشن نہ لو اور اندر کلاس میں جا کر بیٹھ جاؤ جب کوئی آئے گا تو میں تمہیں اطلاع کر دوں گا _
لڑکی پریشانی کے عالم میں کلاس میں جا کر انتظار کرنے لگی تو چُپکے سے چوکیدار نے کمرے کا دروازہ لاک کر دیا _
پھر وہ ہوس کے پُجاری تینوں لڑکے آ گئے ، پہلے ایک نے جا کر زبردستی زیادتی کی پھر دوسرے نے بھی ..
لیکن جب تیسرا لڑکا اُس کم سِن لڑکی سے اپنی پیاس بُجھانے اندر داخل ہوا تو آگے اُس بچی کو دیکھ کر اس کی سانسیں رُک گئیں اور پتھر کی طرح ساکت ہو گیا ...
جانتے ہو کیوں ۔۔؟؟؟ 
کیونکہ آگے وہ لڑکی اُس لڑکے کی بہن تھی !! 

لوگوں کی بہن بیٹیوں کو داغدار کرنے والو سنو ! 
ایک نہ ایک دن تمہاری بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا کیونکہ یہ ایک قرض ہے جو چُکانا ہی پڑتا ہے اور اس قرض سے باہر نکلو  اور اللّه سے توبہ کرو اللہ ہمیں اس گناہ سے بچائے
آمین

Saturday, October 10, 2020

موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے


*دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف "کرسڈا روڈریگز" نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے۔*

*1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔*
    
*2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔  لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔*
   
 *3. بینک میں کافی رقم ہے۔  لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔*
  
 *4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔*
    
 *5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں ۔  لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔*
    
 *6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔*
    
 *7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔*
    
*8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں۔  لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔*
    
 *9.اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔*
    
*یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔  اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔*
    
*بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے ۔ "


موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے۔،،

Friday, October 9, 2020

اللہ کی مخلوق کو کھانا کھلانا



ایک بندے کا جنازہ دیکھا تو اتنی رش تھی کہ پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی میں نے کہا کوئی بڑے بندے کا ہوگا تو شامل ہوگیا پھر دوائی لینے آیا جنازہ گاہ کے قریب تو دوائی والے کو میں کہہ رہا تھا بہت زیادہ رش تھی کوئی بڑا بندا ہوگا ، 

تو دوائی والا بولا نہیں جناب یہ آگے کہی پے چوکیدار تھا میں بڑا حیران ہوا کہ آج کل کے دور میں چوکیدار اور اتنی رش تو دوائی والا بولا جناب میں بھی حیران تھا آپ کی طرح لیکن جب پتہ لگا تو حیرت میں اضافہ ہوا کہ یہ چوکیدار 40 لوگوں کے گھر کا چولہا جلاتا تھا بس میرے پاس اب تک الفاظ نہیں ہیں کہ اسکی کیا تنخوا ہوگی اور کیسے پورا کرتا ہوگا یار 40 لوگ ؟ 

اسی طرح میں نے پاکستان کی ایک کمپنی کے ملازم کا واقعہ سنا اپنے کزن سے کہ کسی کمپنی میں ایک ملازم کام کرتا تھا تو حج کی قراندازی میں اسکا نام نکل آیا سننے میں آتا ہے کہ بد عمل تھا نماز وغیرہ نہیں پڑھتا تھا جب آذان ہوتی تھی تو غائب ہوجاتا تھا، ملازم نے پیسے لے لیے لیکن حج پر نہیں گیا دوبارہ جب کچھ عرصے بعد قراندازی ہوئی پھر اسی ملازم کا نام نکل آیا دوبارہ نہیں گیا اور پیسے وصول کرلیے تیسری بار کہتے ہیں پھر قراندازی ہوئی اسی ملازم کا نام نکل آیا اسکے باس وغیرہ حیران ہوگئے اور کہا یہ کیا وجہ ہے 3 بار اسی کا نام آرہا ہے، 

میٹینگ کی اس ملازم سے گزارش کی کہ اللہ کی مانو اور چلے جاؤ تمہارا بلاوا ہے بہت منتیں کرنے کے بعد ملازم نے کہا مجھے میرے سال کی تنخوا دیدو میں چلا جاتا ہوں کہتے ہیں باس لوگ خوش ہوۓ کہ یہ وہاں جاۓ گا تو اوروں کا نصیب ہوگا کہتے ہیں وہ ملازم وہاں گیا اور مکہ میں نماز کے دوران سجدہ کرتے ہوۓ اللہ کو پیارا ہوگیا ، 

جب خبر اسکے مالکان کو پہنچی وہ حیران ہوۓ کہ اتنی اعلی موت وہ بھی ایسے شخص کی جو عبادات دین سے بہت دور تھا اس کے مالکان اس کی بیوی کے پاس پہنچ گئے اور اس سے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ زندگی گزاری ہے لیکن اس میں کوئی نیک عمل ہمیں نظر نہیں آیا بتاؤ یہ کیا وجہ ہے کہ اتنی مبارک موت اسکو نصیب ہوئی کہتے ہیں بیوی چھپاتی رہی ، 

لیکن بہت اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اور تو کسی عمل کا نہیں پتا لیکن ساتھ گلی میں ایک مکان ہے وہاں ایک بیوہ عورت رہتی ہے اس کے دو چھوٹے بچے ہیں اس عورت پر علاقے والوں کی نظریں ہیں اور میرے خاوند نے کہا یہ آج کے بعد میری بہن ہے اس کو کوئی بھی نہیں دیکھے گا اور اس کو جو تنخواہ ملتی ہے اس تنخواہ میں سے اس کی اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرتا تھا اور حج کے پیسوں سے ان کے قرضے ختم کرتا تھا رب تعالی نے اپنے پاس بلا کر موت دی یہ سنتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، 

اور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ایک فرمان یاد آگیا کہ رب کو پانے کے لیے 50 کلومیٹر 100 کلومیٹر 500 کلو میٹر  والے راستے بھی ہیں لیکن ایک راستہ زیرو کلومیٹر کا ہے اور وہ ہے

 "اللہ کی مخلوق کو کھانا  کھلانا " 

چار علم


حاتم_طائی_نے_کہا_تھا، "
میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چٹکارا پالیا…!!" کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں_ _ ؟ حاتم_طائی نے جواب دیا_ _ _ !! _
 پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھاہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے، نہ کم_ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا _ 
دوسرا یہ کہ اللہ کا دیا ہوا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر  سکتا _ اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا_ _ 
تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈونڈھ رہی ہے میری موت_ میں اس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا_ _ 
چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باخبر رہتا ہے_ چنانچه میں نے اس سے شرم رکھی اور برے کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ 
یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشغل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنالیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اور مطمئن ہو جائیگی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔