Monday, May 30, 2011

انگور اور شراب




السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

انگور اور شراب

مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔

اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟

شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟

کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟

شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔

کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟

شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔

کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!

ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔

کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟

With Good Regards

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔



Monday, May 23, 2011

!....آنکھیں کہیں جنہیں

!....آنکھیں کہیں جنہیں
٭ گناہ کی پہلی سیڑھی اور حیاکی پہلی زینت ہیں۔ 
٭ دیکھنے کی حس ماند پڑ جائے تو باقی حسیں زیادہ محتاج ہوجاتی ہیں۔ 
٭ لاشعوری تخلیق ، ظاہری آنکھ کی محتاج نہیں ہوتی۔ 
٭ دل کو پرسکون رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی پلکوں کے نیچے حیا کا بسیرا کرلو۔ 
٭ ظاہری آنکھ سے عشق کی ابتدا نہیں ہوتی۔

بڑے لوگ .... بڑی باتیں

٭ جس کے دل میں ماں کیلئے محبت ہے، وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر شکست نہیں کھا سکتا۔ 
٭ خاموشی سب سے زیادہ آسان کام اور سب سے زیادہ فائدہ مند عادت ہے۔ 
٭ جس چیز کا علم نہیں، اس کو مت کہو، جس چیز کی ضرورت نہیں، اس کی جستجو نہ کرو، جو راستہ معلوم نہیں اس پر سفر مت کرو۔ 
٭ انسان بہت عظیم ہے، کسی کے تحقیر نہ کرو، ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آﺅ۔ 
٭ اگر اچھی بات تمہارے دشمن میں بھی ہو تو اسے قبول کرنے سے دریغ نہ کرو۔ 

انمول تحفہ

انمول تحفہ
خلوص ایک خداداد صلاحیت ہے۔ خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے۔ خلوص کے چند لمحے انسان ساری زندگی نہیں بھلا سکتا۔ تھوڑی سی مسکراہٹ اجنبی کیلئے زندگی کا ساتھ ہوسکتی ہے۔ خلوص سے بولے میٹھے میٹھے لفظ، کسی مریض کیلئے زندگی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ 
مسکراہٹ ایک ایسا تحفہ ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ ایسی مسکراہٹ سے پرہیز کریں جو کسی کا دل دکھائے۔ اگر کوئی شخص آپ کو پھول پیش کرے تو اسے کبھی نہ ٹھکراﺅ کیونکہ اس کے پاس اس خلوص سے مہنگا تحفہ نہیں ہے۔ 

مخلص دوست

مخلص دوست
تنہائی اور تاریکی سے ہر کوئی ڈرتا ہے لیکن اصل میں تنہائی ایک مخلص ساتھی ہے، جس کے سینے میں ہمارے بہت سے راز محفوظ ہیں۔ جب کوئی بھی ہمیں سمجھنے والا، ہمارے آنسو پونچھنے والا نہیں ہوتا، جب جب ظالم دنیا میں قدم قدم پر دکھ کا سامنا ہوتا ہے، جب کبھی کسی ایسے کندھے کی تلاش ہو جس پر سر رکھ کر ہم رو سکیں، اپنا غم بیان کرسکیں، اپنا آپ ہلکا کرسکیں، جبکہ ہر ہونٹ تمسخرانہ مسکراہٹ لئے ہوئے ہوں، محبت کا ڈھونگ رچانے والے لالچ کی طمع میں گرفتا ر ہوں اور نفرت کے تیر سے دل کو چھلنی کردیں، تو ایسے میں پوری شدت کے ساتھ مخلص دوست کی یاد ہی ستاتی ہے، جو کسی غمگسار دوست کی طرح پاس آکر گلے سے لگاتی ہے اور نہ صرف آنسو کو پونچھتی ہے بلکہ دل کو بھی بہلاتی ہے۔ 

علم.... اور عمل

علم.... اور عمل 
علم دو طرح کے ہیں۔ ایک علم وہ ہے جو زبان سے دل تک پہنچتا ہے اور عمل کا باعث بنتا ہے۔ یہی علم قیامت میں کام آئے گا۔ 
دوسرا علم وہ ہے، جو زبان میں رہتا ہے مگر دل تک نہیں پہنچتا۔ ایسا علم قیامت میں کام نہ آئے گا۔ ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ یہ کہہ کر سزا دے گا کہ تو سب کچھ جانتا تھا، پھر عمل کا توشہ اپنے ساتھ کیوں نہیں لایا، جو یہاں تیرے کام آتا۔ 

Thursday, May 19, 2011

وقت

وقت ہماری مٹھی سے ریت کی مانند پھسل جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کب وقت رخصت قریب آجاتا ہے۔ ہر شخص اس دنیا کی قید سے رہائی پا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عہدی قید میں چلا جاتا ہے۔ جو اچھوںکیلئے اچھی اور بروں کیلئے بری ہے، لیکن پیچھے رہ جانے والوں کیلئے نصیحت ہے کہ اس دنیا کے فریب میں نہ آﺅ لیکن نتیجہ صفر.... کہ نصیحت کی بھی کسی کو ضرورت ہے؟
عقلمند کیلئے نصیحت بیکار کہ اس کو نصیحت کی ضرورت نہیں ۔ اور بے وقوف اس پر عمل کرنے والا نہیں۔ بس قدرت کا کارخانہ یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ یہ وقت کچھ سکھائے نہ سکھائے لیکن ہمیں زندگی کے تلخ اور شیریں تجربات سے آشنا کردیتا ہے۔ لیکن اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اک عمر اس کو حاصل کرنے میں بیتانی پڑتی ہے، تب کہیں جا کہ اک عام آدمی کندن بنتا ہے۔ 

Sunday, May 15, 2011

لاجواب

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ مجھے ایک سوال نے بہت پریشان کیا کہ مومن اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا مگر تسلی بخش جواب نہ ملا۔ ایک دن ایک گاﺅں سے گزرا ۔ ایک بوڑھے سے مزدور گنے کا رس نکال رہے تھے میں نے ان سے یہ سوال کیاکہ: "مومن اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟"
انہوں نے ایک نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور فرمایا: "مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے اور مومن وہ ہے ، جو اللہ کی مانتا ہے"۔ 
ایک ان پڑھ سے ایسا دانش مندانہ جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔