Saturday, October 24, 2020

چار علم

حاتم_طائی_نے_کہا_تھا، "
میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چٹکارا پالیا…!!" کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں_ _ ؟ حاتم_طائی نے جواب دیا_ _ _ !! _
 پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھاہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے، نہ کم_ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا _ 
دوسرا یہ کہ اللہ کا دیا ہوا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر  سکتا _ اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا_ _ 
تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈونڈھ رہی ہے میری موت_ میں اس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا_ _ 
چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باحبر رہتا ہے_ چنانچه میں نے اس سے شرم رکھی اور برے  کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ 
یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشغل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنالیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اور مطمئن ہو جائیگی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔

بیگ کی تلاشی

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھا کہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔

ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔

کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔کیا بات ہے؟" مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔۔

کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔

ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔۔ نہیں مس میں چور نہیں ہوں

"چور۔۔۔نہیں ہو تو پھر بیگ کی تلاشی لینے دو" "نہیں" ۔۔

کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا "نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی" ۔۔۔

ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی ۔

ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ۔۔۔

رک جاو ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔

انہوں نے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔۔۔

پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔

انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا "تم نے پیسے چرائے؟۔""نہیں" اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔ 

کوثر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے "بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔"

پرنسپل متانت سے بولیں "جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟" 

کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔

ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔

اس میں کیا راز ہے ؟ وہ سوچنے لگی۔۔

اور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔۔۔

پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر استفسار کیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔۔۔

مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ 

طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ کوثر کی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر، سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔

سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ۔۔ 

وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔۔۔۔

کوثر نے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔۔۔

دیگر 3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والد صاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔

میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔

پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔
جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں.

خدارا اپنے اردگرد ایسے سفید پوش لوگوں کا خیال رکھا کریں..... یہ اپنی عزت کو غربت پر ترجیح دیتے ہیں ایسے لوگوں کی عزت کا خیال رکھیں اللہ آپکی عزت کا خیال رکھے گا۔۔۔

گناہ سے توبہ

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے،  اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ 
بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھی۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو، دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔ 
تو بادشاہ نے  فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟ 
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اس گناہ کو بار بار کرتے ہیں

زکوٰۃ

ھم "تربوز" خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟..
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت  تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکے یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے "زکوۃ" فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک.. اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ

Friday, October 23, 2020

جو چاہئے سو مانگیے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،
وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی، وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے، مسافر سمجھ کر خدمت کی، بادشاہ بہت خوش ہوا، جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہو کہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا،
 کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ، تو وہ دیہاتی بڑے میاں محل کے دروازے پر پہنچے، کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی، کہنے لگا نہیں مل سکتے، مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہو اُسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے، چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا، اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے، پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے تھوڑی دورچلاگیا،
 جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراً لے کر آو وہ ہمارا محسن ہے، واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ، تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔*
*یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہو یا چھوٹی ٬اس کا سوال صرف اللہ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔

مہمانداری اور ظرف

عرب کے لوگ قافلوں اور مسافروں کو لوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے اور راہ گزرتے لوگوں کو لوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ...

انہی وقتوں کی بات ہے ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُنکی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل یہ قافلہ اُن کے قریب پہنچا، اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا اور تمام سامان لوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے ...

غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی ...

میرے پیارو! اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا انتظام کرنے لگیں اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا، اِس لیے آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی، 
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گُھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسے قسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گُھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا ...

یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ :
" ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی ...؟ "

قافلہ سالار نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ :
" جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں ... "

جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے ہوئے ایک ڈاکو قافلہ سالار سے بولا :
" یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں ...؟ "

قافلہ سالار نے مسکراتے ہوئے کہا :
" برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا ... "

قافلہ سالار کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے :
#تو_پھر_سب_کچھ_جاننے_کے_بعد_بھی_آپ_نے_ہمارے_ساتھ_اتنا_اچھا_سلوک_کیوں_کیا ...؟ "

قافلہ سالار بولا :
" یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپ کے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، اللہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا ... "

عیب اور انکار

#لڑکی_دیکھنے_کے_بعد_ریجیکٹ_نہ_کیجئے

میں ڈاکٹر فاطمہ ہوں کل میں ڈیوٹی پر معمور تھی کہ ایک خودکشی کا ایمر جنسی کیس آ گیا خود کشی کرنے والی لڑکی کا نام منتہیٰ تھا اور میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور گزری زندگی میں پہلی بار اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی ۔۔۔۔
مریضہ حالت بیہوشی میں تھی اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے اسکے والدین تھے والدین بھی ماشاءاللہ بہترین پرسنیلٹی کے مالک تھے مگر اس وقت بیٹی کے عمل نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا رکھا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی پر پیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بے انتہا کا ترس آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لایا گیا آپریٹ کے بعد اس کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور والدین کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے لڑکی کی خیریت کا پتہ چلتے لڑکی کا والد غرباء میں کچھ تقسیم کرنے کے لئیے نکل گیا تو لڑکی کی ماں کو میں نے اپنے آفس میں بلوا لیا ۔۔۔۔۔ 
مختصراً لڑکی کی ماں نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی 

لڑکی کا نام منتہیٰ ہے اور منتہیٰ نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کر رکھی ہے پڑھائی کے بعد تمام والدین کی طرح منتہیٰ کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے اس لئیے انہوں نے منتہیٰ سے اس کی پسند کے متعلق پوچھا تو منتہیٰ نے مشرقی لڑکیوں کی طرح فیصلے کا اختیار ماں باپ کو دے دیا والدین نے منتہیٰ کو کے رشتے کی بات چلائی تو منتہیٰ کو دیکھنے ایک فیملی آئی لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں منتہیٰ کے کمرے میں آئیں کسی نے منتہیٰ سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی کسی نے بولنے اور کسی نے منتہیٰ کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد اجازت لے کر چلے گئیے اور چند دن بعد بنا کوئی بات بتائے رشتے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کے لئیے پہلی بار تھی جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے منتہیٰ کو حوصلہ دیا اور ایک بار پھر منتہیٰ کو دیکھنے کے لئیے فیملی آئی ۔۔۔۔ 
انہوں نے بھی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد منتہیٰ کے ہاتھ سے۔ چائے پینے کی فرمائش کی اور چائے کے بعد اجازت چاہی تین دن انتظار میں رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔ 

اس انکار پر منتہیٰ کے ساتھ ساتھ اس مے والدین بھی اندر ٹوٹ پھوٹ گئیے مگر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر رہے پھر ایک نئی فیملی آئی ۔۔۔ 
اس فیملی کی خواتین کے بیٹھتے ہی منتہیٰ نے ان کے جوتے تک اپنے ہاتھوں سے اتارے وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلوائے  اور پھر چائے پیش کی ۔۔۔۔ 

اس فیملی نے ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ہے ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آئے مہمان کی اتنی خدمت کہاں کرتا ہے 

پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد لوگ رشتے دیکھنے آئے مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر چلے گئے  کل ایک فیملی آئی انہوں نے لڑکی کو باقی ہر لحاظ سے ٹھیک قرار دیا مگر یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ منتہیٰ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک اڑتالیس سالہ بیٹا جس کی اپنی دوکان ہے اس کے لئیے منتہیٰ قبول کر لیتے ہیں  ۔۔۔۔۔ 

اتنا کہتے ہوئے منتہیٰ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی اور کہا آپ بھی تو ماں ہیں سوچیں ماں جتنی بھی مجبور ہو غیروں کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہے ؟

اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی رہی ہے کہتی رہی ہے ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ماں اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ وہ کہتی تھی میرا منحوس سایا میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا  ۔۔۔۔۔ 

میں (ڈاکٹر)  نے منتہیٰ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے میں اس کا والد اور پیچھے وارڈ بوائے داخل ہوا آ کر بتایا کہ منتہیٰ ہوش میں آ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کی ماں بجلی کی تیزی سے وارڈ میں پہنچی منتہیٰ کا سر اٹھا کر سینے لگا کر میں(ڈاکٹر) اور اور منتہیٰ کا والد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے منتہیٰ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگی اور سسکتے ہوئے کہا پاپا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں پاپا آپ نے کیوں بچایا مجھے ؟
مجھے مرنے دیتے میرا منحوس سایا اس گھر سے نکلے گا تو گڑیا کی شادی ہو گی نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑھی پڑھی بوڑھی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ 

منتہیٰ کا باپ چپ چاپ آنسو بہا رہا تھا جب میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو منتہیٰ کو سکون اور انجیکشن دے دیا اور منتہیٰ کے والدین کو لے کر آفس  میں آگئی میں نے منتہیٰ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لئیے مانگ لیا اور منتہیٰ کے والدین کی آنکھیں اچانک برسنے لگیں مگر اس بار آنسو خوشی کے تھے ۔۔۔۔ ۔

میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ قبول کر چکے ہیں ۔۔۔۔

آخر میں آپ لوگوں سے التجا کرتی ہوں آپ شادی عورت سے کر رہے ہوتے ہیں حور سے نہیں خدارا کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی رکھ کر سوچیں میں ڈاکٹر ہونے کی حثیت سے کہتی ہوں اگر عیب کی بنا ریجیکٹ کرنا ہو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہوں مجھ سے دنیا کے کسی بھی فورم پر کوئی بھی بندہ بحث کر لے میں ثابت کر دوں گی مرد میں عیب عورت سے زیادہ ہیں میں ہاتھ جوڑ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر التجا کرتی کسی کو بلا وجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ اللہ کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالیں اللہ آپ کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا  ۔۔۔۔ 
آپ کے نکالے عیب اور انکار لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں 

ٹرینڈ آف سٹیٹس

گریجوایشن کے بعد یو دوران تعلیم ایک اور مسلہ جو خاص طور پر خواتین کو پیش آتا ہے وہ "سٹیٹس" کا۔ہماری بہت ساری طالبات دوران تعلیم ہی "ٹرینڈ آف سٹیٹس" کی دوڑ میں سینکڑوں پریشانیاں مول لےلیتی ہیں اور گریجوایشن کے فوری بعد ہی دھڑام سے گرتی ہیں۔آج کی تحریر میں میرا مرکزی نقطہ طالبات یا گریجوایشن کے بعد"گرلز" کی طرف ہے۔تاہم اس میں لڑکوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
ٹرینڈ آف سٹیٹس کا مطلب ہے وہ ظاہر کرنا یا بتانا جو آپ حقیقت میں نہیں ہوتے یونیورسٹی میں یہ سب چلتا ہے اور بہت سارے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں مثلاً یونیورسٹی میں ہماری ایک دوست تھیں جو ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایسا پیش کرتی تھیں کہ
 "شی بیلانگز ٹو اے ہائ پروفائل فیملی"
پوری ڈگری میں بجائے لیکچر تیار کرنے کے اس کو یہی فکر ہوتی تھی تو کہ آج کون سی ڈریسنگ کرکے اپنی ساتھی فیلوز کو جلانا ہے مگر جیسے ہی ڈگری مکمل ہوئ تو ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ سٹیٹس کی جس دوڑ کا وہ یونیورسٹی میں شکار ہوئ اب وہ اس کے گلے پڑ گیا ہے اور اسے عادت سی ہوگئ ہے چونکہ دوران سٹڈی تو خرچہ گھر سے آتا ہے تو فکر نہیں ہوتی 5 یا دس ہزار اوپر نیچے کرکے کام چلایا جاسکتا ہے مگر ڈگری کے بعد پیسے بند ہوجاتے ہیں اور جاب بھی نہیں ہوتی اس بنا پر اب وہ ہماری دوست مینٹل ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے اور مجھے یہ کہانی سن کر رحم اور افسوس دونوں ہوئے۔
ہمارے نوجوان بھی تقریباً سارے تو نہیں تاہم ایسے ہی بہت سارے ہیں جو اسی کشمکش کا شکار ہوکر کئ پریشانیاں مول لے لیتے ہیں۔
ایک سے ایک بڑھ کے ایک پریشانی جب آپ کو محض 24 سال کی عمر میں لگے گی تو اگلے 20 سال جو مستقبل کی پلاننگز کے ہیں اس میں تو ہمارا زہن باکل ماوف ہوچکا ہوگا وہ سال جس میں آپ نے جاب ڈھونڈنی ہے پھر گھر بسانے کے لیے پلاننگز کرنی ہیں شادی کرنی ہے تو یہ سب چل نہیں سکتا جب کچی عمر میں ہی دوران تعلیم جہاں اتنی پریشانیاں ہوں وہاں فضول پریشانیاں پالنے کی بجائے تھوڑے کو حاصل کرکے شکر ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
بدقسمتی یہ ہے دوران لیکچر بھی ہم ایسی نصیحتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں اور باہر کنٹین پر جب نوجوان یا لڑکیاں مل کر بیٹھی ہوں تو وہاں بھی ایسی باتوں کا کلچر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ تحریر محض تحریر نہیں بلکہ چند الفاظ میں شئیر کردہ وہ تجربات اور آنکھوں دیکھے حال ہیں۔
جھوٹ موٹ کا سٹیٹس درد سر بنتا ہے۔دوران تعلیم جب یونیورسٹی میں ہوں تو وہاں اگر سیکھنے کو بڑھایا جائے چاہے وہ خود اعتمادی ہو، گرومنگ ہو،  مستقبل کی پلاننگز ہو مگر یہاں میں گریڈز کی بات نہیں کروں گا کیونکہ گریڈز کا ٹرینڈ بھی سب سے خطرناک ٹرینڈ ہے۔
شکر اور صبر وہ سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی گرنے نہیں دیتی جس کے دیر پا اثرات ہوتے ہیں ٹرینڈ آف سٹیٹس میں زہنی سکون نہیں کیونکہ ہر اگلے دن اس ٹرینڈ کو جاری رکھنے کے لیے رات کو منصوبہ بندی کرکے سونا پڑتا ہے۔
آپ جینز میں ہوں یا سادہ شلوار قمیض میں کبھی مایوس مت ہوں اور سفر کو خوبصورتی سے جاری رکھیں سادگی وہ گُر ہے جس کو کوئ گرہن نہیں ہاں جب اللہ توفیق دے اور آپ بہترین جگہ پر پہنچ جائیں ضرورت کے مطابق خوب سے خوب پہنیے، زیب تن کیجیے کیونکہ وہ آپ کا حق ہے آپ کی پروفیشنل زندگی ہے
جو ملتا ہے اس کو خوشی سے قبول کیجیے جتنی خوشی محسوس کریں گے اتنے ہی اندر سے پرسکون ہونگے جتنے اندر سے پرسکون ہونگے اتنا ہی تیزی سے سیکھیں گے اور بہت جلدی منزل تک پہنچیں گے ان شاءاللہ

رشتے جب بار بار تکلیف دیں

سوال:  دل سے بندھے رشتے جب بار بار تکلیف دیں تو ان کو ہر بار کیسے معاف کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
فرض کریں کہ آپ کا گھر دو کمروں کا ہے جہاں پر آپ کے ساس سسر نے بھی رہنا ہے ،آپ دونوں میاں بیوی اور بچوں نے بھی رہنا ہے۔آپ تنگی سے زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی سب سے پہلی کوشش ہو گی کہ بڑا گھر لے لیا جائے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب ہمارے دل چھوٹاہو نے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو دل کو بڑا کر لیں ،یہ بڑا سادہ سا جواب ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے امام اعظم حضرت محمد وﷺنے کبھی کسی کی زیادتی یا ظلم کا بدلہ نہیں لیا توہمیں بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے ۔تقلید کا مطلب ہے کہ ایک انسان گیلی زمین پر پاؤں رکھتے ہو ئے خشک قطعہ پر پہنچ جائے تو گیلی زمین پر اس کے قدموں کے نشان پر اپنا پاوں رکھتے ہو ئے آپ بھی وہاں پہنچ جائیں گی ۔اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی زرعی زمین سے بہت اچھی فصل لینا چاہتے ہیں تو زمین پر بہت گہرا ہل چلاتے ہیں ،اس کے بعد بیج ڈالتے ہیں ۔زمین کو گہرائی سے پھاڑتے ہیں بہ ا لفاظ دیگر زمین کو زخمی کرتے ہیں ۔یہ بات سمجھ لیں کہ دِل جب خلق خدا کی باتوں سے زخمی ہو تا ہے تووہاں گھاؤ لگتے ہیں۔رب کے قریب وہی آدمی ہوتا ہے جس کے دل میں گھاؤ زیادہ لگے ہو تے ہیں ۔جتنے بھی ولی اللہ گزرے ہیں کیوں کہ ان کی بیویاں بہت تند خو اور سخت مزاج تھیں تو ان کے دل پر گھاؤ لگتے رہے ،وہ صبر کرتے رہے تو اللہ پاک نے انہیں انعام دیااور اسی لیے وہ اللہ کے قریب ہو گئے۔جب بھی کو ئی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو بس مسکرائیے۔آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ کچھ عرصے میں آپ کے مرید ہو جا ئیں گے ۔

معاشرے میں بہتری کیسے

مچھلی پانی میں پیدا ہوتی ہے اسے کیا معلوم کہ یوں پانی میں رہنا ڈوب کر مرنے کا باعث ہے،
جنات آگ کے بنے ہیں انھیں کیا معلوم کہ آگ جسم کو جلا دیتی ہے،
کیڑے مکوڑے زیر زمین رہتے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں کہ زیر زمین مردے دفن کئے جاتے ہیں،
اسی طرح جب ہم برائی کے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں
تو ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اچھائی کی سفارشات کیا ہیں،
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب ٹی وی پہ کسی اشتہار میں کسی جراثیم کش صابن پر بھروسے کی بات کی جاتی تھی
تو مجھے بڑا عجیب لگتا تھا کہ بھروسا تو صرف اللہ پر ہوتا ہے کسی صابن پر کیونکر بے فکر بھروسا ممکن ہے،
لیکن آج کیونکہ پرورش ہی ٹیلیویژن کے سامنے ہوئی ہے
تو ایسا کوئی بیان محض ایک فقرہ محسوس ہوتا ہے،
آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ جب ابتدا میں ہم نے ڈرامے دیکھنا شروع کئے تھے
تب ہمیں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈرامے کے کئی مراحل پر ناگواری محسوس ہوتی تھی...
لیکن آج کسی صابن کے اشتہار میں
جب ایک خاتون کو نہاتے ہوئے جسم پر صابن لگاتے دکھایا جاتا ہے تو جنبش بھی پیدا نہیں ہوتی
کیونکہ مچھلی کی طرح پانی میں رہ رہ کے ہم یہ بھول چکے ہیں
کہ یوں پانی میں رہنا ڈوبنے کا باعث ہے،
آج فلمی انداز کے نیم برہنہ لباس جب ہم اپنی معصوم بچیوں کو پہناتے ہیں تو درحقیقت ہم اس ناری ماحول کی طرف انھیں لے کے جا رہے ہوتے ہیں جو جسم کو جلا دیتا ہے،
یونیورسٹی میں کسی لڑکی کے ساتھ مل بیٹھنا اب والدین کو بھی برا نہیں لگتا
کیونکہ ہم مینڈک کی طرح گرم پانی میں خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں،
تہذیب جو کسی مذہب اور خطے کا لباس ہوتی ہے اسے ہم تاریخ کی کتابوں میں بند کرتے جا رہے ہیں
ٹیلیویژن کی سکرین سے لے شادی بیاہ اور منگنی کی تقاریب تک ہم ایک جس ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں
یہ ماحول کل تک ہمارے آباؤ اجداد کے سامنے حد درجہ قابل نفرت تھا،
میرے عزیز ہم وطنو، اپنے آپ کو دیکھو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچاو کہیں ہم اس آگ کے تو نہیں بنتے جا رہے جو کل تک ہمیں جلاتی رہی تھی؟
شرم و حیا جو مسلمان کے لیے کئی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے کہیں ہم یہ ڈھال پھینک تو نہیں رہے؟
کہیں ہم وہ بیج تو نہیں بو رہے جس کی جڑیں کل کو ہماری عمارت ہی اکھاڑ پھینکیں گی.... ؟؟؟؟؟
اک چھوٹی سی کوشش اپنی آنکھیں کھولنے کی۔