Sunday, October 25, 2020

انسان اور اللّٰہ سے بندگی

سوال: انسان رب تعالی کے ساتھ بندگی کیسے قائم کر سکتا ہے ؟
سرفراز شاہ صاحب 
انسان لالچ ، ڈر یا پھر محبت کی وجوہات کی بنا پر حکم کی تعمیل کرتا ہے ۔وہ لوگ جو نوکر پیشہ ہیں وہ اس بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ فرض کریں جون کے مہینے میں آپ کا باس آفس ٹائمنگ ختم ہو نے سے ایک گھنٹہ پہلے ایسا کام دے دے جو کہ چار پانچ گھنٹوں میں ختم ہو گا تو آپ بہانے بنائیں گے کہ اس فائل سے متعلقہ فائل تو جس کے پاس تھی وہ تو جا چکا ہے یا اس طرح کوئی اور بہانہ ،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ میری ترقی باس کی سفارش پر ہو گی ۔آپ کے دِل میں اگر چہ یہ لالچ ہوگی لیکن آپ یہ کام اگلے دن پر ڈال دیں گے ۔اس کے بعد جب آپ گرمی سے نڈھال گھر پہنچیں گے تو چھوٹا بچہ ٹانگوں سے لپٹ کر کہے گا کہ اسے قریبی دوکان سے ٹافیاں لے دو۔تو میں گرمی کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے آپ اس کے ساتھ دوکان پر جاکر ٹافیاں لے دیں گے اور اس کی خوشی دیکھ کر آپ بھی خوش ہوجائیں گے۔
بچے کی فرمائش پوری کرنے میں بڑا کردار اس محبت کا ہے جو آپ کا ا س کے ساتھ ہے۔
میری گزارش ہے کہ رب تعالی کے ساتھ تعلق ڈر ،خوف یا لا لچ کا بنانے کی بجائے محبت اور عشق کا بنائیں ۔اس سے ہم اللہ کے احکام سے روگردانی نہیں کر پائیں گے ۔جب رب تعالی سے رشتہ جڑ جاتا ہے توا س کی تعمیل ہو تی چلی جاتی ہے ۔بندگی یہ نہیں کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں بلکہ اس کا چھوٹا سا چھوٹا حکم بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہو اور اس کی تعمیل ہو تی رہی یہ بندگی ہے ۔

مقبولیت اور شہرت کا کیڑا

مقبولیت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
شہرت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
آپ ہر دل عزیز ہیں، یہ کیڑا ذہن سے نکال دیں
آپ اہم ہیں۔۔۔ یہ کیڑا بھی ذہن سے نکال دیں
ناموری اور سماجی مقام و مرتبہ کے کیڑے چن چن کر ذہن سے نکال دیں۔

آپ جتنے بھی مشہور و مقبول، اہم یا ہردلعزیز ہیں، ۔۔۔۔۔۔ چند مہینے یا چند سال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو کر دیکھ لیجئے۔۔۔۔۔ آپ کے چودہ طبق ضرور روشن ہو جائیں گے۔ زمانے کا کارواں، رواں دواں ہے اور وہ آپ کے بغیر بھی رواں دواں رہے گا۔

آپ اہم نہیں، آپ کا کام اہم ہے۔ 

اہمیت اس علم کی ہے جو آپ نے دنیا کو دیا۔ 
اہمیت اس نقطہ نظر اور رائے کی ہے جس کے مثبت اثرات زمانے پر ثبت ہوئے۔ 
اہمیت اس رہنمائی کی ہے جو آپ نے کسی کو منزل تک پہنچانے میں کی۔ 
اہمیت اس کوشش کی ہے جو آپ نے عصرِ رواں کی تابناکی بڑھانے میں کی۔ 
اہمیت اس دِیئے کی ہے جو آپ نے جہالت کی تاریک راہوں میں روشن کیا۔ 
اہمیت ان الفاظ کی ہے جو آپ کے قلم سے نکل کر کسی کی زندگی کو جگمگا گئے۔

سو، جانے دیجئے اس بات کو کہ زمانہ آپ کو یاد رکھتا ہے یا نہیں۔ آپ کو سراہتا ہے یا نہیں۔ 

صرف اس عہد کو یاد رکھئے جو آپ نے اپنے قلم سے کِیا ہے کہ یہ اٹھے گا تو صرف سچائی کے لئے۔۔۔۔۔ یہ چلے گا تو اس لئے کہ زمانے کی اقدار کو بلند تر کرے اور نسلِ نو کے دلوں میں علم سے محبت کی شمع روشن کرے۔
ڈاکٹر یونس خان

اصل زندگی


دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف *"کرسڈا روڈریگز"* نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے جسمیں اس نے اصل زندگی اور موت کی حقیقت واضح کی ہے
1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔
2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔
3. بینک میں کافی رقم ہے۔ لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
 4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔
5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جا سکتی ہوں ۔ لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔
6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹو گراف دیے ۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹو گراف ہے۔
 7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔
8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
9. اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔
    یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔
    بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے اور موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

اہل اللّٰہ کی مجالس


جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.

ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو اسے وہ سامان
جو گٹھڑیوں میں بندھا پڑا تھا نظر آگیا . وہ ایک ہاتھ ہونے کے باعث ان کو اٹھا کر لے جانے سے قاصر تھا اور ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کسی کو اس سامان کو اٹھا لے جانے کیلئے مدد کیلئے لایا جائے کہ اسی اثنا میں حضرت جنید بغدادی ؒ نماز تہجد کیلئے نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائے.ڈاکو کی نظر آپ پر پڑی اور اس نے سمجھا کہ شاید یہ اس گھر کا کوئی نوکر ہے جو مالکوں کے بیدار ہونے سے قبل گھر کے کام کیلئے بیدار ہوا ہے.اس نے حضرت جنید بغدادیؒ کو نہایت سخت آواز میں اپنے پاس بلایا''ادھر آئو! اور یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے سر پر رکھو''حضرت جنید بغدادیؒ اس کی جانب بڑھے اور گٹھڑی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی. اس نے جب دیکھا کہ گھر کا ایک نوکر اس کے رعب میں آچکا ہے اور اس کے احکامات کی جوں کے توں تعمیل کر رہا ہے تو اس نے بجائے اپنے سر پر گٹھڑیاٹھوانے کے حضرت جنید بغدادیؒ کے سر پر گٹھڑی اٹھوانے کا ارادہ کیا اور انہیں اسی سخت لہجے میں حکم دیا کہ ''میرے سر پر یہ گٹھڑی نہ رکھو بلکہ اپنے سر پررکھو''. حضرت جنید بغدادیؒ آمادہ ہو گئے ، اس نے اپنے ایک ہاتھ سے گٹھڑی آپؒ کے سر پر رکھنے میں مدد کی ، جب آپؒ نے گٹھڑی سر پر اٹھا لی تو اس نے حکم دیا کہ'' جلدی کرو اور میرے ساتھ چلو ،فجر ہونیوالی ہےاور سورج کی روشنی ہو جائے گی اس سے پہلے پہلے تم نے یہ گٹھڑی میری مطلوبہ جگہ تک چھوڑ کر آنی ہے اور اگر تم نے دیر کی تو میں ڈنڈے سے تمہاری مرمت کروں گا''.
حضرت جنید بغدادیؒ اپنا مال اپنے سر پر رکھ کر اس کے گھر کی جانب چل پڑے.حضرت جنید بغدادیؒ راستے میں تھک گئے ، وزن زیادہ ہونے کے باعث آپ کا سانس بھی پھول چکا تھا،آپ کی رفتار آہستہ ہو جاتی جس پر وہ بدنام زمانہ ڈاکو آپ کو ڈنڈے سے مارنے لگ جاتا یہاں تک حضرت جنید بغدادیؒ وہ گٹھڑی سر پر اٹھائے اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں اور گھر واپس آجاتے ہیں.بدنام زمانہ ڈاکو نے ایک دن گزارا، وہ رات کو نہایت اطمینان سے سویا اور اگلی صبح اٹھا . اسے خیال آیا کہ جس گھر میں میں نے گزشتہ روز چوری کی واردات کی ہےاور سامان سرکا اسی گھر کے نوکر کے ذریعے یہاں تک لایا ہوں کہیں وہ میرا راز فاش نہ کردے، مجھے اس سے متعلق خبر رکھنی چاہئے اور چل کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہاں لوگ جمع ہیں یا نہیں اگر تو جمع ہوئے تو یقیناََ اس نوکر نے میرا راز فاش کر دیا ہو گا اور وہ تفتیش کر رہے ہونگے اور اگر وہاں خاموشی ہوئی تو یقیناََ نوکر نے میرے متعلق کسی کو ڈر کے مارے نہیں بتایا ہو گاچنانچہ وہ آپؒ کے گھر کی جانب چل پڑا . وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ لوگ آرہے ہیں اور گھر میں قطار در قطار داخل ہو رہے ہیں.گھر میں داخل ہونے والے افراد حلئے سے نہایت پرہیز گار اور متقی لگ رہے تھے. وہ بڑا حیران ہوا اس نے کسی سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں.اسے بتایا گیا کہ کیا جانتے نہیں کہ یہ گھر ایک بہت بڑے شیخ ، پیر کامل کا ہے.
اس نے استفسار کیا کہ کیا میں ان کو دیکھ سکتا ہے. بتایا گیا کہ ہاں دیکھ سکتے ہو، معلومات دینے والے نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گھر میں داخل ہو گیا. اس دوران ڈاکو نے اپنا کٹا ہواہاتھ چھپا لیا کہ کہیں گھر کا نوکر اسے پہچان نہ لے. گھر میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ وہی نوکر جس سے اس نے گٹھڑی اٹھوائی اور گھر تک مارتا ہوا لے گیا تھا وہ مسندِ ارشاد پر تشریف فرما ہے.معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ حضرت جنید بغدادیؒ ہیں جو ولی کامل ہیں . اس کے دل کی دنیا بدل گئی، آپ کی مجلس میں گناہوں سے توبہ کی اور آپ سے بیعت ہوا. 
روایات میں آتا ہے کہ 
بغداد کا یہ بدنام زمانہ ڈاکو پھر ایسا ہوا کہ حضرت جنید بـغدادیؒ نے اسے اپنی خلافت عطا فرمائی. 

اللہ والوں کی مجلس کا اپنا ہی اثر ہے. کہاں بغداد کا مشہور چور اور ڈاکو اور کہاں جنید بغدادیؒ کا خلیفہ. 
یہ اللہ والوں کی محفل کا اثر تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی اور راہ راست اختیار کی۔"

*_(بحوالہ تذکرہ اولیاء)_*

Saturday, October 24, 2020

سخاوت کی بہترین مثال

بھائی صاحب! مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں..... مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔*
*انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔*
*غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔*
*یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔*
*وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔*
*اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔*
*غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
*اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
*جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے. رضی الله تعالیٰ عنہ

مال ودولت کی حقیقت

"مال ودولت کی حقیقت" اور تعلق مع القرآن۔۔۔

1۔ لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔ اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا، قبر بنوائی، اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گیا ، لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا لیکن لاش نہیں ملی تاکہ اسے اس قبر میں دفن کیا جائے، جو اس نے خود بنائی تھی۔

2۔ برطانیہ کا ایک بہت بڑا مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر" تھا۔ وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی۔ اس نے اپنے عظیم الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم وزر سے بھرا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہوا۔ دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔اس نے زور زور سے چیخ وپکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔ اس کی عادت یہ تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب رہتا تھا۔ جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔
وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی، اس نے اپنی انگلی کو زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا  "دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"
اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔

*یہ پیغام ہے، ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ* مال و دولت ہی ہر مشکل کاحل ہے اور دنیا کی ہرضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔

*دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب؟ ، کیسے؟ اور کہاں جانا ہے؟*
*انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے، گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر  لوٹتا ہے لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹنا نہیں  ہے۔*

*مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں، نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ سب کو جانا ہے۔*

*ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآنِ مجید سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا کوئی آدمی مرا ہے؟ اس نے کہا، ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔*

*قیدی اس لئے قرآنِ مجید مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔

* مریض ہسپتال میں اس لئے قرآنِ کریم مانگتا ہے تاکہ الله تعالیٰ اس کے مرض کو دور کرے۔

*  اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا ، کاش میں قرآنِ مجید پڑھتا تو آج میرا غمخوار ہوتا۔

اور آج نہ ہم قیدی ہیں، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تمنا کرے، بلکہ قرآنِ مجید آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، آنکھوں کے سامنے ہے، تو کیا ہم اس بات کا انتظار کریں کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآنِ مجید کو طلب کریں؟

اے الله قرآنِ مجید کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش، نفوس کا مددگار، قبر کا ساتھی اور روز محشر میں سفارشی بنا دیں۔ آمین۔ 🤲🏻

"قرآنِ مجید کی قدر کیجئے"

چار علم

حاتم_طائی_نے_کہا_تھا، "
میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چٹکارا پالیا…!!" کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں_ _ ؟ حاتم_طائی نے جواب دیا_ _ _ !! _
 پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھاہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے، نہ کم_ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا _ 
دوسرا یہ کہ اللہ کا دیا ہوا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر  سکتا _ اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا_ _ 
تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈونڈھ رہی ہے میری موت_ میں اس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا_ _ 
چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باحبر رہتا ہے_ چنانچه میں نے اس سے شرم رکھی اور برے  کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ 
یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشغل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنالیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اور مطمئن ہو جائیگی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔

بیگ کی تلاشی

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھا کہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔

ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔

کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔کیا بات ہے؟" مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔۔

کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔

ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔۔ نہیں مس میں چور نہیں ہوں

"چور۔۔۔نہیں ہو تو پھر بیگ کی تلاشی لینے دو" "نہیں" ۔۔

کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا "نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی" ۔۔۔

ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی ۔

ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کو مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ۔۔۔

رک جاو ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔

انہوں نے طالبہ اورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔۔۔

پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔

انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا "تم نے پیسے چرائے؟۔""نہیں" اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔ 

کوثر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے "بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔"

پرنسپل متانت سے بولیں "جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟" 

کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔

ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔

اس میں کیا راز ہے ؟ وہ سوچنے لگی۔۔

اور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔۔۔

پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر استفسار کیا اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔۔۔

مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ 

طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ کوثر کی ہچکیاں بندھ گئیں پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر، سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔

سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ۔۔ 

وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔۔۔۔

کوثر نے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔۔۔

دیگر 3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں والد صاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔

میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔

پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔
جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں.

خدارا اپنے اردگرد ایسے سفید پوش لوگوں کا خیال رکھا کریں..... یہ اپنی عزت کو غربت پر ترجیح دیتے ہیں ایسے لوگوں کی عزت کا خیال رکھیں اللہ آپکی عزت کا خیال رکھے گا۔۔۔

گناہ سے توبہ

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے،  اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ 
بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھی۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو، دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔ 
تو بادشاہ نے  فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں ہر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟ 
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اس گناہ کو بار بار کرتے ہیں

زکوٰۃ

ھم "تربوز" خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟..
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت  تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکے یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے "زکوۃ" فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک.. اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ