Sunday, December 20, 2020

کچھ ایسا کرجاؤ.....

"ڈاکٹر جی ...
کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ھیں،
اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر: میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

ساس: پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟

ڈاکٹر: آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی،
میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

سسر: وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔

ڈاکٹر: وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا،
اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔

شوہر: مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟_*

ڈاکٹر : یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟
ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاھیئے؟

سسر: میں سمجھا نہیں؟

ڈاکٹر: ساھیوال کی گایوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو worried ہونا چاھیئے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی،
تو زیادہ دودھ دینے والی گایوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاھیئے کہ اگر یہ بھی مر گئ کہ تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟

سسر: ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر : آپ کے پَر دادے کا کیا کیا نام ہے؟

سسر: وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔

ڈاکٹر: مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا،
آپ کے پر دادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا؟ اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔

ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ 
آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ھڈیوں کو کونسا سرور آئے گا؟
علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا،
آج بھی نصاب میں انکا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔
گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ھسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔
ایدھی صاحب مر گئے،
لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔
کچھ ایسا کر جاو کہ لوگ تمہارا نام لیں بے شک تمہاری نسلیں تمہں بھول جائیں۔
انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں۔ 

Saturday, December 19, 2020

زندگی کی ریل

جب ریل کسی سرنگ میں سے گزرتی ہے اور ایک دم سے اندھیرا ہو جاتا ہے تو آپ اپنی ٹکٹ کو پھینک کر ریل سے باہر کود نہیں جاتے کیونکہ آپ کو ریل کے ڈرائیور پر بھروسہ ہوتاہے۔


اسی طرح جب زندگی کی ریل دکھوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کے اندھیروں ںسے گزر رہی ہو تو زندگی کی ٹرین کو چلانے والے پر بھروسہ رکھو وہ ان اندھیروں سے ضرور نکال لے جائے گا۔

بس کبھی کبھی یہ سرنگ چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی کبھی بہت بڑی مگر یقین رکھو ہوتی یہ سرنگ ہی ہے جس کے دوسرے سرے پر روشنی اور اجالا ہی اجالا ہوتا ہے۔ بس ہمیں صرف اس سفر کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے۔

Thursday, December 17, 2020

مولوی صاحب اور ھوٹل

شہر کے بیچ میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے ریحان کا چائے کا ہوٹل ہے۔ اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔ اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ ہندی ، انگریزی ، چائنیز وغیرہ، رات دس بجے کے بعد والے شو بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔ ریحان کو فلموں کی کافی جانکاری ہے۔ ہارر ، رومانوی ، تاریخی ، آرٹ ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔
ریحان پانچ وقت کا نمازی بھی ہے۔ جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سونپ کر مسجد کا رخ کرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔ یوں ریحان کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔ مگر تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ ریحان ایک نیک اور نمازی پرہیزگار آدمی ہے۔
مسجد کے امام کا نام مولوی "حافظ عبدالسبحان" ہے۔
پچیس سال کا خوب رو باریش نوجوان ، تازہ تازہ درس نظامی کر کے آیا ہے اور مسجد میں بلا معاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔
نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق حجرے میں جا بیٹھتا ہے اور کتابوں میں کھو جاتا ہے۔ کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پینے کا من ھوا تو مولانا صاحب کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے ریحان بھائی کے ہوٹل سے چائے پی جائے ۔ مسجد کے صدر دروازے پر ھوٹل ھے۔ چنانچہ وہ حجرے کا کواڑ لگا کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔ تمام فلم بین جو پیشاب روکے ، آنکھیں پھاڑے فلم میں مست تھے ، مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں چونکے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو ۔ مولوی صاحب نے چائے کا کہا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگ گئے، تیسری آنکھ سے دیکھنے والے کو صاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مجرم فقط ایک ذات تھی یعنی "مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب"۔
چائے پینے کے بعد حجرے میں لوٹ آئے ۔ نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مصلے امامت تک تشریف لائے تو مقتدیوں کے چہرے یوں بدلے ہوئے تھے جیسے کوفہ والوں کے مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے ۔ اطراف میں بات پھیل چکی تھی کہ مولوی صاحب فلمیں بہت دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ مولوی صاحب کی چھٹی کروا دی گئی۔ 
عشاء کے وقت جب مولوی"حافظ عبدالسبحان" صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو ریحان بھائی کے ہوٹل میں بیٹھے چاچا شریف نے ریحان کو پکارتے ہوئے کہا :
"اچھا کیا مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب کی چھٹی کروا دی، ایسے مولویوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور ہم مسلمانوں کی عزت نہیں ہے ۔" ریحان نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سے سب دوبارہ فلم میں مگن ہو گئے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال، ریحان سارا دن فلمیں دیکھنے اور دکھانے والا نیک ہے اور مولوی صاحب پانچ منٹ چائے پینے گئے تو بہت بڑے گناہ گار ھوگئے۔۔۔۔۔۔
الله هم سب كو هدايت عطا فرمائے ... 
آمین ثم آمین یارب العالمین۔

Wednesday, December 16, 2020

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Tuesday, December 15, 2020

بہلـــــــول دانا

ایک دن آپ بادشاہ کے پاس گئے جو اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔ 
آپ نے پوچھا: '' سوچتے کیا ہو؟ '' 
اُس نے کہا : '' میں اس وقت دنیا کی بےوفائی پر غور کررہا ہوں کہ اس بےوفا نے کسی سے بھی نباہ نہ کیا۔''
آپ نے کہا : '' اگر دنیا وفادار ہوتی تو تم آج بادشاہ کیونکر بن سکتے۔ پس اس قصے کو جانے دو اور کچھ سوچو۔'' 

ایک دفعہ بارش کی کثرت سے اکثر قبروں میں ایسے شگاف پڑ گئے کہ مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نظر آنے لگیں۔ 
بہلول قبرستان میں چند کھوپڑیاں سامنے رکھے دیکھ رہے تھے کہ اتفاقاً بادشاہ کی سواری بھی آ نکلی۔ 
اس نے انہیں اس شغل میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔ '' بہلول ! کیا دیکھ رہے ہو؟ ''
آپ نے فرمایا : '' تمہارا اور میرا دونوں کا باپ مرچکا ہے۔ میں اب یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے باپ کی کھوپڑی کونسی ہے اور میرے باپ کی کونسی؟۔'' 
بادشاہ نے کہا : '' کیا مُردہ امیر و غریب اور شاہ و گدا کی ہڈیوں میں بھی کچھ فرق ہوا کرتا ہے کہ پہچان لوگے۔؟ '' 
بہلول دانا نے کہا '' پھر چار دن کی جھوٹی نمود پر بڑے لوگ مغرور ہوکر غریبوں کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟۔'' 
بادشاہ قائل ہوگیا اور اس دن سے حلیمی اختیار کرلی۔

ایک مرتبہ کسی نے کہا : '' بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔'' 
فرمایا : '' اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ اور ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں

مسکراتا چہرا

کسی بھی موقع پر گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں کیوں کہ گبھراہٹ یا دوسروں کہ پریشر سے ہمیشہ پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا ہے-
ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ کسی بھی سچوٸشن کا سامنا کریں -آپ ہنسیں گے تو دنیا آپکے ساتھ ہو گی-اگر آپ پریشان ہوں گے یا گبھراہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو اکیلے ہی نظر آٸیں گے-
ہر کوٸی آپکو اپنا ہی دشمن نظر آٸے گا-
اس لیے مطمٸن رہنا سیکھیں-مطمٸن اور پر سکون رہنے سے ہر کام میں بہت اچھا  رزلٹ آتا ہے
*اور گبھراہٹ سے بنا ہوا کام بھی خراب ہو جاتا ہے*
*اللہ سے دل کی باتیں کریں اور کسی ایسے سے جو اپکو مخلصانہ مشورہ دے

Monday, December 14, 2020

ہر لاعلاج مرض کا علاج

درود شریف سے ہر لاعلاج مرض کا علاج
ہر لمحہ دل میں کوئی چھوٹا سا درود شریف پڑھتے رہیں۔ آپ انشاءاللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں شامل رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے تفکرات کی کفایت کرے گا اور آپ کی تمام حاجات پوری کرے گا۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو ہر روز یا ہر شب مجھ پر درود بھیجا کرے۔ مجھ پراس کی شفاعت کرنا واجب ہوگی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود شریف پڑھتے رہا کرو۔ بیشک تمہارا درود شریف مجھ تک پہنچتا رہتا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ جو شخص فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھ پر ایک سو مرتبہ درود شریف پڑھے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی 100حاجات پوری کریگا۔ درود شریف دلوں کا نور ہے' گناہوں کا کفارہ ہے۔ زندہ اور مردوں دونوں کیلئے رحمت ہے۔ درود دعا بھی ہے اور دوا بھی۔ درود سوغات بھی ہے۔ درود اللہ اور ملائکہ کی سنت بھی اور قبولیت دعا کا سبب بھی۔ (ہر دعا کے اوّل و آخر درود شریف پڑھنا چاہیے)

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زیارت

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی 
زیارت صحابہ کرام رضوان اللّٰه عنہُم کے لیے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی
کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی

چہرۂ اقدس کے دِیدار کے بعد قلب و نظر میں اُترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک دِن رحمتِ عالم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ

آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا

دراصل ہُوا یوں تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا

اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟ 
اس وفا شعار پیکرِ عجز و نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کِیا

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! صرف آپ کی ملاقات،چہرۂ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں 

تھوڑی دیر بعد ہی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّٰه عنہُ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو گئے

نبئ رحمت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا
اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟ 

شمعِ رسالت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی پٹی کے بغیر عرض کی

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! بھوک کی وجہ سے حاضر ہُوا ہوں

( ترمذی،الجامع الصحیح،کتاب الزھد،باب فی معیشة أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم، ٥۸۳:٤،رقم:۲۳٦۹ )

شمائل ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث ( مفہوم ) کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہُ اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مِِٹانا چاہتے تھے،

جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السّلام کے حُسن سے اپنی بھوک کو مِٹا لیا کرتے تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا

مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کِیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر نُورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چُکا تھا

 کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ پر نُورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چُکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا

( شمائل الترمذی:۲۷،حاشیه:۳ )

چنانچہ ایسا ہی ہُوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جان نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی

( کتاب التوحید،جِلد ۲،صفحہ ٥٦٦ تا ٥٦۸ )

ایمان بخیر یارم🍁

صالح معاشرہ

صالح معاشرہ کیسے بنے _______؟؟؟؟

✾ کیسے بچہ نیک و صالح ہوگا جبکہ ماں کو کھانے پینے، گھر، بازار اور انٹرنیٹ سے ہی فرصت نہ ملتی ہو؟؟؟

✾ بچہ کیسے حافظ قرآن اور عالم باعمل بنے جبکہ اس کے والدین کو فیس بک پر گھنٹوں فضول چیٹنگ کرنے کی فرصت تو ہو لیکن بچہ کو آدھا گھنٹہ قرآن شریف کا ایک آدھا صفحہ یا ایک حدیث شریف یاد کروانے کے لئے ٹائم نہ ہو۔؟؟؟

✾ بچہ نیک کیسے بنے گا جبکہ اس کے والدین کو بچہ کو روز تھوڑی دیر بھی نیک لوگوں کے سبق آمیز واقعات سنانے کی فرصت نہیں پائیں؟؟؟

✾ بچہ میں قائدانہ صلاحیت اور قابلیت کیسے پیدا ہوگی جبکہ گھر کا سارا بجٹ میک اپ اور پرتعیش اشیاء میں خرچ ہوجاتا ہو، اور گھڑسواری، تیراندازی اور تیراکی سیکھنے کی گھر کے بجٹ میں کوئی گنجائش ہی نہ رکھی جائے؟؟؟

✾ بچہ میں دوراندیشی و بردباری جیسے جوہر کہاں سے پیدا ہونگے جبکہ اس کے روز وشب بےکار ویڈیو گیم اور واھیات کارٹون دیکھنے میں گزرتے ہوں؟؟؟

✾ کہاں سے بچہ حلیم الطبع اور سنجیدہ ہو جبکہ ماں باپ کے آپس کی لڑائی اور چینخ پکار سے دور دور تک ہمسائے لطف اندوز ہوتے ہوں؟؟؟

✾ بچہ کہاں سے قابل اور خود اعتماد بنے گا جبکہ اسے سب بڑے دن رات ہر وقت گالیاں اور کوسنے دے دے کر ذلیل کرتے ہوں؟ 

✾ بچہ کہاں سے نیک بنے گا اور اس کے والدین دینی تعلیم، مجالس ذکر اور دینی احکام کے سیکھنے سکھانے سے بیزار ہوں؟؟؟

✾ بچہ کیسے نیک بنے گا جب باپ کو بچہ کی تعلیم دلانے اور ماں کی تربیت میں ھاتھ بٹانے کے فرصت نہ ہو۔

✾ بچہ کہاں سے نیک و صالح بنے گا جبکہ ماں باپ کا مقصد زندگی صرف ظاہری دکھاوہ اور شو شاہی ہو، اور ان کو دین، نماز اورقرآن سے کوئی سروکار نہ ہو؟؟؟

👈 یاد رکھیں!
ماں باپ کی صحیح تربیت میں ہی نسلوں کی درستگی ہے اور اسی میں ہے پوری امت کی بہتری اور فلاح۔

سوچئے کہاں سے بچہ آپ کے مرنے کے بعد دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے گا، جبکہ آپ نے اس کی صحیح تربیت ہی نہیں کی ہوگی۔

میں سب سے پہلے خود کو اور پھر اپنے بھائیوں کو نصیحت کررہا ہوں۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ۔۔

انعام رب کا

یہ اُلجھنیں ہیں انعام ربّ کا
جو سمجھو اِنکو پیّام ربّ کا
*یہ ہیں آ جاتی بنا بتاۓ___!!!* 
کدھر کو جائیں سمجھ نہ آۓ
*مگر اے پیارو نہ اس میں اُلجھو___!!!*
ذرا سا سوچو ذرا سا سمجھو
  *ابھی بھی ہے وقت ___!!!*
ہوش کر لو
*جو ہو چکا اس سے کچھ اَثر لو___!!!*
قرآن کھولو پیغام پڑھ لو
*جو رسّی چھوڑی اُسے پکڑ لو___!!!*
ناراض ہم سے ہمارا ربّ ہے
*اسے منانے کا وقت اب ہے___!!!*
اٹھو نہ سوچو اور توبہ کر لو
 *دیں پہ چلنے کا وعدہ کر لو___!!!*
رحیم ربّ ہے کریم ہے وہ 
*محبّ بھی ہے اور عظیم ہے وہ___!!!*
مایوس مت ہو اداس مت ہو
*اُمید رکھو بے آس مت ہو___!!!*
وہ مان لےگا یقین رکھو
*جُھکا کہ اپنی جبین رکھو___!!!*
وبائیں.دکھ اور غموں کے لمحے
*وہ ٹال دے گا سنبھال لے گا___!!!*
وہ ساتھ ہے وہی سن رہا ہے،،، وہ *سب بلاؤں  کو ٹال دے گا ہمیں وہ دکھ سے نکال لے گا___!!!