"ڈاکٹر جی ...
کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ھیں،
اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔
ڈاکٹر: میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔
ساس: پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟
ڈاکٹر: آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی،
میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔
سسر: وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔
ڈاکٹر: وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا،
اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔
شوہر: مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟_*
ڈاکٹر : یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟
ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاھیئے؟
سسر: میں سمجھا نہیں؟
ڈاکٹر: ساھیوال کی گایوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو worried ہونا چاھیئے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی،
تو زیادہ دودھ دینے والی گایوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاھیئے کہ اگر یہ بھی مر گئ کہ تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟
سسر: ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاھیئے۔
ڈاکٹر : آپ کے پَر دادے کا کیا کیا نام ہے؟
سسر: وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔
ڈاکٹر: مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا،
آپ کے پر دادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا؟ اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔
ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟
آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ھڈیوں کو کونسا سرور آئے گا؟
علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا،
آج بھی نصاب میں انکا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔
گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ھسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔
ایدھی صاحب مر گئے،
لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔
کچھ ایسا کر جاو کہ لوگ تمہارا نام لیں بے شک تمہاری نسلیں تمہں بھول جائیں۔
انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں۔