Sunday, December 27, 2020

کسی کیلئے ڈیسٹ بین نہ بنیں

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا،ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے،ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا 

مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟

ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لدھا گھوم رہے ہوتے ہیں،وہ غصہ،مایوسی ،ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے،وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈیسٹ بین اور کچرا دان کیوں بنیں؟

اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں.

Friday, December 25, 2020

ﺑﮯ ﻋﯿﺐ ﺗﺼﻮﯾﺮ

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ*،``` ﻣﮕﺮ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻠﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﮯ ﯾﮧ ﻋﯿﻮﺏ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺐ کہ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﻭ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔

ماں کی ممتا

ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﭽا ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺟﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮈﺍکیوﻣﻨﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭼﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ، ﯾﯿﻠﻮ ﺳﭩﻮﻥ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﭘﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﺑﮭﮍﮐﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ کچھ ﺍﮌﺍ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ، ﮨﺮ ﺷﮯ ﺭﺍکھ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ، کچھ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﭽﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﭨﯿﻢ ﺍﺩﮬﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺟﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺟﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﻣﻠﯽ۔

Thursday, December 24, 2020

بڑا آدمی.....

‏بڑا آدمی کیسے بنا جائے :

ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا
ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا
''دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے''
بچے کا اگلا سوال تھا
کیسے؟

زندگی کی دوڑ......

توجہ کیجئے گا.....
  ایک ٹویوٹا پراڈو کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛
-سرگوشی سنو گے  یا اینٹ سے بات سنو گے !

میاں، بیوی اور عزت نفس

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کرسکتا ہے؟

ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟

ریچھ کی موت

‛‛ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‛‛ 

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا شیر نے تین شکار کیے 
ایک ہرن کا 
ایک گائے اور 
ایک خرگوش ۔ 

شُکر الحمدللّٰہ

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ بہتر ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

نصیب سے ہار گئی

آج پہلی رات تھی بستر پہ پھول سجائے گئے تھے 
نبیلہ اور کامران کی شادی ہوئی تھی 
شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی 
نبیلہ بیڈ پہ بیٹھی تھی کمیرہ مین تصاویر بنا رہا تھا وہ کبھی دائیں سر کر رہی کبھی بائیں طرف 
سب لوگ نئے تھے ہر چہرہ اجنبی تھا 
کامران پاس بیٹھا تھا 

Wednesday, December 23, 2020

اصولِ عِشق اور مولانا رومؒ

وہ بازار سے گزر رہے تھے۔۔۔۔ مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی۔۔۔۔
ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جس چیز (جنس) کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھا۔۔۔ اور اس وقت تک وہ جنس تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی۔۔۔ اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھادھند جنس نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔۔۔