Sunday, January 24, 2021

لوہا اور قرآن کا معجزہ


#قرآن_میں_لوھے_کے_متعلق_پیشن_گوئیاں_اور_قرآن_کا_معجزہ

سائنسانوں کا کہنا ھے کہ لوہا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ھے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا supernova کی صورت میں ھی بن سکتا ھے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب meteorite کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ھوا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب meteorites اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

اللہ سبحان وتعالی نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، 1400 سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوھا کیسے اور کہاں سے آیا؟

عرب کے صحراؤں میں تو لوھے کا استعمال بھی صرف تلوار اور ڈھال کے لئے ھوتا تھا۔

قرآن کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ھے جس کا مطلب لوھا ھے۔ لوھے کے نام پر پوری سورة موجود ھے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ھے کہ: 

"اور ہم نے لوھے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔" 

(سورة الحدید، آیت نمبر 25) 

سبحان اللہ 

قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ھے کہ یہ رب کا سچا کلام ھے۔ جو اس آخری پیغمبر پر نازل ھوا جو اُمی کہلاتے تھے۔

سورہ حدید آیت 4

﴿۴﴾ وھی ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی ھے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ھے سب اس کو معلوم ھے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ھے۔

یعنی اللہ جانتا ھے جو کچھ زمین میں داخل ھوتی ھے اور جو اس سے نکلتی ھے۔ 

اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ھے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ھے۔ اور  لوھے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہو سکتی اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ھے۔

اب حیران کرنے والی بات یہ ھے کہ قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر 57 ھے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ھے۔ اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ھے۔ یعنی اللہ نے اس سورہ کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہ بات حقیقت ھے کہ لوھے کہ بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوھا ہیموگلبن کی صورت میں ھمارے خون میں موجود ھے۔ جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کام کرتا ھے۔

عربی زبان کے ٢٨ حروف ہیں اور ھر حرف سے کوئی عدد منسوب ھے.حروف کو  مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ھے.
سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ھے۔

 ا         ب       ج          د        ہ        و        ز       ح      ط  
1         2        3         4        5        6       7       8       9
ی       ک        ل         م         ن       س       ع     ف      ص 
10     20      30        40       50      60     70    80     90
ق       ر        ش        ت        ث        خ       ذ     ض       ظ
100  200    300      400     500    600   700  800    900
غ 
1000

ا کے لئے 1 ب کے لئے 2 کا عدد ھے ج کے لئے 3 اور د کے لئے 4

اسی طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔

 اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔
1 + 30 + 8 + 4 + 10 + 4 = 57

الحدید سورت کا نمبر بھی 57 ھے۔ 

اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ھے۔
8+ 4 + 10 + 4 = 26

اب آپ سوچیں گے کہ اب 26 کیا چیز ھے؟؟؟

جی جناب یہ لوھے کا ایٹومک  نمبر ھے۔ 
Atomic number of iron is 26

سورہ حدید میں رکوع کی تعداد 4 ھے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی 4 ھے۔

 ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوھا زمین کی سب سے اندرونی تہہ (inner core) میں پایا جاتا ہے.  Inner core 80% لوہے اور 20% نکِل پر مشتمل ھے. زمین کی اس تہہ یعنی inner core کی پیمائش(موٹائی) 2475 کلومیٹر ھے۔ جبکہ سورہ حدید میں حروف کی تعداد بھی 2475 بنتی ھے.

 سورہ حدید قران مجید کی 57 ویں سورت ھے جبکہ سائنسدانوں کے مطابق inner core کا درجہ حرارت بھی  5700 کیلون یعنی5427 ڈگری سنٹی گریڈ ھے.  جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی 57 ھے.

ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ھے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوزن ری ایکشن شروع ھوتا ھے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ھے جب کسی ستارا کہ تمام ہائیڈروجن ختم ھو جاتی ھے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ھے اور ہیلیئم کے آئیٹم فیوزن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے پھر اور آخر میں لوھا بنتا ھے جب کسی ستارا میں لوھا پیدا ھونا شروع ھو جائے تو وہ ستارا مر جاتا ھے اور بلاسٹ کر کے لوھا کائنات میں چھوڑ دیتا ھے۔
زمین پر موجود لوھا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا۔ جس کو قرآن نے 1400 سال سے بھی پہلے بیان کر دیا۔

اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کر رھی ھے مگر پھر بھی ھم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔

بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے💖

#محمدسکندرجیلانی

شفاخانہ برائے توجہ اور علاج

🤱🤱
 اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
     
 * 🤒🤒
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ.*

    🤒🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ *اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.*
 
   💆‍♂💆‍♂ 
*اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.*
         
  💆‍♂💆‍♂
*پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.
     💆‍♂💆‍♂
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

    💆‍♂💆‍♂
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 
میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے *وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……*

   ........ اوہ میرے خدایا…
     
     💆‍♂💆‍♂
اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے.

    👵
*آج ماں جی کو رحمان کی رحمت میں گئے ایک ماہ اور آٹھ روز ہو گئے ہیں۔  
آج مجھے پھر بخار ہوا ہے, آغوش تھراپی کی اشد ضرورت ہے۔ پر میرا مرکزی ممتا شفاخانہ برائے توجہ اور علاج ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے۔  
مجھے آپ دوستوں سے رہنمائی درکار ہے۔ 
اب بھلا میں کیسے ٹھیک ہونگا ⁉️*

*💰💰 .. 
شاید اس تحریر کو پڑھنے سے کسی کو سیدھی راہ مل جائے اور کسی کے غم دور ہو جائیں...

انوكھی شہزادی

حضرت سیّدنا شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی جب شادی کے لائق ہوئی
تو بادشاہ کے یہاں سے رشتہ آیا مگر آپ نے تین دن کی مہلت مانگی 
اور مسجد مسجد گھوم کر کسی پارسا نوجوان کو تلاش کرنے لگے۔
ایک نوجوان پر آپ کی نگاہ پڑی جس نے اچّھی طرح نماز ادا کی (اورگڑگڑا کر دعا مانگی)۔

شیخ نے اس سے پوچھا:
کیا تمہاری شادی ہو چکی ہے؟
اس نے نفی میں جواب دیا۔ 
پھر پوچھا:
کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ 
لڑکی قرآنِ مجید پڑھتی ہے،
نماز روزہ کی پابند ہے
اور سیرت و صورت والی بھی ہے۔
اس نے کہا: 

بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا!
شیخ نے فرمایا: 
میں کرتا ہوں، لو یہ کچھ درہم !ایک درہم کی روٹی،
ایک کا سالن اور ایک کی خوشبو خرید لاؤ۔
اس طرح شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی نے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔

دلہن جب دولہا کے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے۔
اس نے پوچھا:
یہ روٹی کیسی ہے؟
دولہا نے کہا:
یہ کل کی باسی روٹی ہے میں نے افطار کے لئے رکھ لی تھی۔ 
یہ سن کر وہ واپس ہونے لگی۔

یہ دیکھ کر دولہا بولا: 
مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی مجھ غریب انسان کے گھر نہیں رُک سکتی۔
دلہن بولی:
میں آپ کی مفلسی کے باعث نہیں بلکہ اس لئے لوٹ کر جارہی ہوں کہ ربُّ العالمین پر آپ کا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے
جبھی تو کل کیلئے روٹی بچا کر رکھتے ہیں۔ 

مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے آپ کو پاکیزہ خصلت اور صالح کیسے کہہ دیا...!
دولہا یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا:
اس کمزوری سے معذرت خواہ ہوں۔
دلہن نے کہا: 
اپنا عذر آپ جانیں، 
البتہ!
میں ایسے گھر میں نہیں رُک سکتی جہاں ایک وَقْت کی خوراک جمع رکھی ہو،
اب یا تو میں رہوں گی یا روٹی۔ 
دولہا نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی (اور ایسی درویش خصلت انوکھی شہزادی کا شوہر بننے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیا)


اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

*یقینِ کامِل کی بہاریں*
مُتَوکّلین کی بھی کیا خُوب اَدائیں ہیں۔
شہزادی ہونے کے باوُجُود ایسا زبردست توکل کہ کل کیلئے کھانا بچانا گوارا ہی نہیں!
یہ سب یقینِ کامِل کی بہاریں ہیں کہ جس خُدا نے آج کھِلایا ہے وہ آئندہ کل بھی کھِلانے پر یقیناً قادِر ہے۔ 

*(روض الریاحین، الحکاية الثانیة والتسعون بعد المائة، ص۱۹۲)*

چار بیویاں

ایک شخص کی چار بیویاں تھیں، چوتھی بیوی سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور اس کو بنانے سنوارنے میں ہر وقت لگا رہتا تھا۔
تیسری بیوی سے بھی وہ محبت کرتا تھا کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی جو اسے دیکھتا گرویدہ ہو جاتا اسی لئے اس کو یہ خوف لگا رہتا تھا کہ یہ کسی اور کی نہ ہو جائے
اس لئے اسے چھپا چھپا کر رکھتا تھا۔

دوسری سے بھی اسے بہت محبت تھی اس لئے کہ وہ اسکی ساری پریشانیوں کا حل اسے بتاتی اور ہمیشہ اس کی مدد کرتی رہتی۔

مگر پہلی!!! پہلی سے وہ محبت نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس سے بدستور محبت کرتی تھی۔

*------اب ہوا یہ کہ -----*

ایک دن وہ شخص اتنا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب ہوگیا،

اس نے سوچا میرے پاس چار بیویاں ہیں کسی ایک کو تو مرتے ہوئے ساتھ لے جاؤں۔
اس  نے چوتھی بیوی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو---
میں نے تم پر اتنی توجہ دی اور اپنا مال بھی تم پر سب سے زیادہ خرچ کیا----
★--جواب میں اس نے صاف صاف انکار کردیا۔

تیسری بیوی سے کہا تو اس نے جواب دیا کہ---
★--دنیا میں ابھی میرے چاہنے والے بہت ہیں میں کسی کی بھی ہو جاؤں گی.
 
دوسری بیوی نے کہا کہ---
★---میں صرف قبر تک تو ساتھ آجاؤں گی مگر اس سے آگے میں نہیں آسکتی۔

اب یہ بڑا پریشان ہوا اچانک پیچھے سے آواز آئی کہ میں تمہارے ساتھ قبر تک چلوں گی،
★---اگرچہ تم نے کبھی میری طرف توجہ نہیں کی
جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی پہلی بیوی تھی، جو عدم توجہی اور غذا کی کمی کی وجہ سے بالکل کمزور ہوچکی تھی۔
جس کے سبب قبر میں اس کے کسی کام کی نہ تھی۔

اب یہ افسوس کرتا رہا کہ---
میں نے سمجھنے میں غلطی کی
اگر میں اس پر توجہ دیتا تو آج یہ قبر میں میری اچھی رفیق اور ساتھی  ہوتی۔

🌹 *وضاحت---*🌹

*چوتھی بیوی سے مراد----- ہمارے اعضاء تھے* 

جن کو بنانے سنوارنے میں تو ہم لگے رہتے ہیں
مگر مرتے ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

*تیسری بیوی سے مراد---* 

ہمارا مال و منال دولت جائیداد وغیرہ ھے---
★---کہ ساری زندگی لوگوں سے چھپا کر رکھا 
مگر مرنے کے بعد یہ دوسروں کے  ہو جاتے ہیں.

*دوسری بیوی سے مراد---* 

ہمارے اہل وعیال رشتے دار اور دوست احباب ہیں،
دنیا میں یہی لوگ ہمارے کام آتے ہمارے مسائل حل کرواتے ہم ان سے جتنی اور جیسی چاہیں مدد لیتے رہیں  مگر یہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ قبر تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں.

*پہلی بیوی سے مراد---*
★----ہمارے اعمال ہیں- 
جو قبر میں ساتھ جائیں گے۔
لیکن ہم نے ان کی طرف توجہ نہ دے  کر قبر کے حقیقی دوست رفیق اور ساتھی سے محروم ہوئے

آئیں آج ھی  اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کا پکا عہد کرتے ہیں...
اللہ تعالی  ہمیں اپنے عہد میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے

انٹرویو

بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا _ آج اس کا انٹرویو تھا ۔

     وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا : اے کاش ، آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان  کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا  _ امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری  سے جان چھڑا لوں گا ۔! 
      صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ، بیزار ہو گیا ہوں ۔ 
     صبح غسل خانے کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے :پہلے بستر کی چادر درست کرو پھر غسل خانے جاؤ ! 
     غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے: نل بند کردیا _ تولیہ سہی جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟ 
     ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑی : پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟ 
    کیا کیا سنیں؟؟! یار، نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا - 

     آفس میں  بہت سے امیدوار بیٹھے "باس " کا انتظار کر رہے تھے _ دس بج گئے تھے  _ اس نے دیکھا ، پیسج کی  بتی ابھی تک جل رہی ہے _ امی یاد  آگئیں تو بتی بجھا دی ۔ آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا _
بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا ، اس کو بند کردیا _ والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی _
      بورڈ لگا تھا : انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا ! 
      سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی _ اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی _ اسے ہٹاکر اوپر گیا_  دیکھا ، پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے _ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں ، فوراً واپس بھیج دیتے ہیں ۔

      میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی _ تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھا : کب سے جوائن کر رہے ہو ؟ 
      ان کے سوال پر مجھے یوں لگا ، جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے 'فول' بنا رہے ہیں - 
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا : اپریل فول نہیں ، حقیقت ہے ۔

     آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا ہے_  صرف CCTV میں امیدواروں کا برتاؤ دیکھا گیا ہے _  سبھی امیدوار آئے ، مگر کسی نے  نل یا لائٹ بند نہیں کی ، سوائے تمھارے _ 
     مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین ، جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے  _ 
     جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں ، وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو ، مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکتا  _
     یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
     زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں ، تہذیب کا اپنا مقام ہے _
( منقول )

ہماری سوچ

ہر چیز بدلی نہیں جا سکتی ,,لیکن ہم اپنی سوچ تو بدل سکتے ہیں نا ؟

جانتے ہیں -----جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے وہاں دوسری ہوائیں فوراً بسیرا کر لیتی ہیں ..
اسی لیے آپکو آندھیاں محسوس ہوتی ہیں 

آپ کا جو دل ہے اگر یہ اللّٰہ کو یاد نہیں کرتا تو اِس میں خلاء (Space) آ جائے گی  

تو پھر اس جگہ کو بھرنے شیطانی خیال اور نیگٹیو (Negative)  سوچیں آئیں گی ---'کیونکہ جگہ تو بھرنی ہی ہے 

آپکو یہ تجربہ ہوا ہو گا کے جب آپ اللّٰہ کا ذکر نہیں کرتے ,نماز نہیں پڑھتے ,قرآن نہیں پڑھتے تو آپکا دماغ آہستہ آہستہ دنیا کی طرف شفٹ (Shift) ہوتا جاتا ہے --'ص
پھر ذہن میں شیطانی خیال ,لوگوں کی باتیں آتی ہیں اور پھر (At the End) آخر میں آپ کہتے ہیں زندگی بہت مشکل ہے لوگ بڑے منافق ہیں  .....

غلطی ہماری ہوتی ہے ,,,اللَٰہ نے کیا ایسا کہا کہ یہ دنیا آسان جگہ  ہے؟؟ یہاں سب لوگ اچھے ہی ملیں گے؟؟

یاد رکھیں ! جو اللہ پہ یقین رکھے گا اللہ اس سے غم اور فکریں دور کر دے گا
اور اللہ پہ یقین اللہ کو یاد رکھنے سے آتا ہے نا..  

تو اب سے جب پریشانی بڑھتی جائے ,صبر کم ہوتا جائے ..
بس سمجھ جائیں ذکر کی ضرورت ہے

پکار

  جب انسان جذبوں کی گہرائی کا احساس پا لیتا ہے تب خاموشی بولنے لگتی ہے اور الفاظ بےمعنی ٹھہرتے ہیں. 
اور جب کائنات کی بولی سمجھنے لگے تب وہ سراپا سماعت بن جاتا ہے  ششدر و حیران.  ایک معصوم بچے کی طرح سب کچھ نیا سیکھنے کے عمل سے گزرنے لگتا ہے.  سینکڑوں بار کا دیکھا آسمان ، اپنے مفہوم بدل لیتا ہے.  اس سے پرے کے جہان آشکار ہونے لگتے ہیں.

  زمین صرف قدم اٹھانے کے لیے بنیاد نہیں رہتی.  خالق کائنات کی نشانیوں سے بھرا خزانہ بن جاتی ہے.  اس کے ذروں میں نئے جہان نظر آنے لگتے ہیں.  اس کی تہوں میں نئے ممکنات کے در ملتے ہیں.  سانس لینے کا عمل شعور سے اوجھل نہیں رہتا بلکہ' شعوری احساس تشکر' میں بدل جاتا ہے.  ہر سانس '' اللہ ھو ''کی گردان بن جاتا ہے.  اللہ ھو یعنی اللہ تو ہی ہے، بس تو ہی ہے  ہر سو ہر رنگ ہر سمت میں جلوہ بس تیرا ہی ہے.  سرسراتی ہوا ہو یا بہتے پانی کا سرگم سمندری موجوں کی چنگھاڑ ہو یا طائر کا لحن ہر آواز میں تیری حمد سنائی دیتی ہے.  

کبھی تیتر کی میٹھی بولی 'سبحان تیری قدرت ' سنیے اور سر دھنیے. بچے کی پہلی چیخ مجھے ہمیشہ اللہ ھو سنائی دیتی ہے. شیر خوار کی اوں اوں میں '' تو تو تو '' سنائی دیتا ہے.   کبھی موقع ملے تو سننے کی کوشش کیجیے.  چکی کی پھک پھک دراصل ''حق حق'' ہے.  چرخے کی چرخ چوں چرخ چوں ، اللہ ھو اللہ ھو ہے. گھوڑے کی ٹک ٹکا ٹک، ھو اللہ ھو ہے.  کوے کی  کائیں کائیں ،سائیں سائیں ہے .جرس کی ٹن ٹن، کن کن کن ہے.  

ہر آواز  ہر خاموشی رب حقیقی کی طرف بلاتی پکار ہے سنیے تو زرا سنیے تو !

استعداد انسانی

گینیس ورلڈ ریکارڈ یا گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ  سے تو تقریباً سبھی واقف ہیں. کسی بھی میدان میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استعداد رکھنے والے انسان کا نام مع کام اس میں درج کیا جاتا ہے. مثال کے طور پر دنیا کا تیز ترین انسان یوسین بولٹ ہے جس نے سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کر کے 2009ء میں یہ ریکارڈ بنایا.

اسی طرح دنیا کا سب سے لمبی چھلانگ لگانے والا انسان مائیک پاول ہے، جس نے 1991ء میں  8.95 میٹر لمبی چھلانگ لگا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اسی طرح وزن اٹھانے سے لے کر نیزہ پھینکنے، ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اخروٹ توڑنے سے لے کر زیرِ آب سانس روکنے تک اور زیادہ کھانے سے لے کر دیر تک گانے تک ۔۔۔ ہزاروں میدانوں میں بنی آدم کی زیادہ سے زیادہ استطاعت ماپی جاتی ہے اور سب سے زیادہ استطاعت کے حامل شخص کو سند سے نوازا جاتا ہے اور اس کا نام اپنے میدان کے سرخیل کے طور پر کتاب اور ویب سائٹ میں درج کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر اسی استعداد کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ استطاعت بنی نوع انسان کی حد یا limitations کا تعین ہے. گویا روئے زمین پر کوئی بھی انسان سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز سے کم وقت میں طے نہیں کر سکتا۔ یا یہ کہ کائنات کا کوئی فرد بھی 104.8 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ نہیں پھینک سکتا۔ یا کہ کوئی بنی آدم 100 میٹر تیراکی 46.9 سیکنڈز سے کم وقت میں نہیں کر سکتا. و علیٰ ھٰذالقیاس. 
  
اب سوچیں کہ اگر ہر ہر میدان میں حضرت انسان کی کارکردگی کی کوئی نہ کوئی حد ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ذہنی استعداد کی کوئی حد نہ ہو؟؟؟ یادداشت کے معاملہ میں دیکھیں تو کرۂ ارض کا ایک  بھی انسان ایسا نہیں ہو گا کہ جسے ایک سال قبل کے کسی ایک دن کی تمام کارگذاری مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہو۔ بلکہ چھ ماہ قبل کی بھی نہیں یا شاید تین ماہ قبل کی بھی نہیں. بالکل ایسے ہی چیزوں کو سمجھنے میں بھی انسانی ذہن کی حد ہو گی ۔

تو پھر اگر خالقِ کائنات کی تخلیق یا ابتداء انسانی ذہن اور سمجھ کے احاطہ میں نہیں آ رہی اور صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے نہیں آ رہی تو پھر کیوں نہ اسے باقاعدہ انسانی ذہن کی حد یا limitation تسلیم کر لیا جائے۔ بجائے اس  کے کہ سرے سے وجودِ خلاق عظیم کا ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں اب یہ مان لینا چاہیئے کہ انسانی ذہن کی استطاعت بس اتنی ہے کہ وہ مخلوق اور تخلیقات کی ابتداء اور معرضِ وجود میں آنے کے عمل کو سمجھ سکتا ہے خالق کے نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دس عددی کیلکولیٹر پر اگر بارہ عدد کا سوال حل کرنے کوشش کی جائے تو جواب ہر بار E ہی آتا ہے۔ چاہے کوئی یہ عمل ہزاروں بار کرے یا ہزاروں سال کرے. اور پھر اسی طرح تو نوعِ انسانی کی ایمان بالغیب کی پرکھ مکمل ہو گی ورنہ تو سب عیاں ہو جاتا

ڈپریشن- پچھتاوے- احساس کمتری

مجھے تقریبا پچھلے تین سال سے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان باکس کیئے اپنے مسائل شیئر کیئے ۔ کچھ بہنوں کی دعائوں میں اب بھی میں شامل ہوں ۔۔ تو میں 20 نکات شیئر کر رہا ہوں آپ سے تمام مسائل کا حل ان میں موجود ہے ۔ جو اپنے 25 سال کے زندگی میں سیکھا اور دیکھا اس کی روشنی میں لکھے ہیں ۔

1: اگر آپ ڈیپریس ہیں اور کوئ آپ کو چھوڑ گیا ہے تو کبھی تنہا Room میں لائیٹ آف کرکے نا بیٹھیں ۔
یہ جو اندھیرا ہوتا ہے انسان کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کچھ باقی نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے ۔ اور سب مطلبی ہیں ۔ اس کے بعد نماز پڑھیں اور اللہ سے مدد مانگیں ۔

2: اگر آپ اداس ہیں تو چھوٹے بچوں کے پاس جاکر بیٹھ جائیں ۔ ان کی شرارتیں دیکھیں تو یقیناً آپ کو اپنا بچپن یاد آجائے گا اور آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جائے گی ۔

3: جن لوگوں کہ پاس YouTube تک رسائ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ان کی زندگی بے معنی ہے اور سب کچھ ختم ہوچکا ہے تو You Tube پہ جاکر Real Heros in The Life لکھ کر سرچ کر لیں ۔ ان کو inspiration ملے گی کہ زندگی میں کسی کے جانے سے کچھ بھی ختم نہیں ہوتا ۔ آدمی بڑا اپنے لیئے ہوتا ہے لیکن انسان بڑا انسانیت کی خدمت سے ہوتا ہے ۔

4: اگر آپ مسلمان ہیں یا کسی بھی مذہب سے ہیں تو آپ نماز یا کوئ بھی عبادت کرسکتے ہیں ۔ اور اپنے رب کے سامنے رو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز اس رب کی طرف سے ہوتی ہے ۔ بس یہ شیطان ہے جو ہمیں بدگمان کر دیتا ہے ۔

5: اگر کوئ آپ سے شادی کا وعدہ کرکے یا آپ کو طلاق دے گیا ہے یا آپ کی علیحدگی ہوگئ ہے ۔ تو آپ کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل زندگی کی شروعات تب ہی ہوتی ہے ۔ پہلے آپ زندگی کے میدان میں بیساکھیوں کے سہارے چل رہے تھے جبکہ اب آپ کو آذادی ملی ہے تو کیوں نا آپ ان کا سہارا بن جائیں ۔ جن کو سہارے کی ضرورت ہے ۔
قسمت کو کوسنا ، کسی پہ بے وفائ کا الزام لگانا اس کا کیا فائدہ یا آپ روتے رہیں یا آپ طاقتور بن جائیں ۔


6: اگر آپ فنانشل پروبلم کا شکار ہیں یا آپ کے پاس کرایہ کا گھر ہے ۔ تو ایک دفعہ کسی بھی شہر کے فلائ اوور کے نیچے پڑے ہوئے ان بچوں ،عورتوں اور مرد حضرات کو دیکھ لیں جن کے پاس ایک وقت کی روٹی نہیں ہے اور نا ہی چھت ہے ۔
اسی طرح آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی شکل و صورت اچھی نہیں ہے ۔ تو کسی بھی ہسپتال کے Fire and Burn Hall کا وزٹ کرلیں ۔ آپ کو شاید الله کی تقسیم پہ صبر آجائے گا ۔



7: اسی طرح اگر کوئ مرد آپ کو چھوڑ گیا ہو تو آپ ضرور روئیں بہت روئیں لیکن اس کے بعد آپ منگنی کریں یا نکاح کریں ۔ یقین کی جیئے آپ کا آنے والا جیون ساتھی آپ کے درد کا مداوا لازمی کرے گا ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو صبر بھی آجائے گا اور آپ کی چہرے پہ ہنسی کا باعث آپ کے بچے ہونگے ۔

8: بہت سے cases ایسے ہوتے ہیں جن میں منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں ، طلاق ہوجاتیں ہیں ۔ اس بعد انسان جیتے جی مرجاتا ہے ۔ تو اس کو اپنی زندگی میں ایک اور چانس دینا چاہیئے کیونکہ اندھیری رات کے بعد اجالا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر غم کے بعد خوشی لازمی ملتی ہے ۔
9: ہر مسلمان کو لازمی سورة النساء بمعہ ترجمہ پڑھنی چاہیئے تاکہ دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق کا پتا ہو ۔ کیونکہ یاد رکھنا اگر جیون ساتھی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہونگے تو شادی سے پہلے ہی انکار کردیں ۔ کیونکہ۔شادی کے بعد بہت سی زندگیاں خراب ہوتی ہیں ۔
10: اگر آپ نے کسی کا دل توڑ دیا اور شیطان کے بہکاوے میں آکے اس کی زندگی تباہ کردی تو یقین کریں کہ زرا کا ثواب نہیں ملتا کسی کے دل کو توڑنے کا ۔ بس اس سے لازمی معافی مانگیں اس کے سوالات کے جواب دیں آپ نے ایسا کیوں کیا تاکہ وہ اپنی زندگی سکون سے جی سکے ۔
11:- اپنی زندگی میں اپنے جیون ساتھی کو اعتبار دیں اور کسی دوسرے کی باتوں میں آکر اپنے جیون ساتھی سے تعلق مت توڑیں کیونکہ یاد رکھنا آپ کے علاوہ اس کا کوئ نہیں ہے ۔
12:- باقی اس دنیا میں بہت کم لوگ ہوگئے جن کو اپنی خوشیاں سے زیادی کسی اور کی خوشی عزیز ہو ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہار جانے سے کسی کی جیت اس کو نئ زندگی دے سکتی ہے تو اس کو جیتنے دیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ کسی کی خوشی کے لیئے ہار جانا ہی اصل جیت ہوتی ہے ۔
13: اگر آپ اللہ پاک کو اپنا رب مانتے ہیں تو اس پہ یقین بھی رکھیں ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئ مقصد نہیں ہے ۔ تو ایک دفعہ قرآن پاک کا ترجمعہ پڑھ لیں ۔ شاید آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مل جائے اور انسانوں کی بجائے اس اللہ پاک پہ کامل یقین ہوجائے ۔
14: کسی کے چلے جانے سے انسان کی زندگی نہیں رکتی اس سے ایک سبق سیکھنا چاہیئے کہ انسان کی محبت اور عادت صرف خسارہ ہے اس لیئے محبت کا منبع اللہ کو نبی پاک کو اور والدین کو ماننا چاہیئے یہ تمام وہ ذات ہیں جو بغیر کسی غرض کے انسان کا ساتھ دیتیں ہیں ۔
15: اگر آپ نے کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ہمیشہ وفا کی اچھا سوچا ان کا ہر موقع پہ ساتھ دیا اور وہ آپ کو تنہا چھوڑ گئے یا انہوں نے دھوکہ دیا ۔ تو آپ کو خوش ہونا چاہیئے کہ آپ دھوکہ کھانے والوں میں سے ہو دینے والوں میں سے نہیں ۔ قیامت کے روز وعدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا اس دن آپ کو آپ کابدلہ مل جائے گا۔
16: اگر آپ ٹوٹ گئے ہو اور آپ کو لگتا ہو کہ اللہ نے آپ پہ آپ کی سکت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہے تو آپ لوگوں کی سننے لگ جائیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا درد آپ سے بہت زیادہ ہے ۔
17: جو بھی انسان آپ کی زندگی میں اہم ہو اگر وہ روٹھ جائے تو منا لو کیونکہ جسیے جیسے وقت گزرتا ہے غلط فہمیاں بڑھتی جاتی ہیں اور پھر ایک گیپ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد آپ چاہے صلح کیوں نا کر لیں لیکن وہ پیار ومحبت پہلے جیسے نہیں رہتی ۔ کیوں کہ صرف اللہ پاک کی ذات ہے جو کہ انسان کو معاف کرکے اپنی رحمت پہلے سے زیادہ کردیتی ہے جبکہ انسان اتنا ظرف نہیں رکھتے ۔
18: میں نے زندگی میں ایک اصول یہی بنایا ہے جو آپ کی قدر کرتا ہے حال پوچھتا ہے آپ کے لیئے دعا کرتا ہے جو آپ کے ہسنے سے خوش اور رونے سے اداس ہوجاتا ہے وہی آپ کا سرمایہ ہے باقی اس کے علاوہ سب محض دکھاوا ہے ۔ کبھی اس شخص کا ساتھ نہیں چھوڑنا ۔ اگر وہ کسی وجہ سے آپ کا ساتھ چھوڑ جائے تو کبھی اس کو بلیم نہیں دیتا مسکرا کر الوداع کہتا ہوں ۔ نا اس پہ غصہ ہوتا نا ہی اس سے کوئ شکایت و شکوہ کرتا ۔ کیونکہ انسان اس دنیا میں اکیلا آتا ہے اکیلا جاتا ہے ۔ تو ہمیں کسی سے امید ضرور رکھنی چاہیئے اتنی زیادہ نہیں کہ اس کے بن میں جی نا پائیں ۔
بشکریہ
ھیلتھ ٹپس اینڈ سیکرٹس

ایک دلچسپ تجربہ


ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا، تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہوچکا ہے، خاموشی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا اور یہ عمل بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، سرایت کرنے کا عمل نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ نظر آئے گا۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں Capillary Action کہا جاتا ہے، یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے، آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہوپائے گا 
جتنی زیادہ صحبت، اُتنے زیادہ اثرات، صحبت کے اثرات ازخود سرایت کرتے جائیں گے اس لیے صحبتِ نیک رکھیے اور بری صحبت سے احتراز کیجیے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو رہیں۔