کہتے ہیں کہ خراسان کا ایک بادشاہ شکار کھیلنے کے بعد واپس آکر اپنے تخت پر براجمان تھا ، تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں ، بادشاہ کے عقب میں اس کا ایک غلام بھی کھڑا تھا۔
استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بُلایا اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا اور بولے تگڑا ہوجا پھر اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا یا - یوں کہہ لیجیے کہ دبانا شروع کردیا -
کہتے ہیں کہ منگول جنگجو چنگیز خان نے بخارا پر حملہ کیا تو وہ اس شہر کو فتح نہ کر سکا ، اس وقت چنگیز خان کو ایک ترکیب سوجی اور اس نے بخارا کے لوگوں کو پیغام بھیجا کہ تم میں سے جو اسلحہ ترک کر کے ہمارے ساتھ دینگے ،ہم ان کو امان دینگے اور جو اسلحہ نہیں چھوڑیں گے وہ بہت بچھتائیں گے ۔
ایک جہاز مغربی ملک کی طرف محو پرواز تھا۔ اس میں ایک پڑھا لکھا مسلمان بھی سفر کر رھا تھا۔ جب ائیر ھوسٹس نے دوسرے مسافروں کے ساتھ اس کو بھی شراب پیش کی تو اس نے شراب پینے سے انکار کر دیا جس پر ائیر ھوسٹس نے اپنے سپروائیزر کو مطلع کیا۔
جب مجھے لاہور سے ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کا وقت تھا۔ جو کمرہ دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا۔ یہ اے کلاس قیدی کا کوارٹر تھا۔ سی کلاس کا ایک مشقتی (قیدی ملازم) دیا گیا تھا، جو بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ تقریبا 40 سال کا خوب تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے مجھ کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔
سنار ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ اُسکی فیملی ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ گئی گھر کے خرچے کا انتظام کرنا بھی بہت مُشکِل ہو گیا جب حالات حد سے زیادہ بے قابو ہو گئے تو۔۔۔۔۔۔۔ﺍﯾﮏ ﺩﻥ سنار کی ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ چاچا ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﮐﮩﻨﺎ اِس ہار کی جو قیمت آئے وہ ہمیں ﺩﮮ ﺩﯾﮟ بیٹا ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ اپنے چاچا ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ۔۔۔۔۔۔۔