جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرا مقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ نہیں، ذمہ داری معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے، جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے" (صحیح مسلم)۔ اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے، ازروئے الفاظِ قرآنی: "بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے" (القیٰمۃ)۔ ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتاً خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبویؐ میں کھینچا گیا ہے: "دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو" (صحیح بخاری)۔ پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے، جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویہئ نگاہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے، لہٰذا ایک معین مدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں اس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
بحوالہ بیان القرآن