Saturday, January 16, 2021

محبت اور عادت


کچھ لوگوں نے مجھ سےکہا کہ،،، مجاہد ملک یہ بتایئے کہ لوگوں کی محبت کے دعوے کیوں مدھم پڑھ جاتے ہیں؟؟؟ ہر شخص کی داستان سننے کے بعد اندازہ لگایا کہ،،، ہر انسان کی محبت سچی ہے۔۔۔ کسی نے کہا محبت کو کیسے ماپا جائے،،، تو کسی نے کہا اس سے بے وفائی کردی۔۔۔

درحقیقت چاہے کوئی مرد ہے یا عورت،،، ہمیشہ مخالف جنس سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔۔۔ بات کرتے کرتے ہم اتنا Close ہو جاتے ہیں کہ،،، ہمیں اس شخص کی عادت پڑ جاتی ہے۔۔۔ اگر وہ بات نا کرے تو یوں لگتا ہے کہ،،، جیسے دنیا میں کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔۔۔ اس کے بغیر سانسیں رکنے لگتی ہیں۔۔۔ یہ سب محبت نہیں،،، اس کی عادت کہلاتی ہے۔۔۔ اور عادت وقت کے ساتھ ساتھ ہی جاتی ہے۔۔۔ جن کو لگتا ہے کہ محبت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے،،، تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔

1: اگر کوئی انسان آپ کی قدر کرے،،، آپ کو وقت دے،،، آپ کو سمجھائے،،، آپ کا بہتر سوچے،،، آپ کو درست مشورہ دے،،، آپ کو جھوٹے خواب نا دکھائے،،، حقیقت پسند ہو۔۔۔ وہ آپ سے سچی محبت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ محبت میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔ اور جو جھوٹ بولے وہ محبت نہیں کرسکتا۔۔۔

2: اگر کوئی شخص آپ کی بات چپ چاپ مان جاتا ہو،،، آپ روٹھ جائیں وہ منا لیتا ہو۔۔۔ آپ کا خیال رکھے،،، آپ تکلیف میں ہوں وہ چاہے آپ کے پاس نا ہو،،، لیکن آپ کا حال چال پوچھے۔۔۔ آپ کو پریشان دیکھ کر خود پریشان ہوجائے۔۔۔ تو وہ شخص آپ سے سچی محبت کرتا ہے۔۔۔

3: جو شخص آپ کی ہر خوشی میں خوش ہوجائے،،، آپ کا مسکراتا چہرا دیکھ کر وہ چہکے۔۔۔ اور آپ کو اداس دیکھ کر اس کی جان نکلنے لگ جائے۔۔۔ آپ روئیں تو اس کی آنکھیں نم ہوجائیں،،، تو سمجھ لیں اس کے دل میں آپ کے لیئے بےانتہا محبت ہے۔۔۔

4: جو شخص آپ میں وہ خوبیاں بتائے،،، جو آپ میں نا ہوں۔۔۔ خوابوں کی دنیا میں لے جائے،،، آپ کی تعریف کرتے نا تھکتا ہو۔۔۔ آپ سے ہر بات چھپائے،،، اور وہ سب کچھ آپ کو دوسروں سے پتا چلے۔۔۔ تو یاد رکھیں،،، وہ آپ سے محبت نہیں کرتا۔۔۔ جو بات بات پہ چھوڑ دینے کے بات کرتا ہو۔۔۔ یاد رکھیں وہ آپ کو ضرور چھوڑ دے گا۔۔۔ ایسے لوگوں سے بچیں۔۔۔

5: جو لوگ محبت کے نام پہ رشتے توڑتے ہیں،،، دلوں کو توڑتے ہیں،،، بے سکون کرتے ہیں،،، وہ لوگ محبت نہیں کرتے۔۔۔ کیونکہ محبت تو رشتوں کو جوڑتی ہے۔۔۔ جو شخص آپ کو اپنی ذات کی سچائی سونپ دے،،، تو یاد رکھیں وہ آپ پہ اعتبار کر رہا ہے۔۔۔ اور اعتبار کا دوسرا نام محبت ہی تو ہے۔۔۔
  
6: محبت میں شادی ضروری نہیں ہوتی،،، عزت ضروری ہوتی ہے۔۔۔ بعض لوگ شادی کو منزل سمجھ لیتے ہیں۔۔۔ اگر شادی ہی منزل ہوتی تو کبھی Love Marriage کے بعد طلاق نا ہوتی۔۔۔

سب سے اہم بات،،، دعا مانگنے کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ آپ کا محرم ہی ہو۔۔۔ بہت سی Females کہتی ہیں،،، مجاہد ملک ہم آپ کے لئے دعا گو رہتیں  ہیں۔۔۔ میرا حال احوال پوچھتی ہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میرا ان سے کوئی ریلیشن ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی ان کو مجھ سے محبت ہے۔۔۔ کیونکہ ایک احترام کا رشتہ بھی محبت ہی ہوتا ہے۔۔۔ کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی محبت ہے۔۔۔ کسی کی Care کرنا بھی محبت ہے۔۔۔ اس لیے محبت کیجئے۔۔۔ والدین بچوں سے کرتے ہیں وہ بھی تو محبت ہی ہے۔۔۔ محبت بانٹیں،،، دلوں کو سکون دیں۔۔۔ عادت کے نام پہ محبت کو بدنام نا کریں۔۔۔ کیونکہ کسی کی عزت کی خاطر دو قدم پیچھے ہٹ جانا،،، بدنام نا کرنا،،، یہ بھی محبت ہی ہے۔۔۔ جو کہتے ہیں کہ،،، محبت ایک بار ہوتی ہے۔۔۔ ان کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں،،، محبت بار بار ہوتی ہے۔۔۔  اس   لئے محبت بانٹیں۔۔۔ کیونکہ انسان کے برتن میں جو کچھ ہوتا ہے،،، وہی وہ بانٹتا ہے۔۔۔ آپ بھی محبتیں بانٹنے والے بن جائیں،،، بدلے میں آپ کو بھی بے شمار محبتیں ملیں گی۔۔۔!!!

Wednesday, January 13, 2021

خوفزدہ نہ ہوں

اگر آپکے حالات بگڑ جاۓ تو خوفزدہ نہ ہوں

ایک بحری جہاز میں کافی بوجھ تھا سفر کے دوران طوفان کی وجہ سے ہچکولے کھانے لگا جہاز ڈوبنے کے قریب تھا ، لہذا اس کے کپتان نے تجویز پیش کی کہ جہاز پر بوجھ ہلکا کرنے اور زندہ رہنے کے لئے کچھ سامان کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔
تو انہوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک سوداگر کا سارا سامان چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے بہت ہوگا ،
جس تاجر کا سامان پھینکا جانا تھا اس نے اعتراض کیا کہ کیوں اسکا ہی سارا سامان پھینکا جائے اور تجویز پیش کی کہ سارے تاجروں کے سامان میں سے تھوڑا تھوڑا پھینکا جائے تا کہ نقصان تمام لوگوں میں تقسیم ہو اور نہ صرف ایک شخص متاثر ہو۔
تب باقی سارے تاجروں نے اس کے خلاف بغاوت کی ، اور چونکہ وہ ایک نیا اور کمزور سوداگر تھا ، اس لئے انہوں نے اس کے سامان کے ساتھ اسے سمندر میں پھینک دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
لہروں نے سوداگر کے ساتھ لڑائی کی یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔
جب وہ بیدار ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ لہروں نے اسے کسی نامعلوم اور ویران جزیرے کے کنارے پھینک دیا ہے۔
سوداگر بہت مشکل سے اٹھا اور سانس لیا یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گیا اور خدا سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ وہ اسے اس تکلیف دہ صورتحال سے بچائے ..

کئی دن گزرے ، اس دوران تاجر نے درختوں کے پھل اور خرگوش کا شکار کر کے گزارا کیا
اور پانی قریبی ندی سے پیتا ... اور رات کی سردی اور دن کی گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے درخت کی لکڑی سے بنی ایک چھوٹی جھونپڑی میں سوتا۔
ایک دن ، جب تاجر اپنا کھانا بنا رہا تھا ، تیز آندھی چل رہی تھی اور اس کے ساتھ لکڑی کی جلتی ہوئی لاٹھی اٹھ جاتی ہے ، اور اس کی لاپرواہی میں اس کی جھونپڑی میں آگ لگ جاتی تھی ، لہذا اس نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔
لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ، کیوں کہ آگ نے پوری جھونپڑی کو اس کے ساتھ ہی بھسم کردیا
یہاں سوداگر چیخنے لگا:
"کیوں ، رب ..؟
مجھے غلط طریقے سے سمندر میں پھینک دیا گیا اور میرا سامان ضائع ہوگیا۔
اور اب تو یہ جھونپڑی بھی جو میرے گھر ہے جل گئی ہے
اور میرے پاس اس دنیا میں کچھ نہیں بچا ہے
اور میں اس جگہ پر اجنبی ہوں ..
یاﷲ یہ ساری آفتیں مجھ پر کیوں آتی ہیں ..

اور سوداگر غم سے بھوکا ہی رات کو سو گیا۔
لیکن صبح ایک "حیرت انگیز واقعہ"اس کا انتظار کر رہا تھا ... جب اسے جزیرے کے قریب پہنچنے والا ایک جہاز ملا اسے بچانے کے لئے ایک چھوٹی کشتی سے اتر رہا تھا ...
اور جب سوداگر جہاز پر سوار ہوا تو خوشی کی شدت سے یقین نہیں کر پا رہا تھا ، اور اس نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسے کیسے ڈھونڈا اور اس کا ٹھکانہ کیسے جانا؟
انہوں نے اس کا جواب دیا:
"ہم نے دھواں دیکھا ، لہذا ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص مدد کے لئے پکاررہا ہے ، لہذا ہم دیکھنے آئے"

اور جب اس نے اُن کو اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح اسے ناجائز طریقے سے سوداگروں کے جہاز سے پھینک دیا گیا
انہوں نے اسے بتایا "کہ سوداگروں کا جہاز منزل تک نہیں پہنچا
ڈاکوں نے اس پر چھاپہ مارا ، سب کو لوٹ لیا اور لوگوں کو مار ڈالا "۔
تو سوداگر روتے ہوئے سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے ، یاﷲ یاﷲ ، تمہارے سب کام اچھے ہیں۔
پاک ہے وہ رب " جس نے قتل سے بچایا اور اس کے لیے بھلائی کا انتخاب کیا"۔

اگر آپ کے حالات بگڑ جاتے ہیں تو خوفزدہ نہ ہوں ..
بس اتنا بھروسہ کریں کہ خدا ہر چیز میں حکمت رکھتا ہے
یہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا بہترین ...
اور جب آپ کی جھونپڑی جل جائے گی ...
جان لو کہ خدا آپ کے امور کا انتظام کر رہا ہے اور آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے.  جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا بہتر کرتا ہے
منقول

Monday, January 11, 2021

اسلام جیت گیا

کاندھلہ میں ایک مرتبہ ایک زمین کا ٹکڑا تھا اس پر جھگڑا چل رہا تھا، مسلمان کہتا تھا کہ یہ ہمارا ہے،ہندو کہتا تھا کہ یہ ہمارا ہے،چنانچہ یہ مقدمہ بن گیا۔انگریز کی عدالت میں پہنچا، جب مقدمہ آگے بڑھا تو مسلمان نے اعلان کر دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا  مجھے ملا تو میں مسجد بناؤں گا،ہندو نے جب یہ سُنا تو اس نے ضد میں کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بناؤں گا۔
اب بات دو انسانوں کی انفرادی تھی،لیکن اس میں رنگ اجتماعی بن گیا،حتیٰ کہ اِدھر مسلمان جمع ہو گئے اور اُدھر ہندو اکٹھے ہو گئے  اور مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا،اب سارے شہر میں قتل و غارت ہو سکتی تھی،خون خرابہ ہو سکتا تھا، تو لوگ بھی بڑے حیران تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟
۔جج انگریز تھا وہ بھی پریشان تھا کہ اس میں کوئی صلح صفائی کا پہلو نکالے،ایسا نہ ہو کہ یہ آگ اگر جل گئی تو اس کا بجھانا مشکل ہو جائے گا۔جج نے مقدمہ سننے کے بجائے ایک تجویز پیش کی کہ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکال لیں، تو ہندوؤں نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان کا نام تنہائی میں بتائیں گے،آپ اگلی پیشی پر اُن کو بُلا لیجئے اور ان سے پوچھ لیجئے،اگر وہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو ان کو دے دیجئے اور اگر وہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں ہندوؤں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔
جب جج نے دونوں فریقوں سے پوچھا تو دونوں اس پر راضی ہو گئے۔مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان ہو گا جو بھی ہوا تو وہ مسجد بنانے کے لیے بات کرے گا۔چنانچہ انگریز نے فیصلہ دے دیا اور  مہینہ یا چند دنوں کی تاریخ دے دی کہ اس دن آنا اور میں اس بڈھے کو بھی بلوا لوں گا۔اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منا رہے تھے، سب کود رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے۔ہندوؤں نے پوچھا اپنے لوگوں سے کہ تم نے کیا کہا،انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مسلمان عالم کو حکم بنا لیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہو گا، اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے۔لیکن انتظار میں تھے کہ اگلی پیشی میں کیا ہوتا ہے۔چنانچہ ہندوؤں نے مفتی _الہٰی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ_ کا نام بتایا کہ جو _شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ_ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ نے ان کو سچی سچی زندگی عطا فرمائی تھی،مسلمانوں نے دیکھا کہ مفتی صاحب تشریف لائے ہیں تو سوچنے لگے کہ مفتی صاحب تو مسجد کی ضرور بات کریں گے۔چنانچہ جب انگریز جج نے پوچھا کہ بتایئے، مفتی صاحب! یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟اُن کو چونکہ حقیقتِ حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندو کا ہے۔اب جب انہوں نے کہا کہ یہ ہندو کا ہے تو انگریز جج نے اگلی بات پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپرمندر   تعمیر کر سکتے ہیں؟ مفتی صاحب نے فرمایاجب ملکیت ان کی ہے تو جو چاہیں کریں،چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں۔یہ  اُن کا اختیار ہے۔چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندو کی ہے۔
مگر انگریز جج نے فیصلے میں ایک عجیب بات لکھی،فیصلہ کرنے کے بعد لکھا کہ
"آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا"۔جب انگریز  جج نے یہ بات کہی تو اس وقت ہندوؤں نے کہا کہ آپ نے تو فیصلہ دے دیا ہے ہماری بات بھی سن لیں ہم اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اور آج یہ اعلان کرتے ہیں اب ہم اپنے ہاتھوں سے یہاں مسجد بنائیں گے۔
عقل کہہ رہی تھی کہ جھوٹ  بولو کہ مسجد بنے گی۔حضرتِ مفتی صاحب نے سچ بولا اور سچ کا بول بالا ہوا،سچے پرودگار نے اس جگہ مسجد بنوا   کر دکھلا دی۔کئی مرتبہ نظر آتا ہے جھوٹ بولنا آسان راستہ ہے اور سچ بولنا آسان راستہ نہیں ہے،یہ کانٹوں بھرا راستہ ہوا کرتا ہے،جھوٹے سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتے ہیں،انسان نفرت کرتے ہیں، انسان اعتماد کھو بیٹھتا ہے، ایک جھوٹ کو نبھانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑھتے ہیں۔لہٰذا سچی زندگی کو آپ اختیار کیجئے،اس پر پرودگار آپ کی مدد فرمائے گا۔

Sunday, January 10, 2021

ایک اَچھا سبق

6 سال کا ایک بچہ اَپنی چار سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ بازار سے گُزر رہا تھا۔ 
چلتے چلتے جب اس نے مُڑ کر دیکھا تو اس کی بہن پیچھے رہ گئی تھی' وہ ایک کھلونوں کی دوکان کی کھڑکی سے اندر کسی چیز کو بڑے شوق و انہماک سے دیکھ رہی تھی' لڑکا اس کے قریب گیا اور پوچھنے لگا۔
کیا تُمھیں کوئی کھلونہ چاہیئے..؟ لڑکی نے سر ہلاتے ھوئے ایک کھلونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بہن کے ساتھ دوکان کے اندر گیا۔ اور ایک ذمہ دار بڑے بھائی کی طرح وہ گُڑیا اُٹھا کر اپنی بہن کے ہاتھ میں تھما دی۔ بہن کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں'
دوکاندار یہ سارا منظر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کہ اتنا چھوٹا سا بچہ کس قدر محبت اور ذمہ داری سے اپنی بہن کی  فرمائش پوری کر رہا ہے' وہ لڑکا دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
انکل... یہ گُڑیا کتنے کی ہے۔؟؟
دوکاندار ایک جہاندیدہ شخص تھا۔ اور زندگی کی اُتار چڑھاؤ دیکھ چکا تھا۔ اس نے بڑے شفقت سے پوچھا۔ تم اس کی کتنی قیمت دے سکتے ھو۔؟
لڑکے نے جیب سے وہ ساری سیپیاں نکالیں' جو اس نے ساحل سے چنیں تھیں اور دوکاندار کے سامنے میز پر رکھ دیئں'
دوکاندار ان سیپیوں کو ایسے گننے لگا۔ جیسے پیسے گن رہا ھو' اس نے لڑکے کے سمت نظر اُٹھاکر دیکھا تو لڑکے نے پریشان ھوکر پوچھا۔ کیا کم ہیں انکل..؟
نہیں نہیں یہ تو اس گُڑیا کی قیمت سے کہیں زیادہ ہیں' یہ کہہ کر دوکاندار نے چار سیپیاں رکھ لیں' اور باقی اس لڑکے کو واپس لوٹا دیں' لڑکے نے سیپیاں اپنے جیب میں ڈالیں' اور خوشی خوشی اپنی بہن کے ساتھ دوکان سے نکل گیا۔
دوکاندار کا ایک کاریگر بڑے غور سے یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ دوکاندار کے پاس آ کر کہنے لگا۔ یہ کیا کیا۔؟ اتنی قیمتی گُڑیا چار سیپیوں کے عوض اس بچے کو دے دی۔؟
دوکاندار کہنے لگا... یہ ہمارے لیئے سیپیاں ہیں لیکن اس لڑکے کے لیئے بہت قیمتی ہیں' اس عمر میں شائد اسے اندازہ نہیں' کہ پیسؤں کی اہمیت کیا ہے' لیکن جب یہ بڑا ھوگا۔ تو اسے بھی ہماری طرح سمجھ آجائے گی۔
اور جب اسے یاد آجائے گا کہ کبھی اس نےاَپنی بہن کے لیئے گُڑیا صرف چار سیپیاں دے کر خریدی تھی' تو وہ سمجھے گا۔ کہ دنیا ابھی اچھے انسانوں سے بھری پڑی ہے' 
اس سے اُسے ایک اَچھا سبق ملے گا۔ اور مُمکن ہے یہ واقع اسے بھی کسی کے ساتھ کچھ اَچھا کرنے کی ترغیب کا باعث بن جائے"

Friday, January 8, 2021

انفرادی رویہ اجتماعی تصور

 لندن کے ایک امام صاحب روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہوتے تھے۔ لندن میں لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔

   ایک مرتبہ یہ امام بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لے کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آ گئے ہیں۔

    پہلے امام صاحب نے سوچا کہ یہ 20 پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دینگے کیونکہ یہ اُنکا حق نہیں بنتے۔ 

       پھر ایک سوچ آئی کہ اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے، ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی ہے ان تھوڑے سے پیسوں سے اُنکی کمائی میں کیا فرق پڑے گا؟ میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ  کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔

   اسی کشمکش میں کہ واپس کروں یا نہ کروں، امام صاحب کا سٹاپ آ گیا، بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو 20 پنس واپس کرتے ہوئے کہا: 

       یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے، ڈرائیور نے 20 پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا!

      کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آکر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ 20 پنس میں نے جان بوجھ کر آپکو زیادہ دیئے تھے تاکہ آپکا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔

     امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترے، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنےکیلئے ایک بجلی کے پول کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔

یاد رکھئیے! 
     بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔ یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔ کوشش کریں کہ کہیں کوئی ہمارے شخصی اور انفرادی رویئے کو اسلام کی تصویر اور تمام مسلمانوں کی مثال نہ بنا لے، اگر ہم کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی کسی حرکت کی وجہ سے اسے اسلام سے متنفر بھی نہ کریں۔

  ہم مسلمانوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ سفید کپڑے پر لگا داغ دور سے نظرآجاتا ہے۔

رزق کے چار دروازے

 آج ایک الله والے کا بیان سن رہا تھا ان کے بیان میں ایک بات بہت اچھی لگی سوچا آپ لوگوں تک پہنچا دوں, آپ کو بھی اچھی لگے گی, وہ فرما رہے تھے کہ رزق کے چار دروازے ہیں۔ پہلے تین تو صرف مسلمانوں کے لیے ہیں اور چوتھا ساری دنیا کے لیے ہے یعنی مسلم، غیر مسلم ، بت پرست ، دہریے وغیرہ.

رزق حاصل کرنے کا سب سے پہلا دروازہ نماز ہے،
 جو شخص بھی نماز کا اہتمام کرتا ہے اللہ پاک اس کو برکت والا رزق عطا فرماتے ہیں، اہتمام یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے یا وقت ہوتے ہی اس کی تیاری میں لگ جانا اور وقت پر نماز ادا کرنا۔

رزق حاصل کرنے کا دوسرا دروازہ استغفار ہے،

 جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے غیب سے رزق عطا فرماتے ہیں کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے ہر غم سے نجات عطا فرماتے ہیں، ہر پریشانی میں راستہ دیتے ہیں اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں کہ جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ کثرت کا مطلب ہے کہ کم از کم تین سو مرتبہ، تو جو روزانہ تین سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کرے گا ان شاءاللہ اسے بہترین رزق ملے گا.

رزق حاصل کرنے کا تیسرا دروازہ تقویٰ ہے۔

تقویٰ کے معنی گناہوں سے بچنا ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان کے ذمہ ہر نیکی کرنا نہیں ہے لیکن ہر گناہ سے بچنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ جو ہر گناہ سے بچتا ہے وہ اللہ کے ہاں متقی کہلاتا ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر کام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس کام سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع تو نہیں فرمایا۔ اگر منع فرمایا ہے تو ہم رک جائیں تو جو تقویٰ اختیار کرے گا اللہ پاک اسے بغیر محنت کے رزق عطا فرمائیں گے۔ جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اپنے بندوں کو اسکی خدمت پر مامور فرما دیتے ہیں۔

رزق حاصل کرنے کا چوتھا دروازہ ذریعہ معاش اختیار کرنا ہے اور یہ دروازہ سب کے لیے ہے،

کوئی کافر ہو یا مسلم، بتوں کو پوجنے والا ہو یا آتش پرست، اگر وہ معاش کا کوئی ذریعہ اختیار کرے گا تو اللہ اسے رزق عطا فرمائیں گے۔
مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے پہلے تین دروازے بھلا دیئے اور آخری دروازے کو ہی لازمی سمجھ لیا۔ جبکہ ان تین دروازوں سے رزق حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ یہاں کوئی میری بات سے یہ مطلب نہ لے کہ ملازمت، کاروبار یا معاش کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اسے چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کام نہ کریں۔ کام ضرور کریں لیکن اگر ہم چوتھے دروازے کے ساتھ ساتھ پہلے تین دروازوں کو بھی استعمال کریں گے تو ہم تھوڑی محنت میں ہی زیادہ رزق ملے گا، ہماری مشقت کم ہوجائے گی، اور ہماری کمائی غیر ضروری جگہوں پر نہیں لگے گی اور ہمارا مال ضائع نہیں ہوگا گھر میں رکھی ہوئی مرغی کو آپ اس کی خوراک ایک جگہ برتن میں رکھ کر دے دیں تو وہ کم وقت اور کم مشقت میں اپنا پیٹ بھر لے گی اور کھانا ضائع بھی نہیں ہوگا اگر وہی خوراک آپ پورے صحن میں بکھیر دیں تو اسے وہی خوراک حاصل کرنے کے لیے وقت بھی زیادہ لگے گا اور مشقت بھی کرنی پڑیگی اور کھانا ضائع بھی ہوگا۔
۔
 اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کس دروازے کو اختیار کرتے ہیں ؟

منقول

خطرناک عورت

"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی"برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.ساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا.
"اللہ بخشے اسے،بہت اچھی عورت تھی."بنا ناراض ہوئے،بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
مسکراہٹیں سمٹیں،ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی.کیا نہیں؟"بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں،وہ عورت واقعی بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی"
"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے،عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟"نوجوان جوشیلے انداز میں بولا
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا،میں تو "اس" سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی"پرسکون جواب
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
"ایسی عورتوں کو تو...جہنم میں ہونا چاہیئے..لا حولا ولا قوہ..کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا"نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا،اب سب باری باری منتشر ہونے لگے.جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی.جو رہ گئے تھے،وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے

"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا،کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا،تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی"بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا،میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے.رشتہ ڈھونڈا گیا،ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی.سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع.مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی.مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں،تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے.وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟؟"لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی،رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "
"میری بیٹی سیدھی سادھی ہے،اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے' سائیں 'کو خوش رکھے گی"وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا.سلیقہ مند،سگھڑ اور تابعدار."بابا جی کی وہی گھسی پٹی بابوں والی داستان ہوگی، یہ سوچ کر دو نوجوان اٹھ کر چلے گئے.

"میری باہر دوستوں کے ساتھ صحبت کوئی اچھی نہیں تھی،ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا،دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی تھی کیا پیتی تھی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی.انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہاراگھر آیا تو کہنے لگی" آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں،مجھے بھوک لگتی ہے،ہوسکے تو ایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے،روز روز بازار سے خریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی."کیا؟؟اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے؟؟مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے؟اپنی اوقات دیکھی ہے؟"غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی،مار برداشت نہیں کرسکتی تھی.پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی.مجھے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا،ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا،یوں اس کی روٹی کا انتظام ہوگیا،اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا " دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں"میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا.جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟؟غصہ حد سے سوا تھا،بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے ماردوں،لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی،چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی.
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے،وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا،یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی.میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی،جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی،مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا"وہ میری شکایت کررہی تھی؟لیکن کس سے؟؟؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر ہاتھ میں سوئی دھاگہ اور فریم لئے خود سے باتیں کررہی تھی.وہاں کوئی بھی نہ تھا.میرے پیروں سے زمین نکل گئی.وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی.وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی.وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی؟آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی.کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی.میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے "حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا.میرے پلٹنے پر کہنے لگا" میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی،وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے"اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے،تیرا نائب تو خائن نکلا"اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا،اس ک سائیں بہت بڑا تھا،اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا.وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا.میں واقعی ڈر گیا تھا.میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہیں سکا،میں نہیں ڈرتا تھا،حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو"کہانی کے اختتام تک ایک جوان باباجی کے پاس بیٹھا تھا.
کہانیاں بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن حقیقت تک پہنچنے والا کوئی ایک ہی ہوتا ہے.

مضبوط چوکھٹ

ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رهتا تھا،مکان کیا تھا،بس آثار قدیمه کا کھنڈر هی تھا.غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا اس کی بیوی معصومیت سے کهتی: اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رهنا پڑے گا،اور هاں! اب تو پرده بھی پرانا هو کر پھٹ گیا هے. مجھے خوف هے کهیں چور هی گھر میں نه گھس جائے"شوهر مسکراتے هوئے جواب دیتا :میرے هوتے هوئے بھلا تمهیں کیا خوف؟ فکر نه کرو میں هوں نا تمهاری چوکھٹ"غرض کئی سال اس طرح کے بحث ومباحثے میں گزر گئے، ایک دن بیوی نے انتهائی اصرار کیا که گھر کا دروازه لگوادو.بالآخر شوهر کو هار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا درازه لگا دیا.اب بیوی کا خوف کم هوا اور شوهر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.ابھی کچھ سال گزرے تھے که اچانک شوهر کا انتقال هوگیا.اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کیے پورا دن کمرے میں بیٹھی رهتی،ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل هوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی،اس نے شور مچایا.محلے کے لوگ آگئے،اور چور کو پکڑ لیا.جب دیکھا تو معلوم هوا که وه چور پڑوسی هے.اس وقت عورت کو احساس هوا که چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نهیں میرا شوهر تھا.اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ)شوهر( تھی.شوهر میں لاکھ عیب هوں لیکن حقیقت یهی هے که مضبوط چوکھٹ یهی شوهر هیں،

دوســـروں پر بھـــروســـہ کـــرنا

کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا 
جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال اور پر نکل رہے تھے ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔ "پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے کل میں اپنے "دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا" خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔ "کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا فکر کرنے کی کوئی بات نہیں "اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہیں آیا کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔ "میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔
"کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا یہ کل بھی گزر جائے گی۔ "اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ 
آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں، ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔
"کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔ " بچو۔۔۔!!! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے، باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

سبق:- دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے، اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے۔۔۔!

Thursday, January 7, 2021

آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی

آئمہ جلدی سے تیار ہوجائو ، میں تمہیں بازار چھوڑ آتا ہوں 
ھادی نے جلدی سے اسے پکارا ۔
اچھا بھائی ایسا کرنا کہ راستے میں ثناء کے گھر سامنے دو منٹ کیلیئے بائیک روک لینا ۔

ثناء کے گھر کے سامنے اچھا اچھا ایک دم اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔

کہنے لگا آئمہ مجھے اس کا نمبر تو دو ، مجھے اچھی لگتی ہے  یہ الفاظ کہہ کر اس نے قہقہ لگایا ۔

" چل بدتمیز ، بائیک نکالو  ، پہلے بہت دیر کردی ہے اور رہی بات نمبر کی تو موبائل اس کی امی کا ہے ۔

اگر تمہیں اتنی پسند ہے تو رشتے کی بات کر لیتی ہوں ، چلو میری بہترین دوست میری بھابھی بن جائے گی ، آئمہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا " ۔

ھادی نے جب یہ سنا تو دل ہی دل میں کہا کوئی بات نہیں جب موبائل لے گی 

تو نمبر آہی جائے گا ۔ اس نے بائیک سٹارٹ کی اور کچھ دیر میں ثناء کے گھر پہنچ گئے ۔

آئمہ فورا بائیک سے اتری اور اندر چل پڑی ، جاتے ہی اونچی آواز میں السلام وعلیکم کہا 

اور ثناء کو آواز دینے لگی کہ تم تیار نہیں ہوئی ، جلدی کرو عصر کا وقت ہے ہمیں ٹائم لگ جانا ہے بازار ۔

ثناء نے کہا کہ آئمہ دو منٹ بیٹھو ، میں بس عصر کی چار رکعات پڑھ لوں ۔

افف یار ، آکر پڑھ لینا باہر ھادی انتظار میں ہے بس جلدی سے چادر لو ۔

اور چھوڑو نقاب وغیرہ ۔

ثناء نے کہا پلیز یار ، میں دو منٹ میں آئی ، نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی؟ 

اچھا اچھا پڑھ لو بابا اب بس چپ ، خیر اس نے نماز پڑھی جلدی سے چادر لی نقاب کیا ۔

اور وہ دونوں ھادی کے پیچھے بیٹھ کر بازار چل دیئے ۔

آئمہ نے ھادی کو کہا تم گھوم پھر آئو میں جب کال کروں تو آجانا،

ھادی نے ایک نظر ان کی جانب دیکھا اور چپ چاپ بائیک سٹارٹ کرکے چل پڑا ۔

آئمہ کبھی ثناء کا ہاتھ پکڑ کر ایک دوکان میں گھستی اور کبھی دوسری, آخر کار اس نے اپنی مطلوبہ چیزیں لے ہی لیں ۔

 اس نے ثناء سے پوچھا،
تم نے کچھ لینا تو کہنی لگی کہ ایک سفید سوٹ لینا ہے جس پہ اچھی کڑھائی ہوسکے ۔

آئمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور  آہستہ آہستہ چلتی ایک کپڑے کی دکان کے اندر آ گئی۔

"بھیا ! مجھے سفید رنگ میں کوئی سوٹ دکھائیں، جس پہ کڑھائی ہوسکے" ثناء نے  دکاندار کو  مخاطب 
کیا

 اور آئمہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔ 

دکاندار نے وہاں کام کرنے والے ایک لڑکے کو آواز دی، تھوڑی دیر 

میں وہ مختلف اقسام کے سفید کپڑے کے کچھ تھان ان کے سامنے رکھنے لگا۔

 وہ کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے لگی اور آئمہ سے مشورہ کیا کہ کونسا لینا چاہیے؟

 تھان اوپر نیچے کرتے ثناء کی نظر ایک سفید کٹے ہوئے پیس پہ پڑی، 

اس نے جلدی سے وہ پیس ہاتھ میں لیا اور آئمہ کی طرف اشارہ کرکے بولی

"یہ دیکھو ! کیسا ہے؟

 شائد پورا سوٹ ہی کٹا ہوا ہے" ۔

اس سے پہلے کے وہ اسے اپنی رائے دے پاتی ، دکاندار نے جلدی سے وہ کپڑا اسکے ہاتھ سے لے لیا۔ 

"باجی ! آپ اسے رہنے دیں کوئی اور دیکھ لیں، یہ شائد غلطی سے آگیا ہے۔

وہ دونوں دکاندار کے اس رویے پر حیران ہوئے۔ آئمہ چپ رہی لیکن ثناء بولی

"مجھے تو وہی کپڑا ہی لینا ہے، آپ دکھائیے " وہ بار بار اسرار کر رہی تھی ۔

"باجی ! یہ کپڑا کفن کے لیئے ہے، غلطی سے یہاں آگیا، آپ اسے رہنے دیں" ۔

دکاندار کے اس جواب کو سُن کے  ان دونوں  کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔ 

اگلے ہی لمحے ثناء نےاپنا پرس اٹھا کے دکان کے باہر نکل گئی

آئمہ نے اسے آواز دی 

" ارے ! رکو ! مجھے تو آنے دو"

دکاندار بھی آوازیں دینے لگا
 
"باجی ! بات تو سنیں باجی !" 

آئمہ  نے آج سے پہلے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔

وہ بہت تیزی سے چل رہی تھی، وہ لگ بھگ بھاگتی ہوئی اس سے جا ملی۔

اس نے ھادی کو جلدی سے کال کی ، وہ پہلے ہی ان کے انتظار میں مطلبوبہ جگہ پہ کھڑا تھا ۔

وہ دونوں جلدی سے بائیک پہ بیٹھیں ، آئمہ پورے راستے میں  اسے تسلی دیتی رہی

 کہ اتنی چھوٹی سے بات پہ تم پریشان ہوگئی ہو۔

 اس نے آئمہ کی کسی بات کا جواب نہ دیا وہ اپنے گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

جب وہ پیچھے پیچھے کمرے اندر داخل ہوئی تو ثناء مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی 

 وہ باہر نکل آئی اس نے ثناء کی حالت کا اس کی امی کو سنائ اور ھادی کی وجہ سے وہاں سے نکل آئی ۔

 اگلی صبح  آئمہ کی امّی نے اس کے اوپر سے کمبل ہٹا کے جلدی سے اٹھایا ۔

وہ گھبرا گئی، اس کی امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ ہڑبڑا سی گئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔

 کچھ بتائے بنا ہی وہ اسے ثناء کے گھر لے گئیں ۔

وہاں پہنچتے ہی آئمہ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ ثناء اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔

 وہ گھٹنوں کے بل اسکی لاش کے پاس بیٹھ گئی، دماغ کی نس پھٹنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔ 

حیرانی اور پریشانی کے عالم میں آئمہ کے اندر سے ایک چیخ نکلی

اور اسے بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہی۔

 جب ہوش آیا تو امّی آخری دیدار کے لیئے اس اسکے پاس لے گئیں۔ 

کل جو سفید کفن دیکھ کے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہی تھی

 آج وہی سفید کفن اس سے لپٹا تھا۔

"انسان اس دنیا میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا ،

 اسکے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بازار میں آ گیا ہے"۔

آئمہ بے سود اسے جنازے کے لیئے لے جاتا دیکھ رہی تھی ، اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں تھی 

کہ وہ اسے روک پاتی ، ثناء خود مر گئی لیکن اس کو یہ بتا گئی کہ 

"نماز قضاء ہوگئی تو 

اللہ پاک ناراض ہونگے، یا میری آج موت آگئی تو میری کیا تیاری ہوگی"؟